تین جاپانی سیاح آسٹریلیا میں شمالی سٹراڈبروک کے جزیرے پر جانا چاہتے تھے۔ یہ جزیرہ آسٹریلیا کی ریاست کوئینس لینڈ کے دارالحکومت برسبین سے تیس کلومیٹر کے فاصلے پر ہے اور اپنی خوبصورتی کی وجہ سے سیاحوں کی دلچسپی کی جگہ ہے۔ انہوں نے سیٹلائیٹ نیوی گیشن سے راستہ دیکھا۔ جی پی ایس نے معلومات دی کہ وہاں پر گاڑی کے ذریعے پہنچا جا سکتا ہے۔ اس معلومات میں ایک چھوٹی سی غلطی تھی۔ راستے میں سمندر پڑتا تھا۔ سیاح جی پی ایس کے ذریعے راہنمائی لے رہے تھے۔ سمندر آ گیا۔ کمپیوٹر کا الگورتھم کئی بار بڑی غلطی کر سکتا ہے لیکن گاڑی میں اگر تین انسان بیٹھے ہوں اور سامنے سمندر نظر آ رہا ہو تو رُک جائیں گے۔ ٹھیک؟
نہیں۔ ان کو جی پی ایس پر زیادہ بھروسہ تھا۔ اتنا بھروسہ کہ جب اس نے سمندر کے بیچ سے گاڑی لے جانے کو کہا تو انہیں ذرہ بھی شک نہ ہوا کہ وہ غلط بتا رہا ہے۔ سڑک کی بجری مٹی اور کیچڑ میں بدلی۔ اور اس علاقے کے مشہور آبی درختوں مین گروو کی جڑوں میں۔ لیکن جی پی ایس کے مطابق جزیرہ قریب ہی تھا۔ گاڑی کے پہئے پانی میں ڈوب چکے تھے لیکن اس پانی کے اندر بس کچھ اور چلنا تھا۔ بالآخر، جب انہیں احساس ہوا کہ کچھ غلط ہو چکا ہے، اس وقت تک وہ سڑک سے آدھا کلومیٹر دور جا چکے تھے۔
صبح گیارہ بجے انہوں نے مدد طلب کی اور اپنی جان بچائی۔ ساحل پر کھڑے لوگوں کے لئے میں سے کسی نے اس گاڑی کو نکالنے کی کوشش کی لیکن چڑھتے ہوئے پانی کے آگے کامیابی نہ ہوئی۔ دوپہر کو تین بجے تک پانی چھ فٹ آ چکا تھا اور گاڑی سمندر کی نذر ہو گئی۔
تینوں سیاح واپس ٹوکیو چلے گئے۔ اس امید کے ساتھ کہ جب وہ اگلی بار آئیں گے تو پھر اس جزیرے کو دیکھ سکیں گے۔
یہ تینوں یونیورسٹی کے طلباء تھے۔ ان کو سمندر نظر کیوں نہیں آیا؟
یہ مذاق کی بات نہیں، یہ نقشوں یا جی پی ایس کا مسئلہ نہیں یا پھر جاپانی سیاح اس میں اکیلے نہیں۔ یہ ہم سب کا مسئلہ ہے اور یہ اکیسویں صدی میں پوچھا جانے والا ایک بڑا ہی پریشان کُن اور بڑا اہم سوال ہے۔