جاپانی رہن سہن پر سیمورائے کلچر کی گہری چھاپ ہے۔ سیمورائے وہ مقامی قبائلی سردار تھے جن کی اپنی فوجیں اور جنگجو ہوتے تھے۔ درحقیقت جاپانی معاشرت تین بڑے معاشرتی طبقات میں بٹی ہوئی تھی۔
حکومت، جنگجو اور عوام
ان میں عوام میں سب سے نچلا درجہ تاجروں کا تھا، ان سے اوپر کاریگر اور ان سے اوپر کسان۔ عوام سے اوپر جنگجو ہوتے تھے، اس طبقے میں سیمورائے سردار، ان سے اوپر ڈائمیوز، اور ان سے اوپر شوگن ہوتے تھے۔ حکومت میں قاضی اور شہنشاہ کی حیثیت سب درجات سے اوپر لیکن علامتی ہوا کرتی۔ درحقیقت عوامی سطح پر سب سے پُر اثر، بارسوخ اور طاقتور سیمورائے ہی ہوا کرتے۔
سیمورائے سرداروں کو خصوصی طور پر دو تلواریں (کتانا اور واکیزاشی) رکھنے کی اجازت ہوتی تھی۔ عوامی طبقات کو ہتھیار رکھنے کی ممانعت ہوتی تھی۔ ان سیمورائے سرداروں کا ایک خصوصی اور پیچیدہ قسم کا ضابطہ(بوشیڈو) ہوتا تھا جس پر عمل پیرا ہونا سیمورائے اور اسکی فوج کیلئے سختی سے کاربند ہونا لازم ہوتا۔ ایک سیمورائے کے ملازم جنگجو کیلئیے لازم ہوتا کہ وہ اپنا تن من دھن اپنے سیمورائے سردار کیلئیے مقدم رکھے، اگر وہ ایسا نہ کرتا تو یہ اسکی آئیندہ آنے والی نسلوں کیلئیے سخت بےعزتی اور طعنے کا باعث ہوتا جو جاپانی کلچر میں کسی صورت قابلِ برداشت نہ ہوتا۔
سیمورائے سردار انتہائی تعلیم یافتہ ہونے کے ساتھ ساتھ منگولوں کے حملوں کے بعد فنِ حرب میں انتہائی ماہر ہو چکے تھے اور اپنے زیر تسلط علاقے کے امور مملکت چلانے کا فرض بھی انجام دیتے۔ 1184 کے بعد شوگن سلطنت کے آغاز کے بعد یہ سیمورائے سردار گہری طبقاتی تقسیم کی وجہ سے نہ صرف آپس میں ایک دوسرے کے خلاف برسرِ پیکار رہتے بلکہ انکا زیادہ تر وقت شہنشاہ جاپان کی شاہی افواج کے ساتھ جنگ و جدل میں بھی گزرتا۔ شہنشاہ جاپان سیمورائے سرداروں کی من مانیوں سے کافی پریشان رہتے تھے۔ تین سو سال کے عرصے میں کئی شہنشاہ آئے اور چلے گئے لیکن سیمورائے سردار شاہی نظام کے زیرِ تسلط آنے کو تیار نہ ہوئے۔ لیکن 1543 میں یہ صورتحال ڈرامائی انداز میں بدل گئی۔ ہوا یوں کہ ایک پرتگالی تجارتی بحری جہاز جاپان کی سرحد سے کچھ دور طوفان کی نذر ہو گیا۔ جاپانی بحری سرحدی سپاہی اس بحری جہاز کا ٹوٹے ہوئے کچھ حصے ساحل تک لانے میں کامیاب ہو گئے، ان حصوں میں سامان لدا ہوا تھا۔ شاہی سپاہیوں نے جب ٹوٹے ہوئے بحری جہاز پر لدے ہوئے سامان کی پیٹیاں کھولیں تو انہیں کچھ عجیب سا لکڑی کا سامان ملا جسکے ایک حصے پر لکڑی لگی ہوئی تھی اور دوسرے حصے پر دھاتی نالی، یہ لمبوتری چیزیں درحقیقت پرتگالی بندوقیں تھیں جس سے جاپانی اب تک ناواقف تھے۔
شاہی سپاہیوں کو پہلے تو اس شے کا استعمال سمجھ نہ آیا لیکن جب ایک بندوق اچانک چل گئی اور گولی لگنے سے دوسرا سپاہی ہلاک ہو گیا تو شاہی افواج کو بندوق کا اصل استعمال سمجھنے میں وقت نہ لگا۔ یہ وہ بندوقیں تھیں جن میں بارود بھر کر ایک سلاخ سے بارود کو دبایا جاتا اور پھر چلایا جاتا۔
شاہی افواج کے سالار اس دریافت پر بہت خوش ہوئے۔ اگلے ہی معرکے میں انہوں نے سیمورائے سرداروں کے خلاف بندوق استعمال کرنے کا فیصلہ کیا۔ سیمورائے سردار اس وقت تک بندوق سے ناواقف تھے۔ اگلی ہی جنگ میں جب سیمورائے سرداروں کی فوج سامنے آئی تو شاہی افواج نے بندوق سے فائیر کر دئیے کچھ گولیاں نشانے ہر لگیں لیکن زیادہ تر خطا ہو گئیں لیکن جب تک شاہی فوجی بندوق کو دوبارہ بھرتے، سیمورائے فوجی انکے سر پر پہنچ کر انکو قتل کر چکے ہوتے۔ اس جنگ میں شاہی افواج کا شدید نقصان ہوا۔ سیمورائے سردار جنگ جیت کر واپس پہنچے تو بندوق کے بارے میں دریافت کیا۔ انہیں اس آلے کی خاصیت بتائی گئی تو انہوں نے اسے ہنسی میں اڑا دیا، اور کہا کہ اس سے پہلے کہ وہ ٹانیگاشیما(بندوق) اٹھائیں ہماری یوُمی (تیر کمان) اور یآری (نیزے) انکی کھوپڑیاں اڑا دیں گے۔ سیمورائے سردار اپنے روایتی طریقِ جنگ پر بہت نازاں ہوا کرتے تھے اور اسے بہت موثر سمجھتےتھے۔ دوسری طرف شاہی فوج نے اپنے نئے طریقِ جنگ اور اس میں موجود خامیوں پر غور کیا اور اہم تبدیلیاں کیں۔ سپاہیوں کو درست نشانہ باندھنے کی مشقیں کروائی گئیں، دو سپاہیوں کو دو ٹانیگاشیما(بندوقیں) دے کر اکٹھے جنگ لڑنے کا اصول اپنایاگیا۔ اب ہوتا یہ کہ ایک سپاہی کی ڈیوٹی جلدی جلدی ایک بندوق بھرنے پر ہوتی اور دوسرے سپاہی کا فرض نشانہ باندھ کر گولی چلانا ہوتا۔ اس سے بندوق کی افادیت کئی گنا پڑھ گئی تھی۔ اگلی ہی سیمورائے جنگ میں شاہی فوج کی درست نشانہ بازی اور سرعت سے بارود بھرنے کی اہلیت نے میدان جنگ کی کایا پلٹ دی۔ سیمورائےسرداروں کا بھاری جانی نقصان ہوا۔ سیمورائےسرداروں کا اصل مسئلہ روایتی اور فرسودہ طریقہءجنگ پر اصرار کے علاوہ جدید رجحانات سے چشم پوشی تھا۔ اس جنگ نے شاہی افواج کے حوصلے ایسے بلند کئیے کہ انہوں نے سیمورائے سرداروں کی کمر توڑ کر رکھ دی۔ ان سرداروں کو دوبارہ پاؤں پر کھڑا ہونے میں ستائیس سال لگے اور یہ اس وقت تک سر اٹھانے میں کامیاب نہ ہوئے جب تک انہوں نے بارود کا استعمال سیکھ نہ لیا۔
خواتین و حضرات، یہی حال آجکےدور میں سیاست کےحوالے سے سوشل میڈیا کا ہے۔ ایک جماعت کےعلاوہ باقی دیگر جماعتیں اب تک سیمورائے ماڈل پر زندہ ہیں، یہ اج تک یونین کونسل اور دھڑےبازی کی سیاست کو ہی اصل طاقت سمجھ رہی ہیں۔ ان میں صرف ایک جماعت نے درست طریقے سے سوشل میڈیا سے فائدہ اٹھایا ہے۔ سوشل میڈیا سے آج کے دور میں ذہن بنا چکنے والی یہ نسل آج سے دس بندرہ سال بعد کئی گنا بڑھ چکی ہوگی اور مجھے ڈر یےکہ اس وقت سوشل میڈیا کے پروپیگنڈہ آرٹ پر تیار ہونے والی یہ نسل روایتی سیاسی جماعتوں اور انکے طریقِ سیاست کو کھا جائے گی ان ذہنی بیمار زومبیز کی آگے ایک اور زومبی نسل تیار ہو چکی ہوگی، ادب آداب، اخلاق، تمیز، تہذیب اور رکھ رکھاؤ کے ساتھ سیاست کرنے والی سیاسی جماعتوں کو اس حوالے سے پیش بندی کرنے کی ضرورت ہے۔ ورنہ سنبھلتے سنبھلتے بیس تیس سال نکل جایا کرتے ہیں۔
ختم شد
ڈاکٹر شہباز ملک پہلا پنجابی پی ایچ ڈی
ڈاکٹر شہباز ملک پنجابی زبان و ادب کی دنیا میں ایک مشہور و معروف نام ہیں۔ وہ پاکستان میں پنجابی...