سوٹومو یاماگوچی نے مٹسوبیشی کے لئے پانچ ہزار ٹن کے بحری جہاز ڈیزائن مکمل کیا تھا۔ ان کی کمپنی اب انہیں اگلے روز واپس بیوی اور چھوٹے بچے کے پاس گھر کو بھیج دے گی۔ جنگ نے ان کی زندگی کو متاثر کیا تھا۔ اس طویل پراجیکٹ کے بعد اب واپس گھر جا کر زندگی معمول پر آ جائے گی۔ یہ 6 اگست 1945 کا دن ہے۔ اس روز وہ دفتر سے کچھ لیٹ ہو گئے تھے۔ صبح سوا آٹھ کا وقت تھا جب انہیں بس سے اتر کر وہ ہیڈکوارٹر کی طرف جا رہے تھے۔ دشمن کا ایک بمبار طیارہ آسمان پر ان کے شہر ہیروشیما کی طرف بڑھ رہا تھا۔
جس جگہ اس طیارے نے یہ بم پھینکا تھا، یاماگوچی اس سے زیادہ دور نہیں تھے۔ اس دن بچ جانے والوں کو اس حملے کا مختلف ہی تجربہ ہوا تھا۔ یہ بم پہلے خاموش تھا۔ چمک اور پھر گرمی۔ فضائی حملے کی صورت میں کیا کیا جانا چاہیے؟ یاماگوچی اس سے واقف تھے. یاماگوچی آنکھ بند کر کے زمین پر لیٹ گئے۔ اور کانوں میں انگوٹھے ٹھونس لئے۔ آدھ سیکنڈ کے بعد روشنی میں نہا گئے اور پھر ایک چنگھاڑ اور پھر ایک شاک ویو۔ یاماگوچی کو احساس ہوا جیسے ان کے پیٹ کے نیچے ہوا کا تیز جھونکا ہے، جس نے انہیں زمین سے اچھال دیا ہے۔ واپس زمین پر گرے اور بے ہوش ہو گئے۔
جب آنکھ کھلی تو شہر تاریک تھا۔ موت کا بادل ٹنوں مٹی اور راکھ لے اڑا تھا۔ جگہ جگہ آگ تھی۔ ان کا اپنا جسم جیسے جھلس رہا ہو۔ لڑکھڑاتے دفتر تک پہنچے۔ جلی لاشیں اور ملبہ۔ وہ خوش قسمت رہے تھے کہ اس دن انہیں دفتر سے دیر ہو گئی تھی۔ گھنٹوں تک چلتے رہے، کہیں ٹوٹے پائپ سے ابلتا پانی پی لیتے۔ ایک جگہ سے بسکٹ کھایا تو قے کر دی۔ وہ رات ساحل کے قریب کشنی کے نیچے گزاری تھی۔ بائیاں ہاتھ جو اس تیز روشنی کا نشانہ بنا تھا، سیاہ ہو رہا تھا۔ اپنی جلد کے نیچے ہونے والا ضرر زیادہ تھا۔ نیوکلئیر بم نے بہت سی گاما ریڈی ایشن خارج کی تھی، جس نے ڈی ان اے کو گزند پہنچائی تھی اور اس کے قریب موجود پانی کے مالیکول سے الیکٹران نکال کر آزاد ریڈیکل بنا دئے تھے جن کو واپس پانے کے خواہشمند اب کیمیائی بانڈ کترنے کے لئے تیار تھے۔ ایک چین ری ایکشن جو ڈی ان اے کو بگاڑ دے گا اور کئی بار کروموزوم کے ٹکڑے کر دے گا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اس وقت تک سائنسدانوں کو اندازہ ہونا شروع ہو گیا تھا کہ ڈی ان اے کا کیا کردار ہے۔ جینز ڈی ان اے سے بنتی ہیں۔ ڈی این اے پروٹین بناتا ہے اور ہماری وراثتی خاصیتیں بھی۔ ڈی این اے کا فریکچر ہونا جینز کو خراب کرتا ہے۔ یہ پروٹین کی پروڈکشن میں خلل ڈال دیتی ہیں اور پروٹین کی پروڈکشن کا رکنا خلیوں کو مار دیتا ہے۔ اس دریافت کو بہت لمبا عرصہ لگا تھا۔ ہیروشیما پر گرنے والے بم سے چند روز قبل ہی “ون جین، ون پروٹین” کا پیپر چھپا تھا اور ہرمن ملر کو 1946 میں نوبل انعام ملا تھا۔
یاماگوچی اپنے بیوی اور بچے کے پاس پہنچنا چاہتے تھے۔ ٹرین سٹیشن تک پہنچنے کے لئے ان کو دریا پار کرنا تھا۔ تمام پُل گر چکے تھے یا جل گئے تھے۔ انہوں نے پگھلے ہوئے اور لاشوں سے بھرے پل کو پار کرنے کا فیصلہ کیا۔ لیکن پُل میں بڑا گیپ تھا۔ اس میں صرف ایک طرف کی پٹڑی سلامت تھی۔ پچاس گز کی اس لمبائی کو لٹک کر پار کیا اور دوسری طرف پہنچ گئے۔ لوگوں کی بھیڑ میں سے ہوتے انہیں آخر ایک ٹرین پر سیٹ مل ہی گئی۔ موت سے ہونے والے اس معجزاتی فرار کے بعد ٹرین سٹیشن سے نکل رہی تھی۔ یاماگوچی تھکے ہارے سیٹ پر نڈھال تھے لیکن اب محفوظ تھے۔ ٹرین ساری رات چلے گی۔ وہ بالآخر گھر جا رہے تھے۔ ان کا گھر ناگاساکی میں تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ایک فزسٹ بتائے گا کہ گاما شعاعوں نے یاماگوچی کے ڈی این اے پر کیا جانے والا کام ایک سینکڈ کے اربویں حصے کے بھی لاکھویں حصے میں اپنا کام کر لیا تھا۔ ایک کیمسٹ بتائے گا کہ اس سے ہونے والے آزاد ریڈیکل ڈی ان اے کو کیسے چپا گئے اور اس میں ایک ملی سینکڈ لگا۔ ایک خلیاتی بائیولوجسٹ کو چند گھنٹے انتظار کرنا پڑے گا کہ خلیے ٹوٹے ہوئے ڈی ان اے کی مرمت کرنے میں کس قدر کامیاب ہوتے ہیں۔ ایک ڈاکٹر کو ایک ہفتہ لگے گا کہ وہ قے، اندرونی بلیڈنگ، اترتی جلد اور ہیوموگلوبن کی کمی کی مدد سے ریڈی ایشن سِکنس کو شناخت کر سکے۔ جینیاتی ماہر کو ذرا زیادہ صبر کرنا ہے کیونکہ جینیاتی نقصان کو نمایاں ہوتے برسوں یا بعض دفعہ دہائیاں لگیں اور یہی وہ دہائیاں تھیں جب سائنسدانوں نے جینز کے معمے کے ٹکڑے جمع کئے اور یہ دیکھا کہ یہ کام کیسے کرتی ہیں اور فیل کیسے ہوتی ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
زخمی اور بیمار یاماگوچی 8 اگست کو گھر پہنچے۔ انہیں اپنے جوتے اتار کر اور اپنے پیر دکھا کر گھر والوں کو یقین دلانا پڑا کہ وہ خود ہی ہیں، نہ کہ ان کا بھوت (جاپان کے روایتی بھوتوں کے پیر نہیں ہوتے)۔ اس روز یاماگوچی نے آرام کیا لیکن اگلے روز پھر ناگاساکی میں اپنے دفتر مٹسوبیشی کے ہیڈکوارٹر رپورٹ کرنے پہنچ گئے۔ گیارہ بجے جب دفتر پہنچے تو بازو اور چہرے پر پٹیاں بندھی تھیں۔اپنے ساتھ کام کرنے والوں کو اپنی کہانی سنا رہے تھے تو اس سے بے خبر تھے کہ ایک اور طیارہ اب ان کے شہر کی طرف پرواز کر رہا ہے۔ ان کے باس کو اس پر یقین نہیں آ رہا تھا۔ ان کا کہنا تھا کہ اس میں مبالغہ آرائی ہے۔ “تم خود ایک انجینیر ہو۔ بھلا خود بتاوٗ کہ آخر ایک بم کیسے پورے شہر کو تباہ کر سکتا ہے؟”۔ یہ ان کے باس کے کہے ہوئے آخری الفاظ تھے۔ سفید روشنی ایک مرتبہ پھر ان کی جلد سے ٹکرائی اور یہ دفتر کے فرش پر جا گرے۔ اس دوسرے ایٹم بم نے ان کے بازو بندھی پٹیاں بھی پگھلا دی تھیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اس دھماکے سے یاماگوچی کا گھر منہدم ہو گیا۔ ان کی بیوی اس وقت اپنے شوہر کے زخموں پر لگانے کے لئے مرہم خریدنے گئی تھیں۔ جب دھماکہ ہوا تو ان کی بیوی اور بچہ محفوظ سرنگ میں تھے اور بچ گئے۔ اگر یاماگوچی ہیروشیما میں زخمی نہ ہوتے تو ناگاساکی کا ایٹم بم ان دونوں کے لئے موت کا پروانہ ثابت ہوتا۔
کئی افراد ایٹم بم کا نشانہ بننے والے دونوں شہروں میں موجود تھے۔ شاید ڈیڑھ سو کے قریب ایسے لوگ ہوں گے۔ چند ایک ان دونوں نیمں بلاسٹ زون میں موجود تھے۔ ان کو نجیو ہیباکوسا کہا جاتا ہے۔ جاپانی حکومت نے ان میں سرکاری طور پر صرف ان کو نجیو ہیباکوسا تسلیم کیا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جب 15 اگست کو یاماگوچی نے جاپان کے ہتھیار ڈالنے کی خبر سنی۔ اس وقت وہ تیز بخار میں تھے، جس میں نہ کچھ کھا سکتے تھے نہ پی سکتے تھے۔ بازو پر زخم خراب ہو رہے تھے۔ بال جھڑ گئے تھے۔ الٹیاں مسلسل آ رہی تھی۔ “میں نہ خوش ہوا اور نہ اداس۔ اس وقت بس اپنی موت کا انتظار کر رہا تھا”
یاماگوچی اپنے زخموں سے صحت یاب ہو گئے۔ ان کے گھر دو مزید بیٹیوں کی پیدائش ہوئی۔ امریکی فوج کے لئے بھی مترجم کا کام کیا۔اپنی یادداشتیں 2000 میں شائع کیں۔ 2006 میں نیویارک آئے اور اقوامِ متحدہ میں نیوکلئیر ہتھیاروں کے خاتمے پر تقریر کی۔ ان کا انتقال 2009 میں ہوا جب ان کی عمر 93 برس تھی۔