جاپان کو نئی اُبھرتی طاقت کا سامنا تھا۔ تاریخ کی سب سے بڑی بحری طاقت اس کی طرف حملہ کرنے بڑھ رہی تھی۔ ایک لاکھ چالیس ہزار کی فوج اس کے ساحل کے قریب تھی۔ دشمن کی تعداد زیادہ تھی اور اس دفعہ وہ بہتر ٹیکنالوجی کے ساتھ آیا تھا۔ شکست نظر آ رہی تھی۔ یہ تاریخ میں جاپان پر ہونے والا پہلا حملہ تھا۔ ایک امید بچ گئی تھی۔ کامی کازی۔
نہیں، یہ دوسری جنگِ عظیم نہیں۔ یہ تیرہویں صدی ہے اور منگولیا کے حملہ آور۔ قبلائی خان کی سربراہ میں وسیع ہوتی ہوئی سلطنت جو چین اور کوریا پر قبضہ کر چکی ہے۔ ایشیا میں ایک ایک کر کے علاقے فتح کرتی جا رہی ہے۔ 1274 میں منگول جاپان پر بیس ہزار کی تعداد میں حملہ کرنے آئے تھے۔ اس حملے کے آخر میں ایک طوفان نے آ لیا تھا۔ منگول بحری جہاز اور بہت سے فوجی ڈوب گئے تھے۔ قبلائی خان نے اگلے حملے کے لئے 1281 میں بہت بڑی فوج بھیجی۔ آدھی چین کی طرف سے اور آدھی کوریا کی طرف سے۔ ان دو حملوں کے درمیان جاپان کے لڑتے قبائل اکٹھے ہو گئے تھے اور انہوں نے اپنے دفاع کے لئے اونچی دیوار کھڑی کر لی تھی تا کہ منگول گھوڑے اسے پار نہ کر سکیں۔ منگول بحریہ نے سمندر محاصرہ کر لیا۔ کئی مہینے یہ محاصرہ جاری رہا اور پھر بہت بڑا طوفان آ گیا۔ اس میں اسی فیصد منگول حملہ آور فوج ماری گئی۔ قبلائی خان ایک لاکھ فوجیوں سے محروم ہو گیا۔ منگولیا نے اس کے بعد جاپان کو نہیں چھیڑا۔
یہ طوفان کہانی بنا، کہانی یقین۔ اس طوفان کو کامی کازی کا نام دیا گیا یعنی کہ آسمانی ہوا۔ اس کے گرد قصے مشہور ہوئے۔ شنتو پر یقین رکھنے والے جاپانیوں کو ان کا خدا رائجنان تنہا نہیں چھوڑتا۔ تمام مشکلات کے باوجود دشمن کا مقدر شکست ہے۔
صدیاں گزریں۔ دوسری جنگِ عظیم چھڑ گئی۔ جاپان کو فتوحات ملنا شروع ہوئیں۔ پھر پانسہ پلٹ گیا۔ جاپان کو اب ایک اور خطرے کا سامنا تھا۔ امریکہ اس کیطرف بڑھ رہا تھا۔ فلپائن میں جاپان نے روکنے کے لئے پورا زور لگا دیا۔ اس ایک دن میں اتنی تعداد میں اپنے پائلٹ گنوا بیٹھا جو پورا سال نہیں ملتے۔ شاہی بحریہ تباہ ہو چکی تھی۔ طیارے جس رفتار سے بنا سکتا تھا، اس سے دس گنا رفتار سے تباہ ہو رہے تھے۔ جاپان ہتھیار ڈالنے کو تیار ہی نہ تھا۔ اس نے نئی رضاکاروں کا گروپ تلاش کیا۔ یہ سپیشل اٹیک یونٹ تھا۔ یہ خود کُش بمبار تھے۔ فوجی حکومت اپنے لوگوں سے جنگ کی صورتحال کے مطابق مسلسل جھوٹ بول رہی تھی۔ لیکن دشمن اب قریب تھا۔ فوجیوں کو لکھے خط واپس آنا بند ہو گئے تھے۔ بحریہ کو صاف شکست نظر آ رہی تھی۔ حکومتی پراپیگنڈا نے اس صورتحال کو مثبت اور پرامید دکھانا تھا۔ انہوں نے تاریخ کا سہارا لیا تا کہ نئے رضاکاروں کی بھرتی ناکام جنگ کا آخری قدم نہ لگے۔ ان کو کامی کازی کا نام دیا گیا۔ ان کا جذبہ چھ سو سال پہلے کی طرح ایک بار پھر ملک کو بچا لے گا۔
پھر کیا ہوا؟ یہ تو سب جانتے ہیں لیکن اس سے ہمیں پتہ کیا لگتا ہے؟ شاید یہ کہ جھوٹ کو بس ایک خاص حد تک ہی کھینچا جا سکتا ہے۔ اس کو لوگوں کے ذہنوں میں سچ بنا کر داخل کیا جا سکتا ہے لیکن آخر میں سارے ہی جھوٹ بے نقاب ہو جاتے ہیں۔ جس جھوٹ کو جتنا بڑا کر دیا جائے، جاتے جاتے اتنا ہی بڑا نقصان پہنچا کر جاتا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ ان کامی کازی خود کش بمباروں نے اپنے جذبے سے امریکی فوجیوں کو نقصان پہنچایا، لیکن انہیں روک نہیں سکے۔ یہ اسباب اور عمل کی دنیا ہے۔ نہ ہی خالی دعائیں دشمن کی توپوں میں کیڑے ڈالتی ہیں اور نہ ہی آسمانی ہوا بالآخر بچا لیتی ہے۔ جس نے جاپانیوں میں اس سوچ کا بیج بویا تھا، اس نے جاپانیوں کو شدید نقصان پہنچایا تھا۔ اپنی قوم کو انجانے میں ایک بڑا بھیانک سبق پڑھایا تھا کہ ان کی زمین کو آخر میں ان کا جذبہ اور آسمانی ہوا بچا لے گی۔ وہ غلط تھا۔
جاپان اپنے یقین کی وجہ سے ہتھیار ڈالنے والا آخری ملک تھا۔ اس کو اپنے اس اندھے اور خطرناک اعتماد کی بہت بھاری قیمت چکانا پڑی۔