جاپان نے اپنے تین الگ خلائی اداروں کے انضمام سے 2003 میں ایک نیا ادارہ قائم کیا جو اس وقت جاپان کی قومی خلائی ایجنسی جاکسا ہے۔ ایک نظر اس ادارے کے کچھ کارناموں پر۔
راکٹ ٹیکنالوجی میں ایک طرف دوڑ طاقتور ترین راکٹ کی ہے جو بھاری ترین وزن لے جا سکے جبکہ دوسری طرف سستے ترین راکٹ کی، جو کم وزن کے آلات کو کم لاگت پر خلا میں لے جا سکے کیونکہ سیٹلائیٹ کم سے کم وزن کے ہو رہے ہیں۔ چھوٹے کیوب سیٹ جو مواصلات یا امیجنگ یا سائنس کے لئے استعمال ہو سکیں۔ اس کی ایک مثال راکٹ لیب کا الیکٹران راکٹ جو تھری ڈی پرنٹنگ ٹیکنالوجی کے ذریعے بنایا گیا ہے ۔ لیکن اس دوڑ میں اس وقت دنیا میں سب سے آگے جاپان ہے جنہوں نے 2018 میں ایک کیوب سیٹ خلا میں بھیجا۔ راکٹ کا قطر محض دو فٹ سے بھی کم اور اونچائی اکتیس فٹ تھی۔ سطح سے فضا میں مار کرنے والے راکٹوں کے سائز سے خلا میں سیٹلائیٹ بھیج دینے میں کامیابی کئی نئی چیزوں کے راستے کھول رہی ہے۔
جاپان نے راکٹ کا ایک نیا ڈیزائن ایچ ٹو بی کامیابی سے 2010 میں خلا میں بھیجا۔ تانیگاشیما لانچ سائٹ ایک الگ جزیرے پر ہے جو شاید دنیا میں راکٹ بھیجنے کی سب سے خوبصورت جگہ ہو گی (ساتھ تصویر اسی سائٹ کی ہے)۔
اس وقت تک سات جاپانی خلا میں جا چکے ہیں۔ ان میں سے ایک ناسا کے ساتھ جبکہ چھ روس کوسموس کے ساتھ خلا میں گئے۔ آخری جاپانی خلاباز جون 2018 میں انٹرنیشنل سپیس سٹیشن میں گئے تا کہ جاپان کی ایک اور کامیابی کیبو سپیس ماڈیول پر کام کر سکیں۔ یہ خلائی سٹیشن میں لگنے والا تجرباتی ماڈیول ہے۔ جو خلائی سٹیشن کا سب سے بڑا ماڈیول ہے۔ اس میں نہ صرف خلاباز جا سکتے ہیں بلکہ اس میں ایک ٹیریس ہے جو خلا سے ایکسپوزڈ ہے اور یہاں سے خلا میں تجربات براہِ راست کئے جا سکتے ہیں اور ان تجربات کو ہینڈل کرنے کے لئے ایک روبوٹک بازو ہے جس کو بھی جاپانی خلائی ایجنسی نے ڈیزائن کیا اور بنایا ہے۔
جاپان کی ایک اور اہم کامیابی کاگویا مُون آربٹر ہے جو 2007 سے چاند کے گرد مدار میں ہے اور اس کے گریویٹیشنل فیلڈ کی ایکوریٹ ریڈنگ لے رہا ہے۔ یہی وہ مشن ہے جس نے چاند کے جنوبی قطب پر گڑھے دریافت کئے تھے جہاں مستقل سایہ ہوتا ہے اور مستقبل میں چاند پر بننے والی کسی بیس کے لئے بہترین مقامات ہو سکتے ہیں۔
جاپان کا ایک اور اہم مشن آٹسوکی ہے جو مئی 2010 کو زہرہ کی طرف بھیجا گیا۔ اس مشن میں ہونے والی خرابی سے یہ زہرہ کے گرد مدار میں نہ آ سکا اور مدار سورج کے گرد بنا لیا۔ پانچ سال تک یہ زہرہ کے قریب اسی طرح آوارہ پھرتا رہا جب جاپانی انجنیرز کو ایک مرتبہ پھر اسے زہرہ کے مدار میں داخل کرنے کا موقع ملا اور کامیابی سے زہرہ کے گرد ایک لمبے بیضوی مدار میں اس کو داخل کر دیا۔ خلا میں جہاز کے کنٹرول کا یہ طریقہ ایک بڑی کامیابی تھی۔ آٹسوکی نے زہرہ پر ایک نیا مظہر دیکھا۔ زہرہ کی فضا میں ایک جیٹ سٹریم جو جنوبی سے شمالی قطب تک جاتی تھی۔ یہ زہراتی جیٹ سٹریم کہلائی۔
اسی مشن میں استعمال ہونے والے اکاروس شمسی بادبان پہلے شمسی بادبان بن گئے جن کی مدد سے دوسرے سیارے تک پہنچا گیا۔ اس کے ساتھ بہت دلچسپ تجربات کئے گئے۔ بغیر کسی پروپیلر کے جہاز کا رخ موڑنا، محض ہلکے اور گہرے رنگ کے میٹیرئل کو ٹھیک طرح سے حرکت دے کر۔ جن کی مدد سے شمسی ہوا کو مختلف طریقے سے جذب اور خارج کر کے جہاز کو کنٹرول کیا گیا۔
لیکن جاپان کی سب سے بڑی کامیابی ہایابوسا تھا (جاپانی زبان میں ہایابوسا شاہین کو کہا جاتا ہے)۔ یہ مشن ایک شہابیے تک پہنچا۔ وہاں سے میٹیریل اکٹھا کیا اور واپس زمین تک پہنچا۔ اس میں استعمال ہونے والی ٹیکنالوجی کئی لحاظ سے حیرت انگیز تھی۔ یہ مئی 2003 میں ایٹوکاوا نامی شہابئے کے لئے روانہ ہوا۔ کسی شہابئے تک پہنچنے والا یہ پہلا مشن نہیں تھا لیکن وہاں جا کر میٹیریل اکٹھا کر کے واپس لانے والا پہلا مشن تھا۔ یہ پہلی بار تھی جب کسی شہابئے سے ٹیک آف کیا گیا۔ اس کا حاصل کروہ میٹیریل ایک کیپسول میں آسٹریلیا کی فضا میں 13 جون 2010 کو داخل ہوا۔ اس سے شہابیے کا تجزیہ کیا گیا۔
ہایابوسا کی کامیابی کے بعد ہایابوسا دوئم مشن بھیجا گیا۔ اس میں دو جاپانی لینڈر تھے۔ ان میں سے ایک لینڈر میں ایک جبکہ دوسرے میں دو گاڑیاں تھیں، جن میں اپنے طرح کے کیمرے اور آلات نصب تھے۔ اسی مشن پر ماسکوٹ نامی تیسرا لینڈر تھا جو جرمنی اور فرانس کی خلائی اینجیسیوں میں ملکر بنایا تھا اور اس میں بھی سائنسی آلات نصب تھی۔ کل چار گاڑیاں اس کا حصہ تھیں لیکن یہ گاڑیاں چاند گاڑیوں یا مریخ پر اترنے والے روورز سے بالکل مختلف تھیں۔ ان میں پہیے نہیں۔ یہ بس دھات کے ڈبے ہیں۔ یہ چلتی کیسے ہیں؟ اچھل کر اور لڑھک کر۔ شہابیے کی گریویٹی اتنی کم ہے کہ پہیے اس کو پکڑ نہیں سکتے۔ ڈبے کے اندر کچھ اوزان لگے ہیں جن کو حرکت دی جاتی ہے تو ڈبا لڑھک جاتا ہے۔ (اس کی لئے نیچے لنک میں ویڈیو دیکھی جا سکتی ہے)۔ ہایابوسا جون 2018 کو اس شہابئے تک پہنچا۔ 21 ستمبر کو پہلا لینڈر اپنی دو گاڑیوں سمیت اس پر اترا۔ اس سے دو ہفتے بعد ماسکوٹ بھی اس پر اتر گیا۔ چوتھی گاڑی اس پر جولائی 2019 میں اتر جائے گی۔
ہایابوسا 2 نے تین سیمپل اکٹھے کرنے ہیں۔ ان میں سے تیسرا سب سے دلچسپ ہے۔ اس میں شہابیے پر ایک امپیکٹر پھینک کر گڑھا بنایا جائے گا اور پھر میٹیریل اکٹھا کیا جائے گا تا کہ شہابیے کا اندر سے بھی تجزیہ کیا جا سکے۔ دسمبر 2019 میں یہ رایوگو نامی اس شہابئے سے واپسی کا سفر شروع کر دے گا اور اگلے سال ہمیں یہ سیمپل مل جائیں گے۔ اگر یہ کامیابی سے ہو گیا تو جاپانی یہ کام دو مرتبہ کر چکے ہوں گے جو ابھی کوئی بھی اور نہیں کر سکا۔ (ناسا کا بھیجا ہوا مشن بینوں شہابیے سے 2023 میں سیمپل واپس لے کر آئے گا)۔
جاپانی خلائی ایجنسی کا اگلا ہدف ایک زیادہ بڑے خلائی مقام تک جانا ہے جو کہ چاند ہے۔ سمارٹ لینڈر فار انویسٹیگیٹنگ مون 2021 میں بھیجا جانا ہے۔ اس کا مقصد چاند پر پریسژن لینڈنگ کرنا ہے۔ اس کے لئے وہ ٹیکنالوجی استعمال کی جائے گی جو سافٹ وئیر میں چہرے پہنچاننے کے لئے استعمال ہوتی ہے۔ اس کے لئے جگہ کا انتخاب مارئیوز پہاڑی کی وادی کا کیا گیا ہے جو ایک لاوا ٹیوب ہے۔ ہدف یہ ہے کہ ایرر ریٹ سو میٹر سے بھی کم رکھا جائے۔ موازنے کے لئے: اپالو 11 میں یہ بیس کلومیٹر تھا۔ اگر چاند پر بیس یا کالونی بنانی ہے تو یہ اہم قدم ہو گا۔ کیونکہ اگر یہ کام کرنا ہے تو ٹھیک ٹھیک لینڈنگ اس کے لئے ضروری ہے۔ جاپان 2025 میں یہ کام کرنے کا بھی ارادہ رکھتا ہے۔
اپنے جدید ترین روبوٹس، مصنوعی ذہانت کی ٹیکنالوجی اور راکٹ کی ٹیکنالوجی کی مدد سے جاپان خلائی دوڑ کا اہم کھلاڑی ہے۔
چاند کے گرد بھیجے گئے آربٹر پر
ماسکوٹ کی اینیمیٹڈ ویڈیو