براکامن جاپان میں ایک اقلیتی گروپ ہے۔ اس کے لغوی معنی “گاوٗں کے لوگ” ہے۔ لیکن یہ گاوٗں کے لوگ نہیں۔ یہ دو الگ گروپس کو بیان کرنے کی اصطلاح ہے۔ ان میں سے ایک ایٹا ہیں اور دوسرے ہینن۔ (ایٹا اور ہینن کے الفظ جاپان میں اب انتہائی ناپسندیدہ ہیں، جاپان میں ان کو استعمال مت کیجئے گا)۔ ان کی تاریخ کا جاپان کے دو ادوار سے پتہ لگتا ہے۔ یہ لمبی تاریخ بس سادہ سے الفاظ میں۔
چین میں کنفیوشس نے دنیا کو بہتر کرنے کا طریقہ یہ سوچا کہ معاشرے کو ایک خاندان کی طرح چلایا جائے۔ اس کے ساتھ ایک ضمنی نتیجہ یہ نکلا کہ خاندان میں کون کس جگہ پر فِٹ ہو گا، یہ تعریف کئے جانا بھی ضروری تھا۔ کنفیوشس نے چار کیٹگریز بنائیں۔ علما، کسان، ہنرمند اور تاجر۔ ہر کوئی ان میں فِٹ نہیں ہوتا لیکن کنفیوشس ایک آئیڈلسٹ تھے۔ ٓئیڈلسٹ عملی مسائل پر دھیان نہیں دیتے۔ چین نے کنفیوشس کا نظام اپنا لیا۔ کچھ صدیاں گزریں، چین کی سلطنت شکست و ریخت کا شکار تھی۔ انڈیا سے بدھ مت کے خیالات اور کنفیوشس کو جوڑ کر چین نے اپنا نیا نظام بنایا۔ جاپان اس وقت ایک قوم بن کر متحد ہو رہا تھا۔ انہوں نے مغرب (یعنی کہ چین) سے مدد لی۔ اس میں کنفیوشنزم کی امپورٹ بھی تھی۔ چار کیٹگریز جو پیدائش پر طے ہو جاتی ہیں۔ معاشرہ ان میں تقسیم ہو گیا۔ اگر کوئی ان چار میں نہیں تو وہ خاندان کا حصہ نہیں۔ جاپان کا نظام شنتو، بدھ اور کنفیوشس خیالات سے مل کر بنا۔ شنتو ازم جاپان میں پہلے ہی تھا۔ شنتو ازم کا ایک اہم حصہ کیگارے تھا۔ اگر آپ کا دوست فوت ہو گیا، یہ کیگارے ہے۔ اس کو اپنے آپ کو پاک کرنا ہے۔ اگر آپ نے اپنے ہمسائے کے چاول کے کھیت پر قبضہ کر لیا ہے تو یہ بھی کیگارے ہے، آپ نے خود کو پاک کرنا ہے۔ کیگارے کی اپنی لمبی فہرست تھی۔
ایٹا اور ہینن ان چار طبقوں والے خاندان سے باہر کے لوگ قرار پائے جو معاشرتی، مذہبی اور سب سے اہم قانونی طور پر باقی سب سے نیچے تھے۔ ایٹا وہ لوگ تھے جو اس طرح کے کام کرتے تھے جو ضروری تھے لیکن شنتو ازم کے لحاظ سے ناقابلِ قبول۔ ان میں کھالوں کو رنگنا، گوشت کاٹنا، مردے دفنانا وغیرہ جو سب کیگارے کی تعریف میں آتے تھے۔ ہینن وہ لوگ تھے جو وہ کام کرتے تھے جو معاشرہ کی خواہش تھی کہ ہوں ہی نہ۔ اس میں بھیک مانگنا، عصمت فروشی جیسے کام تھے اور ہاں، سب سے بڑا، ایکٹنگ اور فنونِ لطیفہ۔ ہینن اور ایٹا اچھوت قرار پائے اور ان کو مل کر براکومن کا نام ملا۔ یہ معاشرے میں اس قدر نیچے آتے تھے کہ ان کو مردم شماری میں گنا تک نہیں جاتا تھا۔ ان کو باقی آبادی سے الگ کرنے کے لئے ان پر ٹیٹو سے نشان لگائے گئے۔ ان کے رہنے کی جگہیں الگ کر دی گئیں۔ جب یہ معاشرے سے الگ ہو گئے تو ان کی زبان بھی بدلنا شروع ہو گئی۔ یہ اپنی زمین نہیں رکھ سکتے تھے، کھیتی باڑی نہیں کر سکتے تھے، اپنے گروپ سے باہر شادی نہیں کر سکتے تھے، اپنا سٹیٹس تبدیل نہیں کر سکتے تھے، براکومن جینیاتی طور پر باقی جاپانیوں سے مختلف نہیں تھے، ان کی نسل وہی تھی، لیکن ان کو معاشرے نے مختلف کر دیا۔ جب ان کا کوئی مستقبل نہیں تھا تو ان میں مجرموں کی شرح بڑھنے لگی۔ جوا معاشرے میں داخل ہوا تو انہوں نے جواخانے کھولنا شروع کر دئے۔ ان کے پاس دولت آنے لگی تو اس کے بچانے کے لئے گینگ بننا شروع ہوئے۔ حکومت نے ان کی مدد کو نہیں آنا تھا۔ یہ پورے شہری نہیں تھے۔ معاشرے نے انہیں الگ کیا تھا۔ ٹیٹو کو ان کی شناخت بنایا تھا، انہوں نے انہی ٹیٹوز کو اپنی عزت بنا لیا۔
سات صدیوں تک جاری رہنے والی اس علیحدگی کے بعد ڈیڑھ سو سال پہلے ان سے قانونی امتیاز ختم ہوا اور ان کو دوسرے جاپانیوں کی طرح انسان تسلیم کر لیا گیا۔ لیکن صرف حکومت کے کہہ دینے سے یہ ختم نہیں ہوتا۔ یہ معاشرے میں رچ بس چکا تھا۔ اگرچہ یہ مکمل طور پر معاشرے میں بسنے والے دوسرے انسانوں کی طرح ہی تھے لیکن تعصب کلچر بن جاتا ہے اور آسانی سے ختم نہیں ہوا۔ ان کے علاقے جاپانی میں ماڈرنائز ہونے والے آخری علاقے تھے۔ شادی کی کتابیں ایجاد ہوئیں۔ خاندان چھان پھٹک کرتے کہ کہیں جس سے شادی کی جا رہی ہے، اس کا خاندانی پس منظر براکومن تو نہیں۔ یہاں تک کہ ملازمت کے لئے بیک گراوٗنڈ چیک میں کتابیں بنیں کہ ملازم کس ذات سے تعلق رکھتا ہے۔ اگرچہ ایسا کرنا غیرقانونی تھا لیکن ادارے ان “اچھوتوں” کو ملازمت نہیں دیتے تھے۔
جاپان بدل چکا ہے۔ یہ تقسیم ختم ہو چکی ہے۔ وہ علاقے جہاں معاشرے کے یہ اچھوت رہا کرتے تھے، یہ آج بھی غربت کے مقام ہیں۔ تاریخی طور پر الگ کئے گئے لوگوں کی اگلی نسلوں کے ساتھ اب ذہنی یا جسمانی معذور افراد، بوڑھے جن کے خاندان نہیں، تارکینِ وطن جو سوسائٹی کا حصہ بن سکے، یہ سب یہاں رہتے ہیں۔ یہ آج کے جاپان کی کلاس ہے۔ ان کو اب ایٹا یا ہینن نہیں کہا جاتا۔ ان علاقوں سے گزریں تو آپ کو باقی جاپان سے ایک فرق زندگی نظر آئے گی۔
لوگوں کو تباہ کیسے کیا جاتا ہے؟ ان سے ان کا مستقبل چھین کر۔ ان کے بچوں سے مواقع چھین کر۔ ان سے نسل، مذہب، علاقے کی بنیاد پر خاصیتیں جوڑ کر۔ براکومن کو تعلیم کے مواقع کم ملتے ہیں، جس کی وجہ سے بیروزگاری زیادہ ہے جس کی وجہ سے جرائم زیادہ ہیں۔ ورنہ یہ باقی سب کی طرح ہی ہیں۔
یہ جاپان کی ایک اقلیت کی اصل کہانی ہے لیکن صرف جاپان کی نہیں۔ کیا آپ کو خود اپنے شہر میں قائم ایسے “جزیروں” میں جانے کا اتفاق ہوا جس میں رہنے والوں کو ان سے باہر نکلنے کا کوئی موقع میسر نہیں۔ کیا آپ نے ان لوگوں کے ساتھ وقت صرف کرنے کی کوشش کی ہے؟ ان کے پاس وہ سیڑھی ہی نہیں جس سے چڑھ کر وہ یہاں سے باہر نکل بھی سکیں۔ ایسے لوگ جن کی پیدائش کی جگہ یا کسی بھی اور بنا پر ان کو کسی بہتر مستقل کی امید ہی نہیں۔ کیا آپ نے ان علاقوں میں غیرقانونی سرگرمیوں، تشدد، چوری، نشے کے استعمال کی بلند شرح کی وجہ جاننے کی کوشش کی ہے؟ کیا خرابی یہاں پر رہنے والوں کے ڈی این اے میں ہے؟