مرزا اسد اللہ خان غالب گلی قاسم جان میں کھڑے ہیں ایک راہگیر ہاتھوں میں کبوتر لیے گزر رہا ہے
راہ گیر " اسلام ر علیکم مرزا اسد
مرزا"وعلیکم میاں ، کیوں میاں لکے ہیں
راہ گیر" کہاں جناب لکے لکھنو کے اُڑ گے جب سے فرنگی آئے ہیں
مرزا نوشہ" کیوں اس شہر دلی میں نہیں اُڑتے کبوتر
راہگیر" خاک اُڑتی ہے میاں نوشہ، کبھی قلعہ جا کر دیکھیے آپ تو اس گلی قاسم جان سے باہر جاتے نہیں آج کل
مرزا" جاوں تو کہاں کس قلعہ میں بادشاہ ظفر تو جلاوطن ہوئے انگریزوں نے انہیں رنگون بیھج دیا اور شہزادوں کے سر لٹکا دہیے خونی دروازوں پہ ، میرا کون ہے اُس قلعہ میں
راہگیر" انگریز تو ہیں اپکا تو وظیفہ بحال کردیا اُنہوں نے آپ تو بہت خوش ہونگے اُن سے — بادشاہ نہیں تو کیا ہوا
( مرزا اسد اللہ خان کے قدموں کی تھکی تھکی آواز راہ گیر کے قریب آتے ہیں)
مرزا اسد اللہ خان" دیکھو میاں شکائیت ہم سے نہیں خود سے کرو، قومیں بادشاہوں سے نہیں عوام سے بنتی ہیں ، آپ آج کبوتر نہ آٹا رہے ہوتے تو یہ قوم کچھ اور ہوتی یہ ملک کچھ اور ہوتا
جاؤ کبوتر آڑاو
اور
ہم آج تک کبوتر اُڑا رہے ہیں ہم ایک کبوتر اُٹاتی قوم ہیں
پانچ دس آدمی اگر ببم سے اُڑیں تو ہم دو تیں گھنٹے کا سوگ مناتے ہیں -جیسے جیسے ببم سے اُڑنے والوں کی تعداد بڑھتی جاتی ہم سوگ کا وقت بڑھاتے جاتے ہیں مگر چوری آنکھ سے ہم اپنے کبوتروں کو دیکھتے رہتے ہیں — کوشش کرتے ہیں اور بڑی محنت سے کوشش کر کے سوگ منانے کے لیے نئے الفاظ لُغت سے نکالتے ہیں تاکہ وہ دوسروں سے الگ اور انوکھے لگیں اور نظر آئے سب سے زیادہ سوگ میں ہی منا رہا ہوں– ہمیں بڑا سوگ منانے کے لیے کم از کم سو دوسو آدمیوں کے چھیتڑے فضا میں اُڑتے نظر آنے چاہیں لیکن اگر کسی فوجی ادارے کے دس پچاس فوجی یا ان کے بچے ہلاک ہو جائیں تو بھی ہم بڑا سوگ منا لیتے ہم مگر سولین ہلاکتوں کے سوگ کے لیے ہماری ڈیمانڈ دوسو آدمیوں سے کم کی نہیں ہے — شریف طالبان اکثر ہماری یہ ڈیمانڈ پوری کرتے رہتے ہیں مگر ہم مسلمان ہیں لہذا ہم زیادہ سے زیادہ تین دن کا سوگ مناتے ہیں
اور
اور پھر اپنےاپنے کبوتر اُڑانے لگ جاتے ہیں — ہمارے کبوتر ہمیں بتاتے ہیں کہ وزیراعظم سپہ سلار سے کتنےمنٹ اور کتنے سیکنڈ دیر سے جائے حادثہ پہ پہنچا ہے لہذا اس کے استفا کا مطالبہ جائز ہے بلکہ اگر وزیر اعظم میں رتی بھر اخلاق بھی ہوتا تو وہ خود ہی استفا دے دیتا مگر ایسا وزیر اعظم جو دل کا اپریشن کراتا ہے مگر اس کی چھاتی کے بال اپنی جگہ پہ ہیں اس سے خود مستعفی ہونے کی کیا توقع کی جاسکتی –
ہم رقعہ لکھتے ہیں اور کبوتر کے پروں کے ساتھ باندھ کر اسے سپہ سلار کی طرف اُڑا دیتے ہیں کہ وہ جاُکر سپہ سلار کے ہاتھ پہ بیٹھ کر اُسکی اُنگلی کھڑی کر دے
کبوتر وضوع کرکے جاتے ہیں اور قرآن سے آیات نکال کر لے آتے ہیں کہ دیکھے جناب یہ لکھا ہے کہ کمسن بچی سے شادی کرنا جائز ہے یہ لکھا ہے کہ چار شادیاُں کرنا اور لونڈیوں کو بغیر نکاح کے رکھنا خدا کا حکم ہے
ہم کبوتروں کو رینجر کی وردیوں کے ساتھ باندھتے ہیں اور کہتے جا کبوتر جاسارا ملک تیری جا گیر ہے
ہمارے کبوتروں نے شریف طالبان کو کہا ہے سارا ملک اپ کا ہے جہاں چاہیں جائیں جو مرضی کریں مگر مہربانی فرما کر پنجاب میں نہ آئیں یہاں ہم نے کبوتروں کے لیے ملیں لگائی ہوئی ہی
کوئٹہ کے حادثے کو اج تیسرا دن ہے اور ہمیں ابھی کبوتروں کی ریلیوں کا انتظام بھی کرنا
تو دوستو
جاؤ کبوتر اُڑاو
————
“