جانوروں کے شناختی کارڈ
سندھ حکومت نے جانوروں کے بھی شناختی کارڈجاری کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ خبر کے مطابق جب کسی بکرے‘ دنبے یا گائے وغیرہ کا شناختی کارڈ بن جائے گا تو اس کے بعد اس کے بیرون ملک سفرپر بھی تمام تر دستاویزات لاگو ہوں گی یعنی پاسپورٹ بنے گا اور ویزا لگوانا پڑے گا۔تاہم یہ نہیں بتایا گیا کہ جانوروں کو ویزا لگوانے کے لیے ایمبیسی جانا پڑ ے گا یا ایمبیسی خود جانور کا انٹرویو کرنے آئے گی۔کیا خوبصورت منظر ہوگا جب نادراکے دفتر کے باہر بکروں ‘ کتوں‘ بلیوں‘ سانڈوں وغیرہ کی لائن لگی ہوگی۔ ہر جانور کے ہاتھ میں ایک فارم ہوگا جو یقیناً17 گریڈ کے کسی بھینسے سے تصدیق شدہ ہوگا۔اندر ہال کمرے میں سب جانور‘ جانوروں کی طرح بھرے ہوں گے۔باری باری سب کا ٹوکن پکارا جائے گا ۔زنانہ جانوروں کے لیے سٹاف بھی زنانہ رکھنا پڑے گا تاکہ کوئی بکرا کسی بکری کی عزت نفس مجروح نہ کرسکے‘ ہوسکتا ہے ’’لیڈیز‘‘ کے لیے جمعہ کا دن مختص کر دیا جائے۔
یقیناًجانوروں کے شناختی کارڈ پر اُن کی تصویر بھی ہوگی اور یہ تصویرہر جانور کوانسانوں والے گھٹیا ترین ویب کیمرے سے کھنچوانی پڑے گی ۔ سب سے اہم مسئلہ جانوروں کی ولدیت کا ہوگا۔ جانور چونکہ اس حوالے سے ایک پیج پر ہیں لہذا بہترین طریقہ ہے کہ جو جس کو اپنا والد گرامی قرار دے اُس کا موقع پر ہی ڈی این اے کرلیا جائے۔لیکن ایک مسئلہ ہے‘ جس بکری یا بکرے کے ابا حضور ‘عید الاضحی پر قربان ہوچکے ہوں ‘ وہ بیچاری کیا کرے گی؟میرا خیال ہے اس حوالے سے جانورکے بیان حلفی پر اکتفا کرنا چاہیے اور زیادہ چھان بین وغیرہ کے معاملات میں نہیں پڑنا چاہیے۔
جانوروں کو اپنے شناختی کارڈ بنوانے کے لیے انسانوں والی مشکلات پیش نہیں آئیں گی۔ اُنہیں برتھ سرٹیفیکٹ نہیں دینا پڑے گا‘ میٹرک کی سند نہیں لگانی پڑے گی بلکہ شائد انگوٹھا بھی نہ لگانا پڑے۔لیکن آگے چل کرجب یہ سلسلہ پھیلے گا تو یقیناًجانوروں کی بھی بائیو میٹرک تصدیق ہوا کرے گی ۔ فی الحال تو ڈسکس کرتے ہیں کہ جانوروں کا شناختی نشان کیسے تلاش کیا جائے گا کیونکہ ضروری نہیں کہ ہر جانور کا شناختی نشان اس کے چہرے یا پیٹ پر ہی ہو۔۔۔کئی نشانات پاؤں پر بھی ہوتے ہیں!یہ مرحلہ مکمل ہوگا تودس پندرہ دن کے بعد متعلقہ جانور کو دس پندرہ دنوں بعد شناختی کارڈ جاری کردیا جائے گا۔ اب یہ معلوم نہیں کہ شناختی کارڈ جانور اپنے پاس رکھے گا یا مالک۔ میرا خیال ہے کسی کا شناختی کارڈ اپنے پاس رکھنا غلط بات ہے‘ جو چیز جس کی ہے اسی کے پاس ہونی چاہیے۔ اس مقصد کے لیے جانوروں کو ایک پاکٹ لگا دینی چاہیے جس میں ان کے اوریجنل شناختی کارڈ کے ساتھ ساتھ پانچ عدد فوٹو کاپیاں بھی رکھی ہوں ‘ کہیں بھی ضرورت پڑ سکتی ہے ۔
پھر اخباروں میں بھی کچھ اس قسم کے اشتہارات شائع ہواکریں گے’’میرا شناختی کارڈ گم ہوگیاہے ‘ جس کو ملے وہ براہ کرم لیٹر بکس میں ڈال دے‘منکو بندر۔‘‘مجھے سب سے زیادہ پریشانی اس بات کی ہے کہ انسانوں کے تو نام ہوتے ہیں‘ جانوروں کے نام والے خانے میں کیا لکھا جائے گا۔ کیا ہرشتر مرغ کا نام صرف شتر مرغ ہوگا؟ اس طرح تو بڑی کنفیوژن پیدا ہوجائے گی۔زیادہ بہتر ہے کہ ہر جانور کو ایک نام بھی دیا جائے مثلاً ببلی بلی‘ راکی کتا‘ رانی لومڑی وغیرہ۔ ویسے تو ہر جانور کے مالک نے اپنے جانور کا کوئی نہ کوئی پیار کا نام رکھا ہوا ہوتاہے لیکن یہ نام عموماً بڑے گڑبڑ والے ہوتے ہیں مثلاً میرے ایک دوست کے پاس ایک لمبا تڑنگا کتا ہے جسے وہ پیار سے ٹائیگرکہتاہے۔ ظاہری بات ہے کتے کے شناختی کارڈ پر ٹائیگر تو نہیں لکھوایا جاسکتا۔ کئی لوگوں نے اپنے جانوروں کے انسانوں والے نام بھی رکھے ہوتے ہیں مثلاً ٹومی‘ ٹونی‘ جیرا وغیرہ۔۔۔یہ نام بھی ڈسٹربنس کا باعث بن سکتے ہیں لہذا زیاد ہ بہتر یہی ہے کہ ہر جانور کی جنس کے ساتھ اس کا پن کوڈ لکھ دیا جائے یعنی ’’زرافہ 007 ‘ دریائی گھوڑا 420 ‘ زیبرا 302 ‘ہاتھی 125 ۔۔۔!!!اس طرح جانوروں کی مردم شماری میں بھی مسئلہ نہیں ہوگا اور کسی اگلے مرحلے پر ان کی حلقہ بندیوں میں بھی آسانی رہے گی۔
جانوروں کے شناختی کارڈ بننے سے یقیناًآئندہ زندگی میں اُن کے رشتے وغیرہ کرنے میں بھی آسانی رہے گی‘ دو منٹ میں پتا چل جایا کرے گا کہ کون سا جانور خاندانی ہے اور کون بہت زیادہ خاندانی۔نئی پیدائش کا ریکارڈ بھی رکھا جانے لگے گا‘ جانوروں کے بچوں کا’’ب فارم‘‘ بھی بنے گا۔۔۔لیکن کچھ جانوروں کے لیے ب فارم کافی نہیں ہوگا‘ اُن کے لیے پ‘ ت‘ ٹ ‘ ث‘ ج چ فارم بھی ہونا چاہیے۔میری تو سندھ حکومت کو تجویز ہے کہ جانوروں کے شناختی کارڈ بنانے کے ساتھ ساتھ اُنہیں نمبر پلیٹس بھی لگوائیں ۔اس کا بڑا فائدہ ہوگا‘ عام طور پر جب کسی کو کوئی کتا کاٹ کر بھاگ جاتاہے تو پتا لگانا مشکل ہوجاتاہے کہ کون سا کتا تھا۔ نمبر پلیٹ لگی ہوگی تو آسانی سے پتا چل جایا کرے گا کہ شکیل کو ’’LXN 3536 ‘‘ نے کاٹا ہے!بہرحال چونکہ ابھی بات صرف شناختی کارڈ تک محدود ہے لہذا ابھی آگے کا مشورہ دینا بے کار ہے۔شناختی کارڈ بننے کے بعد ہر جانور پاکستان کا معزز جانور تصور ہوگا۔جس جانور نے باہر کے ملک جانا ہوگا وہ پہلے اپنا پاسپورٹ بنوائے گا ۔ گائے بھینسوں کے پاسپورٹ پر خاص طور پر لکھا ہوگا’’یہ پاسپورٹ سوائے انڈیا کے دنیا کے تمام ممالک کے لیے کارآمد ہے‘‘۔ایک بار شناختی کارڈ بن جائے تو پھر پاسپورٹ بھی بن ہی جاتاہے لہذا اگلا مرحلہ ہوگا‘ ویزا لگوانے کا۔۔۔!!!
تصور کیجئے کہ گھوڑا اپنا ویزا لگوانے تھائی ایمبیسی پہنچا ہوا ہے اور کاؤنٹر پر بیٹھی ہوئی گھوڑی اُس سے پوچھ رہی ہے کہ تم تھائی لینڈکیوں جانا چاہتے ہو؟گھوڑا بے بسی سے جواب دیتا ہے کہ ’’بی بی میرا ہی تو جانا بنتا ہے‘‘۔چمپنزی امریکہ کا ویزا لگوانے پہنچا ہوگااور وجہ یہ بتائے گا کہ میں اپنے بڑے ’’بھائی‘‘ سے ملنے جارہا ہوں۔بھیڑیں خلیج کے سفر کو ترجیح دیں گی تاکہ ’’او آئی سی‘‘ کا اجلاس دیکھ سکیں۔اونٹ انگلینڈ ایمبیسی میں یقین دہانیاں کروا رہا ہوگا کہ میں اک دن لوٹ کے آؤں گا۔گینڈا شمالی کوریا جانے کے لیے تڑپ رہا ہوگا۔جانوروں کے ویزے لگنے میں اگر مشکلات پیش آئیں تو کوئی بعید نہیں کہ ’’اینیمل سمگلر‘‘ بھی وجود میں آجائیں اور جانوروں کو انسانوں کی طرح کنٹینروں میں بھر کریونان کے راستے یورپ پہنچانے کا کام شروع ہوجائے۔پھر جانور بھی یورپ اور امریکہ جانے کے لیے نئے نئے حربے اختیار کریں گے‘ پتا چلے کہ بھالو نے کینیڈا میں سیاسی پناہ کی درخواست دے دی ہے۔جانوروں کے بعد اگر سندھ حکومت پرندوں اور حشرات الارض کے بھی شناختی کارڈ جاری کردے تو یقیناًیہ ایک اورتہلکہ خیز کام ہوگا۔ مچھروں کے گلے میں اگر شناختی کارڈ لٹکا ہوا ہوگا تو ایک سیکنڈ میں پتا چل جایا کرے گا کہ یہ کل والا ہے یا نیا آیا ہے۔سانپ کو دیکھتے ہی اندازہ ہوجائے گا کہ یہ بسنے والا ہے یا ڈسنے والا۔شناختی کارڈ کے بغیر گھومنے والے مشکوک بچھو کو دیکھ کر فوراً پولیس کو اطلاع دی جاسکے گی۔سندھ حکومت کو چاہیے کہ شناخت کے اس عمل کے لیے قبلہ قائم علی شاہ صاحب کے دو ہزار سالہ تجربے سے ضرور استفادہ کرے ‘ بہت فائدہ ہوگا۔
یہ کالم اس لِنک سے لیا گیا ہے۔
“