جانوروں کا پیار ہی صرف مخلص کیوں ؟
میرا بیٹا آجکل نیویارک میں ملازمت کرتا ہے اور وہیں رہتا ہے ۔ اس نے اپنا دل بہلانے کے لیے ایک بلی رکھی ہوئ ہے ۔ کل وہ پانچ دن کے لیے چھٹیاں لے کر دوستوں کے ساتھ فلوریڈا چلا گیا ۔ بلی کو ہمارے پاس یہاں چھوڑ گیا ۔ آج صبح جب میں اُٹھا تو بلی پیار لینے کے لیے میرے بستر پر آ گئ ۔ جب میں واشنگٹن میں اپنی ایک دوست کے ساتھ رہتا تھا تو اس کے پاس دو کالے رنگ کی بلیاں تھیں ۔ وہ بھی اکثر میرے بستر پر لیٹنے آ جاتی تھیں ۔ بلی کے سونگھنے ، دیکھنے اور سننے کے حواس بہت اعلی ہیں۔ آج یہاں بہت تیز آندھی چل رہی ہے اُس کے شور سے بلی اکثر اپنے کان کھڑے کرتی ۔ اسی طرح سائے کو دیکھ کر پیچھا کرتی ۔ جانوروں سے پیار دل سے ہوتا ہے کیونکہ وہ بول تو سکتے نہیں اور استادیوں والا زہن نہیں رکھتے ۔ میں ڈینور میں ایک فیملی کا مہمان بنا ، اُن کے پاس ایک بہت خونخوار قسم کا کتا تھا ۔ گھر کی مالکہ نے کہا کہ اگر آپ دل اور روح کہ اچھے ہیں تو یہ آپ سے بہت پیار کرے گا ۔ وہی ہوا کتا میرے پاؤں میں آ کر بیٹھ گیا ۔ عورت نے کہا کہ یہ اُس کے علاوہ یہ کسی کہ قدموں میں نہیں بیٹھتا لہٰزا تم بہت پہنچے ہوئے شخص ہو ۔
کل میں نیویارک میں ہی مقیم اپنے پاکستانی دوست سے بات کر رہا تھا کہ پاکستان کا معاملہ اب DNA پر آ گیا ہے ۔ یعنی جو انتشار اور آگ وہاں پھیلی ہوئ ہے وہ ہماری جینز کا کرما ہے ۔ میں ابھی بھی اس بات سے مکمل اتفاق نہیں کرتا اور یہ اُمید رکھتا ہوں کہ ایک آدمی بھی اگر عمر بن عبدالعزیز جیسا آ گیا تو ملک کی تقدیر بدل دے گا ۔ یہ پاکستان کی عسکری قوتوں کا رقص ہے جو ہمیں لے بیٹھا ۔ ان کی کنٹرول کی خواہش نے بیڑہ غرق کر دیا اس پاک سر زمین کا۔ اب تو انہیں سرکاری بجٹ کی بھی ضرورت نہیں ، صرف فاٹا ، کراچی اور بلوچستان کا قبضہ ان کے پاس رہنے دیں ، پیسہ ہی پیسہ ۔
کل میں ایک نوجوان صحافی کو کہ رہا تھا کہ جب چوائس صرف مرنا یا مار دو پر آ جائے تو معاملات کسی کہ بھی کنٹرول میں نہیں رہتے ۔ پاکستان اب وہاں پہنچ چکا ہے ، اشرافیہ کی سیاہ کرتوتوں کی وجہ سے ملک برباد ہو گیا ۔
ارشد مرزا ہوم سیکریٹری کا سالہ جینیوا بیٹھا ہے ۔ ہم زلف کو کمشنر اسلام آباد بنوا دیا ، چیف الیکشن کمشنر اس کا رشتہ دار ۔ ڈی جی آئ ایس آئ چوہدری منیر کا رشتہ دار ۔ ثاقب نثار کی بیٹیاں اسی لُوٹ مار والی اشرافیہ کہ گھر بیاہی ہوئیں ۔ یہ سارا سلسلہ فیصل آباد کا گھنٹا گھر ہے ۔ ہر راستہ اُس طرف لے کر جاتا ہے جہاں سے عوام کا استحصال ہونا ہے ۔ فواد حسن فواد بجائے اس کہ پھانسی لگایا جاتا، نئے آنے والے افسروں کی تربیت کا انچارج بنا دیا گیا ۔ زیادہ وقت اپنے ماسٹرز شریفوں کے الیکشن سیل میں گزارتا ہے ۔ ۲۰۱۳ کے ۳۵ پنکچر کا ماسٹر مائینڈ بھی فواد حسن فواد تھا ۔ اسی نے عسکری قوتوں کے ساتھ ملکر خان کو الیکشن ہروایا۔ یہ الیکشن پیسے کا ضیاع ہے ۔ جن لوگوں کا یہ گند ڈالا ہوا ہے وہ پیچھے سے ڈوریاں ہلاتے رہیں گے ۔ کچھ چہرے تبدیل ضرور ہوں گے ۔
مجھے اس ساری صورت حال میں پھر ڈائجنیز یاد آتا ہے ۔ الف ننگا ، ایک ہاتھ میں چراغ اور دوسرے میں کتا ۔ آج زرا لمبی نظم پر ختم کرنا چاہوں گا نوجوان نسل کے نام اسرار الحق مجاز کا پیغام ۔
جوانی کی اندھیری رات ہے ظلمت کا طوفاں ہے
مری راہوں سے نورِ ماہ و انجم تک گریزاں ہے
خدا سویا ہوا ہے، اہرمن محشر بداماں ہے
مگر میں اپنی منزل کی طرف بڑھتا ہی جاتا ہوں
غم و حرماں کی یورش ہے مصائب کی گھٹائیں ہیں
جنوں کی فتنہ خیزی حُسن کی خونیں ادائیں ہیں
بڑی پرزور آندھی ہے، بڑی کافر بلائیں ہیں
مگر میں اپنی منزل کی طرف بڑھتا ہی جاتا ہوں
فضا میں موت کے تاریک سائے تھرتھراتے ہیں
ہوا کے سرد جھونکے قلب پر خنجر چلاتے ہیں
گذشتہ عشرتوں کے خواب آئینہ دکھاتے ہیں
مگر میں اپنی منزل کی طرف بڑھتا ہی جاتا ہوں
زمیں چیں بر جبیں ہے آسماں تخریب پر مائل
رفیقانِ سفر میں کوئی بسمل ہے، کوئی گھائل
تعاقب میں لٹیرے ہیں چٹانیں راہ میں حائل
مگر میں اپنی منزل کی طرف بڑھتا ہی جاتا ہوں
افق پر زندگی کے لشکرِ عظمت کا ڈیرا ہے
حوادث کے قیامت خیز طوفانوں نے گھیرا ہے
جہاں تک دیکھ سکتا ہوں اندھیرا ہی اندھیرا ہے
مگر میں اپنی منزل کی طرف بڑھتا ہی جاتا ہوں
چراغِ دیر، فانوسِ حرم، قندیلِ رہبانی
یہ سب ہیں مدتوں سے بے نیازِ نورِ عرفانی
نہ ناقوسِ برہمن ہے، نہ آہنگِ ہُدی خوانی
مگر میں اپنی منزل کی طرف بڑھتا ہی جاتا ہوں
تلاطم خیز دریا، آگ کے میدان حائل ہیں
گرجتی آندھیاں، بھپرے ہوئے طوفان حائل ہیں
تباہی کے فرشتے، جبر کے شیطان حائل ہیں
مگر میں اپنی منزل کی طرف بڑھتا ہی جاتا ہوں
فضا میں شعلہ افشاں دیوِ استبداد کا خنجر
سیاست کی سنانیں، اہلِ زر کے خونچکاں تیور
فریبِ بے خودی دیتے ہوئے بلور کے ساغر
مگر میں اپنی منزل کی طرف بڑھتا ہی جاتا ہوں
بدی پر بارشِ لطف و کرم، نیکی پہ تعزیریں
جوانی کے حسیں خوابوں کی ہیبت ناک تعبیریں
نُکیلی تیز سنگینیں ہیں، خوں آشام شمشیریں
مگر میں اپنی منزل کی طرف بڑھتا ہی جاتا ہوں
حکومت کے مظاہر جنگ کے پرہول نقشے ہیں
کُدالوں کے مقابل توپ، بندوقیں ہیں، نیزے ہیں
سلاسل، تازیانے، بیڑیاں، پھانسی کے تختے ہیں
مگر میں اپنی منزل کی طرف بڑھتا ہی جاتا ہوں
اُفق پر جنگ کا خونیں ستارہ جگمگاتا ہے
ہر اک جھونکا ہوا کا، موت کا پیغام لاتا ہے
گھٹا کی گھن گرج سے قلبِ گیتی کانپ جاتا ہے
مگر میں اپنی منزل کی طرف بڑھتا ہی جاتا ہوں
فنا کے آہنی وحشت اثر قدموں کی آہٹ ہے
دھوئیں کی بدلیاں ہیں، گولیوں کی سنسناہٹ ہے
اجل کے قہقہے ہیں، زلزلوں کی گڑگڑاہٹ ہے
مگر میں اپنی منزل کی طرف بڑھتا ہی جاتا ہوں
حوصلہ نہ ہارنا ، میرے نوجوان دوستو ، اگر حوصلہ ہار آ گئے تو یہ لوگ آپ کو کچا کھا جائیں گے ۔
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔