جنونی
جب میں وہاں سے نکلاتو میرا جسم پسینے سے شرابور تھا، شدید گرمی، ذہنی پراگندگی، دماغ کا ضرورت سے زیادہ ا ستعمال اور سب سے بڑھ کوئی ایسا کام جو آپ کو نا پسند ہو لیکن زمانے کی بھیڑ چال میں فقط اولاد کے بہتر مستقبل کے لئے کرنے نکلے ہوں تو بدن پر اترنے والی تھکاوٹ وجو د کو توڑ نے میں کوئی کسر نہیں چھوڑتی ۔ آپ جلد سے جلد ایسے کام سے جان چھڑانا چاہتے ہیں اورجب ایسا کام نپٹ جاتا ہے تو انجام کار آپ کے سر سے ڈھیروں وزن جاتا رہتا ہے۔ ایسا ہی اس معاملے میں میرے ساتھ ہوا تھا کئی راتوں کی ذہنی کشمکش اور ایک معقول رقم کے باعث ڈیل سوفیصد کامیاب رہی تھی میں نے اپنی جیب کو ٹٹول کر دستاویزات کوانگلیوں کی پوروں سے محسوس کیا اورایک گونا سکون کی لہر کو سر سے پاؤں تک بہتے پایا۔
خوشی تازہ ہوا کے جھونکے کی طرح ہوتی ہے جو انگ انگ میں اتر کر آپ کو زندہ ہونے کا احساس دلاتی ہے۔شرابور کرتی ہے اور بے حسی کا جمود توڑ کرگزر جاتی ہے۔ میں ایسی ہی انجانی لمحاتی خوشی کی کیفیت میں تیز تیز قدم اٹھا رہا تھاراہداری کا خوش رنگ مخملی قالین میرے پاؤں نیچے دبا جارہا تھا سامنے نیم روشن بلب جسے ایک حفاظتی شیشے نے ڈھانپ رکھا تھا گہرے مٹیالے رنگ کی روشنی اگل رہا تھا کام ہوجانے کے باعث میں کچھ جلدی میں تھا میں نے راہداری کو دونوں جانب سے بغور دیکھا وہاں کوئی نہیں تھا ہر طرف سکوت کا عالم تھا پھر احتیاط مگر تیز قدموں سے میں وہاں سے یوں نکلا کہ باہر وسعت میں پھیلی اور اندر بند کمروں سے امڈتی رات کی مدھم آوازوں کو بھی سن سکتا تھا۔ جانے کیوں ملاقاتی نے شہر کے اس ویران اور مضافاتی ہوٹل کو پسند کیا تھا۔خیر بات کچھ بھی ہو ملاقات نتیجہ خیز رہی تھی، اس سے قطع نظر کہ یہ ایک ایسا پرانا، تاریک ، سالخوردہ سا ہوٹل تھا جس میں عام حالات میں ،میں قدم بھی نہ رکھتا۔
میں جلدی جلدی سیڑھیاں پھلانگتا، اپنی ہی دھن میں تیزی سے نیچے اتر رہا تھا کہ کوئی تاریکی میں مجھ سے ٹکرا گیا۔ ٹکر اتنی شدید اور اچانک تھی کہ میرا سر گھوم گیا اور آنکھوں میں چنگاریاں سی پھوٹنے لگیں، کچھ ایسا ہی اس اجنبی شخص کے ساتھ بھی ہوا تھا کیوں کہ انتہائی کوشش سے سنبھالے رکھنے کے باوجودکوئی شے چھناکے سے نوارد کے ہاتھ سے پھسلی اور پھر سیڑھیوں پر تیز آواز پیدا کرتی ہوئی گر تی چلی گئی تھی ۔ گھومتے اور چکراتے ہوئے سر کے ساتھ میں نے دیکھا وہ نو انچ پھل اور تیز دھار والا ایک شکاری چاقو تھا جو نیم تاریکی میں بھی خوب چمک رہا تھا۔ چاقو جس کی دھار پر خوب محنت ہوئی تھی یقیناًپرانے وقتوں کی ایسی خوفناک یادگار تھی جسے اس دور میں یوں کھلے عام لیے پھرنا یقیناًخطرناک او ر ممنوع تھا ، تنہائی، اندھیرے اور حالات کی اچانک سنگینی نے میرے بدن میں ٹھنڈ ک کی ایک لہر دوڑا دی۔
مجھ سے ٹکرانے والا ایک بوڑھا لیکن توانا شخص تھا اس نے جھک کر چاقو اٹھا یا اور کھردری آواز میں بولا۔
’’ دیکھ کر نہیں چل سکتے‘‘
میں تو پہلے ہی ڈرا ہوا تھا اس لئے اس کے سوال کا کوئی جواب دیے بغیر میں نے وہاں سے کھسکنے ہی میں عافیت سمجھی۔ شائد بوڑھا بھی جلدی میں تھا اس لئے اس نے چاقو کو اپنے کپڑوں میں یوں چھپا لیا کہ سرسری نظر میں وہ دکھائی نہ دے اور مزید کچھ بولے بغیر اسی جانب روانہ ہو گیا جس جانب سے میں آ رہا تھا۔بوڑھے کی آنکھوں میں اترا خون میرے حواس گم کرنے کے لئے کافی تھا۔ مجھے اب وہاں کیوں ٹہرنا تھا اس لئے افراتفری میں بغیر اس بات کا خیال کیے کہ رات کا اگلا پہر شروع ہو چکا ہے میں پیدل ہی وہاں سے نکل بھاگا اگرچہ ٹیکسی ہوٹل میں بھی منگوائی جاسکتی تھی لیکن جانے کیوں مجھے لگا جیسے پیچھے ہوٹل میں کچھ ہونے جا رہا ہو اور وہاں میری موجودگی میرے لئے مشکلات کا باعث بننے جا رہی ہو۔میں نے آخری مرتبہ ہوٹل پر نظر دوڑائی، چاندنی میں وہاں عجیب سے سکوت کا راج تھا اور کوئی بھی غیر معمولی آواز میری طرف آتی ہوئی مجھے سنائی نہ دی۔
باہر ھو کا عالم تھا اور دور دور تک سٹریٹ لائٹ بند پڑیں تھیں میں آگے بڑھ کر اندھیرے میں داخل ہو گیا ، میری چھٹی حس جاگ اٹھی تھی پہلے پہل تو مجھے وہاں کچھ بھی دکھائی نہ دیا لیکن پھر چاند کی مدھم روشنی پھوٹ پڑی جس سے سڑک کے اونچے نیچے گڑھے دکھائی دینے لگے میں ان کھڈوں سے بچتا بچاتا آگے بڑھتا گیا، اس دوران ایک بھی ٹیکسی مجھے نظر نہ آئی جس پر سوار ہو کر میں وہاں ے روانہ ہو پاتا۔ وہاں ہر طرف خاموشی چھائی ہوئی تھی ایسی خا موشی جس میں رات کے حشرات کی آوازیں بخوبی سنائی دے رہی تھیں۔ تاریک آسمان پرستارے چمک رہے تھے اردگرد گھنی جھاڑیاں تاریکی کی چادر میں سے سر نکال کر جھانکتی ہوئی نظر آتی تھیں ہر طرف جیسے زندگی بکھری پڑی ہو۔ سنسان پڑی سڑک اور گردوپیش موجود ان تاریک جھاڑیوں نے مجھے پریشان کر دیا تھا ۔ لیکن اب کیا کیا جاسکتا تھا بوڑھے سے ٹکرانے کے واقعے نے مجھے ہراساں کر دیا تھا اور یوں میں ہوٹل واپسی کے بارے میں سوچ بھی نہیں سکتا تھا۔جوں جوں میں ہوٹل سے دور ہو رہا تھا خود کو محفوظ محسوس کررہا تھا۔
دور دور تک اس وقت کوئی ذی روح دکھائی نہ دے رہا تھا میں کافی دیر چلتا رہا یہ ایک ذیلی سڑک تھی جو کھیتوں اور ویران قبرستان کے سامنے سے گزر تی تھی مین روڈ اب زیادہ دور نہ تھی یہاں سے مجھے آسانی سے کوئی سواری مل سکتی تھی اس خیال سے مجھے کافی راحت محسوس ہوئی اور میں نے پہلے سے زیادہ تیز تیز قدم اٹھانے شروع کر دیے۔ سنسان رات میں درختوں کے خشک پتوں، کیڑے مکوڑوں اور جھنگروں کی آوازیں اب میرے ساتھ محو سفر تھیں جو رات کے اس پہر مجھے وہاں زندگی کیے جانے کا احساس دلا رہی تھیں ایک ایسی زندگی جو ازل سے دھرتی پر نمو پذیر تھی سانسیں لیتی، آوازیں لگاتی، لہراتی، چمکتی دمکتی زندگی جسے میرے ہونے یا نہ ہونے سے رائی کے دانے کے برابر بھی فرق نہ پڑتا تھا۔
زندگی جس سے میں بے انتہا پیار رکھتا تھا، سکول ماسڑ ہونے کے ناتے مجھے رات کے سناٹے کی یہ ساری آوازیں سکول کے بچوں کی آوازوں کی طرح میٹھی اور نمکین لگیں اورمیں گردوپیش سے یکلخت بیگانہ ہو کر کسی اور ہی دنیا میں کھو گیا اور شائد یہی میری غلطی تھی۔ جیسے ہی میں کھیتوں سے ذرا ہی دور نکلا تھا کہ مجھے پیچھے سے بھاگتے ہوئے قدموں کی آواز سنائی دی۔ میں نے بے چینی سے اپنی جیبوں کو ٹٹولا۔میری جیب میں قیمتی دستاویزات کے علاوہ محدود سی ہی رقم تھی، لیکن یہ بھی اتنی ضرر تھی کہ میں ڈاکوؤں کے ہاتھوں پٹنے سے بچا رہتامیں نے پیچھے دیکھے بغیر اپنے قدموں کو پہلے سے بھی تیزی سے اٹھا نا شروع کردیا۔چنداں بھاگتے قدموں کی آواز میرے بالکل قریب چلی آئی اتنی قریب کہ اب میں اپنے سائے کے ساتھ ساتھ ایک اور سائے کو چاندنی میں زمین پر متحرک دیکھ سکتا تھا جس کے ایک ہاتھ میں نو انچ کی خطرناک شے تھی جسے میں بخوبی پہچانتاتھااور ساتھ ہی میں ان پھولے ہوئے سانسوں کو بھی اپنی پشت پرمحسوس کر سکتا تھا جو یقیناایک لمبی دوڑ کا حاصل تھے لیکن میں نے پیچھے مڑ کر نہ دیکھا میرا دماغ تیزی سے کام کر رہا تھا اور میں آئندہ کا لائحہ عمل طے کر رہا تھا ۔ پھر مجھے اور تو کچھ نہ سوجھا میں سر پٹ بھاگ اٹھا، زندگی میں شائد ہی میں پہلے کبھی اتنی تیز بھاگا ہوں گا لیکن وہ مجھ سے تیز نکلا۔ اس نے مجھے قبرستان کے قریب جا لیا اور اس سے پہلے کہ میں بچاؤ کی کوئی اور ترکیب کرتا نو انچ لمبا چاقو میری گردن پر چبنے لگا تھا اور یوں آخر مجھے وہاں بے حس ہوکر رکنا ہی پڑا۔
صحیح بات بتاؤں تو چاقو سے زیادہ اس پر لگے سیال مائع نے مجھے پریشا ں کر دیا تھاجو یقیناًمیری گردن سے تو نہیں بہا تھا لیکن آگے کیا ہونے والا تھا اس خیال ہی سے گودہ میری ہڈیوں میں جمنے لگا۔
’’ ذرا بھی حرکت نہیں۔۔ ورنہ تم بھی۔۔۔‘‘ وہ غرایا یہ جملہ ایسا الٹی میٹم تھا جس سے میں کانپ اٹھا ۔بوڑھے کی آواز میں درندگی کی تیزاور کاٹ دار لہر موجزن تھی وہ وہاں رات کے اس پل اس تنہائی میں ایک ویران سڑک پر میرے ساتھ کچھ بھی کرسکتا تھا اور کوئی کبھی جان بھی نہ پاتا کہ وہاں ایک اکیلے شخص کے ساتھ کیا ہوا ہو گا۔
’’ تمھیں کیا چاہیے۔۔ میرے پاس زیادہ پیسے نہیں بس کچھ ہی رقم باقی بچی ہے۔۔ لیکن جو کچھ بھی موجود ہے میں تمھیں دینے کے لئے تیار ہوں ۔چاقو میری گردن سے دور ہٹاؤ‘‘ میں گھبراہٹ سے چلایا تھا۔ لیکن میری آواز کو اس لمحے جانے کیا ہو گیا تھا مجھے لگا جیسے میں کسی گہرے کنویں میں گر چکا ہوں اور ڈوبنے سے بچنے کے لئے ہاتھ پیر مار ر ہا ہوں۔
’’ رقم ۔۔۔۔۔۔وہ خونچاں لہجے میں غرایا۔ اس کی آواز لوہے کو بھی پگھلا دینے والی تھی۔
پھر اچانک میری نگاہ اس بریف کیس پر گئی جسے میں اچھی طرح پہچانتا تھا اور اسے میں پیچھے ہوٹل کے ایک کمرے میں کسی کے سپرد کر آیا تھا۔میرے تو بدن سے جان ہی نکل گئی۔ یہ یقیناًوہی بریف کیس تھا جس میں کثیر رقم موجودتھی۔۔۔ تو کیا ۔۔ تو کیا ۔۔
’’ تم نے اس کے ساتھ کیا کیا۔۔۔‘‘ میں کانپ اٹھا پہلی بار مجھے معاملے کی سنگینی کا ادراک ہوا اور ساتھ ہی چاقو پر موجود سرخ اور ثقیل مادے کی نوعیت بھی سمجھ میں آگئی۔ میں اس لمحے سخت خطرے میں تھا وہ یقیناًکوئی جنونی قاتل ہی ہوسکتا تھا کیوں کہ اگر معاملہ لوٹ مار کا یا صرف پیسوں ہی کا ہوتا تو بریف کیس میں معقول رقم پہلے سے ہی موجود تھی اس لئے وہ مجھے اس تاریک راستے پر بھاگ کر گھیرنے اور گواہ بنانے کی بجائے بریف کیس لے کررات کی تاریکی کا فائدہ اٹھا تا اور وہاں سے کب کا رفو چکر ہو چکا ہوتا۔
’’ ہاں ۔۔۔ تم نہیں جانتے پاجی لوگوں کے لئے میں نے قسم کھائی ہوئی ہے‘‘ غصے سے اس کا چہرہ لال ہو گیا۔اس نے میرے سوال کا مہمل سا جواب دینے کے بعد اردگر دیکھا اور پھر میری گردن پر چاقو کا دباؤ بڑھا کر مجھے قبرستان کی جانب دھکیلنے لگا۔
’’ مجھے مت مارو۔۔ میرے چھوٹے چھوٹے بچے ہیں۔۔ میرے پاس جو کچھ ہے سب لے لو مجھے جانے دو‘‘ میں رو دینے والی آواز میں چلا اٹھا اس نے ابھی تک مجھ سے کسی قسم کی ڈیمانڈ نہ کی تھی جس سے اس کا دماغی توازن بگڑا ہونے اور صرف اپنے جنوں کی تسکین کے لئے کسی کا خون بہانے کے خیال پر میرا یقین پختہ ہوتا جا رہا تھا اور یہ ایک ایسی بات تھی جو راہ گیروں اور راہ چلتے لوگوں کو لوٹنے والوں کی کارگزاریوں سے کہیں زیادہ خطرناک تھی ۔
’’ دیکھو میں اتنی جلدی تمھاری ہلاکت نہیں چاہتا۔۔ بشرط کہ تم وہی کرو جو میں چاہتا ہوں۔۔ زیادہ ہشیا ری دکھاؤ گے تو میں اپنے چاقو کی گارنٹی نہیں دیتا۔۔‘‘
’’ تم کیا چاہتے ہو۔۔ میرے پاس زیادہ کچھ نہیں تم تلاشی لے سکتے ہو۔۔ کچھ کا غذات ہیں جوتمھارے لئے بیکار ہی ہونگے اور بس تھوڑی سی رقم۔۔ اور میرا اندازہ ہے کہ تم کم از کم اتنی چھوٹی سی رقم کے لئے تو میرے پیچھے چاقو لئے بھاگے چلے نہ آئے ہوگے۔۔ اورجہاں تک میری یاداشت ساتھ دیتی ہے ہم ایک دوسرے کو زندگی میں پہلی بار ملے ہیں اس لئے ماضی کا کوئی تنازعہ بھی میرے گمان میں نہیں ‘‘ جب میں راستے سے ہٹ کر قبرستان میں اس جگہ پہنچ گیا جہاں چاقو کا دباؤ قابل برداشت رہ گیا تو ڈرتے ڈرتے بولا تھا میرا دماغ تیزی سے کام کر رہا تھا۔
’’ شرلاک ہومز نہ بنو‘‘ اس نے چاقو کا دباؤ پھر بڑھادیا جو اتنا بڑھا کہ میری گردن پر لہو کی بریک سی لکیر بہہ نکلی اور تکلیف سے میری آنکھوں میں آنسو اتر آئے۔جسم کانپنے لگا میں نے آنکھیں بند کیں اور دعا مانگنے لگا۔ اس کے اس مختصر سے جملے سے مجھے اندازہ ہو ا کہ جنونی ہونے کے ساتھ ساتھ وہ یقیناًتھوڑا بہت پڑھا لکھا بھی تھا۔
’’ مڑ جاؤ‘‘۔۔۔۔
میں مڑ گیا۔۔اس لمحے چاند کے سامنے آئی ہوئی بادلوں کی ٹکڑی اس سے پرے جاچکی تھی اور چاندنی میں ہم ایک دوسرے کو اب بخوبی دیکھ سکتے تھے وہ لمبے قد کا ایک غیر معمولی جثے والا ایسا انسان تھا جس کی زیادہ تر زندگی ضرور سخت قسم کی مشقت کرتے ہوئے گزری ہو گی۔ چہرہ غربت اور تنگ دستی کے انمٹ نشانوں سے چمک رہا تھا اس نے اپنا چہرہ چھپانے کی چنداں ضرورت محسوس نہ کی اس کے قبل ازوقت سفید بالوں کو، چہرے کی کرختگی، بدن کی پھرتی اور قدموں کی تیزی سے کچھ مناسبت نہ تھی۔ دائیں ہاتھ میں پکڑے چاقو کی چمک لہو کے نشانات کے باعث قدرے مدھم پڑ چکی تھی۔ لیکن اب وہ پہلے سے بھی ڈراؤنا دکھائی دینے لگا تھا۔میں نے چاقو کی دھار اور بوڑھے کی آنکھوں میں اترے خون کو بھانپ کر اردگرد بھاگنے کے لئے نظر دوڑائی لیکن جلد ہی مجھے اندازہ ہو گیا کہ وہاں سے آسانی سے راہ فرار ممکن نہیں۔
’’مجھے بتائیے اس تکلیف دہ صورت حال سے چھٹکارے کے لئے مجھے کیا کرنا ہوگا‘‘ میں سسکا
’’ جو کچھ بھی تمھارے پاس ہے سب کچھ نکال کر اس قبر پر ڈھیری کردو‘‘ اس نے حکم دیا تھا
میں نے اپنی ساری پونجی جو اس وقت میرے پاس تھی حتی کہ جیب میں موجود آخری پائی تک نکال کر اس کے سامنے ڈھیری کردی لیکن کمال ہو شیاری سے دستاویزات کو اپنے ہاتھوں میں ہی تھامے رکھا۔اس نے مجھے ماچس روشن کرنے کو کہا اور ان اشیاء کو ٹٹولنے لگا جو میں نے زمین پر ڈالی تھیں اس نے قبر پر موجود رقم کو مطلق نہ چھوا۔ جب جلتی ہوئی تیلی میری انگلیوں کو جلانے لگی تو میں نے اسے پھینک دیا اور ایسا کرتے ہوئے میں نے محسوس کیا جیسے ماچس کی مدھم روشنی میں زمین پڑی رقم کی بجائے اس کی نظریں ان دستایزات پر لگیں تھیں جو میرے ہاتھ میں تھیں۔
’’ تم نے ساری چیزیں زمین پر نہیں پھینکیں ‘‘ اس کا اشارہ واضح تھاوہ بھنا اٹھا اور گردن پر دباؤ بڑھتے ہی میری دوبارا سے چیخ نکل گئی۔
’’ دیکھو یہ نا تو کوئی ایسے کاغذات ہیں جن کی مارکیٹ میں کوئی قیمت ہے اور نہ ہی قیمتی بانڈز یا اسی طرح کی کوئی شے۔۔۔یہ تو بس۔۔۔۔‘‘ میں کہتے کہتے رک گیا
’’ بکواس نہ کرو۔۔میں سب جانتاہوں۔تمھارے پاس جو کچھ بھی ہے سب باہر نکالو ورنہ مجھ سے برا کوئی نہ ہو گا۔۔۔‘‘
’’ یہ ۔۔یہ ہم جیسوں کے لئے تو بیکار شے ہی ہے حضور۔۔۔ کاغذ کے چند ٹکڑے۔۔آپ ان کا کیا کریں گے ۔۔۔‘‘ میں نے دستاویزات بھی سامنے موجود قبر پر رکھ دیں اور اسے دیکھنے لگا اب میں وہاں سے بھاگنے کے بارے میں سوچنے لگا تھا لیکن وہ اس دوران اتنا چوکنا رہا تھا کہ مجھے اس کے جنونی ہونے پر بھی شک گزرا تھا۔ اس نے اب تک ایک معمولی موقع بھی ایسا مجھے نہ دیا کہ میں اس سے چھٹکارے کی کوشش کرسکتا۔
’’ دیکھو اگر جان عزیز ہے تو سب کچھ نیچے رکھ کر فورا قبر کے قدموں کی طرف کھسک جاؤ تا کہ میں دیکھ سکوں کہ میری مطلوبہ شے مجھے ملے گی بھی یا نہیں۔۔‘‘ میں نے اس کے کہنے پر بے چوں چراں عمل کیا لیکن میرے اندر اس کی بات نے یہاں میری پریشانی کو اور ہوا دی وہیں اندر ہی اندر تجسس نے بھی کروٹ لی۔ وہ بوڑھا جنو نی شخص آخر ان دستاویزات کے بارے میں کیا جانے اور پھروہ ان کا کرے گا بھی کیا۔۔ میرا خیال نہیں تھا کہ اس کا کوئی گھر بار بھی ہو گا کیوں کہ کئی روز کے پہنے گندے بوسیدہ کپڑوں اور خود اس کی بے ترتیب جھاڑ جھنکار کی طرح بڑھی ڈاڑھی اور سب سے بڑھ کر اس کی ناگفتہ بہ حالت نے میرے اس خیال کو کافی تقویت دی تھی۔
’’ یہ یقیناًوہی ہیں وہ کاغذات کو ماچس کی مدھم روشنی میں دیکھ کر اچھل پڑا اس کی خوشی دیدنی تھی۔۔ میرا بیٹا خوش ہوگا۔۔۔ وہ خو ش ہوگا۔۔ کیا وہ خوش ہوگا‘‘ آخری سوالیہ جملہ اس نے میری آنکھوں میں دیکھتے ہوئے کہاتھا۔ میں اس کا کیا جواب دیتا۔۔ میرے تو پلے ہی کچھ نہیں پڑ رہا تھا۔ ایک بوڑھا جو کسی کی گردن پر ابھی ابھی چاقو چلا کر آیا تھا اور پھر اس نے وہی چاقو میری گردن پر بھی رکھ چھوڑا تھا۔۔۔ایسا اس نے اپنے بیٹے کے لئے کیا تھا اور ان کاغذات کے لئے۔۔۔
’’تمھیں ان کاغذات کی کیوں ضرورت ہے‘‘
’’ مجھے نہیں شائد میرے بیٹے کو ہوگی۔۔۔ اسے ضرور ہو گی ۔۔ مجھے تو اس نے کچھ بتایا ہی نہیں۔ خود ہی خود اپنے طور پر فیصلہ کرلیا۔ میرے بارے میں تو سوچا ہی نہیں کچھ اس نے۔ کیسے اکیلا رہوں گا۔۔ کیسے جئیوں گا۔ جینے کے لئے کوئی سہارا تو چاہے ناں ۔۔۔ چاہیے ناں۔ ‘‘ اس نے چاقو مضبوطی سے تھام کر مجھے سے پوچھا تھا۔۔ میں اس کی آنکھوں میں بسیرا کیے ہوئے جذبات میں رچی وحشت ، درندگی یا بھر نمی جیسی کوئی شے دیکھ کر چپکے سے کچھ اور دور کھسک گیا تھا۔۔
’’ میں جانتا ہوں ان کاغذات کو پا کر شائد اسے اتنی خوشی نہ ہو لیکن کسی برے شخص کے انجام پر ضرور اسے راحت ہوگی۔۔ وہ خوش ہوجائے گا۔۔۔ اس نے کاغذات کو اپنی شلوار کے نیفے میں الٹے سیدھے انداز میں ٹھونستے ہوئے چاقو کی دھار پر انگلی پھیری تھی۔اسے ایسا کرتے دیکھ کر ایک بار پھر میں گھبرا گیا اور مجھے اپنی موت سامنے نظر آنے لگی عجیب سنکی بوڑھا تھا پل میں کچھ اگلے پل کچھ۔۔
’’ دیکھیے ۔۔۔‘‘ میں نے اپنی دانست میں آخری بات کہہ دی
’’ یہ کاغذات میں نے اپنی گذشتہ زندگی کی ساری جمع شدہ پونجی کا ایک بڑا حصہ خرچ کرکے حاصل کیے ہیں اور آپ جانتے ہی ہیں کہ ایک استاد کی تنخواہ سے زیادہ ہلکی اور پاک روزی کس کی ہو سکتی ہے اس لئے میں درخواست کرتا ہوں کہ اگر آپ کو یا آپ کے بیٹے کو ان دستاویزات کی ضروت ہے تو انہیں آپ یونہی رکھ لیجئے اور مجھے بس اپنے بچے کے لئے اس کی ایک عد د فوٹو کاپی دے دیجئے ہم اسی سے کام چلا لیں گے اور جاتے جاتے مجھے یہ بھی بتا دیجئے کہ اس کا کیا ہوا۔۔ اس ہوٹل والے مہمان کا جسے میں یہ بریف کیس معاوضے کی صورت دے کر آیا تھا‘‘
’’ فوٹو کاپی ۔۔۔ موت کی فوٹو کاپی مانگ رہے ہو ماسٹر۔۔۔ پڑھے لکھے ہوکر۔۔۔ ایک استاد ہو کر جس کا کام ہی ساری زندگی بچوں کو امین رہنے کا درس دینااور دیانت سیکھانا ہے۔۔ اس حرامزادے کی طرح تم بھی نہیں سمجھ رہے ہو ماسڑ۔۔۔ آخر تم جیسے سبھی بڑے۔۔۔ سامنے کی یہ سادہ سی چندباتیں بھی کیوں نہیں سمجھ پا رہے ہو۔۔ ویریو۔۔ بچوں کے لئے ان کا مستقبل ہی سب کچھ ہوتا ہے۔۔۔ زندگی موت کی بازی۔۔ بغیر انصاف کے وہ زندگی سے زیادہ موت کے قریب چلے جاتے ہیں۔ انہیں مسابقت کی دوڑ دوڑنے دو۔۔ادھر ادھر سے حرامزدگی مت کرو۔۔ انہیں آگے بڑھنے دو سب اپنے ہی ہیں کوئی بیگانہ نہیں۔۔ جو آگے نکل جاتا ہے آگے بڑھ کر اس کی پیشانی چومو۔۔اور پیچھے رہ جانے والے کا حوصلہ بڑھاؤ۔۔۔ انہیں محنت کا راستہ دکھلاؤ حرامزدگی کا نہیں۔‘‘ میں حیرت سے اس کا چہرہ دیکھتا رہ گیا وہ کون تھا۔۔۔ ہاتھ میں خون آلود چاقو پکڑے کیاکہہ رہا تھا۔۔
’’ میرے بیٹے کو شائد ان کاغذات کی ضرورت نہیں رہی۔۔ وہ یہاں سے دور چلا گیا ہے مجھ سے ناراض ہو کر ۔۔ نہیں ہم سب سے ناراض ہو کر۔۔۔‘‘
’’ اگر اسے ان کی ضرورت نہیں رہی تو۔۔۔۔‘‘ بیقراری سے بولتے ہوئے ابھی میرا جملہ مکمل بھی نہیں ہوا تھا اس نے چاقو عین میری آنکھوں کے قریب لاکر مجھے جھکنے کے لئے کہا۔۔
’’ نیچے جھکو۔۔‘‘ میں گھٹنوں کے بل جھک گیا اس نے میرے بال مٹھی میں جکڑ کر میرے سر کو قبر کے کتبے سے لگا دیا۔ جب اس نے یہ الفاظ کہے تو اس کی آواز بھرائی ہوئی تھی پھر مجھے اس کے رونے کی آواز آئی لیکن اس کی آنکھوں میں آنسو نہیں تھے میں نہیں کہہ سکتا کہ وہ سنگ دل انسان تھا یا پھر اسے اپنے آپ پر غیر معمولی ضبط تھا مگر اس کی حالت دگرگوں تھی کیونکہ میں نے ایسا درناک منظر زندگی میں پہلے کبھی نہ دیکھا تھا ۔ پھر وہ دھاڑیں مار مار کر رونے لگا۔۔رات کے اس پل ویران قبرستان میں اس کی آواز کسی بدروح کی چیخ کی مانند لگ رہی تھی اور روتے ہوئے ا س کا چاقو میرے اتنے نزدیک آگیا تھا کہ میری پلکوں کو چھونے لگا تھا۔۔ میں نے گھبراہٹ میں آنکھیں بند کرلیں۔
’’ آنکھیں کھولو ماسٹر۔۔۔ پوری طرح کھولو آنکھیں۔۔ ورنہ میں تمھارے ڈیلے نکال کریہاں ڈھیر کر دوں گا اس کے قدموں میں ابھی کے ابھی۔۔ دیکھو وہ یہاں سویا ہوا ہے۔ میرا بیٹا۔ بن ماں کا لاڈ پیارسے پالا ہو ا بیٹا۔ جوان اور فطین۔ اسے تو سارا پرچہ آتا تھا لیکن نقل نہ کروانے کی کیا اتنی بڑی سزا ۔ سبھی ملے ہوئے تھے وہاں۔ ا س نے جس لڑکے کی شکایت کی اسے کمرہ امتحان سے نکال دیا گیا ۔ جب میرا بیٹا امتحان گاہ سے باہر نکلا توظالموں نے اس کا پیٹ ایسے چاک کیا گیا کہ انتڑیاں باہر لٹک گئیں، مرنے تک بھی وہ نہیں جانتا تھا کہ اس نے کیا کیا کہ جس کی اتنی بڑی سزا ملی ۔میں نے اس کی آنکھوں میں دیکھا ، کیا مرتے ہوئے بیٹے کی آنکھوں میں دیکھنا کسی باپ کے لئے آسان ہوتاہے ۔ اس روز اس کے ساتھ سا تھ میں بھی مر گیا ۔۔ جسے تم دیکھ رہے وہ زندہ انسان نہیں بس ایک لاش ہے ۔ اسے کسی ایک لڑکے نے نہیں مارا بلکہ ہم سب برے لوگوں نے مل جل کرمارا ہے ۔ یوں اب وہ ان امتحانی پرچوں سے بے نیاز ہو چکا ہے جنہیں تم اپنے بیٹے کے لئے خرید کر لائے ہو۔۔۔ جیسے تم کسی اور کے بیٹے کی موت خرید کر لائے ہو اسی طرح کسی دوسرے نے میرے بیٹے کی موت کو خریداتھا ۔ ہم سب برے ہیں کوئی کم کوئی زیادہ ۔۔۔ میں کہتا ہوں اپنی آنکھیں کھولو۔۔ اور کھولو۔۔۔اور۔۔ اور۔۔اتنی زیادہ کھولو کہ وہ تمھیں ڈھیروں مٹی تلے دبا صاف دکھائی دینے لگے۔۔‘‘ میر ا وجود انجانے دباؤ سے کپکپانے لگا میری آنکھیں خود بخود اتنی کھل گئیں جتنی زندگی میں اس سے پہلے کبھی نہ کھلیں تھیں مجھے ڈر لگنے لگا کہ کہیں میرے باہر کو پھیلے ڈیلے اس لمحے قبر پر ہی نہ ڈھلک جائیں۔مجھے کجھ سجھائی نہ دیا کہ میں اس لمحے بوڑھے کے دکھ پر نوحہ گربنوں یا پھر اپنی حالت زار پر گریہ کروں۔
’’ وہ تمھیں نظر آیا۔۔‘‘ وہ جنجونی انداز سے چاقو کا دباؤ بڑھاتے ہوئے چلایا
’’ ہاں۔۔ ہاں ۔۔ میں اسے اب دیکھ سکتا ہوں۔۔۔ وہ تو بہت جوان اور پیارا سا ہے اور دیکھو تواس کی داڑھی تو نئی نئی پونگری ہے‘‘ میں نہیں جانتا اس جملے نے میرے اندر کہاں جنم لیا تھا ۔۔ دل میں یا میری آنکھوں سے نکلنے والے آنسوؤں میں۔ میری آنکھوں میں جانے کیوں آنسو جاری ہو گئے تھے۔۔۔ یہ نہیں کہ میں رونے لگا تھا۔۔ بس یونہی آنسو سے تھے وہاں۔۔ لا حول و لاقوۃ کیسا احمق پن تھا جس شخص کی وجہ سے میں زندگی اور موت کی کشمکش میں مبتلا تھا اس کے بیٹے کے لئے آنسو۔۔ لیکن میرا دل انجانے غم کے بوجھ سے دبا جارہا تھا اور اگر میں اس کی جگہ ہوتا تو رنج کے مارے اس دنیا کو ہی خیر باد کہہ چکا ہوتا ۔ میرے باہر کو ڈھلکے نمناک ڈیلوں میں موجود ایک جوان عکس کو باپ نے دور سے ہی دیکھ لیا اور پھر اچانک اس نے مجھے چھوڑ دیا۔ بیٹے سے بے انتہا محبت اور حالات کی ستم ظریفی نے اس لمحے بوڑھے کو بذات خود ایک زندہ لاش بنا کے رکھ چھوڑا تھا۔ پھر میرے ہاتھ سے ماچس لے کر اس نے خاموشی سے ان کاغذات کو آگ دکھائی اور مجھے وہیں زمین پرپڑا چھوڑ کر چل دیا۔ رقم سے بھرا بریف کیس میرے سامنے جلائے گئے کاغذات کی راکھ میں پڑا تھا جسے وہ یقیناًمیرے لئے چھوڑ گیا تھا۔اس کے اس عمل سے میرے بدن میں امید کی کرن نے جنم لیا جس سے میرے استعجاب کو تحریک ملی۔ اور میں کہہ اٹھا
’’اس کا کیا حشر ہوا‘‘
’’ وہی جو بالعموم ایسے پلید لوگوں کا ہوا کرتا ہے۔ اس حرامزادے کی موت تو طے تھی۔ یہاں آئے دن روزانہ دھماکوں میں ان گنت بے گناہ اور معصوم انسان مارے جاتے ہیں جنہیں کوئی پوچھنے والا نہیں ایسے میں ان کے پیچھے پیچھے چند پلید اور پاپی بھی چلے جائیں تو کیا فرق پڑتا ہے۔۔ ‘‘
پھرجاتے جاتے وہ اچانک رکا اور میری آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر دیکھنے لگا اس کی آنکھوں سے شعلے نکل رہے تھے اس کی تیز نگا ہ اندر روح تک اترتی چلی جا رہی تھی۔۔میرے چہرے پر استعجاب اور استفسار کی جھلک تھی۔
’’ سنو ماسٹر۔۔۔ تم ایک شریف انسان ہو ۔۔۔ ایک استاد۔۔۔ جاؤ اپنے حصے کا دیا جلاؤ دوست ۔ ۔۔۔ بچے کو سیدھا راستہ د یکھاؤ۔۔ اور اس جیسے سارے کے سارے حرام خوروں کو میرے چاقو کے لئے رہنے د و ‘‘ ایسا کہتے ہوئے اس کی جنونی آنکھوں میں دوبارہ سے خون اتر آیا تھا اور چاقو پر اس کی گرفت پہلے سے بھی مضبوط تر ہو گئی تھی۔۔
*****
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔