جنوبی پنجاب صوبہ محاذ نے کیا کھویا، کیا پایا؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جنوبی پنجاب صوبہ محاذ کی الگ پلیٹ فارم سے جدوجہد پہلے مرحلے پر ہی دم توڑ گئی، اس کے تمام عہدے دار اور ارکان اسمبلی پاکستان تحریک انصاف کا حصہ بن چکے ہیں۔ اس پر ہر ایک کی اپنی رائے ہوگی۔ تحریک انصاف کے حامی تو اسے تمت بالخیر (A Good End)ہی کہیں گے۔تحریک انصاف کی حریف جماعتیں ظاہر ہے اس فیصلے سے ناخوش اور برہم ہیں۔ سب سے شدید جھنجھلاہٹ اور تلملاہٹ مسلم لیگ ن کے اندر نظر آئی۔ میاں نواز شریف نے گزشتہ روز صحافیوں سے غیر رسمی گفتگو میں خاصے سخت، چبھتے ہوئے طنزیہ جملے کہے۔ دو باتیں اس میں دلچسپ تھیں۔میاں صاحب نے کہا کہ جنوبی پنجاب محاذ کے جو لوگ پی ٹی آئی میں گئے ہیں، انہیں کوئی نہیں جانتا، دوسرا انہوں نے کہا کہ یہ لوگ تو پی ٹی آئی کے ساتھ گئے ہیں، مگر عوام ہمارے ساتھ ہیں۔ دونوں باتوں سے میاں نواز شریف کا غصہ اور خفگی جھلکتی ہے۔اپنی جھنجھلاہٹ میں انہوں نے سکول کے طلبہ کی طرح کا طعنہ دیا ہے، جیسے تمہاری پینسل اچھی نہیں، میری پینسل اچھی ہے، تمہاری لکھائی خراب ہے، میری لکھائی دیکھو کتنی خوبصورت ہے….۔ جنوبی پنجاب محاذ کے چیئرمین کو اور کوئی جانے نہ جانے ،میاں نواز شریف کیسے بھلا سکتے ہیں۔ پچیس سال قبل جب غلام اسحاق خان نے ان کی اسمبلی توڑی تو نگران وزیراعظم میر بلخ شیر مزاری ہی تھے۔جنوبی پنجاب محاذ کے صدر مخدوم خسرو بختیار ہیں۔ رحیم یار خان کے حلقہ 194سے خسرو بختیار نے ن لیگ کے امیدوار کو پینتالیس ہزار ووٹوں سے شکست دی، اسی حلقے سے پیپلزپارٹی کے سینئر سیاستدان مخدوم شہاب الدین بھی امیدوار تھے۔ خسرو بختیار نے ن لیگ، پی ٹی آئی اور پیپلزپارٹی تینوں کے امیدواروں کو آزاد حیثیت سے شکست دی اور پھر بعد میں ن لیگ کا حصہ بنے۔ جنوبی پنجاب صوبہ محاذ کے ایک اہم رہنما طاہر بشیر چیمہ ہیں۔میاں صاحب ان کے حلقے میں کئی بار جلسے کر چکے ہیں۔ قاسم نون ملتان کے ایک ضمنی انتخاب میں کامیاب ہوئے، قاسم نون پارٹیاں بدلنے کے حوالے سے بدنام ہیں، مگریہ بھی اپنی جگہ حقیقت ہے کہ ن لیگ نے انہیں ٹکٹ دینے کی آفر کی اور پی ٹی آئی کی طرف جانے سے روکا، قاسم نون کی انتخابی مہم میں وزیراعلیٰ پنجاب کے صاحبزادے نے بھرپور طریقہ سے حصہ لیا اور ایک جلسہ میں اسے اپنا پگڑی بدل بھائی قرار دیا۔ سردار نصراللہ دریشک تو بزرگ سیاستدان ہیں، پچاس برسوں سے وہ سیاست میں ہیں، کئی بار رکن اسمبلی منتخب ہوچکے ہیں، سیاستدان تو ایک طرف رہے، اخبار پڑھنے والا ایک میٹرک پاس قاری بھی نصراللہ دریشک کے نام سے اچھی طرح واقف ہوگا۔
جنوبی پنجاب صوبہ محاذ کے رہنماﺅں سے برہم ہونے کا میاں صاحب کو حق ہے، مگر بہرحال انہیں یوں ایک جملے سے صفر کرنا ممکن نہیں۔الیکٹ ایبلز پر تنقید کرنے والے ہم جیسے صحافی تو اعتراض کر سکتے ہیں، مگر الیکٹ ایبلز سے پرستش کی حد تک پیار کرنے والے میاں نواز شریف کو یہ حق نہیں پہنچتا۔ انہوں نے اپنے پورے سیاسی کیرئر میںایسے الیکٹ ایبلز کو اہمیت دی،ان پر اپنے سینکڑوں نظریاتی، پرانے کارکن قربان کر ڈالے ۔اب میاں صاحب اس لئے شاکی ہیں کہ یہ گروہ پی ٹی آئی میں شامل ہوگیا ہے۔ آج لغاری خاندان کے ساتھ میاں صاحب کی گاڑھی چھن رہی ہے، اس قربت کا کیا سبب ہے؟ صرف یہی کہ کھوسہ خاندان کے دور ہوجانے کے بعد میاں صاحب کے لئے ڈی جی خان میں لغاری اہم ہوگئے ہیں اور وہ وہاں کے الیکٹ ایبل ہیں۔ اسی لغاری خاندان کے وہ خلاف رہے ہیں، سردار فاروق لغاری کے خلاف جلوس لے کر گئے اور جو تقریریں کیں، ان کے کلپس تو چینلز دکھا ہی چکے ہیں۔
میاں نواز شریف کی یہ بات بھی غیر منطقی ہے کہ یہ لیڈرعمران کے ساتھ ہیں اور عوام ہمارے ساتھ ہیں۔پاکستان میں ایک حلقہ ایسا ہے جو ہمارے روایتی طرز انتخابات پر تنقید کرتا ہے اور الیکٹ ایبلز کے حاصل کردہ ووٹوں کو بھی زیادہ اہمیت نہیں دیتا، ان کے خیال میں مقامی سطح پر طاقتور امیدوار اپنے جاگیردارانہ اثرورسوخ، تھانے کچہری کی سیاست اور ذات برادری کے زور پر ووٹ لے کر کامیاب ہوجاتے ہیں، مگر یہ حقیقی جمہوریت نہیں اور نہ ہی ایسے نمائندے عوام کے حقیقی نمائندے ہیں۔ پاکستانی میڈیا، انٹیلی جنشیا میں یہ رائے موجود ہے، مگر مسئلہ یہ ہے کہ مسلم لیگ ن ہو ، پیپلزپارٹی یا سٹیٹس کو کی حامی دیگر روایتی سیاسی جماعتیں ، وہ اس تنقیدی رائے کو ہمیشہ مسترد کرتی ہیں۔ مسلم لیگ ن اور میاں نواز شریف اس میں ہمیشہ پیش پیش رہے ہیں، انہوں نے پچھلے تیس برسوں سے الیکٹ ایبلز کے زور پر سیاست کی اور انہیں اپنا بازوئے شمشیر زن تصور کیا۔یہی وجہ ہے کہ جب 2002ءمیں جنرل پرویز مشرف کی مخالفت اور حکومتی دباﺅ کے باعث الیکٹ ایبلز مسلم لیگ ن سے دور ہوئے تو میاں صاحب کا ووٹ بنک پانی میں رکھے نمک کے ڈلے کی طرح تحلیل ہوگیا ،بمشکل درجن بھر سیٹیں مل پائیں۔اس وقت مسلم لیگ کے بعض بہی خواہ یہ سوچتے تھے کہ میاں صاحب کو دوبارہ موقعہ ملا تو وہ اپنی پارٹی کے نظریاتی رہنماﺅں کو آگے لے آئیں گے۔ افسوس کہ یہ امید پوری نہیں ہوئی اور پچھلے دس برسوں سے مسلم لیگ ن پھر الیکٹ ایبلز پر تکیہ کرتی رہی ۔ مسلم لیگی کیمپ البتہ ہوشیاری سے ہر بار یہ تاثر دیتا رہا کہ وہی دوبارہ حکومت میں آنے والے ہیں۔ اس تاثر کی بنا پر الیکٹ ایبل ساتھ جڑے رہے اور اس کے ساتھ وہ سوئنگ ووٹر جو جیتنے والے کے ساتھ رہنا پسند کرتا ہے، اس نے بھی اپنا وزن مسلم لیگ ن کے پلڑے میں ڈالا۔یہ پہلا موقعہ ہے کہ میاں نواز شریف یوں کھل کر مقتدر قوتوں پر حملہ آور ہوئے ہیں اور واضح تاثر دے رہے ہیں کہ وہ شائد دوبارہ نہ جیت پائیں اور ان کے جیل جانے کے قوی امکانات ہیں۔ مسلم لیگ ن میں توڑ پھوڑ کا ایک بڑا سبب یہ منفی تاثر بھی ہے۔ اس طویل تمہید کا مقصد یہ عرض کرنا تھا کہ حضوروالااگر الیکٹ ایبل مسلم لیگ ن کے پلیٹ فارم سے جیت جائیں تب آپ کو کوئی اعتراض نہیں اور اگر یہ کسی دوسری جماعت کا رخ کر لیں تو آپ نے انہیں فوری طور پر عوامی تائید سے محروم کر دیا۔” میٹھا میٹھا ہپ، کڑوا کڑوا تھو“ اسے ہی کہتے ہیں۔
جہاں تک جنوبی پنجاب صوبہ محاذ کے تحریک انصاف میں مدغم ہونے کا معاملہ ہے۔ ان کے بارے میں دو تین باتیں کہی جا سکتی ہیں۔ اس میں تو کوئی شک نہیں کہ یہ سب کسی نہ کسی درجے کے الیکٹ ایبل ہیں۔ ماضی میں بھی روایتی سیاست کرتے آئے ، مختلف جماعتیں تبدیل کی ہیں، آج اگر کوئی یہ سوچے کہ اچانک ہی ان کی کایاکلپ ہوگئی اور یہ انقلابی سیاستدان بن گئے ہیں تو اسے بچکانہ خوش فہمی ہی کہا جا سکتا ہے۔ انقلابی سیاست والا کوئی چکر نہیں۔ ہمارے روایتی سیاستدان ہوا کا رخ پہچانتے ہیں، انہیں اندازہ ہوجاتا ہے کہ اب کس جماعت کے حق میں عوامی سطح پر لہر چل رہی ہے۔ سیدھا سادا فارمولہ ہے کہ تیس چالیس ہزار ووٹ یہ لوگ اپنے طور پر لے سکتے ہیں ، اگر پارٹی ووٹ انہیںپچیس سے تیس، پینتیس ہزار تک مزید دلوا دے ، پارٹی کی سطح پر کچھ پرجوش ورکر، نوجوان کیڈر مل جائے تو ان کے لئے الیکشن جیتنا آسان ہوجاتا ہے۔ جنوبی پنجاب میںویسے بھی میاں نواز شریف کے لئے نرم گوشہ کم ہی رہا۔ پیپلزپارٹی یہاں اکثر نشستیں جیت لیتی تھی، ن لیگ کو صرف وہی نشستیں ملتیں، جہاںتگڑے الیکٹ ایبلز ان کے ساتھ ملے ہوتے۔ اب پیپلزپارٹی کی جگہ تحریک انصاف نے لے لی ہے۔
جنوبی پنجاب صوبہ محاذ کے اراکین اسمبلی سے زیادہ امیدیں وابستہ کرنا دانش مندی نہیں۔چند باتیں ویسے ان کے حق میں بھی کہی جا سکتی ہیں۔ ایک توان کی اکثریت مناسب قسم کے افراد پر مشتمل ہے، ان پر پارٹیاں بدلنے اور روایتی سیاست کرنے کے الزام لگ سکتے ہیں، کرپشن اور لوٹ مار میںیہ بدنام نہیں۔دوسرا ان لوگوں نے پہلی بار جنوبی پنجاب صوبہ کی بات کی ہے، ایسا نہیں ہواکہ ماضی میں یہ اس پر سیاست کرتے رہے ہوں۔ حسن ظن کی رعایت انہیںدی جا سکتی ہے۔ تیسرا یہ کہ انہوں نے لسانی بنیاد کے بجائے انتظامی بنیاد پر صوبے کی تقسیم کی بات کی ہے اور مطالبہ کرنے والوں میں سرائیکی، پنجابی دونوں مقامی آبادیاں شامل ہیں۔ پھرماضی میں سیاسی جماعتوں(پیپلزپارٹی، ن لیگ) نے جنوبی پنجاب، بہاولپور صوبے کے نعرے لگائے، جو پورے نہیں ہوئے، پہلی بار مقامی ارکان اسمبلی نے یہ نعرہ
لگایا اور جس جماعت میں شامل ہوئے، اس سے باقاعدہ معاہدہ کیا گیا، جس کی رو سے الیکشن جیتنے کے پہلے سو دنوں کے اندر جنوبی پنجاب صوبہ بنانے کے لئے عملی قدم اٹھایا جائے گا۔ ان کے پاس پی ٹی آئی میں شامل ہونے کے سوا اور آپشن بھی کیا تھی؟ ن لیگ سے یہ الگ ہوئے تھے، پیپلزپارٹی پنجاب میں اس بارموجود ہی نہیں، ن لیگ کے مقابلے میں صرف تحریک انصاف ہی کھڑی ہے۔ جنوبی پنجاب صوبہ محاذ کے اراکین کا اصل امتحان الیکشن کے بعد ہوگا۔ تب دیکھنا ہوگا کہ جیتنے کی صورت میں یہ کمٹمنٹ نبھاتے ہیں یا پھر اقتدار کے ایوانوں میں جا کر سب وعدے بھلا دیتے ہیں؟
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔