جنوبی پنجاب صوبہ کیوں بنانا چاہیے؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جنوبی پنجاب سے تعلق رکھنے والے بعض ارکان اسمبلی نے جنوبی پنجاب صوبہ تحریک چلانے کا اعلان کیا تو اس نعرے کے حوالے سے ہمارے ہاں پھر وہی بحثیں شروع ہوگئیں، جن پر برسوں پہلے لمبے چوڑے سوال جواب ہوچکے تھے۔ سچ تو یہ ہے کہ پنجاب کی تقسیم اور چھوٹے صوبے بنانے کا کیس اس قدر مضبوط ، مدلل اور ٹھوس ہے کہ اس کے خلاف دلائل دینا بچکانہ کاوش لگتی ہے۔ سادہ سے تین چار سوال ہیں۔ دنیا کے اور کتنے ممالک ہیں جہاںپنجاب جتنے یعنی گیارہ کروڑ کے لگ بھگ لوگوں پر مشتمل اکیلا صوبہ ہو ؟جواب میں بمشکل ایک آدھ مثال ہی ملے گی۔ دوسرا سوال ،دنیا کے کتنے ممالک ہیں جو پنجاب سے کم آبادی رکھتے ہیں اور وہاں صوبے بیس پچیس یا اس سے بھی زائد ہیں؟گوگل پر سرچ کر کے دیکھیں، ایک لمبی فہرست ایسے ممالک کی ملے گی۔ تیسرا سوال ہے کہ دنیا کا اور کون سا ملک ہے جس کا ایک صوبہ کل آبادی کے پچاس فیصد سے زائد پر مشتمل ہو اور اس ملک کی قومی اسمبلی کی پچپن فیصد کے قریب نشستیں اس ایک صوبے میں ہوں، جنہیں جیتنے والا آسانی سے ملک پر حکومت کرے، چاہے باقی تمام صوبے اس کے خلاف ووٹ دیں؟ اس قدرے طویل سوال کا جواب نفی میں ملے گا، یعنی دنیا میں پاکستان کے سوا ایک بھی ایسا ملک نہیں۔ اگر کوئی چاہے تو یہ سوال بھی پوچھ سکتا ہے کہ تقسیم کے وقت پنجاب کا ایک حصہ بھارت اور ایک پاکستان کو ملا،کیا بھارتی پنجاب ابھی تک متحد ہے ؟ اس کا جواب جب یہ ملے کہ بھارتی پنجاب کے تین صوبے(پنجاب، ہریانہ، ہماچل پردیش)بن چکے ہیں، تو اس پر ہمارے ہاں متحدہ پنجاب کااعتراض کرنے والے پنجابی اہل علم وقلم کی بصیرت اور دانش پر تاسف ہوگا۔
اس لئے پنجاب جتنے بڑے صوبے کو برقرار رکھنے کا تو کوئی جواز اور استدلال نہیں۔ رہی سہی کسرپنجاب کی سیاسی قیادت نے پوری کر ڈالی جنہوں نے بدترین گورننس کی انوکھی اور اچھوتی مثالیں قائم کیں۔ اس سے پہلے کبھی ایسا نہیں ہوا ہوگا کہ کسی سرائیکی ضلع کے فنڈز لاہور منگوا کر اس سے سڑکیں کشادہ کرائی جائیں ۔یہ بھی کم ہی ہوا کہ جنوبی پنجاب سے تعلق رکھنے والے ارکان اسمبلی کو پانچ برس وزیراعظم سے ملنے، ہاتھ ملانے تک کی حسرت رہ جائے، وزیراعلیٰ بھی انہیں لفٹ نہ کرائے ، صوبائی وزیر تک کے پاس معمولی سا اختیار بھی نہ ہو۔ ویسے جنوبی پنجاب کے حوالے سے پنجاب کی سیاسی اشرافیہ مجموعی طور پر ملزم ہے۔ پنجاب کی سیاسی، عسکری اور کاروباری اشرافیہ نے پچھلے ستر برسوں ، خاص کر ون یونٹ کے ٹوٹنے کے بعد کے چھیالیس، سنتالیس برسوں میں سرائیکی علاقوں کے لئے کچھ نہیں کیا۔ سنٹرل پنجاب کے غیر اہم قصبے چند ہی برسوں میں پہلے سب تحصیل، پھر تحصیل اور ضلع بن گئے۔ حافظ آباد ، ننکانہ صاحب اور منڈی بہاﺅالدین کی مثالیں سامنے ہیںجبکہ بہاولپورڈ ویژن کے تین اضلاع پچھلے ستر برسوں سے وہی تین پر کھڑے ہیں۔ احمدپورشرقیہ، خان پور، چشتیاں جیسی بڑی تحصیلیں آسانی سے اضلاع بنائے جا سکتے تھے، مگر نہیں بنائے گئے کہ کہیں مقامی لوگوں کو کچھ فائدہ نہ ہوجائے۔
سرائیکی علاقوں کی پسماندگی جانچنے کا بڑا آسان طریقہ ہے کہ پنجاب حکومت کی آفیشل رپورٹوں کے مطابق صوبے کے پندرہ پسماندہ ترین اضلاع کو دیکھ لیا جائے، تقریبا سب سرائیکی اضلاع یا نوے فیصد اس فہرست میں موجود ہیں۔ پسماندگی میں تعلیم، صحت، فی کس آمدنی،صاف پانی، معذروںکی تعداد، پیدائش کے وقت بچوںکی اموات وغیرہ اور دیگر سوشل سیکٹر انڈیکٹرز کو دیکھا جاتا ہے ۔ سرائیکی وسیب یا جنوبی پنجاب کے اضلاع کا پسماندہ رہ جانا دراصل تخت لاہور یعنی لاہور کی سیاسی اشرافیہ کا قصور ہے ۔ اس میں ملٹری اسٹیبلشمنٹ کو بھی ذمہ دار سمجھنا چاہیے ۔ انہوں نے ہمیشہ سٹیٹس کو کی حمایت کی اور نئے صوبے نہیں بننے دئیے ۔پنجاب کی سول، ملٹری اشرافیہ کی ذمہ داری تھی کہ صوبے کے فنڈز کو ترجیحی بنیادوں پر پسماندہ علاقوں میں صرف کر کے انہیں ترقی یافتہ علاقوں کے برابر لایا جاتا۔ ایسا نہیں کیا گیا۔ میاں شہباز شریف نے اپنی ذہنی استعداد کے مطابق ایک عجیب وغریب کام کیا۔ انہوںنے ملتان میں ساٹھ ستر ارب روپے خرچ کر کے میٹرو بس سروس شروع کر دی جو پہلے دن سے ناکام ہے ۔ ملتان شہر کی مقامی صورتحال، ضروریات، مسائل کو دیکھے بغیر صرف باہر کے لوگوں کو متاثر کرنے کے لئے میٹرو بس جیسا میگا پراجیکٹ شروع کرنا بدترین گورننس کی روشن مثال ہے۔ ہونا یہ چاہیے تھا کہ وہاں نشتر جیسا دوسرا ہسپتال جس کے ساتھ میڈیکل کالج بھی ہوتا، بنایا جاتا، شہر میں صاف پانی کے منصوبے، سیوریج اور دیگر سوشل سیکٹرز پر رقم خرچ کی جاتی۔ بلکہ زیادہ بہتر تو یہ ہوتا کہ میٹرو کے پیسے صرف ایک شہر میں کھپانے کے بجائے انہیں جنوبی پنجاب کے مختلف شہروں پر خرچ کیا جاتا، اس سے کئی شہروں کی تقدیر بدل جاتی۔ یہ بات خادم پنجاب کو بتائی گئی ، مگر وہ اپنی” اساطیری فراست“ کے زعم میں انگلی ہلاتے ہوئے ان تمام تجاویز کو مسترد کر تے گئے ۔ اب پچھتاتے ہوں گے، مگر کیا فائدہ ؟
ایک عام اعتراض میرے جیسے لاہور میں رہنے والے سرائیکیوں کو عام سننے میں ملتا ہے کہ اگر سرائیکی یا جنوبی پنجاب صوبہ بن گیا تو آپ جاگیرداروں کے چنگل میں پھنس جائیں گے۔ میرا جواب یہی ہوتا ہے ماضی اور حال میں وہاں سے کون منتخب ہوتا ہے؟کیایہ اعتراض کرنے والے دانشوروں کے پاس سرائیکیوں کے لئے ایسا کوئی انقلابی منصوبہ ہے، جس کی رو سے وہاں زرعی اصلاحات ہوں گی اور جاگیرداروں، مخدوموں، سرداروں کی قوت توڑ دی جائے گی؟ اگر ایسا کوئی پلان ہے تو ٹھیک ہے سرائیکی مزید رک جاتے ہیں، آپ پانچ سال کا منصوبہ بنائیں،جس میں سرائیکی علاقوں میں طاقتور خاندانوں کی طاقت توڑنے اور عام آدمی کے اوپر آنے کی راہ ہموار کی جائے گی۔ایسا تو کچھ بھی نہیں ہورہا۔ پچاس سال سے یہی ہو رہا ہے، یہی اعتراض وارد کر دیا جاتا ہے۔ اب تو تنگ آ کر جنوبی پنجاب کے لوگ کہتے ہیں کہ بھائی ہمارے زیادہ ہمدرد نہ ہی بنوکہ اردومحاورہ ہے ماں سے زیادہ چاہے، پھاپھا کٹنی کہلائے ۔
اصل میں لاہور، پنڈی، فیصل آباد ، گوجرانوالہ میں بیٹھے لوگوں کواندازہ ہی نہیں کہ نیا صوبہ بننے سے آٹو میٹک قسم کا کتنا فائدہ عام آدمی کو پہنچ جاتا ہے۔ بے شمار ملازمتیں نکلتی ہیں، اعلیٰ تعلیم کے مواقع، ترقیاتی فنڈز میں کئی گنا اضافہ ، کچھ کھا لیا جائے ،مگر کچھ تو خرچ بھی ہوگا۔ ایک مثال یہ سمجھ لیں کہ اس وقت جنوبی پنجاب میں تین میڈیکل کالج(ملتان، بہاولپور، رحیم یار خان) میں ہیں، چوتھا ڈی جی خان والا سمجھ لیں۔ اگر نیا صوبہ بنا تو ایک آدھ نیا میڈیکل کالج ملتان میں کھل جائے گا۔ ان میڈیکل کالجوں میں ہر سال کم از کم پانچ چھ سو ڈاکٹر بنیں گے۔ اس وقت پنجاب کے کل ڈاکٹرز میں سے جنوبی پنجاب کے ڈاکٹروں کی تعداد بمشکل سو سوا سو ہوگی۔ جنوبی پنجاب صوبہ بنا تو پانچ برسوں میں ڈھائی، تین ہزار مقامی ڈاکٹرز ہوں گے۔ جبکہ متحد پنجاب میں بیس سال تک جنوبی پنجاب کے اتنے ڈاکٹر نہیں بن سکتے۔ اسی طرح مقامی طلبہ انجینئر، ٹیکسٹائل انجینئر، زرعی ماہر، سافٹ ویئر ڈویلپروغیرہ بن سکیں گے۔ جنوبی پنجاب میں کوئی نالائق اور کرپٹ وزیراعلیٰ بن گیا، تب بھی یہ تمام فوائد مقامی آبادی کو ملتے رہیں گے۔ سب سے بڑا فائدہ یہ ہوگا کہ اس وقت وہاں کے ارکان اسمبلی تمام تر ملبہ تخت لاہور یعنی لاہور کی سیاسی اشرافیہ، بیوروکریسی پر ڈال دیتے ہیں ۔ الگ صوبہ ہونے کی صورت میں ان کا یہ عذر نہیں چل پائے گا اور ان کا محاسبہ کرنا آسان ہوجائے گا۔
ہمارے ہاں چھوٹے صوبے بنانے کا کیس بھی مضبوط ہے، مختلف دانشور اس حوالے سے تجاویز دیتے رہے ہیں، پانچ، چھ، نو صوبوں بنانے کے مشورے اور باقاعدہ پلان دئیے جاتے رہے ہیں۔ سرائیکی وسیب یا جنوبی پنجاب کے عوام ایسی ہر تجویز کو شک کی نظر سے دیکھتے ہیں۔ انہیں یہی خیال آتا ہے کہ اتنے سارے صوبے بنانے کی بات کرنا دراصل ان کے صوبے کے مطالبے کو سبوتاژ کرنے کے برابر ہے۔ بھائی ، پہلے ایک نیا صوبہ تو بن جانے دو، پھر اس ماڈل کو آگے بڑھاتے ہوئے مزید صوبے بھی بنا لینا، ابھی اتنے سارے پنگے کرنا یا پنجابی محاورے کے مطابق اتنے کٹے کھول لینا تو نئے فتنے جگانے کے برابر ہے۔ یہ وہی بات ہے کہ احتساب تو ضرور کیا جائے، مگر سن سنتالیس سے ایسا ہو۔ یہ بات کہنے والے خود بھی جانتے ہیں کہ ایسا ہو نہیں سکتا، نہ نو من تیل ہوگا نہ رادھا ناچے گی۔ اس کے برعکس متوازن بات یہ ہے کہ پہلے جو فزیبل ہے ، اس کے لئے مطالبہ، حمایت بھی موجود ہے اور استدلال بھی کہ صوبائی دارالحکومت سے دوری اور پسماندگی کی بنا پر جنوبی پنجاب کو الگ صوبہ بنایا جائے۔ ذاتی طور پر میں سرائیکی صوبہ کا بھی حامی ہوں۔ آئیڈیلی توصرف پاکستانی قومیت کی بات کرنی چاہیے، لیکن جب سندھی، بلوچی، پشتون اور پنجابی قومیت کی بات ہوگی تو سرائیکی کوئی بانجھ قوم نہیں۔ چار کروڑ سرائیکی اپنا الگ کلچر، زبان، ادب ، علیحدہ خطہ رکھتے ہیں۔ اس کے باوجود میرے خیال میں زبان کی بنیاد پر الگ صوبہ بنانے کے بجائے انتظامی بنیاد پر صوبہ بنایا جائے تاکہ کسی قسم کے لسانی کشیدگی پیدا نہ ہو۔اس سے نفرت بھی نہیں پھیلے گی اور گورننس کے مسائل بھی بہتر طریقے سے حل ہوپائیں گے۔
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔