امن کتابوں کا بستہ کندھے پر ڈال کر اسکول کی جانب نکل پڑا۔بس اسٹاپ پر پہنچ کر وہ دوسرے ہم مکتب ساتھیوں کی ٹولی میں شامل ہوکر بس کا انتظار کرنے لگا۔انتظار کا وقت کاٹنے کے دوران بچے آپس میں ٹھٹھے بازی کرنے میں مشغول تھے۔ بس اسٹاپ پر دوسرے لوگ بھی موجود تھے ‘جن میں سرکاری ملازمین‘دکاندار‘مزدور اور دینی مدرسوں کے طالب علم وغیرہ بھی شامل تھے۔بس اسٹاپ پر توسبھی لوگ ہوتے تھے لیکن عام طور پر دینی مدرسوں میں زیر تعلیم بچے اورفوجی اسکول کے بچوں کی ٹولیاں الگ الگ ہوتی تھیں۔ چونکہ امن کا والد بھی ایک فوجی افسر تھا اس لئے امن اور اس کا چھوٹا بھائی بھی شہر کے آرمی اسکول میں زیر تعلیم تھے۔بس اسٹاپ پر دونوں ٹولیوں کے درمیان تھوڑا سا فاصلہ قائم رہتا تھا۔ اس کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ دوسرے بچوں کے بدلے آرمی اسکول کے بچے اسکول کی مخصوص گاڑی میں ہی اسکول جایا کرتے تھے۔آرمی اسکول کے بچے تو بلا تکّلف آپس میں ہنسی مذاق کرتے رہتے اور جب ان کے ہنسنے کی آوازیں دوسرے لوگوں کے کانوں سے ٹکراتی تھیں توپتہ نہیں مدرسے کے بچے ہی ان کے چہروں کوکیوں حریفانہ نظروں سے تاکتے رہتے ۔بس اسٹاپ پر یہ سلسلہ کئی برسوں سے جاری تھا۔دینی مدرسے والے طلبہ میں پندراں سولہ برس کاایک لڑکا بھی تھا جو امن کا ہمسایہ بھی تھا اوردوست بھی۔اکثر یہ دونوں گھر سے بس اسٹاپ تک ساتھ ساتھ چلتے چلتے ایک دوسرے کے اسکول کے بارے میں باتیں کرتے رہتے تھے۔دینی مدرسے کا طالب علم سفید قمیض شلواراور سر پر ٹوپی پہنے ہوئے ہوتا تھا اور امن گلے میں ٹائی لگا کر فوجی ڈریس میں ہوتا تھا۔ہم عمر ہونے کی وجہ سے دونوں آپس میں ایک دوسرے کے لباس اور پڑھائی پر بلا تکلف بحث و تکرار کرتے رہتے ۔ایک دن دینی مدرسے کاطالب علم اپنی تعلیم پر فخر کرتے ہوئے کہنے لگا:
’’میں دین کی تعلیم پڑھتا ہوں اور جو دین کی تعلیم پڑھتے ہیں وہ جنت میں چلے جائینگے۔‘‘
’’اور جو انگریزی کی تعلیم پڑھتے ہیں۔‘‘امن تھوڑا سا مرعوب ہوکر پوچھ بیٹھا.’’ کیاوہ جنت میں
نہیں جائینگے؟‘‘
’’نہیں‘ہرگز نہیں۔‘‘مدرسے والے لڑکے نے بڑی اکڑ کے ساتھ جواب دیا.’’کیونکہ ہمارے
استادمحترم فرماتے ہیں کہ باقی سب علم شیطانی علم ہے جو انگریز اور یہودی پھیلاتے ہیں۔‘‘
’’لیکن اگر ہم سائینس نہیں پڑھیں گے تو ڈاکٹر کیسے بنیں گے؟‘‘امن اپنی تعلیم کی اہمیت جتلانے
لگا.’’اور میں اپنے ملک کی حفاظت کیسے کروں گا کیونکہ مجھے تو آرمی افسر بنناہے۔‘‘
’’تجھے جو بننا ہے وہ بن جا.‘‘مدرسے کا لڑکاجیب سے سرخ رنگ کی چابی نکال کر انگلی میں گھماتے
ہوئے کہنے لگا.’’میں تو تمہیں جنت میں جانے کا سبق سمجھا رہا ہوں کیونکہ تم میرے دوست ہو۔‘‘
’’تمہارے پاس تو بڑی خوب صورت چابی ہے۔‘‘امن تھوڑی دیر خاموش رہنے کے بعد پوچھ
بیٹھا۔
’’ذرا میں بھی تو دیکھوں…!‘‘
’’دیکھ لو‘پر تم اسے دیکھ کر کیا کرو گے۔‘‘لڑکا چابی اس کی طرف پھینکتے ہوئے بول پڑا۔’’یہ شیروں
کے کام آتی ہے اور تمہیں تولومڑی بن کر انگریزوں کی تعلیم پڑھنی ہے۔‘‘
’’ارے ‘اس پر تو جنت کی چابی لکھا ہوا ہے.‘‘امن چابی کو حیرانی سے تکتے ہوئے بول پڑا.
’’ہاں ‘یہ جنت کی چابی ہے۔‘‘لڑکا سر ہلا کر کہنے لگا.’’پر ‘یہ انگریزی پڑھنے سے نہیں ملتی ہے۔‘‘
’’تو پھر۔۔۔۔!‘‘امن تھوڑا سوچ کر پوچھنے لگا۔’’یہ کس کو ملتی ہے؟‘‘
’’اسی کو جو دینی تعلیم پڑھتا ہے.‘‘لڑکا چابی وآپس لیتے ہوئے بول پڑا.
’’مجھے بھی ایسی ہی چابی دے دو تاکہ مجھے بھی جنت ملے۔‘‘
’’اس کے لئے تمہیں انگریزی اسکول چھوڑ کر مدرسے میں پڑھنا پڑے گا۔‘‘
’’مگر میرے گھر والے مجھے کہاں مدرسے میں چھوڑیں گے۔‘‘
’’تم خود ہی مدرسے میں چلے آو۔‘‘لڑکا اسے سمجھانے لگا۔’’تعلیم تو تجھے حاصل کرنی ہی ہے
کیوں نہ وہ تعلیم پڑھو جو تجھے جنت میں لے جائے گی۔‘‘
امن دن بھر جنت کی چابی کے بارے میں سوچتا رہا ۔اس کے ذہن میں عجیب طرح کے خیالات گردش کررہے تھے ۔ انگریزی کتابوں کو دیکھتے ہی اس کے اندر نفرت سی پیدا ہورہی تھی۔اسکول سے چھٹی ہونے کے بعد وہ جب گھر وآپس لوٹا تو وہ اور زیادہ بے چین سا ہوگیا۔وہ رات بھر جنت کے خواب دیکھتا رہا۔صبح اسکول جاتے ہوئے اسے پھرمدرسے والا دوست مل گیا ۔باتوں باتوں میں امن اسے کہنے لگا کہ وہ بھی آج سے مدرسے میں پڑھنے کے لئے آئیگا۔
’’وہ تو ٹھیک ہے‘مدرسے میں میں تجھے داخلہ دلوادونگا۔‘‘دوست اسے پوچھنے لگا۔’’لیکن کیا
تمہارے گھر والے اس کے لئے تیارہونگے؟‘‘
’’جب انہیں معلوم پڑیگا تو میں انہیں بتا دونگا کہ میں دینی تعلیم ہی پڑھونگا نہ کہ انگریزی تعلیم۔‘‘
امن کا جواب سن کر وہ اسے اپنے ساتھ مدرسے میں لے کر گیا۔استاد جب کلاس روم میں پڑھانے کے لئے آیا تو فوجی وردی میں ملبوس امن پر نظر پڑھتے ہی وہ حیران ہو کرطلبہ سے پوچھنے لگا کہ آرمی وردی میں یہ نیا لڑکا کون ہے؟امن کچھ کہنے سے ہچکچانے لگالیکن اس کے دوست نے استا د کی حیرانی کو یہ کہہ کر دور کردیا کہ مولوی صاحب یہ دینی تعلیم پڑھنا چاہتا ہے۔یہ سن کر مولوی صاحب نے سبق پڑھانا شروع کردیا۔امن دو تین دن تک مدرسے میں پڑھتا رہا ۔ ایک شام جب وہ گھر وآپس آیا تو ماں نے اس کے منہ پرایک تھپڑ رسید کرتے ہوئے پوچھا کہ تو کتنے دنوں سے اسکول نہیں گیا ہے‘دن بھر کہاں آوارہ گھومتا پھرتا ہے؟تھپڑ پڑتے ہی اس کو غصہ چڑھ گیااور وہ صاٖف صاف کہہ اٹھا کہ وہ صرف دینی تعلیم ہی پڑھے گا۔ماں چند دنوں تک اسے سمجھاتی رہی لیکن تھک ہار کر اس نے اپنے شوہر کو فون پر سب کچھ بتا دیا۔اس کافوجی شوہر یہ سن کرپریشان ہوگیا اور وہ امن کو فون پر بلا کر پوچھنے لگا۔
’’تم اپنااسکول چھوڑ کر مدرسے میں کیوں چلا گیا ہے؟‘‘
’’میں دینی تعلیم پڑھنا چاہتاہوں۔‘‘ڈر کی وجہ سے وہ دھیمی آواز میں بول پڑا.’’تاکہ مجھے جنت
ملے۔‘‘
اس کا والد یہ سن کر حیران ہوا۔اس کی سمجھ میں تھوڑاتھوڑا کچھ آنے لگا کہ شاید امن کو کسی نے غلط گائیڈنس کی ہے‘کیونکہ ملک کے حالات خراب ہیں اور کچھ لوگ ذاتی مفاد کی خاطراسلام کی سچی تعلیم کو غلط رنگ میں پیش کرتے ہوئے نوجوانوں کو بگاڑرہے ہیں۔وہ امن کو سمجھانے لگا :
’’بیٹا‘تو جس اسکول میں پڑھتا ہے وہاں سے پڑھ لیکھ کر افسر بن جائیگا اور اپنے ملک کی سچی
خدمت اورحفاظت کرکے بھی جنت کما سکتاہے۔‘‘
’’نہیں ‘وہاں انگریزوں کی تعلیم پڑھائی جاتی ہے اور انگریز مسلمانوں کے دشمن ہیں۔‘‘امن
جذباتی لہجے میں بول پڑا۔
فوجی افسر یہ سن کر ہکابکا رہ گیا۔ وہ سخت پریشان ہوگیا۔اب وہ سخت لہجہ اختیار کر کے امن کو دھمکی بھری آواز میں سمجھانے لگا:
’’یہ کن لوگوں کے بہکاوے میں آکرتو خود کے ساتھ ساتھ اپنی. قوم کوبھی تباہ کرنے جارہا ہے۔ان
مفادپرستوں نے تو اسلام کے نام پرغیراسلامی کام کرتے ہوئے ساری دنیاکو پریشان کر رکھا ہے.
اچھاٹھیک ہے‘ میں ایک ہفتے کے بعد گھر آکر تجھے خود سمجھا دونگا۔‘‘
ایک ہفتہ گزر جانے کے بعد جب فوجی افسر چھٹی پر گھر وآپس آیا تو گھر کاماتمی ماحول دیکھ کر اس کے اوسان خطا ہوگئے۔معلوم کرنے پر پتہ چلا کہ امن پچھلے پانچ دنوں سے لاپتہ ہے۔نہ مدرسہ والوں کو کچھ خبر ہے اور نہ ہی پولیس کچھ پتہ معلوم کر سکی۔امن کے والد نے بھی بہت دنوں تک اسے ڈھونڈنے کی بے حد کوشش کی اور آخر کار مایوس ہوکر وہ ڈیوٹی پر روانہ ہوگیا۔
ملک کے حالات دن بہ دن زیادہ خراب ہورہے تھے۔ہر روز کہیں نہ کہیں سے خون خرابے اور خود کش حملوں کی دل دوز خبریں آرہی تھیں ۔ آے روز درجنوں معصوم انسان موت کا نوالہ بن رہے تھے۔پولیس اور فوج بڑی جانفشانی سے موت کے سوداگروں کا مقابلہ کررہے تھے اور یہ بزدل سوداگر اپنی خفت مٹانے کے لئے عام شہریوں اور اسکولی بچوں کواپنی وحشیانہ حرکت کا نشانہ بنا رہے تھے۔امن اپنے دوست کے ساتھ کئی مدرسوں میں داخلہ لیتا رہالیکن تین چار مہینے گزر جانے کے بعد ا س نے ایک دن اپنے دوست سے کہا کہ ان مدرسوں میں تو صرف قرآن کی تعلیم پڑھائی جاتی ہے اور دین کی دوسری باتیں مثلاََ نماز ‘روزہ اور حج وغیرہ کی ہی تعلیم دی جاتی ہے۔یہ تعلیم تو مجھے اپنا مولوی صاحب اپنے گھر پر بھی پڑھاتا تھا۔تمہاری وہ جنت والی چابی تو کہیں پر بھی ان مدرسوں میں نظر نہیں آرہی ہے۔اس کا دوست یہ سن کر ہنسنے لگا اور اس کے کاندھے پر ہاتھ رکھ کر کہنے لگا کہ جنت کی چابی ان مدرسوں میں کہاں ملے گی‘یہاں تو امن کی تعلیم ہی دی جاتی ہے ،ان مدرسوں میں اتنے دن گزارنے سے ایک ہی فائیدہ ہوسکتا ہے وہ یہ کہ جب ہم جنت والی چابی کے لوگوں کو یہ بتا دئینگے کہ ہم لوگوں نے اتنے مدرسوں میں دینی تعلیم حاصل کی ہے تو وہ ہمیں بلا تردّد اپنے گروپ میں شامل کریں گے۔انہیں اس بات سے کوئی دلچسپی نہیں ہوتی ہے کہ کس نے کتنا دین سمجھ رکھا ہے۔امن یہ سن کر پوچھنے لگا کہ وہ تو ٹھیک ہے مگر ہم کب اُن کے ساتھ شامل ہوجا ئینگے ۔بس ایک مہینے کی بات ہے ۔میں نے ایک جان پہچان والے سے بات کی ہے وہ کہہ رہا تھا کہ اسی مہینے ان لوگوں کا ایک اجلاس ہونے والا ہے‘اسی دن ہم ان کے ساتھ شامل ہوجائینگے۔فی الحال ہمیں اسی مدرسے میں ٹھہرنا پڑے گا لیکن یہاں کسی سے بھی اس بارے میں کوئی بات مت کرنانہیں تو مدرسے والے ہمیں یہاں سے نکال دیں گے۔بیس پچیس دن گزرجانے کے بعدیہ دونوں اجلاس میں شامل ہوگے۔ان سے پوچھ تاچھ کے بعد انہیں ٹریننگ کیمپ میں بھیج دیا گیا۔ٹریننگ کیمپ ایک ویران گھاٹی میں قائم تھا۔وہاں پر جدید مواصلاتی نظام کے ساتھ ساتھ ہر قسم کے ہتھیار موجود تھے۔وہاں پر بہت سارے نوجوان تربیت حاصل کررہے تھے اور ان لوگوں کی ذہن سازی کے لئے مرنے مارنے کی فلمیں بھی دکھائی جاتی تھیں اور جہاد کے نام پر جوشیلی تقریریں بھی کی جاتی تھیں۔نئے افراد کی ذہن سازی کے بعد انہیں ہتھیار چلانے کی تربیت دی جاتی تھی۔کئی مہینوں کی ٹریننگ کے بعد ایک دن ایک آدمی نوجوانوں کے سامنے کھڑا ہوگیا۔ اس کے ارد گرد کئی ہتھیار بند آدمی موجود تھے۔ہر ایک انہیں امیر صاحب کہتا تھا۔وہ پچاس پچپن کی عمر کا معلوم ہوتا تھا۔وہ بڑی سنجیدگی کے ساتھ مائیک پر تقریر کرتے ہوئے آہستہ آہستہ جوشیلے انداز میں کہنے لگا:
’’ہمارے جانباز نوجوانوں!ہمارا دین ہمیں بہادری کی تعلیم دیتا ہے ‘اور بہادر وہی ہوتا ہے جو
جہاد کے راستے پر نکلتا ہے۔ آپ لوگوں نے بھی جہاد کا راستہ پسند کیا ہے‘جو سیدھا جنت کا راستہ
ہیں۔ہمیں امید ہے کہ آپ ان کافروں اور ان کا ساتھ دینے والوں ‘جو خود کو مسلمان بھی کہتے
ہیں‘ کا نام و نشان مٹا دو گے۔‘‘
امیر صاحب کی جوشیلی تقریر سے نوجوانوں کے جذبات بھڑک اٹھے اور ہر طرف سے ’’امیر صاحب زندہ باد‘‘اور ’’ سبیلنا‘سبیلنا.. . الجہاد الجہاد‘‘کے نعرؤں سے ساری گھاٹی گونجنے لگی۔نعرے سن کر امیر صاحب کا سینہ خوشی سے چوڑا ہوگیا۔ اپنی تقریر جاری رکھتے ہوئے اس نے سرخ رنگ چابیوں کا ایک گُچھااپنی جیب سے نکالااور زور دار آواز میں کہنے لگا :
’’یہ جنت کی چابیاں ہیں‘آپ میں سے جو بھی جلدی جلدی جنت میں جانا چاہتاہے وہ چابی
لیکرجنت میں جانے کی تیاری کرے تاکہ وہاں پہنچ کر اپنی چابی سے جنت کا دروازہ کھولے۔‘‘
بہت سارے نوجوانوں کے ساتھ ساتھ امن بھی امیر صاحب کے ہاتھ سے چابی لینے میں کامیاب ہوگیا۔ امیرصاحب چابیاں بانٹ کردوبارہ ان لوگوں سے مخاطب ہوا کہ کل ہم لوگوں کو ایک بڑا کارنامہ انجام دینا ہے جس کے لئے ہمیں پانچ مجاہدین کی ضرورت ہیں۔یہ سن کر دوسرے افراد کے ساتھ ساتھ امن کا دوست بھی کھڑا ہوگیا اور انہیں سامنے کھڑی گاڑی میں بٹھا کرلے جایا گیا۔
دوسرے روزامیر صاحب پھر سے مائیک پر نمودار ہوگئے اور دوران تقریر انہیں سیٹ پر مسیج موصول ہوئی کہ ہمارا مشن کامیاب ہوگیا۔فوجی گاڑی مکمل طورپرتباہ ہوگئی ‘ بہت سارے دشمن واصل جہنم ہوگئے اور ہمارے سبھی مجاہدین شہید ہوگئے۔امیرصاحب مائیک پر بڑے فخر سے ابھی کامیابی کی یہ خوش خبری سنا ہی رہے تھے کہ سیٹ پر ایک اور مسیج آئی:
’’امیر محترم ‘انکاونٹر کے دوران بازار میں دوسرے سویلین کے ساتھ ساتھ آپ کا نوجوان بیٹا بھی
شہیدہوگیا ہے۔‘‘
یہ خبر سنتے ہی امیر صاحب کا چہرہ زرد پڑگیا اور وہ حواس باختہ ہو کر چلانے لگا :
’’ائے خدا ‘مجھ پر یہ کونساقہر ٹوٹ پڑا‘یہ میرے کن گناہوں کی سزا ہے۔میرے معصوم بیٹے
نے کسی کا کیا بگاڑا تھا ۔‘‘
امیرصاحب کو چند لوگوں نے تھام کر کرسی پر بٹھادیا اور ایک نوجوان مائیک سنبھال کر پرُجوش تقریر کرتے ہوئے کہنے لگا:
’’ہم دشمن کے دباو میں نہیں آنے والے ہیں۔انہوں نے اگر ہمارے امیر صاحب کے ایک
بے گناہ بیٹے کو شہید کر دیا ہے تو ہم کل ہی ان سے اس کا خوفناک بدلہ لینگے کیونکہ ہم سب امیر
صاحب کے بیٹے ہیں۔‘‘
ہر طرف سے امیر صاحب زندہ باد کے نعرے بلند ہوئے۔ایک دو گھنٹے کے بعد امن کو میٹنگ میں بلایا گیا۔وہاں پر اسے کل کے مشن کے بارے میں پوری تفصیلات دی گئی۔امن بڑے جذباتی انداز میں یہ کہتے ہوئے وہاں سے رخصت ہوگیا کہ وہ کل ہی یہ خود کش حملہ کرکے دشمنوں سے امیر صاحب کے بیٹے کا بدلہ لے گا۔امن عشاء کی نماز پڑھنے کے بعد ’’جہاد کیسے کریں ‘‘نامی کتاب کا مطالعہ کرنے لگا۔ایک جگہ پہنچ کر وہ تھوڑا ٹھہر کرکچھ سوچنے لگا کیونکہ وہاں پر لکھا ہوا تھا:
’’ اسلام میں کسی بے گناہ کا قتل کرنا تمام انسانیت کا قتل کرنے کے برابر ہے۔‘‘
وہ تھوڑا بہت غور کرنے کے بعدبس اسی نتیجے پر پہنچا کہ امیر صاحب مجھ سے زیادہ جانتے ہیں اس لئے مجھے یہ کام کرکے جنت میں ضرور جاناہے۔صبح سویرے اسے کیمپ سے نکال کر گاڑی میں بیٹھایا گیا۔گاڑی روانہ ہوگئی۔سفر کے دوران امن کے دماغ میں صرف جنت کے خیالات آتے رہے ۔اس کی سوچ پر امیر صاحب کی سحرآمیزباتوں نے ایسا زہریلا اثر ڈالا تھا کہ وہ بلا سوچے سمجھے نہ صرف اپنے آپ کو بلکہ اپورے ملک کوآگ میں جھونکنے جارہا تھا ۔ تین گھنٹے کی مسافت کے بعد یہ لوگ شہر میں پہنچ گئے۔ فوجی یونیفارم پہنانے کے بعد اس کے ہاتھ میں بارود بھرا بستہ دیا گیا تاکہ آرمی اسکول میں دوسرے بچوں کے ساتھ جاتے ہوئے کسی کو بھی اس پر کوئی شک نہ ہوجائے۔ اسکول کے نزدیک پہنچ کر وہ حیراں ہوگیا۔وہ سوچنے لگا کہ یہ تو اسی کا اسکول ہے‘لیکن یہاں پر تو صرف وطن پرستی کی تعلیم دی جاتی ہے توپھر اسی اسکول کو اڑانے کا کیا مطلب ہے؟۔وہ ابھی اسی کشمکش میں مبتلا تھا کہ اسی دوران اسکول کی گاڑیوں سے بچے اترنے لگے اور ہنستے کھیلتے اسکول میں داخل ہوتے رہے۔ وہ ہنستے کھیلتے بچوں کی معصوم صورتوں کو بڑی دیر تک دیکھتا رہا۔دیکھتے دیکھتے اس کی نظر اپنے چھوٹے بھائی پربھی پڑ ی۔اس کادل بھر آیاکہ وہ اپنے بھائی کو گلے لگا کر خوب چومے لیکن یہ سوچتے ہی اسے خیال آیاکہ وہ اس وقت ایک اہم مشن پر ہے ۔یہ دہشت ناک خیال آتے ہی اس کی آنکھوں میں خون اتر آیا۔چند قدم چلنے کے ساتھ ہی اچانک اس کے قدم رک سے گئے وہ ان ننھے منّے پھول سے چہروں کو دوبارہ دیکھنے لگا۔اسے پھر اپنے چھوٹے بھائی پر نظر پڑ ی۔ اسے یوں محسوس ہونے لگا کہ جیسے اس کا چھوٹا بھائی بہا ئیں پھیلا پھیلا کر یہ کہتے ہوئے اس کی طرف بڑھ رہا ہے:
’’بھیا ‘ تو اتنے دنوں تک کہاں کھو گیا تھا۔تیرے کھو جانے کے بعد ماں کی دنیا بھی کہیں کھو گئی ہے۔
اس کے آنسوؤں سے گھر میں سیلاب آیا ہوا ہے۔بھیا ‘گھر واپس لوٹ آ تاکہ گھر میں پھر سے
خوشیوں کی شہنائی بج اٹھے۔‘‘
ماں کا خیال آتے ہی جذبات کا سمندرموجیں مارنے لگا اور آنسو بن کر آنکھوں سے بہنے لگا۔ دل کی تیزدھڑکن نے اسے عجیب سی کشمکش میں ڈال دیا۔وہ سوچنے لگا : ’’میرا باپ تو اپنے ملک کا محافظ ہے۔میری ماں بھی اچھے طریقے سے دین کی باتوں پر عمل کر رہی
ہے۔ہماراگھر تو کسی کافر کا ساتھ نہیں دے رہا ہے تو پھر میں کیوں دوسرے معصوم بچوں کے
ساتھ ساتھ اپنے پیارے بھائی کو بھی بے گناہ مارڈالوں۔‘‘
اس کے ذہن میں پھر کتاب کا جملہ آگیا کہ اسلام میں بے گناہ کو مارنا گناہ عظیم ہے.وہ قدم پیچھے ہٹاتے ہوئے پھر سوچنے لگا:
’’نہیں یہ جہاد نہیں‘فسادہے فساد۔اسلام تو امن قائم کرنے کے لئے جہاد کی تعلیم دیتا ہے لیکن
یہ جاہل تو جہاد کے نام پر دہشت گردی کا کاروبار چلاتے ہیں۔ یہ تو ہمارے ملک کو تباہ کرنے کی
سازش ہے۔ جو لوگ نافہم نوجوانوں کو خون خرابہ کرنے کا درس دے کر جنت کے سبز باغ دکھاتے
ہیں وہ تو مفاد پرست خود اسلام اورہمارے ملک کے دشمن ہیں۔نہیں میں اُن سیاہ سوچ رکھنے
والوں کے سیاہ کارناموں کو ضرور ناکام بنا دونگا۔‘‘
جھوٹ اور مکاری کے پردے چاک ہوگئے ۔ امن الٹے پاؤں وآپس مڑااور سیدھے فوجی بنکر میں چلا گیا۔فوجی اسے دیکھتے ہی چوکنا ہوگیااور امن کواسکولی وردی میں دیکھ کر تھوڑا اطمینان سے پوچھنے لگا:
’’کون ہو تم اور بنکر میں کیوں گھس آئے؟‘‘
’’میں بھٹکا ہوا راہی ہوں۔‘‘امن نے اہ بھرتے ہوئے جواب دیا.
’’ادھر کیوں چلے آئے‘اسکول تو وہاں ہے۔‘‘فوجی بندوق تانتے ہوئے دوبارہ پوچھ بیٹھا۔’’اور انگلی
میں یہ چابی کیوں گھمارہے ہو؟ذرا ادھرتو دکھانا۔‘‘
’’ارے اس پر تو جنت والی چابی لکھا ہے۔‘‘فوجی چابی کو گھورتے ہوئے بول پڑا۔
جنت والی چابی کا نام سنتے ہی امن کے اندر نفرت کی آگ سی بھڑک اٹھی اور منہ سے نفرت کا شعلہ نکل پڑا:
’’نہیں ‘یہ جنت والی نہیں بلکہ جہنم والی چابی ہے۔‘‘