جنت میں کتابیں اور لائبریری!
یہ گستاخ اپنے تئیں بڑے دانشور بنتے ہیں۔ ایک عام دیہاتی کے لئے تو مولوی یہی بتائے گا کہ اس کے اعمال و عبادات کے بدلے اسے جنت میں کیا ملے گا۔ لیکن ایک پڑھا لکھا علم رکھنے والا شخص یقینا" موت و زندگی کی کھوج میں رہتا ہے۔ زمان و مکان کی جستجو رکھتا ہے۔ اس کو علم ہوتا ہے کہ بعد از مرگ مادی جسم ختم ہوجائے گا صرف روح رہ جائے گی جس پر سے دنیاوی زمان و مکان کی قید ہٹ جائے گی۔ زمان و مکان کی قید ہٹنے کا مطلب یہ ہوا کہ پھر کسی بھی خواہش یا سوچ کی تکمیل کے لئے تگ و دو نہیں کرنی پڑے گی بلکہ سوچ کے ساتھ ہی وہ شے مجسم سامنے ہوگی۔ اسی طرح دنیا میں کتابیں اور لائبریری ایک طرح سے انسان کی علم کی محتاجگی ظاہر کرتی ہیں کہ جتنا پڑھتے جائوگے ذہن کے دریچے کھلتے جائیں گے۔ آپ کراچی میں رہتے ہیں اور ایفل ٹاور کے بارے جاننا چاہتے ہیں۔ آپ فرانس جانے کا خرچہ افورڈ نہیں کرسکتے کیونکہ آپ کا ذہن آپکی آنکھوں کے مشاھدے کا محتاج ہے۔ آنکھیں اسی وقت ایفل ٹاور جاسکتی ہیں جبکہ آپ اپنے جسم کو بزریعہ ہوائ جہاز پیرس لے جائیں۔ کیونکہ اس دنیا میں آپ زمان و مکان کی قید میں ہیں۔
یہ کوئ مزہبی نہیں بلکہ سائنسی تھیوری ہے۔ اب کیونکہ آپ پیرس جانا افورڈ نہیں کرسکتے تو آپ لائبریری سے ایفل ٹاور سے متعلق کوئ کتاب تلاش کر کے اپنی جستجو کی پیاس بجھائی ں گے۔ مرنے کے بعد جب زمان و مکان کی قید ختم ہوگئ تو پھر آپ نے ادھر سوچا ادھر وہاں پہنچے۔ کیونکہ نہ جسم ہوگا نہ وقت کی قید۔۔۔ جیسا کہ آپ خواب میں دیکھتے ہیں۔ تو پھر جنت بھی اسی کا استعارہ ہے جس کی لطافت آپکی سوچ کی تابع ہوگی یعنی کہ لامحدود۔۔۔۔ ایسا بہت کچھ جو انسان دنیاوی زندگی میں نہ سوچ سکتا ہے نہ محسوس کرسکتا ہے۔ تو بھلا جنت میں کتابوں اور لائبریری کی کیا ضرورت کہ وہاں تو سارے اسرار رموز اور علم پانی ہوجائے گا۔
کہنے کا مطلب یہ ہے کہ بظاہر بڑے دانشور اور علامہ بننے والے مبشر زیدی ان معاملات میں ننھےکاکے بن جاتے ہیں جو روٹی کو چوچی کہتا ہے۔ زرا اور کچھ نہیں تو فزکس کی تھیوری اف ریلیٹوٹی ہی پڑھ لیں تاکہ ان کے ذہن پر چھائ شیطانی گرد صاف ہو سکے۔ وہ تو یہ تاثر دیتے ہیں کہ مرنے کے بعد بس یہی مادی جسم جنت میں جا کر بلیک لیبل پئے گا اور حسین لڑکیوں کے ساتھ داد عیش دے گا۔
مبشر زیدی کے مخاطب کون ہیں؟ صرف اور صرف مسلمان کیونکہ وہ اردو میں لکھتے ہیں۔ اردو صرف پاکستان کی قومی زبان ہے اور پاکستان میں 95 فیصد مسلمان ہیں۔ تو سیدھی سی بات ہے کہ اس نے اپنی روح شیطان کے ہاتھوں بیچ کر دنیاوی عیش و آرام کا سودا کرلیا ہے۔ اس کی اصل نفرت اور تعصب اسلام سے ہے۔
اگر ایسا ہی دانشور اور لائبریریوں کا شوقین ہے تو کچھ روحانیات اور تکوین کے بارے میں بھی پڑھ لے۔ یہ بھی جان لے کہ انسان پر سے اگر زمان و مکان کی قید ٹوٹ جائے تو کیا نتائج نکلیں گے؟ اور اگر اس بارے کچھ نہیں جانتا تو ایسے موضوع پر محض اپنی شیطانی سوچ اور خواہشات کے تحت بکواس کرنا ایک پاگل دیوانے کی وہ حالت ہی کہلائے گی جو اپنے ہی تھوک کو اپنے چہرے پر ملتا ہے خود کو تھپڑ مارتا ہے اور جس کی بے چینی و جنون حد سے سوا ہوتا ہے کہ اس کو کسی پل چین نہیں ہوتا۔ بالآخر اسی طرح تھوک ملتا ، بول و براز کے تعفن کے بھبکے چھوڑتا مر جاتا ہے۔
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔