"جنت کا حق دار"
زندگی بھر اس نے صوم و صلواۃ کی پابندی کی۔ سال میں ایک بار زکاۃ بھی دیا کرتا، حج بھی کیا۔ ہر روز رات کو ربِ کریم کا شکر ادا کیا کہ اس نے صحت و عزت کے ساتھ کامیاب روزگار اور خوشحال زندگی عطا کی ۔۔۔۔ یہ نہیں کہ اس پر یا اس کے خاندان پر مشکل وقت نہیں آیا۔ لیکن اس برے وقت سے نکلنے کے لیے اس کے پاس دعاوں کا خزانہ اور اپنے پروردگار کی رضا پر راضی ہونے کا تریاق تھا۔ وہ فارغ وقت میں مذہبی قصے کہانیوں کی کتابیں پڑھتا۔ فجر کی نماز کے بعد تلاوت باقاعدگی سے کرتا اور سبز خلاف میں لپٹے قرانِ پاک کو چوم کر شیلف کے اونچے خانے میں رکھ دیا کرتا۔ اس کا دل اپنے پیغمبر کی محبت میں سرشار رہتا۔ وہ ایک مثالی مسلمان تھا۔ اس کے لیے زندگی کو سمجھنا بہت آسان تھا۔ اس کی سمجھ کے مطابق جو لوگ علم حاصل نہیں کرتے، محنت نہیں کرتے وہ غریب رہ جاتے ہیں۔ چوری چکاری کرنے والے، جسم فروش عورتیں، اپنے مسائل سے گھبرا کر خودکشیاں کرنے والے نوجوان، شرابی ، جواری، زانی، سب جہنم میں جائیں گے۔ دین کے پانچ ارکان پورے کرنے والوں کو جنت کی بشارت ہے۔ اس بشارت کا اطمینان اس کے چہرے سے جھلکتا رہتا۔۔۔۔ وہ ایک معزز آدمی تھا ۔۔۔۔ گلی کی بڑھتی ہوئی گندگی کے قریب سے گزرتا تو اپنی شلوار کے پائنچے اوپر کر لیتا ۔ ۔۔۔ اور جب گندے نالے کے اس پار کی روز افزوں جھونپڑ پٹی کو دیکھتا تو وہ اپنے رب کی ان نعمتوں کا شکر بجا لاتا جو اس کے حصے میں آئی تھیں ۔۔۔۔۔
یہ کالم فیس بُک کے اس پیج سے لیا گیا ہے۔
“