جنگل خوشبوؤں کا ………
خوش رنگ پھولوں کا..ہرے بھرے درختوں کا..لاکھوں کروڈوں حشرات الارض کا..چرند پرند
درندوں کا اور انسانوں کا …….جنگل ۔۔۔
کئی دہائیوں سے وہ اُس جنگل میں مقیم تھاَ ۔جنگل کی سرسبز حسین دنیا اُسے بہت بھلی لگ رہی
تھی۔ جنگل کے موسم،پرندوں کی میٹھی سریلی آوازیں اور ندی نالوں کا دل لبھانے والا سوزو سرور اُسے جنون کی حد تک پسند تھا ۔…وہ اپنی انہی میٹھی دھڑکنوں میں مسرور و خوش تھا کہ ایک روز چونک سا پڑا ۔اسے محسوس ہوا۔کوئی چور جنگل میں گھُس آیا ہے ۔ چھُپ کے بیٹھا کہیں خوشبوئیں چرارہا ہے کہ دن بدن خوشبوئیں کم ہوئی جارہی تھیں۔کوئلیں اور رنگ برنگی پرندے جوپہلے پہروں سامنے بیٹھ کے گاتے گنگناتے تھے۔خوش نظر آتے تھے۔ اب اپنے بول سنائے بغیر ہی چونچ پنکھوں میں چھُپا کے سو جاتے ہیں۔اور خوبصورت ناگنیں جو بین کی دھن پر پہلے بے اختیار ہوکرسامنے آکے والہانہ طور ناچتی تھیں اب نامعلوم خوف کی وجہ سے ہر وقت سہمی ہوئی سی نظر آتی ہیں ۔ دور بھاگتی پھرتی ہیں……یہ سب کچھ جنگل کی روایت میں نہ تھا۔ پہلے اس نے کبھی دیکھا نہ تھا ۔پھر یہ سب کیا ہورہا تھا۔ کچھ بھی سمجھ نہ پارہا تھا وہ ۔ کافی سوچ وچار کے بعدایک روز اُس نے برادری کے لوگوں میں اعلان
کر دیا ۔۔۔۔
’’ دوستو…میرے ساتھیو….بزرگو ۔تمہیں بھی وہ سب دکھائی دے رہا ہے جو میں دیکھ رہا ہوں ….‘‘
’’ کیا۔۔۔‘‘ ایک عمر رسیدہ بزرگ نے کرخت آواز میں پوچھا ۔’’ کیا دیکھتے ہو تم ۔ ؟ ‘‘
اُس نے قدرے توقف کے بعد کہا
’’ موسم دن بدن بے دھڑکن ہو رہے ہیں ۔ خوشبوئیں کوئی چُرا رہا ہے ۔ہواوءں میں نمی و تازگی بھی نہ رہی بلکہ زہر بھری لگتی ہیں …اور سارے پھول پتے اپنا رنگ کھو چکے ہیں ۔‘‘
’’ تو ہم کیا کریں…‘‘ بزرگ نے روکھی ہوئی آواز میں کہا۔ ’’ ہونی ہو کر رہتی ہے ‘‘
’’ ہمیں اِس جنگل کو تباہی سے بچانا ہوگا ۔ہاں…. سب کو مِل کے ‘‘اُسکے لہجے میں
ایک التجا تھی ۔اُسکے ٹھیک سامنے کھڑا نوجوان اکتاہٹ کے ساتھ بولا۔
’’ تو بچاؤ نا یار ….‘‘ اُسکے ساتھی نے قہقہہ لگا کر کہا ۔
’’ کس کم بخت نے روکا ہے تمہیں…فضول آدمی…آو چلیں ۔‘‘ وہ سب ایک ایک کرکے وہاں
سے نکل گئے اور بچے انکے پیچھے تالیاں بجاتے نظر آگئے ۔
کچھ دیر تک وہ مبہوت سا کھڑا سوچتا رہا ۔جنگل کے مکینوں کی بے حسی پر جلتا کڑھکتا رہا۔ یک بیک اُسے کچھ گھٹن سی محسوس ہوئی ۔تاسف سے ہاتھ ملنے لگا۔اُسے لگا زہریلی ہواکے تیروں نے جسم کا کوئی حصہ گھائل کر دیا ہے ۔اُسے وحشت سی ہونے لگی….اس جنگل سے ، جنگل کے مکینوں کی بے حسی سے…اور گشت کرتی ہوئی زہریلی بدبودار ہواؤں سے۔ دوسرے ہی لمحے اندر کے کسی نے
کہا ۔ ۔۔۔۔بھاگ جا..یہ جنگل اب تیرے کام کا نہیں رہا … بھاگ جا…مذید کچھ سوچے بغیر وہ ایک طرف کو نکل پڑا ۔راستے میں اجنبی پرائے اپنے …کئی قسم کے لوگ ملے۔لیکن اس نے کسی کو اپنا ہمراز نہ بنایا ۔اپنی د ھُن میں چپ چاپ چلتا رہا۔کئی ہفتوں کے مسلسل سفر کے بعدجب وہ اس راستے کے انت پرپہنچا..تو وہاں اُس نے ایک اونچی اور بہت ہی موٹی دیوار کھڑی پائی ۔دیوار کے محافظ نے پوچھا:
’’ کہاں جانا چاہتے ہو ‘‘
’’ اُس پار…‘‘
’’ اُس پار تم نہیں جا سکتے۔واپس لوٹو …‘‘
’’ کیوں نہیں جا سکتا …..؟ ‘‘ اُس نے محافظ کو گھور کر پوچھا
محافظ نے سمجھادیا ۔ ’’ اجازت نہیں ہے ۔اپنی خیر چاہتے ہو تو نکلو یہاں سے ‘‘
چار و ناچار وہ مڑ گیا ۔
ایک خیال اُسکے ذہن میں اچانک لپکا۔ یہ راستہ تو بند ہے….مخالف سمت کا راستہ ضرور کھلا ہو گا۔پھر اُسی سمت نکل پڑا۔مغرب کی طرف چلتے ہوئے جب وہ آخری سرے پر پہنچا تو وہاں بھی اُس نے ایک اونچی دیوار کھڑی پائی اور بہت سے محافظ نظر آگئے ۔باتیں بھی ویسی ہی ہوئیں …جو پہلی سر حد کے محافظ سے ہو چکی تھیں ۔اُس نے ہمت نہیں ہاری۔ رہائی پانے کے لئے سفر جاری رکھا۔پھر جب شمالی سمت کے آخری سرے پر پہنچ گیا۔۔۔۔۔تو وہاں کھڑی موٹی اور اونچی دیوارجیسے اُسکا منہ چڑانے لگی۔اُسکی بے بسی اور تھکن پر قہقہے برسانے لگی۔جنوب کی طرف جانے کا خیال اُس نے ترک کرلیا ۔کیونکہ تیسری سرحدکے محافظ نے اسے سمجھادیاتھاکہ…..تم جس زمین پر رہتے ہو وہ زمین گول ہے۔
’’ تو پھر میری رہائی کیسے ممکن ہے ‘‘
’’ یہ میں نہیں جانتا ۔ہاں اتنا معلوم ہے ایک دن ضرور ملے گی ‘‘
’’ کب۔۔۔‘‘ اُسنے چہک کر پوچھا ’’وہ دن کب آئے گا ؟ ‘‘
محافظ نے خوش دلی کا مظاہرہ کیا ۔مسکراکر بولا
’’ وہی جانتا ہے …صرف وہ…اوپر بیٹھا۔ چھتری والا ‘‘
’’ تو…..تو کیا میں……‘‘ الفاظ اُسکے حلق میں اٹک کر رہ گئے ۔ خالی خالی نظروں سے دیوار کو کچھ دیر تک تکتا رہا ۔پھرایک آہ بھر کر تھکے ہارے قدموں کے ساتھ واپس جنگل کی طرف مڑ گیا۔ جنگل۔۔۔۔۔۔جہاں اُس نے بچپن میں پریوں کی پُراسرار میٹھی لوریاں سنی تھیں ۔
جہاں اُسکے خواب جاگ اٹھے تھے۔ اُسکی امنگیں جوان ہوئی تھیں۔جہاں وہ ساونُ رتوں میں ندی کنارے پہروں بیٹھکے میٹھی سریلی آوازیں سنتا ۔طرح طرح کی خوشبووءں کو سونگھتا ۔اور کھو سا جاتا کہیں۔یہ میرا جنگل ….تب کیا تھا یہ ….کتنا حسین ۔۔کتنا دلکش ۔۔کتنا دلفریب ۔۔ا ور اب …..؟
اب یہ سیاہ ذہر آلود ہواوءں کی زد میں آچکا تھا۔عفریت کا شکار تھا ۔وحشتیں ناچ رہی تھیں ۔اطراف و اکناف میں آگ کی لپٹیں اٹھ رہی تھیں۔درخت جل رہے تھے ۔پتے جل رہے تھے۔پھول اور پھل جل رہے تھے۔چرند پرند درندے اورانسان سب شعلوں کے نرغے میں تھے۔چیخ رہے تھے چلا رہے تھے۔درد سے کراہ رہے تھے ۔لیکن آواز کسی کی سنائی نہیں دیتی۔وہ سب رو رہے تھے ۔ماتم کر رہے تھے۔لیکن آنسو کسی کے دکھائی نہیں دیتے۔وہ سب موت سے ہمکلام تھے لیکن
فرشتے کو کوئی دیکھ نہیں پارہا تھا۔ہر طرف ہولناکی تھی …..ویرانی تھی۔ایک دہشت ناک خاموشی طاری تھی ۔یک لخت ہی اُسکے منہ سے ایک چیخ نکلی ۔
’اے میرے پروردگار…میرے پالن ہار…یہ قہر…یہ عذاب…یہ آگ…یہ احساس میری بے بسی …میری کم مائیگی کا…اورکب تک…..کتنی صدیوں تک ..بتا میرے رب…. بتا ۔‘
وہ چیختا چلاتا رہا ۔
آسمان خاموش تھا…. بے جان چٹان کی مانند خاموش ہی رہا ۔دور کچھ پیڑ… پودے جل کر ادھر اُدھر گر رہے تھے ۔ساتھ ہی انسانوں کی چیخیں اور جانوروں کی دھاڑیں بھی بلند ہونے لگیں۔فضا میں جلے ہوئے گوشت کی بو بھی تیزی سے پھیلنے لگی تھی۔سانس لینا دشوار ہو رہا تھا۔اُسکا دم بُری طرح گھٹنے لگا۔پھر وہ بے ہوشی کی گودمیں جاچھپنے ہی والا تھاکہ سامنے سے روشن ماتھے کا قد بلند شخص
اپنی طرف بڑھتا ہوا نظر آیا ۔
قریب آکر اُس نے کمر سے لٹکی پانی کی مشک اُتارکے رکھ دی۔ماتھے کا پسینہ پونچھا۔پھر اداس کھڑے شخص سے گویا ہوا…
’’ میں اِس جنگل کا رازدار ہوں۔تم مجھے جنگل کا بیٹا بھی کہہ سکتے ہو ۔میں اِس آگ کا مہفوم جانتا ہوں ۔یہ بھی جانتا ہوں…یہ آگ کیوں ہے ‘‘
’’ اے معتبر…مجھے آپ کی ہی تلاش تھی ‘‘
قد بلند روشن ماتھے کا فرد مسکرا دیا۔
’’مجھے معلوم ہے ‘‘
اُداس شخص جلدی سے اپنے ہاتھ کی لکیریں دیکھنے لگا۔لکیریں بھی کچھ ایسا ہی کہہ رہی تھیں…
کہ جسکی جسے تلاش ہوتی ہے …اُس کو وہ مل ہی جاتا ہے ۔۔۔۔۔۔۔لیکن کہاں…کیسے….وقت کے کس موڑ پر….؟ یہ وقت ہی جانتا ہے۔یا پھر وقت کو جاننے والے……۱
بلآخر اُس نے اپنی بات کہہ ڈالی۔ ’’ اے روشن ضمیر …مہرباں بزرگ…میں اس جنگل سے
بیزار ہو چکا ہوں۔کہیں دور بھاگ جانا چاہتا ہوں۔کوشِش بھی کی لیکن راستوں کے انت پر دیواریں کھڑی ہیں اور محافظ بھی تیار…کوئی ترکیب بتاو کہ اِس قید خانے سے رہائی ملے ‘‘
’’ایک راستہ ہے لیکن وہ تمہارے حق میں ٹھیک نہ رہے گا ‘‘
’’ کیا…..‘‘ اُس نے بے بسی کے ساتھ پوچھا ’’پھرمیری رہائی کیسے ہوگی ۔کب ؟‘‘
’’ ایک دن مقرر ہے اُسکا بھی۔لیکن سنو…ایک راز کی بات …… ‘‘کچھ دیر خاموشی کے بعد قد بلندشخص بولا ۔ ۔ ۔’’اصل میں تم یہ آگ بُجھانے کے لئے ہی اِس جنگل میں لائے گئے ہو ۔‘‘ اُداس شخص مسکرا پڑا۔
’’ ایسا میں نے بھی کئی بار سوچامحترم۔لیکن چار سو لگی ہوئی آگ بجھانا نا ممکن ہے ‘‘
’’کوشِش زندگی ہے ۔یہی میرا عقیدہ ہے۔..مشکلات پر قابو پانے سے ذات اپنے آئینے میں کھِل اٹھتی ہے ۔یقین جیت جاتا ہے …میں چلتا ہوں ۔‘‘
کہہ کر اُس نے پانی کی مشک کندھوں پر رکھ دی ۔اور چل دیا۔ کچھ دیر بعد وہ
بھی دور جلتے ویران جنگل کی طرف نکل گیا ۔
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...