قطر، متحدہ عرب امارات، بحرین، سعودی عرب اور مراکش میں خاندانی بادشاہتیں ہیں۔ بادشاہِ وقت کے اپنے کنبے کے علاوہ شہزادوں اور شہزادیوں کی ایک کثیر تعداد ہر وقت موجود ہوتی ہے۔ مناصب پر، خواہ ملک کے اندر ہوں یا باہر، شاہی خاندان کے افراد کا حق اولین ہے۔ آپ نے اخبارات سے اندازہ لگایا ہوگا کہ مکہ، مدینہ، طائف اور دوسرے اہم شہروں کے گورنر شاہی خاندان کے ارکان ہیں۔ تاہم اس وقت ہم ان مناصب کی بات کر رہے ہیں جو بیرون ملک ہوتے ہیں۔ ان بادشاہتوں کے جو سفارت خانے دوسرے ملکوں میں کام کرتے ہیں، وہاں تعیناتی کے لئے شاہی خاندان کے افراد کو ترجیح دی جاتی ہے یا پھر ان افراد کو فائز کیا جاتا ہے جو شاہی خاندان سے قربت رکھتے ہوں۔
بیرون ملک مناصب پر تعینات ہونے والے شاہی خاندانوں کے یہ افراد نہ صرف ان عہدوں کی اہلیت رکھتے ہیں بلکہ کچھ تو غیر معمولی صلاحیتوں کے بھی مالک ہوتے ہیں۔ ریاض الخطیب جس پائے کے سفارت کار تھے، آج بھی لوگوں کو یاد ہے۔ شاید ہی کوئی ایسا سعودی سفیر پاکستان میں رہا ہو جو اوسط درجے سے کم تھا۔ اسی طرح امریکہ میں جو شہزادہ، بندر بن سلطان، سعودی سفیر رہا، وہ پیشہ ور پائلٹ تو تھا ہی، اس نے مشہور عالم امریکی ادارے جان ہاپکن یونیورسٹی سے انٹرنیشنل پبلک پالیسی میں اعلیٰ تعلیم بھی حاصل کی تھی۔ یہ درست ہے کہ شاہی خاندان کا فرد ہونے کی وجہ سے شہزادہ بائیس سال تک سفارت پر فائز رہا لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ وہ واشنگٹن کے سفارتی پیش منظر پر چھایا رہا اور کئی دوسرے ملکوں کے سفیروں سے بہتر کارکردگی دکھائی۔ پانچ امریکی صدور اور دس امریکی وزرائے خارجہ کو اس نے کامیابی سے بھگتایا۔
پاکستان میں بھی بیرون ملک تعیناتیاں شاہی خاندان کے افراد کی یا ان خاندانوں کے منظور نظر افراد کی ہوتی ہیں۔ فرق یہ ہے کہ یہاں منظور نظر افراد میں اہلیت کو بالکل نہیں دیکھا جاتا۔ یہ شاہی خاندان خونی رشتے کی بنیاد پر نہیں بلکہ مفادات کے رشتوں کی بنیاد پر قائم ہے۔ یہ خاندان بظاہر منتشر لگتا ہے لیکن اس کی بہم پیوستگی بے مثال ہے۔ اس خاندان میں صدر، وزیراعظم، وزراءکرام اور وفاق اور صوبوں میں بیٹھے منتخب نمائندے شامل ہیں۔ بیرونی حاشیوں پر وہ جرنیل اور بیوروکریٹ بھی براجمان ہیں جو اس خاندان کا حصہ نہیں، لیکن قربت رکھتے ہیں۔
یہ سارا پس منظر اس لئے بیان کیا گیا ہے کہ بلوچستان جہاں اپنی متعدد محرومیاں بیان کرتا رہتا ہے، وہاں دو روز پیشتر اسی نے یہ ہرا زخم بھی دکھایا ہے کہ بیرون ملک تعینات چار سو چورانوے 494 افسروں میں سے صرف انیس (19) کا تعلق بلوچستان سے ہے۔ اسی طرح غیر افسر عملے میں بھی صوبے کا حصہ، جائز حصے سے اڑھائی فی صد کم ہے۔
جس ملک میں مسائل حل کرنے کا کامیاب ترین فارمولا ”مٹی پاﺅ“ رہا ہو، وہاں بیرون ملک تعیناتیوں کے بکھیڑے پر غور کرنے کا دماغ کس کو ہوگا؟ دن کو دو بجے بیدار ہونے والے ”شاہی خاندان“ کے افراد کے نزدیک یہ مسئلہ، مسئلہ ہی نہیں، وقت کا ضیاع ہے۔ یہ درست ہے کہ برطانوی حکومت ایک مضبوط فارن سروس کی روایت چھوڑ گئی ہے جس میں داخلہ، مقابلے کے امتحان کے ذریعے ہوتا ہے لیکن پاکستانی سفارت خانوں میں جو کونسلر، کونسلر جنرل، پریس اتاشی، کمیونٹی ویلفیئر اتاشی اور اس قبیل کے دوسرے مناصب پر سرکاری ملازم تعینات ہوتے ہیں، وہ فارن سروس کے نہیں ہوتے۔ یہی وہ تعیناتیاں ہیں جو پوری بددیانتی سے، سفارش، اقربا پروری اور ذاتی تعلقات کی بنیاد پر طے پاتی ہیں۔ اس کا سنگ بنیاد بھٹو صاحب کے دور میں رکھا گیا جب سیاسی تقرریوں کو باقاعدہ ادارے کی صورت دی گئی۔ ضیاءالحق کے طویل دور میں یہ بددیانتی اپنے عروج کو پہنچ گئی۔ آپ اس سے اندازہ لگائیں کہ دس دس سال تک منظور نظر افراد کو ایک ہی ملک میں رکھا گیا۔ بے شمار مثالیں پیش کی جا سکتی ہیں۔
یہ سلسلہ آج بھی پوری بددیانتی اور ڈھٹائی سے جاری ہے اور ”شاہی خاندان“ اہلیت پر مسلسل ڈاکے ڈال رہا ہے۔ صرف دس ماہ پیشتر جو کچھ ہوا ہے، ثبوت کے لئے کافی ہے۔ وزارت اوورسیز پاکستانیز نے بیرون ملک سفارت خانوں میں درجن ڈیڑھ درجن ویلفیئر اتاشی تعینات کرنے تھے۔ یہ پورا طریق کارایک طویل ”پروسیس“ تھا جس کا آغاز وزارت نے جنوری 2011ءمیں کیا۔ تمام وفاقی اور صوبائی محکموں سے نام منگوائے گئے۔ امتحان ہوئے۔ انٹرویو ہوئے۔ اسناد کی چھان پھٹک ہوئی۔ اس میں ایک سال لگا اور چار سو امیدواروں میں سے 67 منتخب کئے گئے جن میں سے آخری چناﺅ ہونا تھا۔ جب سارے مرحلے طے ہو گئے اور ان 67 امیدواروں کے انٹرویو شروع ہونے لگے تو اوپر سے حکم آیا کہ چار ”خصوصی“ امیدواروں کو فہرست میں شامل کیا جائے اور وہ مراحل جن میں ایک برس لگا تھا، ان چار کے لئے فوراً طے کئے جائیں۔ ان میں کسی کی مدت ملازمت کم تھی اور کوئی کسی بنک کا ملازم تھا اور تعیناتی کا کسی طرح اہل نہ تھا۔ مرتا کیا نہ کرتا، وزارت کے اہلکار، حکم حاکم ماننے پر مجبور تھے ؛ چنانچہ وہی ہوا، جو کہا گیا!
درجنوں، بیسیوں نہیں، سینکڑوں مثالیں ہیں۔ 2008ءمیں نیویارک اور کینیڈا جیسے مقامات پر خصوصی اسامیاں پیدا کی گئیں۔ تعیناتی کے لئے تحریری امتحان، جو لازمی تھا، نہیں لیا گیا۔ صرف انٹرویو کی بنیاد پر فیصلے ہوئے۔ کہیں کسی وزیر کے پرسنل سیکرٹری کو لگایا گیا، کہیں اس شخص کے بھائی کو تعینات کیا گیاجو کسی بڑے شخص کا جیل کے زمانے کا ساتھی تھا۔ کسی وزیر کی صاحبزادی کو مقابلے کے امتحان کے بغیر یورپ میں تعینات کیا گیا اور بہتی گنگا میں ہاتھ دھونے والی کوئی محترمہ کسی کی اہلیہ تھیں۔
یہ جنگل ہے اور جنگل میں جنگل ہی کا قانون چلتا ہے۔ یہاں بلوچستان کے جائز حصے کو کون دیکھے گا؟ مقتدر ایوانوں میں اس شکایت پر ایک لمحے کے لئے بھی غور نہ ہوگا۔ ترجیحات میں یہ مسائل شامل ہی نہیں۔ جس صوبے کے اندر، سرکاری تعیناتیاں قبائلی سرداروں کی ”منظوری“ سے طے ہوتی ہوں اور ہر ماہ تنخواہ لینے کے لئے سردار کی پرچی دکھانا ضروری ہو، وہاں اس صوبے کو بیرون ملک پوسٹوں میں جائز حصہ کون دے گا؟