تاریخ پر مجھ سے زیادہ آپکی نظر گہری ہے، آپ جانتے ہیں کہ سلطان محمد تغلق کو پڑھا لکھا ہوا بے وقوف کہا جاتا ہے۔ اچھا بھلا دارالحکومت دلی میں تھا مزاج شاہی میں ابال آیا اسے دولت آباد لے گیا، وہاں جا کر حماقت کا احساس ہوا تو واپسی کا حکم دیا کچھ لوگ جانے میں اور بہت سے واپسی کے دوران ہلاک ہوئے۔ خزانہ خالی ہو گیا۔لیکن بادشاہ کے اللے تللے وہی رہے اس نے اتنے ٹیکس لگائے کہ خلق خدا چیخ اٹھی ہم لوگ اس وقت لاہور میں رہتے تھے صبح کا کھانا کھاتے تو شام کو فاقہ ہوتا۔ شام کو سوکھی روٹی چائے میں گھول کر تنور شکم بھرتے تو اگلی صبح گھر میں خدا کا نام ہوتا۔میرے پاس ایک پرانی گدھا گاڑی تھی بالکل شکستہ، انچر پنجر ہلا ہوا، قرض لیکر اور بچوں کا پیٹ کاٹ کر نئی خریدی، سواری کے بغیر گزارہ مشکل تھا عورتوں کے عجیب موڈ ہوتے ہیں گھر والی کو نئی گدھا گاڑی دیکھ کر اپنا پرانا شوق سیاحت یاد آیا اور بچوں کو تیار کر کے ایتوار کی صبح اس نے اعلان کیا کہ ہم اسلام آباد کی سیر کو جا رہے ہیں۔ میں نے پوچھا کیسے جاؤ گی تو تنک کر جواب دیا کہ تم اپنی نئی گدھا گاڑی پر لیکر جاؤ گے۔بچے نہائے دھوئے ہوئے سروں کو تیل سے چوپڑے خوش خوش بیٹھے تھے میری نیک بخت گھر والی اگلی سیٹ پر میرے ساتھ زبان حال سے ہمسری کا دعویٰ کرتی براجمان تھی۔ میں گدھے کو ہانکتا سوچنے لگا کہ ٹھیک ہے، بے وقوف تغلق نے مہنگائی کر دی ہے لیکن زندگی اتنی بری نہیں۔ سواری کا مزہ الگ ہی ذائقہ رکھتا ہے میں گنگنانے لگا گدھے کی چال سے بھی طمانیت کا اظہار ہو رہا تھا۔راوی کا پل پار کرنے لگے تو لکڑی کے ڈبے میں ایک شخص سڑک کے عین درمیان میں بیٹھا ملا آگے بیریئر تھا میں نے راستہ بند کرنے کی وجہ پوچھی تو کہنے لگا، پندرہ روپے ادا کرو۔ میں نے پوچھا کس بات کے؟ اور تم کون ہو؟ اس نے بتایا کہ دریار پار کرنے کا ٹیکس ہے اور یہ کہ میں جلدی کروں، پیچھے اور گدھا گاڑیاں اور بگھیاں انتظار کر رہی ہیں میں نے تیوری تو چڑھائی لیکن پندرہ روپے ادا کر دیئے گھر والی نے شور مچا دیا کہ بغیر وجہ کے اسے پندرہ روپے دے آئے ہو، کیسے مرد ہو؟ میں نے سمجھایا کہ پل بنانے میں سلطنت دہلی کا خرچہ ہوتا ہے۔ آخر ہم شہریوں کے بھی کچھ فرائض ہیں!لیکن مشکل سے دو فرلانگ چلے تھے کہ پھرایک رکاوٹ آ گئی سڑک کے درمیان پھر لکڑی کے ڈبوں میں جلاد نما افراد بیٹھے تھے پھر پندرہ روپے مانگے گئے وجہ پوچھی تو معلوم ہوا کہ اگر اسلام آباد جاتے ہوئے جہانگیر کا مقبرہ دائیں ہاتھ پڑے اور نورجہاں کا مزار بائیں طرف ہو تو اس ازواجی مفارقت کے غم میں ٹیکس دینا پڑتا ہے۔ گوجرانوالہ داخل ہوئے تو پندرہ روپے دینے پڑے وجہ پوچھی تو بتایا گیا کہ چونکہ گوجرانوالہ ایشیا کا صاف ترین شہر ہے اس لئے اس خوشی میں مسافروں سے ہدیہ لیا جاتا ہے۔ وزیر آباد میری گھر والی کی چھوٹی بہن رہتی تھی آدھا گھنٹہ وہاں رکے چائے پی اور ظہر کی نماز ادا کی باہر نکلے تو سڑک پھر بند تھی پھر پندرہ روپوں کا مطالبہ ہوا۔ میں لڑائی کرنے کے موڈ میں تھا، گھر والی میری مردانگی کے حوالے سے شکوک میں مبتلا ہو رہی تھی لیکن لکڑی کے ڈبے میں بیٹھے ہوئے جلاد نما شخص نے بہت پیار سے سمجھایا کہ جو شخص وزیرآباد میں رکے اور بیوی کی بہن کے گھر سے چائے پیئے اسے حکومت کو پندرہ روپے ادا کرنے پڑتے ہیں سرکار کا حکم ہے اس میں کوئی چھوٹ نہیں !کھاریاں تک پہنچتے پہنچتے میرے پاس ایک دھیلا تک باقی نہ رہا اتنی بار پندرہ پندرہ روپے دیئے کہ شمار کرنا ممکن نہ تھا! اب کے پندرہ روپے لینے کا سبب پوچھا تو جلاد صفت اہلکار نے میرے بچوں کے سروں پر ہاتھ پھیرا، پھر اپنا ہاتھ سونگھا اور برا سا منہ بنایا کہنے لگا اتنا زیادہ تیل چوپڑنے پر حکومت نے ٹیکس لگایا ہے تاکہ فضول خرچی کی حوصلہ شکنی ہو۔ گھر والی نے مجھ سے چھپا کر جو روپے بچائے تھے اور دوپٹے کی چوک میں باندھے ہوئے تھے نکالے، دلدوز آواز سے بین کیا اور پندرہ روپے ادا کر دیئے۔ جہلم کا دریا عبور کرتے وقت مزید پندرہ روپے لئے گئے وجہ یہ بتائی گئی کہ وزیراعظم کے بیرونی دوروں کیلئے جو اربوں روپے بجٹ میں مخصوص کئے گئے ہیں وہ کم پڑ گئے ہیں اس لئے دریائے جہلم کو اس قومی خدمت پر مامور کیا گیا ہے۔ منگلا تک پانچ مرتبہ روکا گیا چنی کی چوک میں بندھے پیسے ختم ہو گئے۔ گوجر خان پھر روکا گیا ہمارے پاس پھوٹی کوڑی بھی نہ رہی تھی ہم روئے، تڑپے بچوں کے آنسو دکھائے، بیوی نے پھر دل دوز چیخ ماری لیکن لکڑی کے ڈبے میں بیٹھے ہوئے شخص پر کسی زاری کا اثر نہ ہوا مرتا کیا نہ کرتا میں نے اپنی قمیض اتاری اوراسکے حوالے کی۔ اس نے اسے دیکھا، سونگھا کہنے لگا مالیت پندرہ روپے سے کم لگتی ہے لیکن کوئی بات نہیں تم جاؤ!مندرہ سے آگے گئے تو گدھا اس طرح گاڑی کھینچ رہا تھا جیسے مرد ہے اور خاندان کی کفالت کا بوجھ کھینچنا پڑ رہا ہے تھکا تھکا پژمردہ، خستہ اور درماندہ!اسلام آباد کی حدود میں داخل ہوئے تو ایک مسجد کے پاس رکے۔ مغرب کی اذان ہو رہی تھی میں نے وضو کیا اور جماعت میں شامل ہو گیا واپس گدھا گاڑی میں بیٹھ کر روانہ ہونے لگا تو دیکھا کہ سڑک پھر بند تھی۔ میری قوت برداشت جواب دے چکی تھی میں نے پوری قوت سے چلا کر پوچھا۔ ’’خدا تمہیں اپنے قہروغضب کا نشانہ بنائے، تمہارا خزانہ کبھی نہ بھرے، نہ تمہاری ندیدہ آنکھوں سے بھوک نکلے، بدبختو! اب کس چیز کے پندرہ روپے لے رہے ہو؟‘‘ میری بددعائیں اور گالیاں سن کر تین چار اہلکار بندوقوں کی نالیاں میری طرف کئے آن دھمکے اور مجھے کہا کہ کار سرکار میں مداخلت کرنے کے جرم میں مجھے پکڑا بھی جا سکتا ہے بہتر یہی ہے کہ میں شرافت سے پندرہ روپے ادا کروں۔ ’’لیکن کس بات کے‘‘؟ میں نے پوچھا اہلکار! مسکرایا اسکی گندی مونچھوں پر لسی کی سفیدی لگی ہوئی تھی جسے اس نے ہاتھوں سے صاف کیا۔ وہ میری طرف دیکھ کر بھی مسکرایا اسکے ہونٹوں کے کنارے اس کے کانوںکی لوؤں تک جا پہنچے۔ ’’کیا تم نے ابھی مغرب کی نماز سے پہلے وضو نہیں کیا تھا؟‘‘ میں نے حیرت سے پوچھا :’’کیا تھا لیکن اس کا پندرہ روپوں کے غنڈہ ٹیکس سے کیا تعلق؟‘‘ اہلکار پھر مسکرایا: ’’ تمہارا وضو ٹوٹ گیا تھا اس لئے تمہیں تازہ وضو کرنا پڑا۔ بس یہ پندرہ روپے وضو ٹوٹنے کا ٹیکس ہے!میں اسلام آباد میں داخل ہوا تو میرے جسم پر صرف ایک جانگیا تھا!