(Last Updated On: )
انگریز ہندوستان میں تاجر کی حیثیت سے آئے لیکن آہستہ آہستہ انھوں نے یہاں کی سیاست اور حکومت میں مداخلت کرنی شروع کی اور ایک دن وہ یہاں کے حکمران بن بیٹھے۔ اب اس کے جو بھی سیاسی ،معاشی ،سماجی اور تہذیبی محرکات وعوامل رہے ہوں ان سے ہمیں فی الحال کوئی سروکار نہیں۔ اگر چہ ہندوستان پر انگریزوں کی باضابطہ حکومت غدر ۱۸۵۷ء کے بعد ہی قائم ہوئی لیکن اس سے بہت قبل وہ یہاں کی مختلف ریاستوں اور حکومتوں میں اچھے خاصے دخیل ہو چکے تھے۔ بعض ریاستیں اور حکومتیں ایسی تھیں جن کے حکمران تو دیسی تھے لیکن اصل باگ ڈور انگریزوں کے ہاتھ میں تھی۔ تاریخ کے مطالعے سے یہ بخوبی واضح ہوتا ہے کہ انگریزوں کے خلاف غم اور غصے کی لہراسی وقت سے شروع ہوئی تھی جب وہ دیسی ریاستوں میں دخیل ہو کر یہاں کے حکمرانوں کو کٹھ پتلی کی طرح استعمال کر رہے تھے۔ انگریزوں کے خلاف غصے اور نفرت کی لہر وقت کے ساتھ بڑھتی گئی اور بتدریج جنگِ آزادی کی منظم تحریک کی شکل میں نمودار ہوئی۔
جنگِ آزادی کے حوالے سے جب ہم اردوشعرو ادب کا مطالعہ کرتے ہیںتو ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ اردو زبان وادب نے اس تحریک کو مضبوط ومستحکم بنیادیں فراہم کرنے سے لے کر حصولِ آزادی تک ہراول دستے کا کام کیا ہے۔ واقعہ یہ ہے کہ جنگِ آزادی کی تحریک کو اردو ادب سے علاحدہ کر کے حقیقی معنوں میں پوری طرح سمجھا ہی نہیں جا سکتا۔ اس وقت کی اردو صحافت اور اردو شاعری نے جنگِ آزادی کی تحریک میں جس طرح بنیادی رول ادا کیا ہے وہ اردو صحافت اور ادب کا انتہائی تابناک پہلو ہے۔ یہاں تک کہ ہندوستان کا پہلا شہید صحافی بھی اردو ہی کا ہے جو صحافت کی تاریخ میں مولوی محمد باقر کے نام سے مشہور ہے۔ احساسِ حریت اور قومی شعور کی بیداری کے ضمن میں اردو کی اولیت کا ذکر کرتے ہوے شمس الرحمان فاروقی لکھتے ہیں:
اردو شعرا کے یہاں قومی شعور، حریت کا احساس اور انگریز کی چیرہ دستیوں پر
احتجاج اٹھارویں صدی سے جھلکنے لگتا ہے ۔ ہم یہ کہنے میں حق بجانب ہوں گے
کہ ہندوستانی قومی شعور کی بیداری ،انگریز کو غیر قوم اور بیرونی حاکم سمجھنا، اور
ملک پر انگریزی تسلط کے سیاسی مضمرا ت کا احساس ، ان سب باتوں میں اردو
ادب کو ہندوستان کی بقیہ تمام ادبی روایتواں پر تفوقِ زمانی حاصل ہے۔
کیفیت اور کمیت کے اعتبار سے بھی اردو ادب کا پلّہ سب پر بھاری پڑے گا۔ (۱)
جنگِ آزادی میں اردو شاعری کے کردار کے حوالے سے جب ہم اردو شاعری کا مطالعہ کرتے ہیں تو ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ اردو شاعری میں انگریزوں کے ظلم واستبداد،ان کی عیاریوں ، مکاریوں اور سیاسی جور توڑ کے خلاف اپنے غم و غصے کا اظہار مصحفیؔ (پ:۷۵۰ ۱ ء م:۱۸۲۴ء )کے زمانے ہی سے شروع ہوتا ہے۔انگریز کی مکاریوں اور جوڑ توڑ کو دیکھتے ہوے وہ کہتے ہیں:
توڑ جوڑ آئے ہے کیا خوب نصاریٰ کے تئیں
فوجِ دشمن کو وہیں لیتے ہیں سردار سے توڑ
پھر مصحفیؔ نے یہ بھی کہا کہ:
ہندوستاں کی دولت وحشمت جو کچھ بھی تھی
کافر فرنگیوں نے بہ تدبیر کھینچ لی
مرزا غالبؔ( پ: ۱۷۹۶ء م: ۱۹۶۹ء) کا تعلق اگرچہ ۱۸۵۷ء کے غدر سے نہیں تھا لیکن اس بغاوت کے بعد دہلی میں جس طرح قتلِ عام ہوا اور داروگیر کا سلسلہ شروع ہوا اس سے غالبؔ بھی تڑپ اٹھے۔ ان حالات کا ذکر غالبؔ نے اپنے ایک قطعے میں جس دردر ناک انداز میں کیا ہے اس سے ان کے روحانی اور ذہنی کرب وابتلا کا اظہار ہوتا ہے۔چند شعر ملاحظہ کریں:
بسکہ فعّال، مایرید ہے آج ہر سلح شور انگلستاں کا
گھر سے بازار میں نکلتے ہوے زہرہ ہوتا ہے آب انساں کا
چوک جس کو کہیں ، وہ مقتل ہے گھر بنا ہے نمونہ زنداں کا
شہرِ دہلی کا ذرہ ذرۂ خاک تشنۂ خوں ہے ہر مسلماں کا
مومن خاں مومنؔ (پ:۱۸۰۰ء م: ۱۸۵۱ء) تو اس تحریک سے بہت متاثر تھے۔انھوں نے اپنی ایک مثنوی’’ جہادیہ ‘‘ میں انگریزوں کے خلاف لڑتے ہوے شہید ہونے کی خواہش کا اظہار کیا ہے۔اس مثنوی کے چند شعر ملاحظہ فرمائیں:
عجب وقت ہے جو یہ ہمت کرو حیاتِ ابد ہے جو اس دم مرو
سعادت ہے جو جاں فشانی کرے یہاں اور وہاں کامرانی کرے
الٰہی! مجھے بھی شہادت نصیب یہ افضل ہے، افضل عبادت نصیب
یہ دعوت ہو مقبول درگاہ میں مری جاں فدا ہو تری راہ میں
میں گنجِ شہیداں میں مسرور ہوں اسی فوج کے ساتھ محشور ہوں
حالی ؔ (پ: ۱۹۳۷ء م: ۱۹۱۴ء)اور محمد حسین آزاد ؔ ( پ: ۱۸۳۰ء م: ۱۹۱۰ء) کا تعلق اگرچہ تحریکِ آزادی سے نہ تھا لیکن ان دونوں بزرگوں نے جس انداز کی قومی اور وطنی شاعری کو رواج دیا اور ہندوستانی قوم میں حب الوطنی کے جذبات پیدا کیے اس سے بھی ہندوستانی قوم کے دلوںمیں وطن سے محبت کے جذبات بیدار ہوے۔نتیجے کے طور پر غلامی کا احساس جاگا اور حصولِ آزادی کا جذبہ دلوں میں پیدا ہوا۔اس سلسلے میں ان دونوں بزرگوں کی نظمیں ’’ حبِ وطن‘‘ دلیل کے طور پر پیش کی جاسکتی ہیں۔
شبلیؔ (پ:۱۹۵۷ء م:۱۹۱۴ء)کی سیاسی نظموں کو بھی اسی سلسلے میں رکھا جا سکتا ہے جن میں انگریزوں کے خلاف احتجاج کی زیریں لہریں محسوس ہوتی ہیں۔شبلیؔ کی قومی ا ور وطنی شاعری پر اظہارِخیال کرتے ہوے پروفیسر گوپی چند نارنگ لکھتے ہیں:
حالیؔ کے ہاں آزادی کے جس جذبے کا اظہار دبے دبے اور معتدل لہجے میں
ہوا ہے، شبلیؔ کے ہاں وہ پُر جوش لاوا بن کر ظاہر ہوا۔ان کا سیاسی شعور واضح تھا
۔۔۔۔وہ مسلمانوں کو مجموعی طور پر ایک حریت پسند اور روشن خیال قوم بنانا
چاہتے تھے تاکہ آگے چل کر وہ ہندوستان کی قیادت میں مناسب حصہ لے
سکیں۔۔۔۔شبلی کی سیاسی نظموں کے مطالعے سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے
کہ وہ اپنے زمانے کے معرکوںاور ہنگاموں کو محدود مذہبی اور دینی نقطۂ نظر سے
نہیں بلکہ وطنی اور قومی زاویے سے انھیں ایک بڑے سانچے کا جزو بنا کر دیکھتے
تھے۔شبلی اردو شاعری کو جدید ہندوستانی مسائل سے قریب تر لائے اور اس میں
انھوں نے ہندوستانی تحریکِ آزادی کی دھڑکنیں سمو دیں۔ ان کی سیاسی نظموں
نے پست ہمتی اور مغلوبیت کے غبار کو ہٹانے میں قابلِ قدر حصہ لیا ۔انھوں نے
شہنشاہوںکے خلاف پُرجوش نظمیں لکھیں۔سامراج کی لوٹ کھسوٹ پر چوٹیں
کیں۔ علما کو قومی کاموں میں حصہ لینے ا ور مسلمانوں کو آزادی کی راہ پر گامزن
ہونے کی دعوت دی۔(۲)
اس طرح کی شبلی ؔکی سیاسی نظموں میں’’ احرارِ قوم اور طفلِ سیاست‘‘ ’’شہر آشوب ِاسلام‘‘’’ علمائے زندانی‘‘’’ ہم کشتگانِ معرکۂ کانپور ہیں‘‘’’خون کے چند قطرے‘‘’’گنج ہائے گراں مایہ‘‘ اور’’آپ ظالم نہیں زنہار پہ ہم ہیں مظلوم ‘‘وغیرہ خاص طور پر قابلِ ذکر ہیں۔حب الوطنی کے جذبات کو فروغ دینے اور ہندوستانی قوم میں حریت کا جذبہ پیدا کرنے کے سلسلے میں تحریر کردہ شبلی کی نظم’’ احرارِ قوم اور طفلِ سیاست‘‘ سے چند شعر ملاحظہ فرمائیں:
تم کسی قوم کی تاریخ اٹھا کر دیکھو
دو ہی باتیں ہیں کہ ہے جن پر ترقی کا مدار
یا کوئی جذبۂ دینی تھا کہ جس نے دم میں
کردیاجذبہ ٔ ا فسردہ کو ہم رنگِ شرار
یا کوئی جاذبۂ ملک ووطن تھا جس نے
کر دیے دم میںقوائے عملی سب بے دار
ہے اسی مے سے یہ سرمستیِ احرارِ وطن
ہے اسی نشّے سے یہ گرمیِ ہنگامۂ کار
آزاد ؔ ،حالی ؔ اور شبلی کے بعداسماعیلؔ میرٹھی،سرور ؔجہاں آبادی، اکبرؔ الہ آبادی،چکبستؔ وغیرہ ایسے شعرا ہیں جن کی نظموں میں جسم وجاں کی آزادی کے ساتھ ساتھ حریّتِ ذہن و فکر کا پیغام بھی ملتا ہے۔اسماعیل میرٹھی (پ:۱۸۴۴ء م:۱۹۱۷ء) کے الفاظ میں ملاحظہ فرمائیں کہ آزادی کس قدر بڑی اور اہم نعمت ہے۔ کہتے ہیں:
ملے خشک روٹی جو آزاد رہ کر تو وہ خوف وذلت کے حلوے سے بہتر
جو ٹوٹی ہوئی جھونپڑی بے ضرر ہے بھلی اس محل سے ،جہاں کچھ خطر ہے
ظاہر ہے کہ جب اس طرح کا پیغام دیا جائے گا تو جسم وجاں کو قید کرنے والے طوق و سلاسل ہی کو نہیں بلکہ ذہنی وفکری غلامی کی زنجیریں کاٹ پھینکنے کے جذبات بھی پروان چڑھیں گے۔ہندوستانی قوم کو ذہنی اور فکری غلامی سے آزادی دلانے میں اکبرؔ الہ آبادی
( ُپ: ۱۸۴۶ء م: ۱۹۱۲ء)کی طنز وظرافت سے معمور شاعری نے بھی اہم رول ادا کیا ہے۔سروؔ رجہاں آبادی (پ: ۱۸۷۳م: ۱۹۱۰ء) نے جہاں حب الوطنی کے پیغام سے معمور نظمیں لکھ کر وطن دوستی کے جذبات کو پروان چڑھانے کی کوشش کی وہیں فکر ونظر کی آزادی کا درس دینے والی نظمیں بھی کہی ہیں۔
چکبستؔ( پ: ۱۸۸۲ء م: ۱۹۲۶ء) کا نام تو اردو شاعری میں قومی اور وطنی شاعری کے حوالے سے بڑی اہمیت کا حامل ہے۔ ۱۹۱۷ء کے’’ ہوم رول‘‘ کی مانگ کے پس منظر میں چکبستؔ کی نظم ’’ وطن کا راگ‘‘ سے ایک بند ملاحظہ فرمائیں جس سے حصولِ آزادی کے جذبات اور تڑپ کا اندازہ ہوتا ہے:
ہمارے واسطے زنجیرو طوق ،گہنا ہے
وفا کے شوق نے گاندھی نے جس کو پہنا ہے
سمجھ لیا کہ ہمیں رنج ودرد سہنا ہے
مگر زباں سے کہیں گے وہی جو کہنا ہے
طلب فضول ہے کانٹے کی پھول کے بدلے
نہ لیں بہشت بھی ہم’’ ہوم رول‘‘ کے بدلے
اقبالؔ( پ:۱۸۷۷ء م: ۱۹۳۸ء) کی بیشتر نظموں میں یوروپ کی ذہنی اور فکری غلامی سے آزادی حاصل کرنے کا پیغام ملتا ہے ۔اس کے علاوہ اتحاد ویکجہتی ، حب الوطنی اور آزادیِ وطن کی تحریک کو تقویت دینے کا کام بھی انھوں نے اپنی نظموں سے لیا ہے۔ اقبالؔ نہ صرف ہندوستان کی آزادی بلکہ پورے مشرقی ممالک اور اقوام کی آزادی کے حامی تھے۔اسی لیے انھیں شاعرِ مشرق کہا جاتا ہے ۔اقبالؔ نے اپنی جن نظموں سے حب الوطنی کے جذبات کو فروغ دے کر ہندوستان کی تحریکِ آزادی میں روح پھونکنے کا کام لیا ہے وہ یہ ہیں:ہمالیہ ، ترانۂ ہندی،ہندوستانی بچوں کا قومی گیت،پرندے کی فریاد،جاوید سے خطاب،شعاعِ امید،آزاد اور محکوم،آزادی اور الہام،بیداریِ ایام،نیا شوالہ،ِ خواجگی،غلاموں کی نماز، نفسیاتِ غلامی ، وغیرہ۔نظم ’’ پرندے کی فریاد ‘‘ اگر چہ بچوں کے لیے لکھی گئی ہے لیکن آزادیِ وطن کی تحریک کے تناظر میں اس کا مطالعہ کیا جائے تو اسیری کا کرب اور آزادی کا کیف اس نظم سے بخوبی ظاہر ہوتا ہے۔
نظم ’’ شعاعِ امید‘‘ ایک تمثیلی نظم ہے جس میں اقبالؔ نے رجائیت کا پیغام دیا ہے اور یہ کہا ہے کہ باشندگانِ ہند کو مایوس نہیں ہونا چاہیے۔ ایک دن تاریکی (غلامی) کے دن ختم ہو ں گے اور اجالا (آزادی) تمھارا مقدر ہوگا۔اس کے لیے خلوصِ دل کے ساتھ مستقل
جدو جہد جاری رکھنی چاہیے۔ایک شوخ کرن کی زبانی اقبالؔ یہ کہلوا رہے ہیں کہ جب تک مشرقی ممالک استعماری طاقت کے شکنجے سے آزاد نہیں ہوں گے میں برابر اپنی جدوجہد جاری رکھوں گی اور ایک دن یہاں کی فضا کو منور کر کے رہوں گی۔یعنی آزادی دلا کر رہوں گی۔ پھر یہ شوخ کرن کہتی ہے کہ جب تک ہندوستانی قوم بیدار نہیں ہو گی میں ہندوستان کی تاریک فضا کو چھوڑ کر نہیں جائوں گی ۔ میں ہندوستان کی تاریک فضا کو اجالے میں بدل کر ہی رہوں گی۔یعنی باشندگانِ ہند کوغلامی کی تاریکی سے نکال کر آزادی کی روشنی میں لے آئوں گی۔
’’ نفسیاتِ غلامی ‘‘ کے عنوان سے’’ ضربِ کلیم‘‘میں دو الگ الگ نظمیں ہیں۔ پہلی نظم میں اقبالؔ نے غلامی کی نحوست اور اس کے بھیانک نتائج کو پیش کیا ہے۔اس نظم میں بتایا گیا ہے کہ جب کوئی قوم غلام بن جاتی ہے تو اس قوم کے علماوفضلا ،ادباوشعرا، حکما ودانشور ،فلسفیوں اور فنکار وں کی ذہنیت غلامانہ ہوجاتی ہے اور یہ حضرات علم وادب اور فلسفے کی تشریح وتوضیح کچھ اس انداز سے کرتے ہیں کہ قوم کے اندر غلامانہ فکر پروان چڑھنے لگتی ہے۔کہتے ہیں:
شعرا بھی ہیںپیدا علما بھی حکما بھی
خالی نہیں قوموں کی غلامی سے زمانہ
مقصد ہے ان اللہ کے بندوں کا مگر ایک
ہر ایک ہے گو شرح ِمعانی میں یگانہ
بہتر ہے کہ شیروںکو سکھا دیں رمِ آہو
باقی نہ رہے شیر کی شیری کا فسانہ
کرتے ہیں غلاموںکو غلامی پہ رضامند
تاویلِ مسائل کو بناتے ہیں بہانہ
دوسری نظم میں بھی غلامی کی نفسیات کو اجاگر کرتے ہوے کہا ہے:
سخت باریک ہیں امراضِ امم کے اسباب
کھول کر کیسے توکرتا ہے بیاں کوتاہی
دینِ شیری میں غلاموں کے امام اور شیوخ
دیکھتے ہیں فقط اک فلسفۂ روباہی
ہو اگر قوتِ فرعون کی درپردہ مرید
قوم کے حق میں ہے لعنت وہ کلیم اللہی
اس نظم کی تشریح کرتے ہوے پروفیسر یوسف سلیم چشتی لکھتے ہیں:
قوموں کی بیماریوں کے اسباب بہت پیچیدہ اور مخفی ہوتے ہیں۔یعنی کسی قوم
کے زوال اور اس کی محکومی کے اسباب کا سمجھنا کوئی آسان بات نہیںہے۔۔۔۔
غلامی سے قوموں کی ذہنیت اس درجہ مسخ ہو جاتی ہے کہ وہ سونے کو پیتل اور پیتل
کو سونا سمجھنے لگتی ہے۔اس کو یعنی اس قوم کے علما اور مشائخ اور آئمہ کو شیروں کے
دین یعنی اسلام میں لومڑیوں کی عیاری( غلامی کی تعلیم ) کے سوا اور کچھ نظر نہیں آتا۔
چنانچہ اس قوم میں جو شخص مصلح اورامامِ زماں ہونے کا مدعی ہوتا ہے وہ بھی اس کو
غلامی کی تلقین کرتا ہے۔۔۔(۳)
نظم’’ غلاموں کی نماز‘‘ میں اقبال ؔنے بتا یاہے کہ مردانِ حر کو دنیا میںہزاروںکام رہتے ہیں۔وہ رات دن اپنی خودی ،آزادی اور عزتِ نفس کی حفاظت اور بقا کے لیے جدوجہد کرتے رہتے ہیں۔ جبکہ غلاموں کو غلامی کے علاوہ اور کوئی کام نہیں رہتا۔’’ضربِ کلیم‘‘ ہی میں تین شعر کی ایک اورمختصر نظم ہے جس کا عنوان ہے ’’غلاموں کے لیے‘‘ملا حظہ فرمائیں:
حکمتِ مشرق ومغرب نے سکھایا ہے مجھے
ایک نکتہ کہ غلاموں کے لیے ہے اکسیر
دین ہو فلسفہ ہو،فقر ہو سلطانی ہو
ہوتے ہیں پختہ عقائد کی بنا پر تعمیر
حرف اس قوم کا بے سوز ،عمل زار وزبوں
ہو گیا پختہ عقائد سے تہی جس کا ضمیر
پروفیسر یوسف سلیم چشتی نے اس نظم کی بڑی اچھی تشریح فرمائی ہے۔ مناسب معلوم ہوتا ہے کہ ان کی تشریح انھیں کے الفاظ میں یہاںنقل کی جائے۔لکھتے ہیں:
اس نظم میں اقبال نے یہ نکتہ بیان کیا ہے کہ اگر کسی قوم کو غلامی سے آزادی حاصل
کرنے کی تمنا ہو تو اس کی صورت یہ ہے کہ اپنے اندر ذوقِ یقیں پیدا کرے۔
چنانچہ بانگِ درا میں کہتے ہیں:
غلامی میں نہ کام آتی ہیں شمشیریں نہ تدبیریں
جو ہو ذوقِ یقیں پیدا تو کٹ جاتی ہیں زنجیریں
اب سوال یہ ہے کہ ذوقِ یقین کیا چیز ہے؟۔۔۔دو لفظوں میں یوں سمجھ لیجیے کہ
اس قوم کے افراد اپنے اندر یہ عزم ِ بالجزم پیدا کرلیں کہ دنیا کی کوئی طاقت ہم کو
اپنا غلام نہیں رکھ سکتی،ہم ضرور بالضرور آزادی حاصل کریں گے۔دراصل انسان
کی قوتِ ارادی ذوقِ یقین کا لازمی نتیجہ ہے۔[اقبال]کہتے ہیں کہ میں نے
مشرقی اور مغربی فلسفے کے مطالعے سے ایک نکتہ ا خذ کیا ہے جو غلاموں کے لیے اکسیر
کاحکم رکھتا ہے۔۔۔دین فلسفہ،فقر،درویشی ،سلطانی وحکمرانی غرضیکہ زندگی کے ہر
شعبے میں کامیابی کے لیے عقیدے کی پختگی بہت ضروری ہے۔اس کی اصل کی
روشنی میں اگر غلام قوم کے افراد آزادی کے طالب ہوں تو انھیں سب سے پہلے
اپنے عقائد پختہ کرلینا چاہیے۔یعنی پہلے یہ یقین پیدا کرنا چاہیے کہ آزادی ہمارا
پیدائشی حق ہے۔کسی قوم کو حاصل نہیں کہ ہمیں غلام بنائے۔اس لیے ہم غلامی
کی زنجیریں توڑ کر رہیں گے۔اس محکم یقین کے بعد عملِ پیہم کی مدد سے
کامیابی حاصل ہو سکتی ہے۔(۴)
بہرحال اقبالؔ نے اپنی مختلف نظموں میں غلامی کی لعنت اور نحوست اور آزادی کی نعمت وبرکت پر دلنشین اور پُرتاثیراسلوب میں اظہارِخیال کیا ہے ۔ اورغلام قوموں کو یہ پیغام دیا ہے کہ اٹھو اور اپنی عزتِ نفس اور اپنے پیدائشی حق’آزادی ‘‘ کے حصول کے لیے پورے خلوص کے ساتھ تن من دھن کی بازی لگائو۔ہندوستان کی جنگِ آزادی کی تحریک میں اقبالؔ کے پُر تاثیراور لنشین کلام کے کردار سے انکار نہیں کیا جاسکتا۔
۱۹۳۰ء کے بعدجنگِ آزادی کی تحریک جب ایک خاص موڑ اختیار کر لیتی ہے تو مولانا ظفر علی خان اور مولانا حسرتؔ موہانی جیسے انقلابی شعرا ہمیں نظر آتے ہیں جنھوں نے اپنی سیاسی نظموں کے ذریعے انگریزوں کے ظلم واستبداد کے خلاف محاذ کھول دیا۔ مولاناظفر علی خاں( پ: ۱۸۷۰ء م: ۱۹۵۶ء) مایہ ٔ ناز صحافی کے ساتھ ساتھ شاعر بھی تھے۔ انھوںنے جذبۂ آزادی کو پروان چڑھانے والی بیسیوں نظمیں کہی ہیں۔ان میں’دعوتِ عمل ‘ ’انقلابِ ہند‘ ’قانونِ وقت‘ ’اعلانِ جنگ ‘اور ’ فانوسِ ہند کا شعلہ ‘ خاص طور سے قابلِ ذکر ہیں ۔
’’ فانوسِ ہندکا شعلہ ‘‘ کے یہ اشعار ملاحظہ فرمائیں جن میں آزادی کی خاطر وطن پر جان قربان کرنے والوں کا حوصلہ بڑھایا گیا ہے:
زندہ باد اے انقلاب اے شعلۂ فانوسِ ہند
گرمیاں جس کی فروغ ِمقتلِ جاں ہو گئیں
بستیوںپر چھا رہی تھیں موت کی خاموشیاں
تو نے صور اپنا جو پھونکا محشرستاں ہوگئیں
جتنی بوندیں تھیںشہیدانِ وطن کے خون کی
قصرِ آزادی کی آرائش کا ساماں ہو گئیں
زندگی ان کی ہے دین ان کا ہے دنیا ان کی ہے
جن کی جانیں قوم کی عزت پہ قرباں ہو گئیں
مولاناحسرتؔ موہانی( ُ: ۱۸۸۱ء م:۱۹۵۱ء)نہ صرف اردو کے بلند پایہ شاعراور صحافی تھے بلکہ جنگِ آزادی کے ہراول دستے میں شامل عظیم مجاہدِ آزادی بھی تھے۔ ان کی غزلوں کے بیشتر اشعار میں تحریکِ آزادی کی روح رچی بسی نظر آتی ہے۔ان کا یہ شعر تو بہت مشہور ہے:
ہے مشقِ سخن جاری چکی کی مشقت بھی
اک طرفہ تماشا ہے حسرتؔ کی طبیعت بھی
جنگِ آزادی کی تحریک میں شامل ہونے کی پاداش میںحسرتؔ موہانی کو کئی مرتبہ جیل ہوئی بلکہ ان کی زندگی کا بڑا حصہ قید وبند ہی میں گزرا۔اسی قید وبند میں ایک باررمضان کا مہینہ بھی آتا ہے ۔ماہِ رمضان میں قید وبند کی صعوبتوں کی طرف اشارہ کرتے ہوے ایک شعر میں کہا ہے:
کٹ گیا قید میں ماہِ رمضاں بھی حسرتؔ
گرچہ سامان سحر کا تھا نہ افطاری کا
جنگِ آزادی کے ایک ہیرو بال گنگا دھر تلکؔ کے جذبۂ حریت اور وطن پرستی کی مدح وتوصیف میں حسرتؔ نے جو نظم کہی ہے اس کے چند شعر دیکھیں جن سے مجاہدینِ آزادی کا حوصلہ بڑھانا مقصود ہے:
اے تلکؔ اے افتخارِ جذبۂ حبِ وطن
حق شناس و حق پسند وحق یقین وحق سخن
تجھ سے قائم ہے بنا آزادیِ بے باک کی
تجھ سے روشن اہلِ اخلاص ووفا کی انجمن
اردو نظم میں سیاسی مضامین ومعاملات کی شمولیت کا آغاز شبلیؔ نے کیا ۔اس روایت کو چکبستؔ، اقبالؔ اور ظفرؔ علی خان نے آگے بڑھایا،لیکن غزل کے مزاج کو سیاسی مضامین سے ہم آہنگ کرنے کی ابتد ا حسرتؔ موہانی نے کی ۔مثلاً ان کی غزل کے یہ اشعار دیکھیں:
رسمِ وفا کامیاب دیکھیے کب تک رہے
حبِ وطن محوِ خواب دیکھیے کب تک رہے
تابہ کجا ہوں دراز سلسلہ ہائے فریب
ضبط کی لوگوں میں تاب دیکھیے کب تک رہے
دولتِ ہندوستاں قبضۂ اغیار میں
بے عددو بے حساب دیکھیے کب تک رہے۔
٭
اے کہ نجاتِ ہند کی دل سے ہے تجھ کو آرزو
ہمتِ سر بلند سے یاس کا انسداد کر
مولانا محمد علی جوہرؔ (پ:۱۸۷۸ء م: ۱۹۳۱ء)عظیم مجاہدِ آزادی ،بے باک صحافی اور شعلہ بیان خطیب گزرے ہیں۔جوہرؔ ایک اچھے شاعر بھی تھے۔ان کی غزلیہ شاعری کے بیشتر اشعار حبِ وطن، جذبۂ حرّیت، انگریزی حکومت کے خلاف احتجاج سے معمور ہیں۔چونکہ یہ تمام باتیں رمز وکنایہ اور تغزل کے پیرائے میں بیان کی گئی ہیں اس لیے خالص غزل کے شعر معلوم ہوتے ہیں۔ جوہرؔ کے جذبۂ آزادی، عملی زندگی، سیاست اور تحریکِ آزادی سے ان کی وابستگی کے تناظر میں ان اشعار کا مطالعہ کیا جائے تو صاف معلوم ہوگا کہ یہ حبِِّ وطن اور حصولِ آزادی کے جذبے سے معمور ہیں۔مثلاً یہ اشعار:
سینہ ہمارا فگار دیکھیے کب تک رہے
چشم یہ خونابہ بار دیکھیے کب تک رہے
ہم نے یہ مانا کہ یاس کفر سے کمتر نہیں
پھر بھی ترا انتظار دیکھیے کب تک رہے
٭
میرے لہو سے خاکِ وطن کی بہار دیکھ
اسلام کے چمن کی خزاں میں بہار دیکھ
تلوک چند محرومؔ(پ:۱۸۸۵ء م: ۱۹۶۶ء) کی شاعری کا بڑا حصہ قومیت اور وطنیت کے عناصر سے مملو ہے۔انھوں نے بھی اپنی نظموں کے ذریعے وطن کی آزادی اور تعمیرِ وطن کا پیغام دیا ہے۔
جوشؔ ملیح آبادی(پ:۱۸۹۴ء م: ۱۹۸۲ء) کی انقلابی نظمیں جنگِ آزادی کی تحریک کے تناظر میں بڑی اہمیت رکھتی ہیں۔ انھوں نے اپنی جوشیلی اور انقلابی نظموں کیے ذریعے مجاہدینِ آزادی کی روحوں کو گرمایا ، آزادی کے تئیں عوامی بیداری پیدا کی اور انگریزوںکے خلاف ہندوستانی عوام کو بغاوت پر آمادہ کیا۔انھوں نے غلام قوم کو ہر طرح سے غیرت دلانے کی کوشش کی ۔کبھی طنزیہ لہجے میںتو کبھی تیز وطرار انداز سے۔ نظم’’ غلاموں سے خطاب‘‘ میں جوشؔ نے کس غیظ وغضب اور جھنجھلائے ہوئے لہجے میں ہندوستانیوں سے خطاب کیا ہے؟ ملاحظہ فرمائیں:
اے ہند کے ذلیل غلامانِ رو سیاہ
شاعر سے تو ملاؤ خدا کے لیے نگاہ
اس خوف ناک رات کی آخر سحر بھی ہے
توپیں گرج رہی ہیں سروں پر، خبر بھی ہے
تم پر مرے کلام کا ہوتا نہیں اثر
چونکا رہاہوں کب سے میں شانے جھنجھوڑ کر
تو چپ رہا، زمین ہلی ،آسماں ہلا
تجھ سے تو کیا خدا سے کروں گا میں یہ گلہ
ان بزدلوں کے حسن پہ شیدا کیا ہے کیوں؟
نامرد قوم میں مجھے پیدا کیا ہو کیوں؟
ایک اور نظم میں ہندوستان کی غلام قوم کے اند ر حرّیت اور غیرت کا جذبہ پیدا کرنے کے لیے کہا ہے:
میداں میں اگر سینہ ابھارا نہیں جاتا
لعنت کا کبھی طوق اتارا نہیں جاتا
شیروں کی طرح جن سے ڈکارا نہیں جاتا
عزت کی طرف ان کو پکارا نہیں جاتا
مے خانۂ امروز میں پینے نہیں دیتی
دنیا کسی نامرد کو جینے نہیں دیتی
جوشؔ نے آزادی کے ایک لمحے کوغلامی کی حیاتِ جاوداں سے بہتر قرار دیا ہے۔چنانچہ ایک قطعے میں کہا ہے:
سنو اے بستگانِ زلفِ گیتی ٍٍندا کیا آرہی ہے آسماں سے
کہ آزادی کا اک لمحہ ہے بہتر غلامی کی حیاتِ جاوداں سے
جوشؔ کی نظموں کی بلند آہنگی،گھن گرج،ان نظموں میں موجود جوش اور ولولہ،زبان اور اسلوب یہ تمام عناصر ہندوستانیوں کے دلوں میں انگریزوںکے خلاف بغاوت کی آگ بھڑکانے،مردہ دلوں میں زندگی کی حرات پیدا کرنے اور حصولِ آزادی کی تڑپ کو تیز کرنے میں بہت مددگار ثابت ہوے۔جنگِ آزادی کی تحریک میں زبردست حرارت پیدا کرنے والی ان کی نظموں میں سے جو نظمیں بطورِ خاص قابلِ ذکر ہیں وہ یہ ہیں:غلاموں سے خطاب،ایسٹ انڈیا کے فرزندوں سے خطاب،بیدار ہو بیدار ہو، شکستِ زنداں کا خواب،زوالِ جہاں بانی، آثارِ انقلاب،نظامِ نو وغیرہ۔جوشؔ نے جب تحریکِ آزادی کی حمایت میں قلم اٹھایا اور اپنی انقلابی شاعری اور خطابیہ لہجے سے عوام کے دلوں میں جوش اور ولولہ پیدا کیا توانھیں شاعرِانقلاب کی حیثیت سے شہرت ملی۔
شاہ محمدحسن بسملؔ عظیم آبادی(پ:۱۹۰۰ء م: ۱۹۷۸ء) کے یہ اشعار تحریکِ آزادی کے حوالے سے زبان زدِ خاص وعام ہیں:
سرفروشی کی تمنا اب ہمارے دل میں ہے
دیکھنا ہے زور کتنا بازوئے قاتل میں ہے
اے شہیدِ ملک وملت میںترے اوپر نثار
تری قربانی کا چرچا غیر کی محفل میں ہے(۵)
جمیل مظہری(پ: ۱۹۰۴ء م:۱۹۸۰ء)کی بھی بعض نظمیں جنگِ آزادی کی تحریک کے حوالے سے اہمیت کی حامل ہیں۔ جمیل مظہری اپنی نظم ’’نوائے جرس‘‘ میں مجاہدینِ آزادی کا حوصلہ اس طرح بڑھاتے نظر آتے ہیں:
سلامِ موجِ گنگ لو، مجاہدینِ حرّیت
ہیں گلفشاں بہشت سے مجاہدینِ حرّیت
کھلا ہے عرصۂ جہاں بڑھے چلو بڑھے چلو
برادرانِ نوجواں بڑھے چلو بڑھے چلو
۱۹۳۶ ء میں ترقی پسند تحریک کا آغاز ہوا تو اس کے مقاصد میں سے ایک مقصد شعر وادب کے ذریعے جنگِ آزادی کی تحریک کو مضبوط و مستحکم بنا نا اور آزادی کے حاصل ہونے تک برٹش گورنمنٹ سے بر سرِ پیکا ر رہنا تھا۔چنانچہ ترقی پسند تحریک کے زیرِ اثر جو شاعری منظرِ عام پر آئی اس کا ایک بڑا حصہ تحریکِ آزادی کو فروغ دینے کے جذبات اور خیالات پر مشتمل ہے۔ساغرؔ نطامی، مجازؔ،علی سردار جعفری، مخدوم محی الدین،وامقؔ جونپوری، جذبیؔ وغیرہ کی اکثر نظموں میں غلامی کی زنجیریں کاٹنے اور آزادی کی مے سے سرشار ہونے کا پیغام پوشیدہ ہے۔
ساغرؔ نظامی ( پ: ۱۹۰۵ء م:۱۹۸۳ء) کے خیال میں غلامی مسقل لعنت اورانسان کی توہین ہے۔اسی لیے انھوں نے غلامی کے بتوں کو پاش پاش کرنے کاپیغام دیا ہے۔اس خیال کا شاعرانہ اظہار ملاحظہ فرمائیں:
ہلا دے جور واستبداد کی سنگین بنیادیں
غلامی کے بتوں کو گرزِ حرّیت سے غارت کر
غلامی مستقل لعنت ہے اور توہینِ انساں ہے
غلامی سے رہا ہو اور آزادی میں شرکت کر
ساغرؔ نظامی اپنی ایک اور نظم’’ عہد‘‘ میں اپنے ملک سے یوں پیمانِ وفا باندھتے نظر آتے ہیں:
جب مجھے پیڑوں سے عریاں کر کے باندھا جائے گا
گرم آہن سے مرے ہونٹوں کو داغا جائے گا
جب دہکتی آگ پرمجھ کو لٹایا جائے گا
اے وطن اس وقت بھی میں تیرے نغمے گاؤ ں گا
تیرے نغمے گاؤ ںگا اور آگ پر سو جائوں گا
مخدوم محی الدین (پ:۱۹۰۸ء م:۱۹۶۹ء) کی نظم آزادیِ وطن سے یہ اشعار ملاحظہ کریں جن میں شمعِ آزادی کو بہر حال جلائے رکھنے کا عزم ظاہر کیا گیا ہے:
قسم ہے خون سے سینچے ہوے رنگیں گلستاں کی
قسم ہے خونِ دہقاں کی قسم خونِ شہیداں کی
یہ ممکن ہے کہ دنیا کے سمندر خشک ہو جائیں
یہ ممکن ہے کہ دریا بہتے بہتے تھک کے سوجائیں
جلانا چھوڑ دیں دوزخ کے انگارے یہ ممکن ہے
روانی ترک کر دیں برق کے تارے یہ ممکن ہے
زمینِ پاک اب ناپاکیوں کو ڈھو نہیں سکتی
وطن کی شمعِ آزادی کبھی گل ہو نہیں سکتی
مجازؔ(پ: ۱۹۰۹ء م: ۱۹۵۵ء)ترقی پسند تحریک سے وابستہ رومانی شاعر تھے ۔ ان کے یہاں بھی حصولِ آزادی کی تڑپ اور انقلاب کی تمنا نظر آتی ہے۔انھوں نے نظم’’ نوجوانوں سے‘‘ میں ملک میں انقلاب لانے کا پیغام دیا ہے۔ ملک کے نوجوانوں سے مخاطب ہو کر کہا ہے:
جلالِ آتش وبرق وسحاب پیدا کر
اجل بھی کانپ اٹھے وہ شباب پیدا کر
ترے خرام میں ہے زلزلوں کا راز نہاں
ہرایک گام پہ اک انقلاب پیدا کر
تو انقلاب کی آمد کا انتظار نہ کر
جو ہو سکے تو ابھی انقلاب پیدا کر
علی سردار جعفری( پ:۱۹۱۳ء م: ۲۰۰۰ء) کاشمارترقی پسند تحریک کے سرخیلوں میں ہوتا ہے۔ان کی بیشتر نظموں میں غلامی کی زنجیریں کاٹنے اور آزادی حاصل کرنے کا پیغام پوشیدہ ہے ۔ان کی مثنوی’’جمہور‘‘ کے چند شعر ملاحظہ کریں جن میںانھوں نے ہندوستان کے مختلف طبقات اور مختلف علاقوں کے لوگوں سے مخاطب ہو کر غلامی کی زنجیروں کو توڑنے کا پیغام دیا ہے:
اٹھو ہند کے باغبانو اٹھو اٹھو انقلابی جوانو اٹھو
کسانوں اٹھو کامگارو اٹھو نئی زندگی کے شرارے اٹھو
اٹھو کھیلتے اپنی زنجیر سے اٹھو خاکِ بنگال وکشمیر سے
اٹھو وادی ودشت وکہسار سے اٹھو سندھ وپنجاب وملبار سے
اٹھو برق کی طرح ہنستے ہوے کڑکتے ،گرجتے ،برستے ہوے
غلامی کی زنجیر کو توڑ دو زمانے کی رفتار کو موڑ دو
غلام احمد فرقت ؔ نے نظم ’’ نعرۂ آزادی‘‘ میں زنجیرِ غلامی توڑنے کا پیغام جس رقّت آمیز انداز میں دیا ہے اس کے ایک بند ہی سے بخوبی واضح ہوتا ہے:
انقلاب انگیز نغموں کے تبسم کی قسم
آسمانِ حرّیت کے ماہ وانجم کی قسم
دار پر اشفاق ؔکے رنگیں تبسم کی قسم
اور عدالت میں بھگتؔ سنگھ کے تکلم کی قسم
میرے ہندوستاں! یہ زنجیرِ غلامی توڑ دے
معین احسن جذبیؔ(پ:۱۹۱۳ء م:۲۰۰۵ء) کی نظم ’’ دعوتِ جنگ‘‘جنگِ آزادی کی نظموں میںسے ایک اہم نظم ہے۔ اس نظم میں وہ تحریکِ آزادی سے وابستہ سپاہیوں کا حوصلہ بڑھاتے نظر آرہے ہیں۔اس نظم سے ایک بند ملاحظہ فرمائیں:
وہ ہوئی لرزش ہوا میں وہ بگل بجنے لگا
جنگ کے نغموں سے وہ تھرّائی دنیا کی فضا
دل دھڑکتا ہے فلک پر آج اسرافیل کا
اے سپاہی کھینچ اپنی خوں فشاں تلوار کھینچ
مظفرؔ نامی نسبتاً کم معروف شاعر اپنی نظم ’’ ہندیوں کا راج ‘‘ میںپورے یقین واعتماد کے ساتھ اہلِ ہند کو یہ بشارت دیتا نظر آتا ہے:
کبھی وہ دن بھی آئے گا کہ ہم سوراج دیکھیں گے
دیارِ ہند میں ہم ہندیوں کا راج دیکھیں گے
چھٹے گی قوم اپنی غیر جاتی کی حکومت سے
وطن کو غیر ملکوں کا نہ ہم محتاج دیکھیں گے
رضاکارانِ آزادی کی کوشش بار ور ہوگی
مظفر کانگرس کی ہر طرف افواج دیکھیں گے
جنگِ آزادی کی تحریک میں اردو شاعری کے کردار کے حوالے سے اردو شاعری کے اس عہد بہ عہد مختصر جائزے سے یہ بات روزِ روشن کی طرح عیاں ہو جاتی ہے کہ اردو شاعری میں انگریزوں کے خلاف احتجاج ،ان سے نفرت اور غم وغصے کی لہر اسی زمانے سے شروع ہوتی ہے جب وہ اپنی چالبازیوں ،مکاریوں اور عیاریوں سے دیسی حکمرانوں کو اپنی کٹھ پتلیاں بنانے کی مذموم اور ابلیسی سازشوں کا آغاز کرتے ہیں۔وقت کے ساتھ ساتھ اس احتجاجی لہجے میں شدت پیدا ہوتی ہے اور انگریزوں کے خلاف علانیہ طور پر باغیانہ خیالات کا اظہار کیا جاتا ہے۔۱۸۵۷ء کی بغاوت کی ناکامی اورہندوستان پر انگریزوں کے مکمل قبضے اور تسلط کے بعد علی گڈھ تحریک کے زیرِ اثر اگرچہ عوام کا ایک طبقہ انگریزوں سے مصالحت کرتا نظر آتا ہے لیکن اس دور میں بھی ایسے کئی ادبا اور شعرا تھے جن کے دلوں میں باغیانہ خیالات پنپ رہے تھے۔وقت اور حالات سے مجبور ہو کر مصلحتاً کچھ برسوں تک تصادم کی راہ سے گریز کیا جاتا ہے، لیکن اس دوران قومی اوروطنی شاعری کے فروغ پانے سے ہندوستانی عوام کے دلوں میں جذبۂ آزادی آہستہ آہستہ پروان چڑھنے لگتا ہے۔نئی تعلیم کے عام ہونے سے جمہوری طرزِ فکر بھی ہندوستانیوں کے اذہان میں تبدیلی کی بشارت دیتا ہے۔
۱۸۸۵ء ء میںجب انڈین نیشنل کانگریس کی بنیاد پڑتی ہے تو یہاں سے سیاسی بیداری میں اضافہ ہوتا ہے اور حصولِ آزادی کا جذبہ، جو ہندوستانیوں کے دلوں میں چنگاری کی شکل میں موجود تھا وہ بتدریج شعلے میں تبدیل ہو جاتا ہے۔اس چنگاری کو شعلوں میں بدلنے کا مستحسن فریضہ جس طرح اردو ادب اور صحافت نے انجام دیا وہ تاریخِ اردو ادب ہی کا نہیں بلکہ تحریکِ آزادی کی تاریخ کا بھی روشن باب ہے۔اردو شاعری نے اپنی لطافت اور اثر آفرینی سے مجاہدینِ آزادی کے دلوں میں جو گرمی پیدا کی وہ اردو شاعری ہی کا حصہ ہے۔
بیسویں صدی کے آغاز سے لے کرآزادیِ وطن ۱۵ اگست ۱۹۴۷ء تک بے شمار اردو شاعروں نے لاتعداد ایسی نظمیں لکھیں جو غلامی کی زنجیروںکو کاٹ کر پھینکنے اور باقاعدہ آزاد زندگی گزارنے کا پیغام دیتی ہیں۔اس قسم کی نظموں سے تحریکِ آزادی کو نہ صرف
تقویت حاصل ہوئی بلکہ یہ تحریک کامیابی سے بھی ہمکنار ہوئی۔ہندوستان کی تحریکِ آزادی کو کامیابی سے ہمکنار کرانے میں اردو
شاعری نے جس طرح کا کردار ادا کیا ہے شاید ہی ہندوستان کی کسی دوسری زبان کی شاعری نے ادا کیا ہو۔اردو زبان وادب سے وابستہ ہر شخص کو فخر کرنا چاہیے کہ اس کی زبان اور ادب نے انتہائی عظیم الشان اور تاریخ ساز کارنامہ انجام دیا ہے۔
حوالے:
(۱) نغماتِ حریت،قومی کونسل برائے فروغِ اردو زبان دہلی،۲۰۰۷ء صxv
(۲)ہندوستان کی تحریکِ آزادی اور اردو شاعری،قومی کونسل برائے فروغِ اردو زبان دہلی۲۰۰۳ ء ص۳۳۳تا ۳۳۴
(۳)شرح ضرب ِکلیم،اعتقاد پبلشنگ ہائوس دہلی،۲۰۰۸ء ص۴۳۸
(۴)شرح ضرب ِکلیم،اعتقاد پبلشنگ ہائوس دہلی،۲۰۰۸ء ص ۳۹۷تا۳۹۸
(۵) وکی پیڈیا
نوٹ: اس مضمون میں شامل بیشتر شعری اقتباسات کتاب’’نغمات حریت ‘‘ سے لیے گئے ہیں۔