کافی وقت گزر گیا ہے اس لیےٹھیک سے یادنہیں۔ غالباً لاہور سے پہلے پہل کاکول جاتے ہوئے یا پھر اکیڈیمی سے مڈٹرم بریک پریو ای ٹی لاہور آئے ہوئے ہم شاہد کے ہمراہ یونیورسٹی آفیسز گئے تاکہ اپنی میٹرک اور انٹرمیڈیٹ کی اسنادکی جمع کروائی اصل نکلوا سکیں کہ اب پاکستان ملٹری اکیڈیمی کو ان کی ضرورت تھی۔ اس بھولی بسری تفصیل میں جو منظر آج بھی جزئیات کے ساتھ یاد ہے وہ یہ کہ وہاں دفتروں میں یونیورسٹی کے گذشتہ سے پیوستہ ہم جماعتوں نے کچھ تعجب اور کچھ تاسف سے ہمیں دیکھا کہ یہ کون ہے جو انجینیئرنگ کے رواں دواں سمسٹر کو بیچ منجدھار میں چھوڑ چھاڑ فوج میں جانے پر اسقدر راضی ہے۔ زندگی کے ایک اہم موڑ پر یہ فیصلہ لینے کی ہماری اپنی وجوھات تھیں جن کا ذکر پھر کہیں کریں گے۔ عزیزقارئین، وہاں پچانوے الیکٹریکل کے لیکچر تھیٹرز پر الوداعی نظر ڈالتےہوئے کئی منظر آنکھوں کے سامنے سے گزرگئے۔
گھوڑے شاہ اور کاپر سٹور کی سُلگتی گُل ہوئی جاتی شامیں، واپڈا ہاؤس کی بغل میں چیئرنگ کراس کی وہ دُھل کے نکلتی اک رات، اولڈکیمپس کے سامنے عجائب گھر اور این سی اے کے سنگم پر واقع چوک (کہ وہ جنت کے ٹکڑوں میں سے ایک ٹکڑا ہے)، نیوکیمپس کے سامنے نہر کے کنارے پر اترتی، آتے جاتے پھولوں کو چھیڑ کر گزرتی فرحت عباس شاہ کی تتلیاں، ریس کورس کی رنگین چہل قدمی، پینوراما کی ونڈوشاپنگ کم پوہنڈی اور بہت کچھ۔
تب ہم نے دل کو یہ کہہ کے تسلی دی کہ چند سالوں ادھر کی بات ہے، فوجی وردی پہنے کندھوں پر لشکتے پھول سجائے اسی لاہور کے فورٹریس سٹیڈیم پر ایک افسرانہ شان سے اتراتے پھریں گے اور یہ UET کے لونڈےتب بھی سائنوسائیڈ کے لہریوں سے الجھے انجینیئرنگ کی طویل گھاٹی کے بھُولے بھٹکے مسافر ہوں گے۔ عبیر ابوذری کی غزل کی مثل کہ
ستاروں سے آگے جہاں اور بھی ہیں
پرے سے پرے سے پراں اور بھی ہیں
ابھی تو تجھے ایک پھینٹی لگی ہے
ابھی تو ترے امتحاں اور بھی ہیں
صاحب بننے کو ہم افسر بھی بنے، کندھوں پر پھول بھی کھلے مگر اس کا کیا کریں کہ لگ بھگ سولہ سال پر محیط ایک الھڑ فوجی کیرئیر میں ہماری کبھی لاہور پوسٹنگ نہیں ہوئی۔ گزرے کل کی میاں میر چھاؤنی اور آج کے لاہور کینٹ نے ہمارا استقبال ہمیشہ ایک مہمان کےطور پرکیاجو کبھی تو کورٹروپس میس یا پھر ڈیفنس سروسز آفیسرز میس (DESOM) کے گیسٹ رومز میں آتے جاتے لاہور میں پل دو پل کو ٹھہرا۔
ہماری آج کی کہانی برطانوی راج میں اسی میاں میر چھاؤنی اور اس سے جڑے کچھ زمینی نشانوں اور آفاقی کرداروں کے بارے میں ہے۔
آج کے لاہور کینٹ میں طفیل روڈ پر واقع المشہور گرجا چوک میں ہمارے جگت میزبان DESOM کی شمالی حدبندی کی دیوارسے متصل سینٹ میری مگدلینی چرچ اپنے بلند ٹاور کے ساتھ کھڑا ہے۔
کتھیڈرل کی اندرونی دیواروں پر سنگِ مرمر کی ایک تختی میجر رابرٹ سپنسر اور سارجنٹ میجر جان پاٹر کو یاد کرتی ہے جو تیس جولائی 1857 کو میاں میر چھاؤنی میں باغیوں کےہاتھوں بہیمانہ قتل ہوگئے تھے۔
ہم اس تختی سے جڑے واقعے کا ذکر ابھی کرتے ہیں ذری ایک چکر انارکلی کا لگا آئیں۔
صاحبو اس بحث سے قطعِ نظر کہ اصلی نہاری تو صرف وارث نہاری ہے، اگر آپ اندرون لاہوری گیٹ میں حاجی صاحب نہاری والے کی قدیمی دکان پر کھڑے ہیں تو وہیں اندرون شہر کی بیرونی فصیل کے باہر سرکلر روڈ کےپرے انارکلی روڈ چلتی ہے جو اپنے ہم نام بازار میں لاچھوڑتی ہے۔
پرانی انارکلی برطانوی راج کے دنوں کے ابتدائی بازاروں میں سے ایک تھی جو شہر کی فصیل سے باہر آباد تھے۔
اٹھارہ سو ستاون (1857) کے مئی کا ذکر ہے کہ اسی انارکلی میں ہر میجسٹی ملکہ ٹوریہ کی اپنی ایٹی فرسٹ رجمنٹ آف فوٹ (HM 81st Regiment of Foot) کا کیمپ آباد تھا۔
یہیں سےتھوڑا دورقلعےکےاندرتوپخانے کی ہارس آرٹلری کاایک ٹروپ اور ایک آرٹلری بیٹری تعینات تھیں۔ یہ تمام کی تمام سپاہ یورپین افسروں اورسپاہیوں پرمشتمل تھی۔ ہندوستانی سپاہیوں اوران کے برطانوی افسران پرمشتمل مقامی بنگال انفنٹری (Native Bengal Infantry) کی تین پلٹنیں اورآٹھ کیویلری میاں میرچھاؤنی میں موجودتھیں۔
کچھ اس نوعیت کی صورتحال تھی کہ 12 مئی کولاہور کے ٹیلیگراف آفس میں میرٹھ اور دلی کی بغاوت کی اطلاع دیتا تار موصول ہوا۔ پرانے لاہور کے کہانی کار مجید شیخ ہمیں بتاتے ہیں کہ لاہور کا یہ تارگھر راوی کے اسی جزیرےپر واقع تھا جہاں کامران کی بارہ دری ہے۔
لاہور کے جوڈیشل کمشنر رابرٹ منٹگمری کے پاس وقت کم تھا۔ فوراً سے پیشتر انارکلی میں موجود یورپین سپاہ کو لاہور کے قلعے کا دفاع سنبھالنےکا حکم ملا۔ میاں میر چھاؤنی کے کمانڈر بریگیڈیئر سٹوارٹ کوربیٹ نے اگلی صبح مقامی بنگال انفنٹری کی پلٹنوں کو پریڈ گراؤنڈ میں اکٹھا ہونے کا حکم دیا۔
آج کےلاہورکینٹ میں جہاں سی ایم ایچ اورصدربازارکاسنگم ہےوہاں گئےوقتوں کےپریڈگراؤنڈ میں 13مئی کی صبح اکٹھی ہوئی سپاہ کی ترتیب کچھ اس طرح تھی کہ درمیان میں پریڈفارمیشن میں آراستہ تینوں بنگال انفنٹری کی پلٹنوں کےبائیں بازوپرآٹھ کیولری کےدستے موجودتھے۔ ان کی پشت پرنشانہ باندھےآرٹلری کی توپیں ایک قطارمیں اسطرح ایستادہ تھیں کہ بارودکوبس آگ دکھانےکی دیرتھی اورگولوں نےہندوستانی سپاہیوں کوآن کی آن میں جالیناتھا۔ ان سب سےپیچھےلاہور کےقلعے سےایک سرعت کےعالم میں پہنچے 81st رجمنٹ آف فوٹ کےیورپین سپاہی بندوقیں تانے بنگال انفنٹری کی پلٹنوں کو نشانے پر باندھےکھڑے تھے۔
13 مئی کی صبح جب ہندوستانی سپاہیوں کی لگ بھگ تین ہزار پانچ سو نفری کو ہتھیار ڈالنے کا حکم ملا تو درجن بھر توپوں اور تین سو مسلح یورپین سپاہیوں کی بندوقوں کے نشانے پر کھڑے ان ‘نیٹِوز’ کے پاس تعمیل کے علاوہ اور کوئی چارہ نہیں تھا۔
میاں میر پریڈ گراؤنڈ کی اس جلتی بجھتی سویر ہتھیار ڈالنے والوں میں مقامی بنگال انفنٹری کی چھبیسویں پلٹن، ٹوئنٹی سکستھ بھی تھی۔ یہ رجمنٹ پہلے پہل 1797 میں تیرہ بنگال انفنٹری کی پہلی پلٹن کے طور پر کھڑی ہوئی تھی اور بنگال انفنٹری کی سب سے مایہ ناز پلٹنوں میں سے ایک تھی۔
پوئل کی پلٹن کا لقب پائی اس رجمنٹ نے سر جارج پولاک کی زیرِ قیادت کابل کے مارچ میں خوب نام کمایا یہانتک کہ اعلی کارکردگی پر اسے لائٹ انفنٹری رجمنٹ میں ترقی دیدی گئی۔ کابل کے علاوہ اس جانباز پلٹن کے پاس ’مُودکی‘، ’فیروزشہر‘ اور ’سوبراؤں‘ کے جنگی اعزاز بھی تھے۔
بنگال نیٹوانفنٹری کی باقی پلٹنوں کی طرح چھبیسویں رجمنٹ کی نفری بھی گنگا جمنی دوآب میں اودھ اور بہار کی ریاستوں سے آئے سپاہیوں پر مشتمل تھی۔ ان میں زیادہ تر اونچی ذات کے ہندو تھے جبکہ لگ بھگ 20 فیصد نفری مسلمانوں اور سکھوں پر مشتمل تھی۔
دلی اور میرٹھ میں جہاں بغاوت شروع ہوئی ان سپاہیوں کو پوربیئے کہا جاتا تھا، مگر سرحد کے اس پار لاہور، سیالکوٹ گجرات اور دیگر چھاؤنیوں میں انہیں یہاں کے مقامی لوگ ہندوستانی کہتے اور بلاتے تھے۔ اٹھارہ سو ستاون میں اس پلٹن کی کمان لیفٹیننٹ کرنل ٹیلرکے پاس تھی۔
وسط مئی کی اس سویر ہتھیار ڈال دینے کے بعد جون اور جولائی کا مہینہ ان ہندوستانی سپاہیوں نے میاں میر چھاؤنی میں ایک ڈھکے چھُپے اضطراب کے عالم میں گزارنا تھا۔ تیس جولائی کو جبکہ لاہور اور اس کے گردو نواح میں ایک سُرخ آندھی چلنے کو پر تولتی تھی ٹوئنٹی سکستھ بنگال انفنٹری کی لائنوں میں ہوئی ایک چپقلش کے نتیجے میں اپنے خون میں نہائی چار لاشیں بے یارومددگار پڑی تھیں۔ ان میں دو مقامی افسر تھے، ایک صوبیدار اور دوسرا حوالدار میجر اور ساتھ ہی دو یورپین افسر، کمپنی کمانڈر میجر رابرٹ سپنسر اور سارجنٹ جان پاٹر۔
لگ بھگ ڈھائی مہینوں سے دلوں مین پنپتی بغاوت کے صاف چھپتے بھی نہیں، سامنے آتے بھی نہیں جراثیم بالآخر بیدار ہوگئے تھے اور چار خون کرنے کے بعد بنگال انفنٹری کی چھبیسویں پوئل کی پلٹن اب فرار تھی۔
لاہور کے گردو نواح سے اُٹھتی سرخ آندھی کی چادر کے پردے میں ٹوئنٹی سکستھ بنگال جب میاں میر سے نکلی تو ان کی کوئی خبر نہ آئی ۔۔۔
اور اڑتالیس گھنٹوں کے بعد جب آئی تو وہ کچھ اچھی خبر نہ تھی ۔۔۔
ـــ
کالیاں والا کھُوہ
میاں میر کے گمشدہ شہید ۔ دوسرا حصہ
ـــ
امرتسر سے شمال کی سمت لگ بھگ پندرہ میل کے فاصلے پر اجنالہ ہے۔ سرحد کے اِس پار نارنگ منڈی کےہمسائے کالا خطائی سے اگرآپ پُورب کی دِشا میں امن کی فاختہ اڑائیں اور وہ بلاروک ٹوک اُڑتی چلی جائےتو اتنے ہی فاصلے یعنی پندرہ میل پر
اجنالےکی خبر لائے گی (انگریزی ترکیب میں اس فاصلے کو کسی کوے کی بھری اُڑان سے تشبیہ دیتے ہیں، ایز دا کرو فلائیز)۔ تو صاحبو پندرہ میل امرتسر سے شمال اور کالا خطائی سے مشرق کی سمت اسی اجنالے کا ذکر ہے۔ 1957 کا سال تھا جب مشرقی پنجاب کے مکھیہ منتری پرتاپ سنگھ کائروں اجنالہ آئے
ویڈیو لنک
اور مٹی کے ایک ٹیلے کے جلو میں اکٹھے ہوئے لوگوں سے خطاب کیا۔
1857 میں لڑی آزادی کی جنگ کو سو سال ہونے کو آئے تھے اور اجنالہ کا یہ خطاب انہی صدسالہ تقریبات سے متعلق تھا۔ خطاب کے لیے جو جگہ چُنی گئی وہ ایک ہموار زمین پر ٹنڈ منڈ درختوں سے گھرا ایک ٹیلہ تھا۔
امرتسر اور اس کے نواحی دیہات میں جب بڑے بوڑھے شام کی چوپالوں میں گئےدنوں کاسُراغ لاتی کہانیاں کہتےتو اس ٹیلے کو کالیاں والا کھُوہ کے نام سے یاد کرتے۔
تو کسی زمانے میں یہاں کنواں ہوا کرتا تھا، جسے آزادی کی جنگ سے کچھ تو تعلق تھا کہ پنجاب کا مکھیہ منتری یہاں تقریر کرنے کو آیا تھا۔
یہ تعلق کیاتھا اور اس کھُوہ (کنویں) کی کیاکہانی تھی، کسی کوخبر نہ تھی، آزادی کی جنگ کے سوسال بعد پرواہ بھی کسےتھی!
تو جیسا کہ فلموں میں وقت کا پہیہ گھومتاہے تو اجنالہ میں بھی وقت کا پہیہ گھوما اور سن 1972 میں، پرتاپ سنگھ کائروں کےخطاب کے پندرہ سال بعد اجنالہ کےباسیوں کوخیال آیا
کہ یہ جگہ (کالیاں والا کھُوہ) ضرور کوئی مقدس استھان رہا ہوگا، پس یہاں ایک گُردوارہ بننا چاہیے۔ کالیاں والےکھُوہ کی آخری نشانی، مٹی کا ٹیلہ اجنالہ کے گُردوراے نے نگل لیا۔
اگر آپ آج کی تاریخ میں اجنالہ کے مسافر ہوتے ہیں تو یہاں گُردوارہ سنگھ سبھا میں
آپ کو ایک گولائی میں دومنزلہ یادگاری عمارت نظر پڑتی ہے۔ لال گیری کے لیپ پر سنہرے رنگ میں گُرمکھی کے شبد ہمیں بتاتے ہیں
پہلی جنگِ آزادی دے 282 شہید
غدر 1857 دے شہیداں دی یادگار
کالیاں والا شہیدی کھُوہ
اجنالہ
2004 میں تاریخ سے شغف رکھنے والے امرتسر کے باسی سریندرکوچر نے ایک مقامی لائبریری کے باہر سے کچھ کتابیں خریدیں۔ یہ ایسا ہی ہے کہ ہم اور آپ پرانی انارکلی کی یاتراکو نکلیں اور وہاں سڑک کنارے لگے پرانی کتابوں کے بک سٹالز پر قسمت کی یاوری سے کوئی خزینہ ہاتھ لگ جائے۔
مسٹر کوچر کے ہاتھ لگی کتابوں میں ایک کتاب تھی ’کرائسس اِن پنجاب‘۔ 1857 میں امرتسر کے ڈپٹی کمشنر فریڈرک ہینری کُوپر کی لکھی اس کتاب میں اجنالہ میں اس کی زیرِنگرانی انجام پائے بنگال انفنٹری کے باغی سپاہیوں کےقتلِ عام کاذکر تھا۔ دس سال کی عرق ریزی جس میں اجنالہ کےگردوارہ سنگھ سبھا
کی انتظامیہ کو آمادہ کرنا بھی شامل تھا کے بعد 2014 میں جب گمشدہ کالیاں والے کھُوہ کو کھوجنے کے لیے کھُدائی شروع ہوئی تو وہ اپنی مدد آپ کے تحت تھی۔ اپنی دُھن میں مگن بےنیاز دلّی کی سرکار کو آزادی کے شہیدوں سے کوئی سروکار نہیں تھا۔
اجنالہ کے گُردوارہ سنگھ سبھا میں تازہ کھدےکالیاں والے کُھوہ کے شکم کو جب کدالوں نے چھیڑا تو اس نے ایک صدی کے دفن راز اگل دیے۔ ایک بڑی تعداد میں شکستہ استخوان، دندان کھوپڑیاں اور ہڈیاں، بناؤ سنگھار کا سامان و زیورات اور ایسٹ انڈیاکمپنی کے دور کے سکے۔
اگر کُوپر کی کہانی کے مندرجات کو درست مان لیا جائے تو یہ اجنالہ میں موت کے گھاٹ اُتارے گئے باغی ہندوستانی سپاہیوں کی اجتماعی قبر تھی۔
فریڈرک ہنری کُوپر سفاکیت سے بھرپور مگر جذبات سے عاری قتلِ عام کی تفصیل لکھ دینے کے بعد ہمیں بتاتا ہے کہ باغیوں کی لاشوں کو ایک خشک کنویں کی
اندھی گہرائیوں کےحوالےکرنےکےبعد ان کےاوپر مٹی ڈال کر نہ صرف کنویں کو پُر کردیاگیا بلکہ مزید خاک ڈال کر اسے ایک ٹیلےکی شکل دی گئی، تاکہ ’فسادیوں کی یہ یادگار‘ عوام الناس کےلیےعبرت کا نشان ہو۔ کُوپر کا ارادہ یہاں پرباقاعدہ ایک یادگارکھڑی کرنےکا تھا جس پرفارسی، گُرمکھی اورانگریزی،
تین زبانوں میں جلی حروف میں ’باغیوں کی قبر‘ لکھا ہو۔ بوجوہ یہ تو نہ ہوسکا، مگر مٹی کا ٹیلہ اپنی جگہ رہا اور اس کے ساتھ جُڑے کالے(ہندوستانی) باغی سپاہیوں کی یاد بھی مقامی داستانوں کا حصہ بن گئی۔
1928 میں اجنالے کے بابا جگت سنگھ کو کالیاں والے کھُوہ کی کہانی اسی طرح یاد تھی۔
گیانی ہیرا سنگھ درد نے اپنے رسالے پھلواری کے غدر نمبر فروری 1928کے شمارے میں بابا جگت سنگھ کا انٹرویو کیا تھا۔
نوے سالہ بابا جگت سنگھ 1857 میں جوان تھا جب اس نے اجنالہ میں بنگال رجمنٹ کے ہندوستانی سپاہیوں کا قتلِ عام ہوتے دیکھا۔ اسے یاد ہے کہ ان باغی فوجیوں کاگروہ راوی کے پتن سے
گرفتارکرکے اجنالہ لایا گیا تھا جہاں انہیں دس دس کے گروہ میں باہر لاکر فائرنگ سکواڈ کی گولیوں سے بھُون دیا گیا۔
راوی کے پتن سے پکڑے گئےان باغی سپاہیوں کی شناخت کے لیے ہم واپس آج کے زمانے کو پلٹتے ہیں۔ اجنالہ کے گُردوارے میں 2014 میں انجام پائی کالیاں والے کھُوہ کی کُھدائی
آرکیالوجی کے سائنٹفک اصولوں پر پورا نہیں اترتی، عین ممکن ہے کہ بہت سےقیمتی شواہد ضائع بھی ہوگئے ہوں۔ کھدائی میں برآمد ہوئے دفینوں کی جانچ کا عمل 2022 میں کیا گیا۔ مائٹوکانڈریل ڈی این اے اور سٹیبل آئسوٹوپ کے تحقیقی ترازو پر استوار اس تحقیق میں سامنے آیا کہ
دانتوں کے کُل نمونے 246 گمنام سپاہیوں سے متعلق ہیں۔ ان سپاہیوں کا تعلق اڑیسہ، بہار، بنگال اور اُترپردیش کےپوربی علاقوں سے ہے۔
صاحبو ہم اب یہ جانتےہیں کہ اجنالہ کے کالیاں والے کھُوہ سے برآمد ہوئے یہ گمنام ڈھانچے اور کھوپڑیاں چھبیسویں مقامی بنگال رجمنٹ کے ہندوستانی سپاہیوں کی ہیں
میاں میر چھاؤنی میں مقیم ہماری پوئل کی پلٹن، جو 30 جولائی 1857 کی سہ پہر جبکہ ایک سُرخ آندھی لاہور کو ڈھانپنے کو پر تولتی تھی، اپنے انگریز کمپنی کمانڈر، سارجنٹ میجر اور دومقامی افسروں کو مارکر ایک بغاوت کے چلن میں لاہور سے فرار ہوگئی تھی ۔ ۔ ۔
پرکاش پانڈے، جمعدار میروان خان
اورمیاں میرکےپانچ سوگمنام شہید ۔ تیسرااورآخری حصہ
ـــ
آرتھرموفٹ لینگ بنگال انجینیئرزمیں فرسٹ لیفٹیننٹ تھاجب اس نے1857 تا 59 لگ بھگ دوسال کاعرصہ ہندوستان میں گزارا۔ مئی کےوسط میں میرٹھ سے’بغاوت‘ کی خبرلاہورپہنچی تو لیفٹیننٹ لینگ لاہور میں تعینات تھا۔
ہمارے فرسٹ لیفٹیننٹ کی ڈائری وسط مئی سے جولائی کے آخری ہفتے تک لاہور میں گزرے واقعات کا ایک مستند روزنامچہ ہے۔ لینگ نے 25 جولائی کو دلی کا سفر اختیارکرنے سے پہلے کا وقت میاں میر اور انارکلی میں گزارا۔ میرٹھ سے بغاوت کا ٹیلیگرام موصول ہونے کے اگلے دن 13 مئی کا اندراج ہمیں بتاتا ہے
کہ بنگال ہارس آرٹلری کی بارہ توپوں اور کوئینز اون 81st رجمنٹ آف فُٹ کی چھ مسلح کمپنیوں کے ہتھیاروں کی زد پر اپنے ہتھیار اٹھائے نیٹو بنگال انفنٹری کی تین پلٹنیں 26, 16 اور 49 اور 8 کیویلری کی پوری رجمنٹ میاں میر کے پریڈ گراؤنڈ میں کھڑی تھیں۔ جب بریگیڈیئر کاربٹ نے کہا کہ
اپنی وفاداری کے ثبوت میں ہندوستانی سپاہ کو گوروں کے سامنے ہتھیار ڈالنے پڑیں گے تو سب کو جیسے سانپ سونگھ گیا۔ سارے میں کوئی آواز نہ تھی۔ اور پھر سپاہیوں کی وفاداری اور حمیت کو للکارتے تین فلک شگاف کاشن گونجے، شولڈر آرمز، تعمیل میں ہتھیار کندھوں سے لگ گئے،
گراؤنڈآرمز، ہتھیار زمین کےسہارےٹکا دیئےگئےاور پھر ’پائل آرمز‘ ہتھیارنیچےگرادو کی آوازپرسپاہیوں میں جیسےایک بے چینی، ایک سراسیمگی پھیل گئی ہو۔ ان میں سےکچھ ایک لمحےکوہچکچائے مگرایک دوسرےکی دیکھادیکھی سب نےہتھیارڈال دئیے۔ اٹھارہ سو ستاون کےمئی کی بعدکی صبحوں، دوپہروں اورشاموں میں
کوئی خاص تبدیلی نہیں آئی۔ وہی ایڈجوٹنٹ کی زیرِنگرانی روزانہ کی ڈرل، مگر اب سپاہیوں کےبےجان ہاتھوں نےبندوقوں کی جگہ تلواریں اورلاٹھیاں سنبھال لی تھیں۔ آنےوالےدنوں میں انہی میں سےایک تلوارکےبپھر کر کاٹ ڈالنے کا تاوان میاں میر کی سب سے وفادار اورقابلِ بھروسہ پلٹن کو ادا کرنا تھا۔
آرتھرلینگ کی ڈائری میں اگلا صفحہ 12 جون کا پلٹتےہیں تو جالندھر میں باغیوں کی سرکوبی کو جاتے لیفٹیننٹ کرنل نویل چمیبرلین کا کالم لاہور میں ٹھہرا تو اس میں 25 بنگال انفنٹری بھی تھی۔ چیمبرلین نے اس دن رجمنٹ کے دو سپاہیوں کو محض اس بنا پر توپ کے دھانے سے باندھ کر اُڑا دیا تھا کہ
ان کی باتوں سے بغاوت کی بو آتی تھی۔ لینگ نے اپنی ڈائری میں ان بدقسمت سپاہیوں کا جرم بتانے کے لیے انگریزی اصطلاح mutinous language استعمال کی ہے۔ مزید یہ لکھتےہوئے لینگ کی خوشی چھپائے نہیں چھُپتی کہ باغیانہ سرگرمیوں میں ملوث ہونے کےالزام میں مزید بارہ لوگوں کو ٹھکانےلگانےکےلیے
خود اسے یعنی لیفٹیننٹ لینگ کو بنفسِ نفیس پھانسی گھاٹ تیار کروانے کا خوش کن حکم ملا۔
” …I then received the pleasant order to have gallows erected”
صاحبو اسوقت کے لاہور میں بھگوڑوں اور باغیوں کی سرکی قیمت بیس روپے فی کس مقرر تھی اور کتنے ہی ہندوستانی سپاہی ’زندہ دلانِ‘ لاہور اور
مضافات کے رہنے والوں کی مخبری کا شکار ہوئے۔
بنگال انجینیئرز کالیفٹیننٹ لینگ تو25 جولائی کودہلی کاپروانہ تھام لاہور سے روانہ ہوا، مگر وہ جاتے جاتے اس شہرِ دلپذیرمیں اپنی دلربامنگیتر کرنل بوئلوُ کی دختر سارہ بوئلوُ کو چھوڑے جارہا تھا سو اس کا دل اور کان
لاہور اور وہاں سے آنے والی خبروں سے جڑے تھے۔ لینگ کو یہ خبر 4 اگست کو پہنچی کہ 30 جولائی کو میاں میر کی پلٹنوں میں سب سے دلدار اور سب سے زیادہ قابلِ اعتماد 26 بنگال رجمنٹ نے بغاوت کردی تھی اوراپنے شریف النفس کمانڈر میجر رابرٹ سپنسر کو درندگی سے قتل کرڈالا تھا۔
اب یہاں 30 جولائی کو دن چڑھے لاہور میں اٹھنے والی گرد آلود آندھی کی طرح تاریخ کے اوراق میں واقعات کی تفصیل بھی کچھ کچھ دھندلا گئی ہے۔
کچھ روایتیں یہ کہتی ہیں یہ سارافتور 26 بنگال کے پرکاش سنگھ (یا پرکاش پانڈے) کا مچایا ہواتھا جو اپنے ’نیک صفت‘ کمپنی کمانڈر میجر سپنسر کا خون کرکے
تلوارلہراتاہوا باقیوں کو اکسا رہا تھا کہ ان فرنگیوں کو مارڈالو۔ وہاں موجود سکھ لیویز کے سپاہیوں نے جب اشتعال کے عالم میں اندھا دھند فائر کھول دیا تو 26 بنگال بدحواس ہوکر کینٹ سے بھاگ کھڑی ہوئی۔ کہانی کا دوسرا رُخ یہ کہتا ہے کہ اس دوپہر اٹھتی آندھی سے گرد آلود میاں میر چھاؤنی میں
جبکہ حدِنگاہ قریب قریب صفر تھی محض شک کی بنیاد پر سکھ لیویز کے سپاہیوں نے فائر کھول دیا تھا۔ گولیوں کی آواز سُن کر 26 بنگال کے ہراساں سپاہیوں کی خبر گیری کو میجر سپنسر اور سارجنٹ میجر آئے تھےکہ تلوار لہراتے پرکاش پانڈے کی تحریک پر سپاہی ان پر پل پڑے۔
کچھ ہی دیر میں میجر سپنسر، سارجنٹ میجر جان پاٹر اور دو ہندوستانی افسروں کی لاشیں اپنے ہی خون میں سُرخ ہورہی تھیں جب یہ پلٹن ایک بدحواسی میں میاں میر چھاؤنی سے بگٹٹ بھاگی۔
آرتھر لینگ کی ڈائری ہی ہمیں بتاتی ہے کہ پہلے ہلے میں بریگیڈیئر کوربیٹ کی تعاقب میں بھیجی 81 رجمنٹ آف فوٹ اور
توپخانے نے 9 بھگوڑے سپاہی پکڑے اور ان کو اُسی دن کی مہلت میں شتابی توپوں کے دہانے سے باندھ کر اُڑا دیا گیا۔
لاہور اور گردونواح کو ڈھانپتے گردوغبار کے طوفان میں میاں میر سے بھاگی ایک پوری پلٹن کی پانچ سو سے اوپر نفری کچھ اس ڈھنگ سے غائب ہوئی کہ اس کی کوئی خبر نہ آئی۔
لاہور اور امرتسر سے پیدل فوج اور ٹوانہ ہارس کی پلٹن کو جنوب میں ستلج اور بیاس کے سنگم پر ہریکے پتن تک دوڑایا گیا مگر پوئل کی پلٹن کے مفرور سپاہیوں کا کچھ پتہ نہ چلا۔
26 بنگال کے ہمارے سپاہی کسی اور ہی وجہ کے کارن جو ان کو بہتر معلوم ہوگی جنوب میں ہریکے پتن کی گزرگاہ کو چھوڑ کے
لاہور سے شمال کی سمت نکل گئے تھے۔ راوی کے ساتھ ساتھ چلتے انہیں پار تو اترنا تھا، مگر یہاں آباد سکھ اور مسلمان زمیندار اور کسانوں کی بدولت خدا کی زمین ان پر تنگ ہونے والی تھی۔
راوی اور بی آربی نہر کے سنگم پر سائفن ہے وہیں سے تھوڑا اوپر ایک چھوٹا گاؤں ڈھوڈیاں کے نام کا آتا ہے۔
آج کے نقشے پر بھی دیکھیں تو خشک ہوتا راوی دو سے تین لہروں میں بٹتا ہے اور درمیان میں کچھ جزیرے اور ٹاپو نظر پڑتے ہیں۔ گئے دنوں کا راوی جب پورے جوبن پر بہتاتھا تب بھی یہاں لہروں میں بٹتا کچھ جزیروں اور ٹاپوؤں کے نشان چھوڑتا تھا کہ میاں میر سے بھاگےچھبیس بنگال کے سپاہی یہاں سے
ویڈیو لنک
راوی کے پارجانے کا سوچتے تھے۔ ڈھوڈیاں کے لوگوں نے جب سپاہیوں کے لشکر کو پوچھ تاچھ کرتے دیکھا تو وہ کھٹکے اور کہنے والے کہتے ہیں ان سپاہیوں کو باتوں میں لگا انہوں نے ایک ہرکارہ روای کے پار اجنالہ سے کچھ پہلے سوریاں گاؤں میں تحصیلدار پریم ناتھ کو خبرکرنے کو بھیجا۔
کہنےوالےیہ بھی کہتےہیں کہ اس ہرکارےکانام سلطان تھا۔ تحصیلداراپنےساتھ گھڑسواروں کےجتھےلےکر چلا تو آس پاس کے گاؤں کے لوگ کلہاڑیاں، کسیاں اور درانتیاں سنبھالے چل پڑے۔ سکھوں اور مسلوں کی اس فوج نے چھبیس بنگال کے نہتے سپاہیوں پر دھاوا بولا تو قریب قریب ڈیڑھ سو فوجی قتل کردیئے گئے۔
باقی بچ جانےوالوں نےراوی میں چھلانگیں لگائیں اوران میں جو تیراک تھےاور بہتےپانی کےریلےسےبچ پائےراوی کےبیچ ایک چھوٹے جزیرےپرادھ موئےجمع ہوگئے۔
میاں میرکےبھگوڑوں کی راوی کےایک جزیرے پر بے یارومددگار پھنس جانے کی خبر دن کے دوبجے امرتسر کے ڈپٹی کمشنر صاحب بہادر کوُپرکو پہنچ گئی تھی۔
وہ اپنے ساتھ ٹوانہ ہارس کے اسی سوار لے کر چلا۔ اس دستے کے ساتھ جانے والوں میں رسالدار صاحب خان ٹوانہ اور رسالدار برکت علی تھے۔امرتسر کے ڈپٹی کمشنر کی سواری بادِبہاری چلی تو ایکسٹرا اسسٹنٹ کمشنر سردار جودھ سنگھ اور تحصیلدار ہرسُکھ رائے بھی ساتھ ہولیے۔
یہاں کُوپرکی کرائسس اِن پنجاب (Crisis in Punjab) کےصفحے ایک تفاخرمیں یہ خبربھی دیتےہیں کہ راوی کےاس سفرمیں امرتسر اوراجنالہ کےبیچ پڑتےسندھاوالیہ سکھوں کےگاؤں راجہ سانسی سے نوجوان سردارپرتاپ سنگھ نےپانچ سےچھ سواروں کےساتھ ’بصد اصرار‘ ساتھ جانےکی ’درخواست‘ کی جنہیں ساتھ ملالیاگیا۔
لاہور سےچالیس میل کاپینڈا کرکےاپنےسکھ اورمسلمان بھائیوں کے ہاتھوں ڈیڑھ سو جانوں کا خون کروا راوی کےسیلابی پانیوں میں بہتے ڈوبتےچاروں طرف سےگھرےجزیرےپر26 بنگال کےسپاہیوں میں مزید سکت نہیں تھی۔ کشتیوں پران تک پہنچی کُوپرکی سپاہ کواپنے انجام سےبےخبرانہوں نےراضی بہ رضاگرفتاری دےدی۔
لگ بھگ پینتیس سپاہیوں نے گرفتاری دینے پر موت کو ترجیح دی اور راوی کے پانیوں میں غرقاب ہوئے۔
اس شام راوی کےجزیرےسےگرفتارکیےگئےسپاہی کوُپر کے دستے کے ہمراہ اجنالہ لائے گئے اور پولیس سٹیشن میں نظربند کیے گئے۔ راجہ سانسی کا نوجوان پرتاپ سنگھ اپنےجتھےکےساتھ گردونواح کے گاؤں میں نکلا
اور 66 مزید ہندوستانی سپاہی گرفتار کرلایا۔ جگہ کی تنگی کی وجہ سے انہیں تحصیل ہیڈکوارٹر کی مینار نما فصیل میں بند کردیا گیا۔ ایک رات کے حبس، بھوک، پیاس اور گھٹن میں ان میں کسی نے زندہ نہیں بچنا تھا۔ اس رات اجنالہ میں دوسو بیاسی قیدی ڈپٹی کمشنر کوُپر کے رحم وکرم پہ تھے۔
اگلے دن ان کی قسمتوں کا فیصلہ کرتا کُوپر جب کرائسس اِن پنجاب لکھتا ہےتوایک سفاکانہ بےرحمی کےساتھ ان سپاہیوں کے آخری لمحات کی تصویرکھینچتاہے۔
کوُپر کی کرائسس اِن پنجاب ان دوسو بیاسی سپاہیوں کی ڈپٹی کمشنر کےحکم پرسزائےموت پرعملدرآمدکو’wholesale execution‘ (تھوک کےبھاؤ موت کی سزا)
بتاتی ہے جن کو دس دس کی ٹکڑیوں میں فائرنگ سکواڈ کے سامنے کھڑا کیا گیا۔ ایک برطانوی شہنشاہیت کے زیرِتسلط مقبوضہ ہندوستان میں انگریز صاحب بہادرکی رعیت میں ہندوستانی جان کا نرخ تھوک کے بھاؤ ہی تو لگتا تھا۔
یکم اگست 1857 کے ہندوستان میں بقرعید تھی تو ’محمدن‘ سپاہی تو قربانی کی رسم
اداکرنے اپنے علاقوں میں چھُٹی بھیج دیےگئے۔ کُوپر کے منتخب کردہ فائرنگ سکواڈ میں ایک عیسائی اور باقی سکھ رضاکار رنگروٹ تھے جن کی بھرتی کو ابھی تین ماہ بھی نہیں ہوئےتھے۔ ایک جوش کے عالم میں وہ ایک الگ قسم کی قربانی کی رسم ادا کرنے کو پر تولتے تھے۔
دس دس کی ٹکڑیوں میں لائے چھبیس بنگال کی سپاہیوں کو نزدیکی فاصلے سے دل کا نشانہ لیتے ٹریگر دباتے ان سکھ رنگروٹوں نے پلک بھی نہ جھپکی اور آن کی آن میں 232 لاشوں کا ڈھیر لگا دیا۔ راجہ پرتاپ سنگھ کے پکڑے قیدیوں کو نکالنے کے لیے جب تحصیل ہیڈکوارٹر کے فصیل نما ٹاور کا دروازہ کھولا گیا
تو ایک بھی ذی روح باہر نہ نکلا۔ اندر پڑے بے جان جسموں کو ٹٹولا گیا تو عقدہ کھلاکہ یہ بدنصیب ایک رات کی رات کے حبس میں بھوک، پیاس سے ہانپتی سانسوں کے گھُٹ جانے سے قیدِ حیات و بندِ غم دونوں سے نجات پاگئے تھے۔ پولیس سٹیشن اور تحصیل دفتر میں پڑے ان لاشوں اور نیم مردہ جسموں کوٹھکانے
لگانے کے لیے اجنالہ میں ایک اندھا کنواں دستیاب تھا۔ ڈپٹی کمشنر سے سزائے موت پانے والے 26 بنگال رجمنٹ کے ان شہیدوں میں پانڈے بھی تھے، تیواری بھی، براہمن اور مسلمان بھی، جن سے زندگی کی رہی سہی رمق فائرنگ سکواڈ کے سکھ سواروں نے چھین لی اور اب اجنالہ کےخاکروب ان بے جان جسموں کو زمین
پرپڑے کُوڑے کی مانند اندھے کنویں کے کُوڑے دان میں گھسیٹتے تھے۔
زندگی کی بساط بھی نرالی ہے۔ چند سالوں کی دوری پر سوبراؤں، چلیانوالہ اور گجرات میں ایک وحشت میں انگریزوں سے لڑمرجانے والاخالصہ آج انہیں فرنگیوں کی اطاعت کا حلف اٹھائے اپنے ہندوستانی ہم وطنوں پر گولیاں برساتاتھا۔
اج ہووے سرکار تاں ملّ پاوے،
جہڑیاں خالصے نے تیغاں ماریاں نی
شاہ محمدا اک سرکار باجھوں،
فوجاں جت کے انت نوں ہاریاں نی
اسی اندھے کنویں میں جب پورب سے آئے ہندوستانیوں کی قبر بن گئی تو لوگ اسے کالیاں دا کُھوہ کہنے لگے۔ ایک سو پینسٹھ سال بعد اسی خالصہ پنتھ نے جس کے سکھوں نے
انہیں موت کے گھاٹ اتارا تھا، اجنالے کے گرودوارے کے استھان کی قربانی دے کر کنواں کھود جب مٹی سے ان کالوں کی استھیاں نکالیں تو ان کے احترام میں اسے شہیداں دا کھُوہ کا نام دیا۔ زندگی کی بساط کے رنگ بھی نرالے ہیں کہ ان ہندوستانیوں کے کل کے قاتل آج انہی سپاہیوں کو آزادی کی جنگ میں
ان کا مقام دلوانے کو دوڑ دھوُپ کرتے ہیں مگر اب ہندوستان کی سرکار کو پرواہ نہیں۔ عزیز قارئین، جنگِ آزادی کے ان گمنام شہیدوں کی اس کہانی میں ابھی ایک دو موڑ اور بھی ہیں۔
اجنالہ لائے گئے چھبیس بنگال کے سپاہیوں میں ایک شدید زخمی بھی تھا جو فائرنگ سکواڈ سے بچ گیاتھا۔
ہمیں اسکا نام نہیں ملتا مگر یہ ضرور پتہ لگتا ہے کہ اسے امرتسر اور اجنالہ کے نواح سے بعد میں پکڑے گئے رجمنٹ کے دوسرے بھگوڑوں کے ساتھ لاہور بھیج دیا گیا جہاں فائرنگ سے زیادہ ہولناک انجام ان کا منتظر تھا۔ انہیں لاہور میں ایک مجمعے کے سامنے توپوں کے دہانے سے باندھ کر اُڑادیاگیا۔
میاں میر سے بھاگی ہماری پوئل کی پلٹن کے انچاس جوان اور بھی تھے جو کسی نہ کسی طرح ڈیرہ بابا نانک اور بٹالہ کو جاتی سڑک پر سچیت گڑھ کے پاس پہنچ گئے۔ ایک اجنبی بے مہر سرزمین میں پولیس اور 2 کیولری کے دستوں نے انہیں جالیا۔
یہیں کہیں ایک یورپین جوڑے کو میجر رابرٹ سپنسر (جنکا میاں میر میں قتل ہوا تھا) کی تلوار ملی جو لاہور واپس بھیج دی گئی۔
صاحبو میاں میر میں ہوئے چوہرے قتل کی واردات کا تاوان اپنی جانوں سے بھرنے والے چھبیس بنگال کے پانچ سو سے زائد سپاہیوں میں سے ہمیں صرف دو نام پتہ چلتے ہیں۔
ایک تو پرکاش پانڈے جس نے میجر سپنسر کو موت کے گھاٹ اتارا، دوسرا جمعدار میروان خان۔ میروان گرداسپور میں لوکل لیویز کے سپاہیوں کے ہتھے چڑھ گیا تھا، اس کے ساتھ 26 بنگال کاایک نائیک بھی تھا مگر تاریخ ہمیں اس کا نام نہیں بتاتی۔ مگر جن لوگوں نے آگے بڑھ کر آزادی کے ان شہیدوں کو مارنے
یا پکڑوانے میں سرکارِ انگلشیہ کی مدد کی اور انعام و اکرام کے حقدار ٹھہرے ان کے نام ہمیں تواتر سے ملتے ہیں۔
راوی سائفن کے پاس ڈھوڈیاں گاؤں کا چوکیدار سلطان، جس نے تحصیلدار پریم ناتھ کو مخبری کی تھی، ترقی پاکر جمعدار بنا اور دو سو روپے نقد انعام بھی پایا۔
محرر نانک چند جس نے پریم ناتھ کی فوج میں راوی کے کنارے بھگوڑوں پر حملہ کیا تھا جمعدار بنا اور پچیس روپے ماہوار مشاہرے سے فیضیاب ہوا۔ پھر دفعدار اُتر سنگھ تھا جس نے چار کالے سپاہی مارے تھے، اور ٹوانہ ہارس کارسالداربرکت علی جو راوی کےجزیرےپرپڑےسپاہیوں کویہ ورغلا کرقید کرلایا تھا
کہ سزا کےطور پر بس انکاکورٹ مارشل ہوگااور جاں بخشی ہوجائے گی۔ سوریاں گاؤں کاتحصیلدار پریم ناتھ جواجنالہ سےپہلاجتھالے کربھگوڑوں سےمقابلےکو راوی پر آیاتھا اور قریباً ڈیڑھ سو سپاہی مارے گئے تھے، اسے وفاداری اور کارکردگی دونوں نبھانے پر پنجاب کے چیف کمشنر کے دفتر سے پروانہ جاری ہوا۔
یہ بات یاد رکھنے کی ہے کہ چھ سو نفری پر مشتمل پوئل کی پلٹن چار قتل کرنے کے بعد میاں میر چھاؤنی سے بھاگ گئی تھی۔ انہوں نے نہ تو بغاوت کا اعلان کیا تھا اور نہ ہی ایسی کوئی حرکت جس سے ان کی باغیوں میں شمولیت کا ثبوت مل سکے۔ وہ نہتے سپاہی تو اپنی جان بچا کر بھاگے تھے۔
اڑتالیس گھنٹوں کے اندر 468 سپاہی یا تو لڑتے ہوئے مارے گئے یا پھر اجنالہ کے فائرنگ سکواڈ یا تحصیل ہیڈکوارٹر کی بند فصیل کے حبس میں دم گھٹنے سے جاں بحق ہوئے۔ بعد کے دنوں میں قتل ہوئے کل سپاہی ملا کر یہ تعداد508 بنتی ہے۔
ان سپاہیوں کومحض ایک مجسٹریٹی حکم کی اوٹ میں ٹھکانےلگانے والے
ڈپٹی کمشنر کوُپر کا دماغی کیڑا صاحب بہادر سے کرائسس اِن پنجاب میں لکھواتا ہے کہ ان ’باغیوں‘ کو انکا جرم سنایا گیا جو انہوں نے مانتے ہوئے سزائے موت کو ’بخوشی‘ قبول کیا، نہ صرف یہ بلکہ ان کے بیوی بچوں کو بغیر سزا چھوڑ دیا گیا تو انہوں نے بھی تاجِ برطانیہ کےانصاف کی داد دی۔
پنجاب کے چیف کمشنر اور جوڈیشل کمشنر دونوں نے اپنے پروانوں میں کوُپر کے اقدام کی تائید کرتے ہوئے اس قتلِ عام کو درست فیصلےکی سند عطا کی۔ باقیوں کو تو چھوڑیئے ہمارے راجہ آف کپورتھلہ نے اپنے ’رحم دل دوست‘ ڈپٹی کمشنر کوُپر کولکھے گئے خطوط میں اس اقدام کی تعریف کرتے ہوئےلکھا کہ اس سے
پنجاب میں اچھا پیغام جائےگا۔
آج کے اجنالہ میں شہیدوں والا کھوہ ہے اور ایک احتیاط بھری مشقت میں یہاں سے برآمد کی گئی ہمارے شہید سپاہیوں کی باقیات ہیں۔ ان میں پرکاش پانڈے اور جمعدار میروان خان تو شاید نہ ہوں، مگر یہ سب انہی کے بھائی بند ہیں۔
ایک عارضی میوزیم میں بے نام کھوپڑیاں ہیں، ہڈیوں اور دانتوں کی باقیات کے ساتھ۔ برٹش سرکاراپنے آرکائیول رکارڈ میں سے انکے نام بتانے پر آمادہ نہیں، مگر ہم جانتے ہیں کہ آزادی کے یہ شہید پوربی ہندوستان کے کالے سپاہی تھے۔ اصل سوال یہ ہے کہ میاں میر کی پوئل کی پلٹن کےان گمنام شہیدوں کو
آج کے پاکستان اور ہندوستان میں کیا ہماری یا بھارت کی حکومت اپنائے گی؟ اسوقت کہ جب ان میں پانڈے بھی ہیں، تیواری بھی، براہمن بھی ہیں اور گنتی کے پندرہ یا بیس فیصد مسلمان بھی۔
میاں میرکے ہمارے شہید، لاہور سے لگ بھگ تیس بتیس میل دور اجنالہ کے ایک کنویں کی قربت میں پورے فوجی اعزاز کے ساتھ اپنی آخری رسومات کی ادائیگی کے منتظر ہیں ۔۔۔
ـــ
جنگِ آزادی کے شہید پوئل کی پلٹن 26 بنگال رجمنٹ کے ہندوستانی سپاہیوں کی بس اتنی سی کہانی ہے
مضمون کیسے لکھا جائے؟
مضمون کیسے لکھا جائے؟ بطور مڈل اسکول، ہائی اسکول یا پھرکالج اسٹوڈنٹ ہر کسی کا واسطہ ایک نہیں بلکہ بیشترمرتبہ...