جنگ اور جنگی ہیروز ۔۔۔۔تاریخی تناظر میں
انسانی تاریخ جنگ اور جنگی ہیروز سے بھرپور ہے۔انسانوں کی اس دنیا میں جنگ کو ہمیشہ شاندار بناکر پش کیا گیا ہے ۔اسکے ساتھ ساتھ دنیا ہزاروں سالوں سے ہمیشہ اپنے جنگجو ہیروز کو بڑھا چڑھا کر پیش کرتی رہی ہے ۔معلوم نہیں کیوں ان لوگوں کا ہمیشہ حوصلہ بڑھا گیا ہے جو قتل و غارت کرکے انسانی کھوپڑیوں کے مینار تعمیر کرتے تھے ۔آج بھی قومیں ،ملک اور قبائل قتل وغارت کرنے والوں کا حوصلہ بڑھاتے ہیں ۔کیا وہ انسان جو انسانوں کا قتل عام کریں ،انہیں ہیروز بناکر پیش کرنا چاہیئے؟یہ وہ سوال ہے جس کے بارے میں انسانیت کو سوچنے سمجھنےکی ضرورت ہے ۔انسان کی ابتدائی معلوم تاریخ دیکھی جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ جب انسان آباد ہونا شروع ہوا،بستیاں بسنا شروع ہو گئی ،قبائل آباد ہونا شروع ہو گئے تو ساتھ ساتھ زرعی پیداوار میں اضافہ ہوا۔اس کے ساتھ معاشرے منظم ہوئے ،معاشروں کے منظم ہونے کے ساتھ ساتھ ہی ریاست وجود میں آگئی ۔ریاست کے وجود کے ساتھ ساتھ ہی مزید دو طبقے وجود میں آئے ،ان میں سے ایک طبقہ جنگجووں کا تھا اور دوسرا پجاریوں کا تھا ۔پجاریوں کا کام دیوی دیوتاوں کی پوجا کرنا تھا ،اس پوجا پاٹ کا مقصد تھا کہ دیوی دیوتا خوش رہیں ،تاکہ زرعی پیداوار بہتر ہو ،دوسرا طبقہ تھا جنگووں کا ۔اس طبقے کا مقصد تھا کہ اگر کوئی دوسرا قبیلہ یا قوم حملہ آور ہو دفاع کیا جائے ۔ابتدائی زمانے میں جنگ دو قسم کی ہوتی تھی ،ایک جو دفاع میں لڑی جاتی تھی ،اگر کوئی دوسری قوم حملہ آور ہوتو اس حملے سے کیسے دفاع کیا جائے ،دوسری جارحانہ جنگیں ہوتی تھی ،قبائل اور قومیں دوسرے قوموں پر حملہ آور ہوتے ،اس کا مقصد تھا دوسرے کے وسائل اور زمین پر قبضہ کرنا ۔جارحانہ جنگیں جن قوموں نے لڑیں ہیں ،انہوں نے دوسروں کے وسائل کو چھینا ہے ،علاقوں پر قبضہ کرنے کے ساتھ ساتھ انسانیت کا بھی قتل عام کیا گیا ہے ۔مردوں کے ساتھ ساتھ بچوں اور خواتین کو بھی قتل کیا گیا ۔جارحانہ جنگوں میں قتل عام کے ساتھ ساتھ انسانوں کو غلام بھی بنایا گیا ۔قصہ مختصر یہ کہ ہر جنگ نے بے تحاشا دکھ ،درد اور غم پید اکئے ہیں ۔جنگ انسانیت پر ہمیشہ ایک عذاب کی طرح نازل ہوتی ہے ،جو زندگی اور انسانیت کو تباہ کردیتی ہے ۔وہ جو شکست کھا جاتے ہیں ،ان کے لوگ تو مرتے ہی مرتے ہیں ،وہ جو فاتحین کہلاتے ہیں ،ان کے بھی بے تحاشا انسان مارے جاتے ہیں ۔معلوم نہیں کیوں فاتحین فتح کا جشن مناتے ہیں؟انسان کا المیہ یہ رہا ہے کہ اس نے کبھی جنگ کی مزمت نہیں کی ،انسانیت تو اسے کہتے ہیں جو قتل عام کی مزمت کرے ۔روایات،مذاہب،نظریات اور افکار کی وجہ سے جنگیں لڑیں گئی ،پھر انہیں الہامی و غیر الہامی خیالات نے ان جنگوں کو شاندار اور عظیم بناکر پیش کیا گیا ۔فاتحین کے قصیدے لکھے گئے ،ان کے مجسمے تراش کر چوکوں چوراہوں میں نصب کئے گئے ۔ان قتل و غارت گری کرنے والے فاتحین کو ہیروز بناکر پیش کیا گیا ۔یہ ہیروز قتل غارت گری کرنے والے تھے ۔صرف قوم پرستی اور محب وطنی کے نام پر ان قاتلوں کو ہیروز بنایا گیا ۔سکنرر نے یونان میں قتل عام کیا ،مشرق وسطی میں تباہی مچائی ،اس لٹیرے نے دوسرے ملکون میں لوٹ کھسوٹ کا بازار گرم کیا اسی طرح تیمور اور چنگیز خان نے انسانوں کی کھوپڑیوں کے مینار قائم کئے ۔ان جنگوں کی وجہ سے کڑوروں دردناک کہانیاں منظر عام پر آئیں ،لیکن تاریخ میں ان درد ناک کہانیوں کا خال خال ہی زکر ملتا ہے ،لیکن قاتلوں کے قصیدے تاریخ میں شاندار انداز میں لکھے گئے ہیں ۔پوری انسانی تاریخ میں صرف ایک بادشاہ ایسا تھا جس نے جنگوں سے سبق سیکھا ،اس کا نام تھا اشوک یا اشوکا ۔اشوک نے جب ایک جنگ میں ہزاروں انسانوں کی لاشیں دیکھی ،زخمیوں کی چیخ و پکار کو محسوس کیا ،تو پھر اس نے جنگوں سے توبہ کرلی ۔وہ جنگیں جو جارحانہ انداز میں لڑی جاتی ہیں ،جو دوسروں کے مال و دولت کی لوٹ کھسوٹ کے لئے برپا کی جاتی ہیں ،جو اپنے اقتدار کو وسعت دینے کے لئے ہوتی ہیں ،ایسی جنگوں کی وجہ سے انسانی تاریخ میں کڑوروں انسان قتل ہوئے ۔جنگ عظیم اول اور جنگ عظیم دوئم کو ہی دیکھ لیں ،اس دور مین یورپی اقوام پر جنگی جنون چھایا ہوا تھا ۔یورپی انسان ایک دوسرے سے لڑنے کے لئے مرے جارہے تھے ۔اس دور کو دیکھا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ عوام بھی جنگ چاہتے تھے اور خواص تو چاہتے ہی چاہتے تھے ۔یورپی اقوام میں اس وقت جنگ ایک خونی کھیل تھا ۔سب کے دماغوں میں یہ بٹھا دیا گیا تھا کہ جب وہ جنگ میں فاتح بن جائیں گے تو سب ٹھیک ہو جائے گا ۔جنگ پر جانے والوں کے لئے ترانے گئے جاتے تھے ،ان پر پھول نچھاور کئے جاتے ،جنگی بخار تقریبا تین سو سال تک یورپ میں رہا ۔یہ بخار یورپی عوام کے سر سے دوسری جنگ عظیم کے اختتام پر ختم ہوا ۔جنگ عظیم اول اور دوئم میں پچپن ملین لوگ ہلاک ہوئے ۔معلوم نہیں انسان اس قدر کیوں حیوانیت کا مظاہرہ کرتا جارہا ہے ؟کیوں انسان پاگل پن کا مظاہرہ کرتا جارہا ہے؟پاکستان میں بھی انسانوں کے دماغ میں یہی بات بٹھا دی گئی ہے کہ بھارت پر ایٹم بم گرا دینا چاہیئے ۔انڈیا کی ایسی کی تیسی پھیر دینی چاہیئے ۔یہ خیال ہی پاگل پن ہے ۔عوام ،سیاستدان اور جرنیلوں کے زہن میں یہ سب سے بڑی غلط فہمی ہے کہ جنگ سے مسائل حل ہو جاتے ہیں ۔جب ملک تنازعات میں گھرے ہوتے ہیں ،ان کے درمیان مسائل ہوتے ہیں ،تو اس کا حل مزاکرات ہیں ۔لیکن عوام کو گمراہ کرکے کہا جاتا ہے کہ جنگ لڑی جانی چاہیئے ۔اس سے مسائل حل ہوجائیں گے ،کیا کبھی ایسا ہوا کہ جنگوں سے مسائل حل ہوئے ہوں ؟پہلی جنگ عظیم میں بھی یہی کیفیت تھے ۔یورپی ممالک ایشیا اور افریقہ وغیرہ کو اپنی کا لونیاں بنانے کے لئے ،ان پر قبضہ کرنے کے لئے آپس میں لڑ رہے تھے ۔یورپی چاہتے تھے کہ ان کی زیادہ سے زیادہ کالونیاں ہوں ۔سب چاہتے تھے کہ وہ زیادہ سے زیادہ لوٹ مار کرسکیں ۔سرمایہ دار جنگوں پر اس لئے سرمایہ لگا رہے تھے تاکہ انہیں زیادہ سے زیادہ منڈیاں دستیاب ہوں ۔عام لوگوں کو تاریخ انسانی میں ہمیشہ اس بات پر بیوقوف بنایا گیا کہ جنگ ہو گی تو مسائل حل ہو جائیں گے ۔خوشحالی آئے گی ،فلاح و بہبود ہوگی جنگوں میں عام انسان کا کوئی مفاد نہیں ہوتا ،وہ تو صرف قتل ہوتے ہیں ،حقیقی مفادات حکمرانوں ،سیاستدانوں اور جرنیلوں کے ہوتے ہیں ۔پہلی جنگ عظیم چار سال تک جاری رہی ،اس جنگ میں مہلک ترین ہتھاروں کا استعمال کیا گیا ۔ٹینکوں اور جیٹ طیاروں سے بمباری کی گئی۔اس جنگ میں موت کے سوا کچھ نہیں تھا ،بربادی کے سوا کچھ نہ تھا ،قومی پرستی کے نام پر لاکھوں انسان قتل کئے گئے ۔اس جنگ کے بعد یورپ میں سناٹا چھا گیا ۔توقع نہیں تھی کہ اس قدر لوگوں کا قتل عام ہو گا ۔آج یورپ میں جنگ کے خلاف نفرت پائی جاتی ہے تو ا سکی وجہ وہ بیک گراونڈ ہے ۔قوم پرستی ،محب وطنی ،قومی پرچم ،ترانے سب کے سب انسانیت کی بربادی کا سبب بنے ہیں ۔آج وہ انسان جو جنگوں میں مارے گئے ہیں ،اس زمین پر دوبارہ وآپس آجائیں ،اور دیکھیں کہ دنیا میں رقص ہے ،خوشیاں ہیں ۔سب کچھ ویسے کا ویسا ہی ہے ،لیکن وہ کیوں جنگ کے نام پرمارے گئے ۔وہ سوچیں گے کہ انہیں کیوں زندگی سے محروم کردیا گیا ۔انہیں جنگوں کا کیا فائدہ ہوا ۔وہ کہیں گے اگر ایسا ہی چلنا تھا تو وہ اپنی زندگی کا حساب کس سے مانگیں ۔جنگ عظیم ون اور ٹو کے بعد یورپ میں اینٹی وار تحریکیں چلیں ۔ڈرامے لکھے گئے ،ناول لکھے گئے ،فلمیں بنائی گئی ۔پہلی جنگ عظیم کے بعد دوسری جنگ عظیم لڑی گئی جو پہلی جنگ سے بھی زیادہ بھیانک ناک ثابت ہوئی ۔اس دنیا میں ایک ہی تحریک ہونی چاہیئے جس میں صرف یہ کہا جائے کہ جنگیں تباہی کے سوا کچھ نہیں ۔پاکستان اور بھارت کے درمیان تین بڑی جنگوں کے علاوہ چھوٹی موٹی کئی جنگیں ہوئی ،ان جنگوں کا کیا فائدہ ہوا ۔کیا کوئی ان جنگوں کا فائدہ بتا سکتا ہے؟وہ تعلیم جو جنگی جنون پیدا کررہی ہے ،جو خونریزی کے جذبات ابھار رہی ہے ،نفرت اور تعصب کو پید اکررہی ہے ،ایسے خیالات اور افکار سے انسان کو اب آزادی حاصل کرلینی چاہیئے ۔ورنہ انسان اس طرح مرتے رہیں گے ۔انسان کو انسانی تاریخ سے سبق لینے کی ضرورت ہے ۔پاکستان کے عوام اور سیاستدانوں سے میری اپیل ہے کہ وہ فوجیوں کو ہیرو بناے کی بجائے اسکالرز کو ہیرو بنائیں ۔لبرل دانشوروں اور سماجی کارکنوں کو اپنا ہیرو بنائیں ،عبدالستار ایدھی کو اپنا ہیرو بنائیں ۔جو انسانیت پر یقین رکھتا تھا ۔پہلی جنگ عظیم کے اختتام کے بعدشکست خوردہ جرمنی کو زلیل و رسوا کیا گیا،جرمنی پر سخت شرائط کے ساتھ ساتھ بھاری بھرکم تاوان لگایا گیا ،جس کے نتیجے میں جرمنی میں قوم پرستی کا ظہور ہوا،جس کی وجہ سے ہٹلر جیسا درندہ پیدا ہوا۔نازی پارٹی وجود میں آئی ۔جرمنی کو شکست کے بعد زلیل نہ کیا جاتا تو آج ہٹلر جیسے درندے کا نام انسانی تاریخ میں نہ ہوتا ۔ہٹلر نے فوجی طاقت کے زریعے وہ علاقے وآپس لئے جو جنگ عظیم اول میں چھینے گئے تھے ۔امریکہ ہٹلر کو روس اور کمیونزم کے خلاف استعمال کرنا چاہتا تھا ۔اس لئے امریکہ نے شروع میں ہٹلر کی تعریفیں کی ،انیس سو پنتیس میں ہٹلر کو گاندھی کے ساتھ نوبل پیس پرائز کے لئے شارٹ لسٹ بھی کیا گیا ۔جرمنی کی فوجی طاقت کے لئے امریکہ بے چین تھا ۔ہٹلر امریکہ ،برطانیہ اور فرانس وغیرہ سے لڑنا نہیں چاہتا تھا ۔لیکن ہٹلر نے غلطی سے پولینڈ پر حملہ کردیا ۔اسی وجہ سے پھر امریکہ برطانیہ فرانس وغیرہ ہٹلر کے خلاف ہوئے ۔انہی جنگوں کی وجہ سے جاپان کے شہروں میں ایٹم بم گرائے گئے جس سے لاکھوں انسان بھیانک ترین موت کا شکار ہوئے ۔جنگیں اب میدان جنگ سے نکل کر شہروں میں لڑی جارہی ہیں ،خطرناک ترین ہتھیار استعمال ہو رہے ہیں ۔خود کش حملے ہورہے ہیں ۔جنگوں کا دائرہ کار تمام دنیا تک پھیل گیا ہے ۔اب پاکستان محفوظ ہے اور نہ ہی امریکہ ،یورپ نے تو جنگوں سے سبق سیکھا اور متحد ہوگیا ۔لیکن ظالم امریکہ اور روس کے جنگی جرائم اب بھی خوفناک ہیں اور ان دونوں کے پاس بے تحاشا ایٹمی ہتھیار ہیں جو اس زمین کو پانچ ہزار مرتبہ برباد کرسکتے ہیں ۔جنگیں اب بچوں کا کھیل نہیں رہی ،اب ایٹمی اور بائیولوجیکل ہتھیار آگئے ہیں ۔پاکستان اور بھارت ایک ہی برصغیر کا حصہ رہے ہیں ۔ان کی زبان اور کلچر ایک ہیں ۔کڑوروں کی تعداد میں آج بھی مسلمان بھارت میں رہتے ہیں ۔اس لئے بھارت اور پاکستان میں جنگی جنونیت کی فضاٗ کو ختم کیا جائے ۔جنگی جنون سے دونوں ملکون کے درمیان مسائل حل نہیں ہوں گے ۔مسائل کا حل پرامن مزاکرات ہیں ۔اس لئے دونوں ملکوں کی زمہ داری ہے کہ وہ انتہا پسندوں سے جان چھڑائیں ،ایک دوسرے کے درمیان کلچرل تعلقات بڑھائیں ،بھارت کے انسان پاکستان میں آئے اور پاکستان کے انسان بھارت جائیں ،مذہبی لوگوں کو بھی چاہیئے کہ وہ ایک دوسرے کے ملکوں میں آئیں جائیں ۔ایک دوسرے کی غلط فہمیاں ختم کریں ۔اس زمین کو جنگ نہیں ،امن اور محبت کی ضرورت ہے ۔دنیا کے عظیم دانشور اور مصنف نوم چومسکی درست کہتے ہیں کہ اس دنیا کو سب سے بڑا خطرہ نیوکلئیر ہتھیاروں سے ہے ۔پاکستان اور بھارت نیو کلئیر ملک ہیں ،اس لئے دونوں کو زمہ داری کا مظاہرہ کرنا چاہیئے ۔نیو کلئیر ہتھیاروں کی تباہی تصور سے بھی زیادہ ہوگی ،یہ بات انسانیت کو سمجھنے کی ضروت ہے ۔آج درجنوں ملکوں کے پاس سینکروں ہزاروں نیو کلئیر ہتھیار ہیں ،یہ چل گئے تو سوچیں کیا ہوگا ؟جن ملکوں کے پاس ایٹمی ہتھیار ہیں ،ان کو مل جل کر یہ ہتھیار تلف کردینے چاہیئے ،ورنہ دنیا خطرات کا شکار رہے گی ۔ایٹمی ہتھیار بنانا کوئی قابل فخر کام نہیں ،سکینڈینیوین ملکوں کے پاس ایٹمی ہتھیار نہیں ،وہ دنیا کے خوشحال ترین ملک ہیں ۔دنیا تیسری جنگ عظیم کی طرف بڑھ رہی ہے ۔ہم انسان اجتماعی خودکشی کی طرف جارہے ہیں ،جنگ موت اور تباہی ہے اور یہی بات انسانی تاریخ چیخ چیخ کر سنا رہی ہے۔
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔