جنگیں پارلیمنٹ یا فوجی ہیڈکوارٹر میں نہیں بلکہ انسانی ذہنوں میں شروع ہوتی ہیں۔
ماہر نفسیات انتھونی سٹیونز کے مطابق جنگیں پارلیمنٹ یا فوجی ہیڈکوارٹر میں نہیں بلکہ انسانی ذہنوں میں شروع ہوتی ہیں۔
فلسطین اور کشمیر میں عسکری کاروائیوں، لندن میں دہشت گردی کے واقعات اور عراق میں جنگ پر صحافیانہ رپورٹوں سے آگے ان معاملات پر گہرائی میں جا کر اور وسیع تناظر میں دیکھنا ہو تو برطانوی ماہر نفسیات اور مصنف ڈاکٹر انتھونی سٹیونز کی کتاب ’دہشت گردی کی نفسیات’ ایک فکر انگیز تحریر ہے جس کا اردو ترجمہ (مترجم۔ یاسر جواد) لاہور سے شائع ہوا ہے۔
ماہر نفسیات انتھونی سٹیونز اپنی کتاب میں کہتے ہیں کہ جنگیں سینٹ، پارلیمنٹ یا فوجی ہیڈکوارٹر میں نہیں بلکہ انسانی ذہنوں میں شروع ہوتی ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ دوسرے کے خلاف جنگ کے خلاف جنگ پر نکلنے کا محرک انسان کے اندر بہت گہرائی میں نقش ہے اور ماہر نفسیات سی جی ژنگ کی زبان میں یہ انسان کے اولیں نفسیاتی نقوش یا آرکی ٹائپس میں سے ہے۔
ان کا استدلال اس بات پر ہے کہ جنگ اور دہشت گردی کے تدارک کے لیے نوع انسان کو او کسی چیز سے زیادہ اپنے شعور اور اپنے جنگی آرکی ٹائپ میں تصفیہ کرانا ہوگا۔
وہ کہتے ہیں کہ حیاتیاتی اور نفسیاتی نقطہ نظر سے مردانگی، غلبہ، جارحیت، نظم و ضبط، علاقہ پرستی، اقتدار کی خواہش اور قانون اور امن کا استحکام ایک دوسرے سے منسلک تصورات ہیں۔ اسی طرح جنگ اور کھیل ایک ہی رجحان کے علامتی اظہار ہیں یعنی مردوں کے متحد اور منظم گروپوں کے درمیان جارحانہ ٹکراؤ۔ اسی طرح حال ہی میں اسٹار وارز جیسی تفریحی کھیل بھی جنگ کا متبادل ہیں۔
مصنف کا کہنا ہے کہ انسانی نوع کو وجود میں آئے پانچ لاکھ سے زیادہ برس ہوگئے جبکہ تاریخ صرف حالیہ ماضی کی باریک جھلی سے ہی تمام معلومات اخذ کرتی ہے۔
اس لیے مصنف کے بقول ہمیں جنگوں کی تہہ میں اصل محرک کو سمجھنے کے لیے تاریخ کی بجائے اپنی فطری تاریخ کو دیکھنا ہوگا۔ اس کی وجوہ جاننے کے لیے نفسیات اور انسان کے ذہن کو دیکھنا ہوگا۔
انتھونی سٹیونز کا کہنا ہے کہ امن کئی اعتبار سے ایک غلط نام ہے کیونکہ کامل امن تو کبھی انسانی امور پر مطلق حاکم نہیں رہا بلکہ تنازعہ اور اختلاف ہمیشہ سے ہمارے اندر موجود ہے۔
مصنف کہتا ہے کہ جہاں بھی انسانی آبادیاں رہی ہیں ان کے اندر اور درمیان ہر سطح پر تصادم پیدا ہوتا رہتا ہے۔گو تعاون بھی ملتا ہے لیکن تصادم تعاون کا سایہ ہے۔
مصنف کے مطابق تصادم نے ہمیشہ آبادیوں، قبیلوں، شہری ریاستوں، اقوام اور دھڑوں کے درمیان تعلقات کو متعین کیا ہے۔
مصنف کے خیال میں تصادم فطرت کا اصول ہے، ڈارون اسے ارتقائی عمل میں ایک بنیادی قوت سمجھتا ہے اور تحلیلی نفسیات میں یہ مرکزی قوت ہے۔ سگمنڈ فرائیڈ کے ہاں شخصیت مسرت کے اصول اور حقیقت کے اصول کے درمیان ٹکراؤ کی پیداوار ہے۔
فرائیڈ نے اپنے آخری برسوں میں کہا تھا کہ ساری نامیاتی ہستی دو متضاد قوتوں، جبلت حیات اور جبلت موت، کے درمیان تصادم کے زیر اثر ہے۔
ماہر نفسیات ژنگ کے ہاں انسانی جسم تمام بنیادی کام (وظائف) مخالفانہ نظاموں کی صورت میں ہوتے ہیں جو مثبت اور منفی فیڈبیک کے ذریعے توازن میں رہتے ہیں جیسے پیاس مشروب کے خلاف، نیند بیداری کے خلاف۔
مصنف کا کہنا ہے کہ تصادم کے ماخذوں کا منطق اور استدلال سے بہت کم تعلق ہے بلکہ ان کی جڑیں ہماری نوع (سپی شیز) اور کائنات کی فطرت میں ہیں۔
مصنف کا کہنا ہے کہ گزشتہ بیس سال میں دنیا میں نفسیات اور نفسیاتی علاج کے شعبہ میں نو ڈارونی مکتب فکر کو فروغ ہوا ہے جس نے روسو کے ان نظریات پر زوردار حملے کیے ہیں جن میں انسان کو نیک فطرت بتایا گیا ہے۔
مصنف کےمطابق ماہر نفیسات ژنگ کے خیال میں مہذب انسان میں تقاضا کردہ جبلی قوتیں نہایت تخریبی اور قدیم انسان کی جبلتوں کی نسبت کہیں زیادہ خطرناک ہیں۔
مصنف سگمنڈ فرائیڈ کا حوالہ دے کر کہتا ہے کہ انسان شفیق اور دوستانہ ہستیاں نہیں تھے جو صرف حملہ ہونے پر ہی اپنا دفاع کرتے رہے ہوں بلکہ جارحیت کی ایک طاقت ور خواہش کو ان کی جبلتی صلاحیت کا حصہ تسلیم کرنا پڑے گا۔ اسی طری نطشے انسان کو جنگلی درندے کے طور پر دیکھتا ہے جو مال غنیمت اور فتح کا خواہش مند آوارہ گرد ہے۔
مصنف کا کہنا ہے کہ نسلی ارتقا کے ماہرین کا خیال ہے کہ جنسیت کی طرح جارحیت بھی ہر نوع کی بقا کے لیے ناگزیر ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ جارحیت کی ہی بدولت انسان اپنے لیے دستیاب رہنے کی جگہوں سے باہر آبادیاں پھیلانے اور زیادہ سے زیادہ علاقہ اپنے استعمال میں لانے کے قابل ہوسکا۔ ایک دوسرے پر غالب آنے کی کوشش اور سماجی دھونس بازی کے جارحانہ رویہ سے ہی ہر گروہ میں رہنما یا قائد پیدا ہوئے تاکہ وہ گروہ کی ہم آہنگی اور ربط کو یقینی بنائیں، حکمت عملی کے فیصلے لیں اور نطم و ضبط قائم رکھ سکیں۔
مصنف کا کہنا ہے کہ حیاتیاتی نطقہ نظر سے جارحیت پسندی کا اہم ترین نتیجہ یہ ہے کہ اس کے ذریعے موزوں ترین تولید کو فروغ ملتا ہے اور ایسی جینز آگے منتقل ہوتی ہیں جو آبادی کی بقا کو تواتر دینے کے لیے فائدہ مند ہوں۔
مصنف کے خیال میں سماجی جانوروں میں جارحیت لازمی ہے اور غیر جارحیت پسند جانوروں کو جارحیت پسند جانور ختم کردیتے ہیں۔ مصنف کا کہنا ہے کہ اگر تشدد نے انسان کی نوع میں ترویج نہ کی ہوتی تو اس کا استعمال بھی وجود میں نہ آتا اور اگر تشدد غیر موافق ہوتا تو انسانی نوع مٹ گئی ہوتی۔
انتھونی اسٹور نے انیس سو ستر میں لکھا تھا کہ کرہ ارض پر آج تک جنم لینے والی تمام انواع میں انسان سب سے زیادہ ظالم اور سفاک ہیں۔وہ کہتا ہے کہ اگرچہ ہم اخبار یا کسی تاریخ کی کتاب میں انسان پر انسان کے مظالم کی کہانیاں پڑھ کر خوف سے سمٹ جاتے ہیں لیکن اپنے دل کی گہرائیوں میں جانتے ہیں کہ ہم میں سے ہر ایک ایسی ہی وحشیانہ امنگیں لیے ہوئے ہے جن کا نتیجہ قتل، تشدد اور جنگ کی صورت میں نکلتا ہے۔
فلسفی پئرے جوزف پردھوں کا یہ کہنا تھا کہ کسی بھی قوم میں تقریباً ہر نسل جنگ کا تجربہ کرلیتی ہے۔ مصنف کے مطابق سنہ پندرہ سو قبل مسیح اور اٹھارہ سو ساٹھ کے درمیان معلوم دنیا میں جنگ کے تیرہ برسوں کے مقابلہ میں امن کا صرف ایک سال رہا جبکہ اٹھارہ سو بیس اورانیس سو ستر کے درمیان دنیا کی بڑی اقوام ہر بیس سال میں ایک مرتبہ جنگ میں ملوث ہوئیں۔
مصنف کا کہنا ہے کہ انسان نے پانچ ہزار سال پہلے لکھنا پڑھنا سیکھا اور تب سے جاری تاریخ بالعموم جنگوں کی تاریخ ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ اقوام، نسلوں اور مذہبوں کے درمیان تمام سرحدیں جنگوں کے ذریعے ہی قائم ہوئیں اور سابقہ تمام تہذیبیں انہی کی وجہ سے تباہ و برباد ہوئیں۔
مصنف کا کہنا ہے کہ جنگ بندی اور عدم جارحیت کے معاہدے ہمیشہ ہوتے رہے لیکن وہ سبھی جنگ کو روکنے میں ناکام رہے۔ مصنف کے مطابق پندرہ سو قبل مسیح اور سنہ اٹھارہ سو ساٹھ کے درمیان امن کے آٹھ ہزار معاہدے انجام پائے۔ ہر معاہدے کو ہمیشہ کے لیے نافذ رکھنے کا سوچا گیا لیکن وہ اوسطا دو برس سے زیادہ قائم نہیں رہے۔
روسیوں کی پرانی ضرب المثل ہے کہ دائمی امن صرف اگلے برس تک قائم رہتا ہے۔
اسماء صبا خواج کا افسانہ مایوسی فنی و فکری مطالعہ
اسماء صبا خواج کا تعلق لکھیم پور کھیری ہندوستان سے ہے، اردو کی ممتاز لکھاری ہیں، آپ کا افسانہ ''مایوسی"...