جنگ ، امن اور وقت کے قیدی کرداروں کا خالق
نوبل انعام یافتہ کازوُاو اشیگورو ( Kazuo Ishiguro ) پر ایک نوٹ
مجھے جاپانی نژاد برطانوی مصنف کازوُاو اشیگورو ( Kazuo Ishiguro ) کے بارے میں پہلی بار اس وقت پتہ چلا تھا جب میں نے 1993 ء میں آئوری مرچنٹ کی پروڈیوس کردہ فلم ' دی ریمینز آف دی ڈے ' ( The Remains of the Day ) دیکھی تھی ۔ فلم دیکھنے کی وجہ نہ تو کازوُاو اشیگورو تھا اور نہ ہی اس کا اس نام سے لکھا ناول ، مجھے تو انتھونی ہوپکنز اور ایما تھامسن نے متوجہ کیا تھا ۔ مجھے اس فلم کے ٹائیٹلز دیکھ کر پہلی بار اندازہ ہوا تھا کہ روتھ پراور چھبوالا اور ہیرلڈ پنٹر کا لکھا سکرین پلے اصل میں ایک ایسے ناول نگار کا ہے جو اصلاً و نسلاً جاپانی ہے ۔ اس ناول کو پڑھنے سے پہلے میں نے اس مصنف کے بارے میں جانا کیونکہ ' دی ریمینز آف دی ڈے ' خالصاً ایک برطانوی فلم تھی جس میں دوسری جنگ عظیم کے بعد مٹتی اشرافیہ کے ماحول میں ' ڈارلنگٹن ہال ' ( Darlington Hall ) کے اجڑنے کی کہانی اس کے بٹلر ' سٹیونسن ' ( انتھونی ہوپکنز ) اور ہائوس کیپر ' مس کینٹن ' کی زبانی سنائی گئی ہے ۔
مجھے یہ جان کر حیرت ہوئی تھی کہ کازوُاو کا باپ ایک ماہر بحریات ( Oceanographer) تھا اور اس کا تعلق ناگا ساکی سے تھا جو اس مصنف کی جائے پیدائش بھی ہے ( یہ وہی ناگا ساکی ہے جو دوسری جنگ عظیم کے اختتام میں امریکی جوہری بربریت ' فیٹ مین ' کا شکار ہوا تھا گو کہ یہ موٹا آدمی اتنے بندے نہیں کھا سکا تھا جتنے کہ ' لٹل بوائے ' نے ہیروشیما میں ہڑپ کئے تھے ) ۔ کازوُاو اس سانحے کے نو سال بعد 8 نومبر 1954ء کو پیدا ہوا اور پانچ سال کی عمر میں اپنے والدین کے ہمراہ برطانیہ جا بسا تھا ۔ یونیورسٹی آف کینٹ اور یونیورسٹی آف ایسٹ انجلیا سے تعلیم حاصل کی اور تیس سال تک جاپان نہ لوٹا ۔ وہ 1989ء میں جاپان گیا بھی تو یہ ایک مختصر دورانیے کا بطور ایک ' انگریز ' وزٹ تھا ۔ یہی سال ہے جب اس کا تیسرا ناول ' دی ریمینز آف دی ڈے ' سامنے آیا تھا ۔ اس سے پہلے اس کے دو ناول 1982ء اور 1986ء میں سامنے آ چکے تھے ۔ یہ دونوں ناول جاپان کے اس پس منظر میں لکھے گئے جن کا براہ راست مشاہدہ اشیگورو کو نہ تھا ۔ گھر کے جاپانی ماحول اور مطالعے کی بنیاد پر یہ دونوں ناول ' پہاڑوں کا ایک زرد نظارہ (A Pale View of Hills) اور ' تیرتی دنیا کا ایک فنکار (An Artist of the Floating World ) اس نے اپنے ذہن کی اختراع سے تحریر کئے تھے ۔
پہلے ناول کا محور وہ تذبذبی کیفیت ہے جس کا شکار مشرق ( خاص طور پر جاپان یا چین ) سے مغرب میں جا بسنے والی پہلی اور دوسری نسل ہوتی ہے ۔
دوسرے ناول کا محور ایک سے زیادہ مضوعات ؛ دوسری جنگ عظیم کے خاتمے کے بعد جاپان میں محبت کی شادی کا رواج اور اس معاشرے میں عورت کا بدلتا ہوا کردار ، بزرگوں کے احترام کے انحطاط کا احاطہ کرتا ہے ۔ اس ناول میں کہانی بیان کرنے والا ایک فنکار ہے ، باپ ہے ، دادا ہونے کے ساتھ ساتھ رنڈوا بھی ہے ۔
اشیگورو کے یہ دونوں ناول میری نظر میں زیادہ اہم نہیں ہیں کیونکہ دوسری جنگ عظیم کے بعد کے جاپان میں امریکہ اور مغرب نے جو اثر ڈالا تھا وہ بہت بہتر طور پر دیگر جاپانی ادیبوں کی تحریروں میں دیکھا جا سکتا ہے ۔ البتہ ' دی ریمینز آف دی ڈے ' ایک ایسا ناول ہے جس میں اشیگورو اپنے جاپانی نژاد انگریز ہونے کے تذبذب سے باہر نکل کر خالصتاً برطانوی معاشرے کو یکسوئی سے دیکھتا ہے اور' ڈارلنگٹن ہال ' ( Darlington Hall ) کے اجڑنے کی کہانی اس کے ایک بٹلر اور ہائوس کیپر کی زبانی سناتا ہے ۔
1995 ء میں اس کا سامنے آیا ناول ' مضطرب ' ( The Unconsoled ) ایک پیانو بجانے والے ' رائڈر ' کی کہانی ہے جس کی قدر زیادہ ہے لیکن اس میں لوگوں کی توقعات پر پورا اترنے کی صلاحیت نہیں ہے ۔ یہ پیچیدہ ' ذات ' کی کہانی ہے ، یادداشت کے دھوکے کا المیہ ہے اور اس پر ' ذات ' کے تاسف اور اس کے اپنے بچائو کی امید کا قصہ ہے ۔ تین دن کے واقعات پر مبنی لگ بھگ پانچ سو صفحوں کا یہ ناول عام قاری اور نقاد کو پسند نہیں آتا ( یاد رہے کہ اس ناول کے شائع ہونے پر سوائے منفی تبصروں کے اور کچھ سامنے نہ آیا تھا بلکہ ایک نقاد جیمز ووڈ نے تو یہاں تک کہہ دیا تھا ؛ '' اس ناول نے برے ناولوں کی ایک نئی قِسم کھڑی کر دی ہے ۔) لیکن مجھے اس ناول میں اشیگورو کا جاپانی نژاد انگریز ہونے کا تذبذب پن ایک نئی بلوغت کے ساتھ سامنے آتا دکھائی دیتا ہے ۔ اس کا پیانو نواز وسطی یورپ کا ایک کلاسیکی موسیقی کا فنکار ہے جو 1990 کی دہائی میں ذات کے المیے کا شکار ہے اور بہت سی چیزیں اس کے بس سے باہر ہیں ۔ یہ وہ زمانہ ہے جب دنیا میں ایک بڑا فلسفہ ( اشتراکیت ) عملی طور پر ناکام ہو چکا تھا اور سوویت یونین ٹوٹ چکا تھا ۔ مشرقی یورپ کے اتھل پتھل کا اثر دیگر یورپ پر بھی پڑا تھا اور دنیا بھر کے روشن خیال اور ترقی پسندوں میں ایک بے یقینی کی کیفیت طاری تھی ۔
اس کے بعد اشیگورو نے ایک اور طرز کا ناول لکھا ، اسے کسی حد تک جاسوسی ناول بھی کہا جا سکتا ہے ۔ ' جب ہم یتیم تھے ' ( When We Were Orphans ) 2000 ء میں سامنے آیا ۔ اس کا مرکزی کردار ایک انگریز کرسٹوفر بینکس ( Christopher Banks ) ہے جس نے اپنا بچپن چین کی ' شنگھائی عالمی آبادی ' میں پچھلی صدی کی پہلی دہائی میں گزارا ہوتا ہے ۔ اور جس کا افیون کا کاروبار کرنے والا باپ اور ماں اس وقت منظر عام سے غائب کر دئیے جاتے ہیں جب وہ دس برس کا ہوتا ہے ۔ دوسری چین ۔ جاپان جنگ اور چین میں کمیونسٹوں کے ابھار سے گزرتا کرسٹوفر بالآخر اپنی ماں سے سن پچاس کی دہائی میں ہانگ کانگ میں آ ملتا ہے جو پہلے تو اسے پہچان نہیں پاتی لیکن پھر اس کا گھریلو نام ' پوفن ' سن کر اسے پہچان لیتی ہے ۔ گو اس بار اشیگورو نے اس ناول کی ضخامت کم رکھی لیکن لگ بھگ تین سو صفحوں کا یہ ناول بھی پسند نہ کیا گیا ۔ نقادوں کو اس کی نثر پسند نہ آئی تھی ۔ کچھ کا خیال تھا کہ اس نے اپنے پہلے ناولوں کو ' ورڈ پروسیسنگ ' (Word Processing ) کے ذریعے ایک جاسوسی ' ٹچ ' دے کر پیش کیا ہے ۔
2005 ء میں اس کا ناول ' مجھے کبھی جانے مت دینا ' ( Never Let Me Go ) شائع ہوا ۔ یہ بظاہر ایک سائنس فکشن اور ' ڈِسٹوپین (dystopian ) ناول ہے جو 1970-1990 کی دہائیوں کے زمانے میں ایک ایسے مغربی معاشرے کی عکاسی کرتا ہے جس میں انسان نے کلوننگ (Cloning) کے ذریعے بچے پیدا کرنے پر عبور حاصل کر لیا ہے اور یہ بچے معاشرے کے باسیوں کے لئے جسمانی اعضاء کی تبدیلی کے لئے استعمال کئے جاتے ہیں ۔ کہانی کا بیان ایک ' نگہداشت کرنے والی ' ( Carer ) کیتھی کی زبانی پیش کیا گیا ہے جو اپنے بچین کے زمانے ، جب وہ ' ہیلشم ' ( Hailsham ) نامی بورڈنگ سکول ، جس میں کلون بچے رہتے ہیں ، کی طالبہ ہے ، سے شروع ہو کر 1994ء تک آتی ہے جب اسے بھی ' نگہداشت کرنے والی ' کا پیشہ چھوڑ کر اپنا ' اعضاء دینے ' کا اصل کام اپنانا پڑتا ہے ۔ اس سے پہلے وہ اپنی سہیلی روتھ اور مشترکہ بوائے فرینڈ ٹامی سے ہاتھ دھو بیٹھتی ہے ۔ اس ناول کا محور کیتھی ، ٹامی اور روتھ ہیں ۔ یہ ناول بھی نقادوں کو کچھ زیادہ پسند نہ آیا تھا ، البتہ امریکی ہدایتکار ' مارک روما نک ' (Mark Romanek ) کو یہ ناول فلم کے لئے موزوں لگا اور اس نے اس پر ، اسی نام سے اپنی فلم 2010 ء میں ریلیز کی ۔ مجھے یہ ناول تین طرح سے نظر آتا ہے ؛ اولاً ' فنایت ' پر بطور ایک عمدہ طنزیہ حکایت ، دوسرے ، عالمی سطح پر نئی نسل میں موجود ، اس ابہام کا اظہار کہ ' مستقبل کیا ہے ؟ ' جسے کلون بچوں کے المیے کے طور پر پیش کیا گیا ہے جنہوں نے درمیانی عمرتک پہنچنے سے پہلے ہی فنا ہو جانا ہے ، اور سوم یہ انسانی معاشرے کی ایک پانچویں سمت کی ایک نئی پرت کو کھولتا ہے جو صرف ' سائی ۔ فائی ' اور ' ڈِسٹوپین ' نہیں بلکہ ظالم حقیقت کے طور پر جلد یا بدیر سامنے آئے گی ۔
2009 ء میں کازواو اشیگورو کی کہانیوں کا ایک مجموعہ بھی شائع ہوا ۔ ' نوکٹرونز؛ ڈھلتی رات اور موسیقی کی پانچ کہانیاں ( Nocturnes: Five Stories of Music and Nightfall ) نامی کہانیوں ( افسانوں ) کے اس مجموعے کو پسند کیا گیا تھا ۔ یہ کہانیاں ' موسیقی ' کے گرد گھومتی ہیں اور ' اخلاقیات ' اور ' عزت و وقار ' کے حوالے سے کئی سوال اٹھاتی ہیں ۔ یہ کہانیاں ہمیں یہ احساس بھی دلاتی ہیں کہ جب ہمارے سر پر شہرت کا بڑا تمبو تنا ہوتا ہے تو ہم کتنے اُتھلے ، کتنے متذبذب اور ذہنی طور پر اکتائے ہوتے ہیں ۔
کازوُاو اشیگورو کا آخری ناول ' مدفون دیو ' ( The Buried Giant ) 2015 ء میں سامنے آیا ۔ اس میں وہ برطانوی تاریخ کے اس دور میں جاتا ہے جو لوک ادبی کردار ' کنگ آرتھر ' کے زمانے کے فوراً بعد کا ہے اور انگریز اور سیکسن اکٹھے رہ رہے ہیں ۔ یہاں ایک بار پھر وہ اپنے تخیل سے کام لیتے ہوئے اساطیری و لوک ادب اور فکشن کا ایک حسین امتزاج پیش کرتا ہے وہ اوگری ( ogre ) کردار بھی تخلیق کرتا ہے یوں یہاں وہ کچھ کچھ میجک ریلزم کا چمتکار دکھانے کی بھی کوشش کرتا ہے ۔
کازوُاو اشیگورو نے چینل فور کے لئے فلموں کے سکرپٹ لکھنے کے علاوہ ' دنیا کی غمگین ترین موسیقی ' ( The Saddest Music in the World ) اور ' گوری کاوٴنٹیس ' (The White Countess ) نامی سکرین پلے بھی لکھے ۔ پہلا سکرین پلے کنیڈین ہدایتکار ' گائے میڈن ( Guy Maddin ) کی 2003 ء کی اسی نام کی فلم کی بنیاد بنا جبکہ دوسرا اسی نام سے 2005 ء میں جیمز آئوری نے فلمایا ۔ یہ آخری فلم تھی جس میں اسماعیل مرچنٹ ( پروڈیوسر ) اور جیمز آئوری ساتھ تھے کیونکہ اسی سال مئی میں اسماعیل مرچنٹ فوت ہو گیا تھا ۔ میں اس فلم پر الگ سے کسی وقت لکھوں گا ( مجھے اسماعیل مرچنٹ اور جیمز آئوری کو بھی تو Tribute پیش کرنا ہے ) لیکن یہاں یہ کہنا ضروری ہے کہ کازوُاو اشیگورو نے اس فلم کو لکھ کر اپنی تحریروں کو ' سہ طرفی ' اطراف سے نکال کر نئی سمتوں ( Dimensions ) کا اضافہ کرتے ہوئے زیادہ وسیع کینوس پر اشیاء کو دیکھا ہے ، یہ ویسی ہی وسعت ہے جو کاواباتا یاسوناری نے اپنی کہانی ' لڑکی اور نابینا ' ( Mekura to shojo, 1928 ) میں پیدا کی تھی ( یاد رہے کہ کاواباتا یاسوناری وہ پہلا جاپانی ادیب ہے جس کو 1968 ء میں ادب کا نوبل انعام دیا گیا تھا ) ۔
کازوُاو اشیگورو ایک اچھا گیت نگار ہونے کے ساتھ ساتھ ایک اچھا گٹار بجانے والا بھی ہے ۔ اس نے 1986 ء میں ' لورنا ' سے شادی کی اور اس سے اس کی ایک بیٹی ' نیومی ' ہے ۔
نوبل انعام دینے والی کمیٹی کی طرف سے جب یہ کہا گیا ؛ '' اس کی تحریریں بہترین جذباتی قوت کی حامل ہیں اور انسان اور دنیا کے درمیان تعلق کی گہرائیوں سے پردے ہٹا دیتی ہیں ۔ '' ، تو مجھے سب سے پہلے یہ خیال آیا تھا کہ اس کے آخری ناول ' مدفون دیو ' نے اسے یہ انعام دلانے میں اہم کردار ادا کیا ہے ، پھر میں نے سویڈش اکیڈیمی کی سیکرٹری ' سارا ' ( Sara Danius ) کا بیان بھی دیکھا ؛ '' اگر آپ برطانوی جین آسٹن کو چیک کافکا کے ساتھ ملائیں اور اس مکسچر پر فرانسیسی مارسیل پرائوسٹ کا تڑکا لگائیں تو ' اِش ' (کازوُاو اشیگورو کا نِک نیم ) سامنے آ کھڑا ہو گا ۔" میں گڑبڑا گیا اور میں نے اس مضمون کو لکھنے سے پہلے اس کے تقریباً سارے کام کا ایک بار پھر جائزہ لیا اوراس نتیجے پر پہنچا کہ اس ادیب نے یقیناً جین آسٹن کو بھی پڑھا ہو گا ، کافکا اور مارسیل پرائوسٹ بھی دیکھے ہوں گے لیکن اس نے ادب کی ' تھری ڈائیمینشنز ' کی قیود توڑ کر لکھا ہے ، اس نے نہ صرف نئی سمتیں تلاش کی ہیں بلکہ شعوری طور پر اپنے جاپانی ' اصل ' کو بھی ساتھ جوڑے رکھا ہے جو ایک مشکل کام ہے ۔
اس سال کے نوبل انعام برائے ادب کے لئے کنیڈین مارگریٹ ایٹووڈ ( Margaret Atwood ) ، کینیا کے نگوگی وا تھیونگو ( Ngugi Wa Thiong’o ) اور جاپانی ہاروکی موراکامی ( Haruki Murakami ) کے نام لئے جا رہے تھے اور کازوُاو اشیگورو کی طرف کسی کا دھیان بھی نہیں تھا ( وہ خود بھی اس انعام کی توقع نہیں کر رہا تھا ) ۔ رائل سویڈش اکیڈمی پہلے بھی اکثر اپنے انتخاب سے لوگوں کو حیران کرتی رہی ہے اور اس بار بھی کچھ ایسا ہی ہوا ہے ۔
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔