دکان تھی نہ بورڈ‘ میرا ماتھا ٹھنکا میں نے ڈرائیور سے کہا کہ گاڑی ایک طرف کر کے روکے۔ دکان کے بند دروازے کے سامنے پانی والا اڈا جمائے تھا۔ میں نے اس سے پوچھا کہ یہاں ایک دکان ہوا کرتی تھی۔
’’وہ بیچ کر چلا گیا‘‘ ’’کہاں؟ معلوم نہیں!
اس کالم نگار نے اپنی ملازمت کا آغاز ستر کی دہائی میں کراچی سے کیا تھا۔ اس وقت سے لے کر آج تک الفنسٹن سٹریٹ (جو اب زیب النسا سٹریٹ کہلاتی ہے) اور زینب مارکیٹ کا علاقہ میرا پسندیدہ علاقہ رہا ہے لیکن اس علاقے کے ساتھ جو المیے وابستہ ہیں وہ بہت درد ناک ہیں!
ستر کی دہائی میں الفنسٹن سٹریٹ میں کتابوں کی کئی دکانیں تھیں اگر آپ ریگل سینما کی طرف سے داخل ہوں تو دائیں طرف ’’کتاب محل‘‘ تھی۔ جہاں اردو کی ادبی کتابیں میسر تھیں۔ یہ دکان عرصہ ہوا وفات پا چکی۔ امریکن بک کمپنی چند سال قبل اپنے انجام کو پہنچی۔ اب دو دکانیں بچی تھیں ۔ ریگل چوک پر ’’تھامس اینڈ تھامس‘‘ اور دوسرے کنارے پر زینب مارکیٹ کے سامنے والماس بک شاپ۔ کراچی کے حالیہ سفر میں معلوم ہوا کہ الماس بک شاپ بھی اس قوم کی ’’علم نوازی‘‘ کی نذر ہو چکی۔ اناللہ وانا الیہ راجعون!
کلاسیکی اور جدید فارسی کتابوں کے اس مرکز ’’الماس بک شاپ‘‘ کا مالک آقائی علی اصغر فرزانہ ایک عمر رسیدہ شخص تھا۔ یہ ممکن نہ تھا کہ میں کراچی جاؤں اور کچھ وقت اس کے ساتھ نہ بسر کروں۔ اس سے مجھے دو فائدے حاصل ہوتے تھے۔ ایک تو میری زنگ آلود فارسی زبان زندگی کی انگڑائی لے لیتی تھی۔ دوسرے‘ میں ایران کی چھپی ہوئی دیدہ زیب کتابیں دیکھ لیتا تھا اور جب بھی جیب اجازت دیتی کچھ خرید بھی لیتا۔ اور جب انہیں لئے واپس گھر آتا تو ہر طرف سے کتابوں کے انبار میں گھری بیگم کی بے بسی میں کچھ اور اضافہ ہو جاتا۔
پاکستان کی معیشت پر کسی نے تبصرہ یوں کیا تھا کہ جتنا اضافہ موٹر کاروں کی تعداد میں ہو رہا ہے اتنا ہی اضافہ گداگروں کی تعداد میں ہو رہا ہے۔ مجھ سے اگر کہا جائے کہ پاکستان کے تہذیبی زوال کو ایک فقرے میں بیان کرو تو میں کسی جھجک کے بغیر کہوں گا کہ لائبریریاں تو پہلے ہی نہیں تھیں‘ کتابوں کی جو دکانیں تھیں بھی‘ ایک ایک کر کے اپنی موت مر رہی ہیں اور ریستوران کی تعداد میں اسی حساب سے اضافہ ہو رہا ہے! کیا آپ کو معلوم ہے کہ پورے راولپنڈی میں کوئی قابل ذکر لائبریری موجود نہیں اور ایک نیشنل لائبریری جو اسلام آباد میں زرِ کثیر خرچ کر کے قائم کی گئی ہے وہ وزیر اعظم کے دفتر کی بغل میں واقع ہونے کی وجہ سے عوام کی رسائی سے مکمل طور پر باہر ہے۔ امریکیوں اور انگریزوں نے جو برٹش کونسل لائبریریاں اور یو ایس آئی ایس لائبریریاں بنائی تھیں وہ ہمارے ……کی نذر ہو گئی ہیں! رہیں ہماری ترجیحات! تو اس میں کتاب کا ذکر ہی نہیں۔ لاہور میں ایک فاسٹ فوڈ کھلا تو پہلے دن 35ہزار گاہک فیض یاب ہوئے۔ کتابوں کی دکان کھول کر دیکھیں‘ ہوش ٹھکانے آجائیں گے۔ ’’بار ڈر‘‘ اور ’’واٹر سٹون‘‘ کتابوں کی بین الاقوامی دکانیں ہیں اور پاکستان کے سوا دنیا کے تمام بڑے ملکوں میں پائی جاتی ہیں۔ مجھے یاد ہے سنگا پور میں ’’بارڈر‘‘ کی وسیع و عریض دکان (جس کے اندر کئی پلازے تعمیر ہو سکتے ہیں) لوگوں سے چھلک رہی تھی۔ اخبارات کے مطالعے کی اجازت نہ تھی لیکن کتابیں وہاں بیٹھ کر پڑھی جا سکتی تھیں اور وقت کی کوئی پابندی نہیں تھی۔ کتاب خریدنے کے بعد پندرہ دن کے اندر اندر واپس بھی کی جا سکتی تھی! نوجوان لڑکوں اور لڑکیوں کا اس قدر ہجوم تھا جیسے میلہ لگا ہو‘ یہی حال لندن میں ’’واٹر سٹون‘‘ کا ہے کئی منزلوں پر مشتمل یہ ’’دکان‘‘ مرجعِ خلائق ہے۔ اس کے اندر ریستوران بھی ہے اور چائے خانہ بھی۔ بیٹھنے کیلئے صوفے اس طرح ہر منزل پر پڑے ہیں جیسے گھروں کے ڈرائینگ روم ہوں۔ ہر موضوع پر کتابیں ہیں اور لاکھوں کی تعداد میں ہیں۔ صبح سے شام تک شاید ہی کوئی ایسا وقت ہو کہ اژدہام میں کمی واقع ہو!
سوال یہ ہے کہ آخر پاکستانی کتاب دوست کیوں ہوں؟ عربی کا مقولہ ہے کہ ’’الناس علیٰ دینِ ملوکِھِم‘‘ یعنی عوام بادشاہوں کے طور طریقوں کی پیروی کرتے ہیں۔ کیا ہمارے حکمران (یعنی سیاست دان) کتابوں سے علاقہ رکھتے ہیں؟ نہ جانے حقیقت ہے یا محض افسانہ لیکن مشہور ہے کہ ایک وزیر اعظم ملائیشیا تشریف لے گئے تو ہوائی اڈے سے سیدھے فاسٹ فوڈ کی دکان پر گئے ایک اور وزیر اعظم نے اسلام آباد کے ایک مرکزی چوک پر لگے گلوب کو سیدھا کرا دیا۔ انہیں معلوم ہی نہیں کہ گلوب ہمیشہ ایک طرف کو جھکا ہوا ہوتا ہے! صدر مشرف نے اسمبلیوں میں آنے کے لئے بی اے کی شرط رکھی (وجوہ کچھ بھی تھیں) تو سیاست دانوں میں گریہ و زاری کے عبرت ناک مناظر دیکھنے میں آئے۔ کچھ نے تو ضعفِ پیری کے باوجود امتحان بھی پاس کئے۔ قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے ارکان میں تعلیم کا تناسب جاننے کیلئے تحقیق کی ضرورت ہے نہ اعداد و شمار کی۔ ٹیلی ویژن پر اپنی گفتگو سے جس طرح یہ اصحاب ’’متاثر‘‘ کرتے ہیں اس کے بارے میں کچھ نہ کہا جائے تو بہتر ہے۔ اس کے مقابلے میں دوسرے ملکوں کو دیکھئے‘ سنگا پور‘ کینیڈا اور فرانس کو تو چھوڑیے‘ بھارت میں کابینہ کے نصف ارکان پی ایچ ڈی ہیں۔ وزیر اعظم من موہن سنگھ نے صرف برطانیہ سے پی ایچ ڈی ہیں بلکہ بیرونِ ملک کی یونیورسٹیوں میں پڑھاتے بھی رہے ہیں۔
آج ہم تاریخ کے جس دوراہے پر پریشان کھڑے ہیں اس تک پہنچانے میں ہماری کتاب دشمنی کا کردار بہت نمایاں ہے! آپ کا کیا خیال ہے سوات‘ شمالی وزیرستان‘ جنوبی وزیرستان‘ باجوڑ اور اورکزئی ایجنسی میں کتنے کتاب گھر ہونگے؟ چلئے کتاب گھروں کو بھی چھوڑیئے‘ یہ سوچیئے ان علاقوں میں گزشتہ باسٹھ برسوں کے دوران کتنی یونیورسٹیاں کتنے کالج قائم ہوئے؟ قلات‘ خضدار‘ لورا لئی‘ ژوب اور چمن میں کتنی یونیورسٹیاں ہیں؟ قدرت کسی کی رشتہ دار نہیں! اگر آپ یونیورسٹیاں‘ کالج‘ کتاب گھر اور لائبریریاں نہیں قائم کریں گے تو سائنس دان اور پروفیسر نہیں پیدا ہونگے‘ بندوق فروشوں کے علاقوں میں بندوق بردار ہی نظر آئیں گے۔ تنبے کے درخت پر سیب ڈھونڈنے والے کو اپنے دماغ کا علاج کرانا چاہئے۔ لاکھوں ناخواندہ افراد سائنس دان بن سکتے ہیں نہ پروفیسر صحافی بن سکتے ہیں نہ ڈاکٹر‘ ہاں وہ بندوقچی ضرور بن سکتے ہیں کیونکہ بندوقچی بننے کیلئے تعلیم کی ضرورت ہے نہ تہذیب کی‘ عرصہ ہوا کسی نے کہا تھا کہ ایک طرف ڈاکٹر عبدالسلام کھڑا ہو اور دوسری طرف محمد علی شہکی تو سارا ہجوم شہکی کی طرف لپکے گا۔ اس کا مظاہرہ پچلھے دنوں بھی ہوا۔ دانشور اور صحافی ارشاد احمد حقانی کے جنازے میں دو یا اڑھائی سو افراد شریک ہوئے اسی دن لاہور میں ٹیپو ٹرکاں والے کا جنازہ بھی تھا۔ اس میں شریک ہونے والے سوگواروں کی تعداد ہزاروں میں تھی ٹیپو ٹرکاں والا ’’طاقت‘‘ کا نمائندہ تھا۔ مار دھاڑ کرنے والے اور پولیس والے سارے اس کے عقیدت مند تھے۔ جس معاشرے میں پٹواری اور ایس ایچ او ایک پی ایچ ڈی پروفیسر کی نسبت زیادہ معزز ہوں‘ وہاں لوگ کس کی موت پر زیادہ سوگوار ہونگے؟ یہ جاننے کیلئے یوں بھی پی ایچ ڈی ہونا ضروری نہیں!