جنازہ گاہ لوگوں سے بھر چکی تھی۔ بہت سے ابھی تیز تیز قدموں سے آ رہے تھے۔ امام کے مصلے پر ایک نوجوان کھڑا تھا۔ مولوی صاحب نے شرکائے غم کو بتایا کہ یہ نوجوان مرحومہ کا پوتا ہے اور اپنی دادی کی نماز جنازہ خود پڑھائے گا۔
مرکزی حکومت کے سینئر بیوروکریٹ عبدالبصیر کا یہ سعادت مند فرزند ’نعمان‘ پیشہ ور نماز پڑھانے والا نہ تھا۔ وہ لندن سکول آف اکنامکس کا فارغ التحصیل ہے اور اعلیٰ عہدے پر فائز ہے۔ اس نے نماز جنازہ پڑھا کر یہ ثابت کیا کہ اس کام کیلئے کسی مخصوص فرد کی احتیاج قطعاً ضروری نہیں۔ یہ کام تو ہر وہ شخص کر سکتا ہے جو مسلمان ہے اور اپنے فرائض سے آگاہ ہے۔ مو لوی صاحب نے اس کا تعارف کراتے ہوئے حاضرین کو بتایا کہ اصولی طور پر جنازے کی نماز وارث کو پڑھانی چاہئے لیکن افسوس کی بات ہے کہ لوگوں نے خود ’’مو لوی‘‘ پر انحصار کیا ہوا ہے اور پھر لعن طعن بھی مولوی ہی کو سننا پڑتی ہے۔ اس انحصار بلکہ محتاجی ہی کا نتیجہ ہے کہ اب ان پڑھ قسم کے ملا یہ دھمکی عام دیتے ہیں کہ آخر مولوی سے بچ کر کہاں جائو گے؟ نکاح اور جنازہ تو مولوی ہی نے پڑھانا ہے! سنجیدہ علماء کرام نے ہمیشہ عوام کو یہی تلقین کی ہے کہ اپنے بچوں کو دین کی بنیادی باتوں کا علم دو تاکہ انہیں کسی ’’پیشہ ور‘‘ پر انحصار نہ کرنا پڑے۔ اس سے پہلے جسٹس رمدے نے اپنی مرحومہ اہلیہ کی نمازِ جنازہ خود پڑھائی تھی۔ اسلام میں کوئی پوپ ہے نہ پنڈت۔ یہ تو دین اور دنیا کے علم کے درمیان ایک خود ساختہ لکیر ہے جس نے ہمارے ہاں بھی پوپ اور پنڈت کی طرح ’’مولوی‘‘ کا باقاعدہ ادارہ قائم کر لیا ہے ورنہ مولوی کیلئے ضروری نہیں کہ روٹی کمانے کیلئے مسجد اور مدرسے ہی کا سہارا لے۔ اور غیر مولوی کو نماز اور نکاح پڑھانے سے کوئی نہیں روک سکتا۔ اگر ابوحنیفہؒ ریشم کی تجارت کرکے اور عالم اسلام میں پہلی سپر مارکیٹ بنا کر امام ابوحنیفہ بن سکتے ہیں تو آج کے علماء کرام بھی کسبِ معاش کیلئے مذہب کا استعمال ترک کر سکتے ہیں۔
یہ وہ دوراہا ہے جہاں ایک اور سوال پیدا ہوتا ہے۔ کیا علم صرف مذہب کا علم ہے؟ جب اللہ کے رسولؐ نے فرمایا کہ علم سیکھنا ہر مسلمان مرد اور عورت پر فرض ہے تو کیا اس سے مراد صرف مذہب کا علم ہے؟ تاریخ اسکا جواب ’’نہیں‘‘ میں دیتی ہے۔ اگر علم صرف مذہب کے مطالعہ تک محدود ہوتا تو مسلمان جیومیٹری اور الجبرا نہ ایجاد کرتے۔ طب میں ترقی نہ کرتے۔ مغرب نے مسلمانوں ہی سے سیکھا کہ علم مشاہدے اور تجربے سے حاصل کیا جا سکتا ہے اور یہ کہ ریاضی دان اور طبیب ہونے کیلئے پادری ہونا لازمی نہیں۔ ایسا ہوتا تو عرب قطب نما نہ بناتے۔ یہ عربوں کا اصطرلاب ہی تھا جس سے عیسائی جہاز رانوں نے عرض بلد کا شمار کرنا سیکھا۔ اگر علم صرف مذہب کا علم ہوتا تو الادریسی جغرافیہ دان کس طرح بنتا اور ابوحنیفہ ریشم کے اتنے بڑے ماہر کیسے بنتے کہ کوفہ اور بغداد میں جو بھی ریشم فروخت کرنے کیلئے آتا۔ منڈی میں ایک ہی بات کہی جاتی کہ اس ریشم کے بارے میں ابوحنیفہ کی رائے کیا ہے؟
ستم ظریفی یہ ہے بلکہ سچی بات اور دھاندلی یہ ہے کہ جب بھی مدارس میں سائنس اور ٹیکنالوجی پڑھانے کی بات کی جاتی ہے تو چند برخود غلط قسم کے خود ساختہ نمائندے ایک بات کی ضرور تکرار کرتے ہیں کہ کالجوں اور یونیورسٹیوں میں جدید علوم پڑھانے والوں نے کیا تیر مار لئے؟ جب کہ سنجیدہ اور متین علماء کرام جن کا مدرسوں کی سیاست اور کھڑپینچی سے کوئی تعلق نہیں اور جو وزارت مذہبی امور کی تقاریب میں شرکت کیلئے مارے مارے نہیں پھرتے۔ اس قسم کے الزامی جوابات نہیں دیتے بلکہ ہمیشہ یہ کہتے ہیں کہ جدید علوم مسلمانوں پر فرض ہیں اور اگر مسلمانوں پر فرض ہیں تو اہل مدرستہ ان سے مستثنیٰ کیوں کر ہو سکتے ہیں؟ اللہ نے اپنی کتاب میں حکم دیا کہ ’’تیار کرو انکو لڑائی کے واسطے جو کچھ جمع کر سکو قوت سے‘‘ اس آیت کی تفسیر میں مفتی محمد شفیع ؒلکھتے ہیں ’’قرآن کریم نے اس جگہ اس زمانہ کے مروجہ ہتھیاروں کا ذکر نہیں فرمایا بلکہ قوت کا عام لفظ اختیار فرما کر اس طرف بھی اشارہ کر دیا کہ یہ قوت ہر زمانہ اور ہر ملک و مقام کے اعتبار سے مختلف ہو سکتی ہے‘ اس لئے آج کے مسلمانوں کو بقدر استطاعت ایٹمی قوت ٹینک اور لڑاکا طیارے سے آبدوز کشتیاں جمع کرنا چاہیں۔‘‘
شبیر احمد عثمانی ؒ اس آیت کی تشریح اس طرح کرتے ہیں‘‘ آج بندوق توپ ہوائی جہاز آبدوز کشتیاں آہن پوش کروز وغیرہ کا تیار کرنا اور استعمال میں لانا اور فنون حربیہ کا سیکھنا سب سامان جہاد ہے‘‘ ظاہر ہے کہ یہ آلات جدید فزکس، کیمسٹری، دیگر سائنسی علوم اور ٹیکنالوجی سیکھے بغیر تیار نہیں کئے جا سکتے۔ دوسرے لفظوں میں مدارس کے اصحابِ قضا و قدر، دین کا علم سیکھنے والوں کو اس علم سے دور رکھے ہوئے ہیں جس کا سیکھنا فرض قرار دیا گیا ہے! رہی یہ دلیل کہ آخر کالجوں اور یونیورسٹیوں میں پڑھنے والوں نے کون سے تیر مار لئے ہیں تو یہ ایک بودی دلیل ہے جس پر صر ف ہنسا جا سکتا ہے۔ اگر یہ مان بھی لیا جائے کہ کالج اور یونیورسٹی میں پڑھنے والوں نے کوئی تیر نہیں مارا تو اس سے یہ کہاں ثابت ہوتا ہے کہ ’’ہوائی جہاز، آب دوز کشتیوں اور آہن پوش کروزر‘‘ بنانے کے علوم سے مدارس کے طلبہ کو محروم رکھا جائے؟
کالجوں اور یونیورسٹیوں میں پڑھنے پڑھانے والوں کا عمل ہمارے لئے حجت نہیں۔ نہ ہی اس کا عمل حجت ہے جو مدارس میں پڑھ رہے ہیں یا مدارس کی نمائندگی کرتے ہیں۔ حجت اللہ اور رسول کے احکام ہیں۔ یہ احکام کسی کی جاگیر ہیں نہ وراثت۔ یہ ضروری نہیں کہ ایک خاص وضع قطع رکھنے والوں کی ہر بات پر امنا و صدقنا کہا جائے یا انکی ہر بات کو رد کر دیا جائے۔ دین اور دنیا کے علوم کی تخصیص کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں۔ دین کا علم ہر مسلمان عورت اور مرد پر فرض ہے۔ اسی طرح دین کے مقاصد حاصل کرنے کیلئے سائنس اور ٹیکنالوجی کو سیکھنا بھی ہر مسلمان مرد اور عورت پر فرض ہے۔
اللہ کے رسولؐ نے طوافِ کعبہ کے کچھ چکروں میں اکڑ کرچلنے کی تلقین فرمائی ہے تاکہ کفار پر دھاک بیٹھے۔ یہ حکم علامت ہے اس بات کی کہ وضع قطع ہو یا علم یا معیشت یا کچھ اور شے مسلمانوں کی حالت پست نہ ہو بلکہ ایسی ہو کہ اس پر فخر کیا جا سکے۔ آج جو جتنا مسکین، مجہول، دبا ہوا اور ضعیف نظر آئے، اتنا ہی اچھا مسلمان سمجھا جاتا ہے۔ یہی حال ملکوں اور قوموں کی برادری میں ہے۔ چوّن مسلمان ملکوں میں ایک مسلمان ملک بھی ایسا نہیں جہاں لوگ بلند معیارِ زندگی کیلئے ہجرت کرنا پسند کریں۔ بلند معیارِ زندگی کو اگر چھوڑ بھی دیں تو پھر بھی کوئی ایسا مسلمان ملک پیش نہیں کیا جا سکتا جہاں نظام انصاف، نظام تعلیم اور نظام معیشت مثالی ہے۔ وعظ کرنے والی مسلمان عورتیں اور شیخ الاسلام کہلانے والے بڑے بڑے واعظ مغربی ملکوں میں جا بیٹھے ہیں اور اپنے معتقدین سے ٹیلی فونوں کے ذریعے خطاب کر رہے ہیں۔ ہمارے اپنے ملک رہائش کے قابل بھی نہیں ہیں۔اس کے باوجود ہم مرنے مارنے پر تُلے ہوئے ہیں لیکن اپنی حالت سنوارنے کی فکر نہیں
دین اور دنیا کے سارے علوم قدرت نے پیدا کئے ہیں۔ اسلام نے ان میں کوئی فرق روا نہیں رکھا۔ لنڈن سکول آف اکنامکس کے پڑھے ہوئے نعمان بصیر نے نماز جنازہ پڑھا کر ثابت کیا ہے کہ مخصوص دائرے اہل غرض نے خود کھینچ رکھے ہیں!