انسانی بے بسی کی انتہا ہے کہ
’’اپنی خوشی نہ آئے نہ اپنی خوشی چلے‘‘۔
واپسی تو طے شدہ امر ہے کہ
’’جو بھی آیا وہ آخر مکان چھوڑ گیا‘‘۔
کسی نے سچ ہی تو کہا ہے ۔
جانے والوں کو کہاں روک سکا ہے کوئی ؟
تم چلے ہو تو کوئی روکنے والا بھی نہیں
جنہیں جانا ہو وہ کب رکتے ہیں بھلا !
اور یہ جانا بھی کیسا جانا ہے کہ انسان چاہ کر بھی رکنے پر قادر نہیں ہوتا ۔
پوچھ کے آتا ہے نہ پہلے سے بتا کر جاتا ہے ۔
روتا ہوا آتا ہے ، رلا کر جاتا ہے۔گمان غالب ہے کہ جانے والا خود بھی مغموم ہو کے جاتا ہے ۔
’’شباب سیر کو آیا تھا سوگوار گیا ‘‘۔
سلیم اختر صاحب سے میرا تعارف سات آٹھ سال پر محیط ہے ۔یاد پڑتا ہے کہ ان دنوں میں نے ریشم کے لیے لکھنا شروع کیا تھا ۔ خط تو شائع ہو رہے تھے مگر کوئی کہانی تا حال اشاعت سے محروم تھی ۔ پہلی تحریر شائع ہوئی تو اس کی اطلاع سلیم بھائی نے دی ۔ لیکن وہ مغموم تھے اس بات پر دکھی تھے تحریر کو اس کا جائز مقام نہیں ۔ کوئی رامے صاحب انہوں نے آخری صفحات میں جگہ دی تھی جس پر سلیم اختر افسوس کا اظہار کرتے رہے ۔
ان سے ملاقات تو صرف ایک ہی ہوئی لیکن فون پہ بیسیوں بار رابطہ رہا ۔ ان کی گونج دار آواز اور کھنکتی ہنسی اب بھی گویا کانوں میں گونجتی ہے تو یقین نہیں آتا کہ وہ ہمیں تنہا چھوڑ گئے ہوں ۔
میں نے بارہا کہا کہ آپ کی گونج دار آواز اور بھرپور ہنسی مجھے بھلائے نہیں بھولتی اور جب جب آپ کی یاد آتی ہے میرا دل آپ کو کال کرنے اور آواز سننے کو دل چاہتا ہے ۔
وہ جس اپنائیت سے بات کرتے تھے واقعی نہ بھولنے والا امر ہے ۔ وہ مجھے اپنے دوست ساتھی اور ہم عمر انسان لگے – عمروں کا تفاوت باقی ہی کب رہا تھا – میرا گمان ہے کہ وہ اپنے جاننے والوں سے اسی طرح گھل مل جایا کرتے تھے جیسے وہ میرے ساتھ
" رل مل " گئے تھے ۔
گمان غالب ہے کہ ان کا ہر دوست ہر ساتھی یہی دعویٰ کرتا دکھائی دے گا کہ جیسا تعلق ان کا میرے ساتھ تھا کسی دوسرے کے ساتھ نہ تھا ۔ یہی بات ان کی ہر دل عزیزی کا واضح ثبوت ہے –
اپنی واحد کتاب
" یادوں کی بارات " انہوں نے بڑی محبت سے مجھے بھیجی جو میں نے حرف حرف پڑھی اور ان کے فن کا دل سے قائل بھی ہوا ۔ ان کی کہانیوں کی خاص بات ان کا سادا اسلوب تھا جو ہر قاری کے دل میں گھر کر جاتا تھا – انہیں اپنی علمیت اور فلسفہ جھاڑنے کا قطعا کوئی شوق نہ تھا –
پاکستان کے ہر ڈائجسٹ میں انہوں نے لکھا اور کیا خوب لکھا –
میں نے ان سے نئی کتاب کا پوچھا تو کہنے لگے کام جاری ہے – خدا کرے کہ ان کی اولاد ان کا یہ ادھورا مشن پورا کرے –
کوئی ڈیڑھ سال قبل مجھے راول پنڈی جانے اور ان کا مہماں بننے کا حسین اتفاق ہوا –
مجھے ذہنی مسائل درپیش تھے – استاد محترم نے ایک بزرگ عامل کا پتہ دیا تھا کہ مجھے اپنے علاج کے لیے ان کے پاس جانا چاہیے ۔ وہ پنڈی کے تھے سو میں نے سلیم اختر صاحب سے رابطہ کیا اور اس سلسلہ میں رہنمائی چاہی تو انہوں نے نہ صرف رہنمائی کی بلکہ ملاقات اور مہمان نوازی کا ارادہ بھی ظاہر کیا ۔ میں ان سے ملا تو یوں لگا جیسے برسوں کا یارانہ ہو اور یہ پہلی ملاقات نہ ہو ۔ رات انہی کے ہاتھ قیام کیا ۔ وہ کھانا کھلانے کے لیے ایک شاندار ہوٹل میں لے گئے – پر تکلف ڈنر کرایا ۔ اگلے دن میری واپسی تھی – مسلسل رابطے میں رہے اور بار بار کہتے تھے اگر دیر سویر ہو جائے تو میرا گھر حاضر ہے –
میں سر شام فری ہو گیا سو واپس چلا آیا – وہ بار بار فون پر خیریت دریافت کرتے رہے – مجھے ان کے اس طرز عمل نے بہت متاثر کیا – کوئی پندرہ دن ان سے آخری بار بات ہوئی – ان سے ایڈونچر اور نئے افق کا جی میل مانگا تو انہوں نے جلد بھیجنے کا وعدہ کیا لیکن وفا کرنے میں ناکام رہے کہ وقت نے انہیں مہلت ہی نہیں دی –
اللہ بخشے عجب آزاد مرد تھا ' شان سے جیا اور وقار سے رخصت ہوا –
ہم اور ان کے چاہنے والے دعا گو ہیں کہ اللہ تعالیٰ انہیں جنت میں اعلی مقام عطا فرمائے اور پسماندگان کو صبر جمیل عطا فرمائے
آمین یا رب العالمین بجاہ سید المرسلین