جانے کس جرم کی پائی ہے سزا یاد نھیں !
ڈاکٹر اسرار احمد مرحوم کہا کرتے تھے کہ پاکستانی قوم دنیا کی منافق ترین قوم ہے، اُنکا یہ جملہ مجھے اس لیے یاد آیا کہ یار بیلی اکثر یہ کہتے اور اعتراض کرتے نظر آتے ہیں کہ عمران خان پاکستان کا وزیر اعظم نھیں بن سکتا کیونکہ اسے سیاست نھیں آتی، خان کو سیاست آتی ہے یا نھیں اس پر تو بعد میں بات کرتا ہوں مگر خان کے وزیر اعظم نہ بننے سے متعلق اکثر بہت بے تکی اور عجیب و غریب دلیلیں دی جاتی ہیں، تو میرا خیال ہے کیوں نہ آج الباکستانیوں کو تاریخ کا دورہ کروایا جائے۔۔۔۔۔ کیوں نہ آج تاریخ کے اوراق سے گرد جھاڑ کر یہ دیکھا جائے کہ کیسے کیسے "فرشتے" یہاں حکمرانی کر گئے۔۔۔۔تو سنیے پھر۔۔۔۔
یہ اکتوبر انیس سو اکیاون ہے،ابھی آزادی کے ابتدائی سال ہیں اور پاکستان کا گورنر جنرل ایک فالج زدہ مفلوج، معذور اور مغرور شخص کو بنا دیا جاتا ہے نام ہے جس کا ملک غلام محمد، اور بقول قدرت اللہ شہاب جب انہیں بستر علالت سے اٹھا کر گورنر جنرل کی کرسی پر بٹھایا گیا تو یہ ایک ایسی غلطی کا ارتکاب تھا جس کا خمیازہ پاکستان کی آنے والی نسلیں بھی بھگتتی رہیں، حضرت صاحب شدید قسم کے عورت پرست تھے اور کبھی کبھی انکا یہ جنسی جنون مریضانہ حد تک پہنچ جاتا تھا اور اسی مقصد کے لیے انھوں نے ایک سوس امریکن خاتون کو اپنی سیکٹرری مقرر کر رکھا تھا جو انکی فالج زدہ زبان کی ترجمانی کے ساتھ "دیگر" کام بھی دلجوعی سے کرتی تھیں۔۔۔
آگے چلیے۔۔۔۔ یہ سات اگست انیس سو چھپن ہے، گورنر جنرل غلام محمد کی وفات کے بعد اقتدار کا سیمرغ میجر جنرل اسکندر مرزا کے سر پر جا بیٹھا، اسکندر مرزا کے آتے ہی وہ مقدس گورنر جنرل ہاوس جہاں کبھی قائد ملت قائد اعظم محمد علی جناح کی گرجدار آواز اور اصول و کردار کی رعانئیاں بکھری ہوئی ہوتی تھیں وہ اب ایک ڈانس کلب میں تبدیل ہو چکاہے، اقتدار بس مون لائٹ پارٹیز اور عریانیت و فحاشی کی رقاصہ کے پاوں کی جھانجن بن چکا ہے، ساغر و مینا کی کرامات کے رنگ میں اسکندر مرزا ملک و ملت کے فیصلے صادر کیا کرتے تھے۔۔۔(حوالے کے لیے قدرت اللہ کی کتاب شہاب نامہ پڑھیں )۔۔۔
آگے چلیے۔۔۔۔ یہ سال انیس سو ستر کی ایک رات ہے، راولپنڈی کی سڑکوں پر کرفیو نافذ ہے اور اس کرفیو کے دوران صرف ایک فوجی جیپ سڑکوں پر دوڑ رہی ہے، اس جیپ کی پچھلی سیٹ پر ایک شخص شراب کے نشے میں دھت برہنہ ہو کر شور و غل کر رہا ہے اور اس برہنہ شخص کی بغل میں مشہور و معروف جنرل رانی موجود ہے، جی ہاں میں بات کر رہا ہوں سکوت ڈھاکہ کے چند کرداروں میں سے ایک کردر کی جناب محترم مدظلہ جنرل یحیحی خان کی جو اس وقت الباکستان کے مائی باپ و کرتا دھرتا تھے۔۔۔۔۔۔
آگے چلیے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یہ اگست انیس سو تہتر ہے، اقتدار کے سنگھاسن پر اس وقت ذوالفقار علی بھٹو عرف جنرل اسکندر مرزا اور جنرل ایوب کا زلفی بیٹھا ہے، پاکستان کے جمہوروں کا نام نہاد چمئین، جنرل ایوب خان کو ڈیڈی کہنے والا، سکوت ڈھاکہ کے چند کرداروں میں سے ایک، شیخ مجیب کی اکثریت کو رد کرنے والا، ادھر ہم ادھر تم کا نعرہ لگانے والا، بنگالی لفظ کو گالی بنانے والا، صنعتی طور پر پاکستان کا بھٹہ بٹھانے والا ذوالفقار علی بھٹو پاکستان کے سیاہ سفید کا مالک بنا بیٹھا ہے۔۔۔۔۔
آگے چلیے۔۔۔۔ یہ سولہ ستمبر انیس سو اٹھہتر کا سیاہ دن ہے۔۔۔ جمہوری حکومت پر شبخون مار کر اقتدار ایک خود ساختہ امیر المومینین کے قبضہ میں چلا گیا ہے جس نے پاکستان کو افغان ریفیوجی، کلاشنکوف کلچر، نون لیگ اور ایم کیو ایم جیسے وہ نایاب تحفے پاکستان کی جھولی میں ڈالے جن کو ہم آج بھی بھگت رہے ہیں جنھوں نے پاکستان کی بربادی میں اپنا بھرپور حصہ ڈالا۔۔۔۔۔۔
آگے چلیے۔۔۔۔۔۔ یہ چھ اگست انیس سو نوے ہے۔۔۔۔ پاکستان کی سربراہ ایک ایسی شخصیت ہے جس پر یہ الزام ہے کہ اس نے اپنے بھارتی ہم منصب کو پاکستان کی خفیہ معلومات دی ہیں، نام ہے جسکا بینظیر بھٹو، سوائے اسکے کہ وہ ذوالفقار علی بھٹو کی بیٹی تھی اس وقت اسکے علاوہ اسکی اور کوئی قابلیت نھیں تھی جس کی بدولت اسے ملک کا سربراہ بنایا جائے۔۔۔۔
آگے چلیے۔۔۔۔۔ یہ اٹھارہ اپریل انیس سو ترانوے ہے۔۔۔۔ بینظیر بھٹو کی حکومت کی ٹانگیں کھینچ کھینچ کر اسکی کردار کشی کر کر کے آخر کار اقتدار کی کرسی میاں محمد نواز شریف پر مہربان ہو گئی، جنرل ضیا الحق کی سیاسی نرسری میں تربیت پانے والا ایک اوسط درجے کی ذہنیت کا مالک شخص پاکستان کا سربراہ ہے جس کی قابلیت صفر کے سوا کچھ نہ تھی جو آج بھی پرچی ہاتھ میں لیے بغیر بات نھیں کر سکتا جس نے کرپشن کے دھندے میں قدم اپنے پہلے دور اقتدار میں ہی رکھ دیا تھا۔۔۔۔۔۔
انیس سو نوے سے انیس ننانوے تک اقتدار کی کرسی بھٹو اور جنرل ضیا الحق کی باقیات کے درمیان گھومتی رہی، یہ وہ دور تھا جب جعلی جمہوروں کی طرف سے ملکی خزانے لوٹ لوٹ کر سرے محل اور مے فئیر فلیٹ بن رہے تھے، لوٹ مار کا سلسلہ زور و شور سے جاری تھا یہاں تک کہ بارہ اکتوبر انیس سو ننانوے کو جنرل مشرف نے جمہوریت کی یرقان زدہ مریضہ کا بلاتکار کرتے ہوئے اقتدار پر قبضہ کر لیا۔۔۔ جی ہاں جنرل مشرف، امریکہ کی ایک کال پر پورا ملک گروی رکھوانے والا، پاکستان میں خود کش حملوں کی راہ ھموار کرنے والا، پاکستان کی نطریاتی جڑوں میں روشن خیال اعتدال پسندی کا ذہر انڈیلنے والا، بغیر کسی مربوط ضابطے و قانون کو بنائے بغیر مادر پدر آزاد الیکٹرانک میڈیا کے جن کو بوتل سے باہر نکالنے والا،پاکستان کے بدترین کرمنلز کے گلے میں این آر او کی مالا ڈالنے والا جنرل پرویز مشرف۔۔۔۔۔
آگے چلیے۔۔۔۔۔۔ یہ دو ہزار آٹھ ہے۔۔۔ پاکستان کی حکمرانی کا تاج ایسے انسان کے سر پر رکھا جانے والا ہے جو بیوی کی جعلی وصیت پر پارٹی کا چئیرمین بنا،جو ایک سرٹیفائید ذہنی مریض ہے، جو عجب کرپشن کی غضب کہانیوں کا مرکزی کردار ہے، کرپشن کی وجہ سے جسکا لقب مسٹر ٹین پرسنٹ ہے، جو میمو گیٹ سکینڈل کے ذریعے امریکہ سے یہ کہتا ہے مجھے فوج سے بچاو، جس نے بھٹو کی پپلز پارٹی کا یہ حال کیا کہ آج پپلز پارٹی کا جنازہ پڑھنے کو کوئی تیار نھیں، جس نے اگلے پانچ سال میں پاکستان کی ہڈیاں تک کھوکلی کر دی۔۔۔۔۔
آگے چلیے۔۔۔۔۔ یہ گیارہ مئی دو ہزار تیرہ کی رات ہے۔۔۔۔ پاکستان کی عوام کے ووٹوں پر شبخون مار کر ملکی و غیر ملکی اسٹیبلشمنٹ کے ترلے کر کے ایک بار پھر جنرل ضیا کی باقیات اپنی آل اولاد سمیت اقتدار پر قابض ہو جاتی ہے، ایک بار پھر پاکستان ایک اوسط درجے کے ذہن کے مالک شخص کے رحم و کرم پر آجاتا ہے، اقتدار کے لیے آئی ایس آئی یا اسامہ بن لادن سے پیسے لینے کا معاملہ ہو یا کمیشن کک بیکس کی کہانی، قرض اتارو ملک سنوارو سکیم ہو یا آفشور کمپنیوں اور ٹیکس چوری کے پیسے سے لندن میں فلیٹ بنانے کا معاملہ، جج خرید کر مرضی کے فیصلے کروانے کا معاملہ ہو یا ہر اہم ملکی اداروں کی تباہی کی داستان ہر غلاظت و گندگی کے پیچھے اس نام نہاد شریف خاندان کا نام نظر آئے گا۔۔۔۔۔۔
اے الباکستانیو ! کبھی کبھی تو تمہاری منافقت اور دوغلے معیارات کو دیکھ کر مجھے بڑی حیرت ہوتی ہے، کیسے کیسے بد کردار اور کرپٹ لوگوں کو تم نے اپنے اوپر بطور حاکم مسلط نہ کیا مگر جب بات عمران خان کی آتی ہے تو تم کہتے ہو اسے وزیر اعظم نھیں بننا چاہیے، کیوں نھیں بننا چاہیے؟ کیا وہ کرپٹ ہے؟ کیا وہ پینتس سال سے اقتدار کرتا آرہا ہے؟ کیا اس نے ملک کا ٹیکس لوٹ کر آفشور کمپنیاں اور فلیٹس یا سرے محل بنائے ہیں؟ کیا اس نے ترقیاتی منصوبوں کی آڑ میں کمیشن کھائے ہیں؟ کیا اس نے سپریم کورٹ کے ججوں پر حملے کروائے ہیں؟ اعتراض کیا جاتا ہے عمران خان اقتدار میں آکر کرپشن کرے گا، صدقے جائیں اس بد گمانی پر، کرے گا۔۔۔کی تو نھیں نہ؟ کیا تم پر یہ الہام اترا کہ وہ کرپشن کرے گا؟ یعنی منافقت کا لیول چیک کریں کہ ایک سے ایک کرپٹ لیڈر منتخب کرنے والی قوم عمران خان کے بارے میں یہ کہہ رہی ہے کہ وہ کرپشن کرے گا جبکہ وہ ابھی اقتدار میں ہی نھیں آیا، بھئ اگر اس نے کرپشن کی تو اٹھا کر اسے بھی کوڑے دان میں پھینک دینا مگر یہ بے تکی دلیلیں اور منافقت چھوڑ دو، اگر اس نے کرپشن کر کے مال بنانا ہوتا تو چار سال سے ایک صوبے میں حکومت کر رہا ہے مشکل نھیں تھا مال بنانا مگر تم ایک روپے کی کرپشن بتا دو وہاں جو عمران نے کی، اس نے اگر پیسہ بنانا ہوتا تو وہ آج بھی محض چند منٹس کی کرکٹ کمنٹری کر کے کروڑوں بنا سکتا ہے، اس نے اس دور میں لگثری لائف انجوائے کی ہے جب الباکستانیو کو ابھی لگثری لفظ کا مطلب بھی نھیں پتہ تھا، اس پر لوگوں کے اعتماد کا یہ عالم ہے کہ آج بھی ایک گھنٹے کی کال پر لوگ کروڑوں کا چندہ دے دیتے ہیں شوکت خام کینسر ہسپتال کو، اس کو پیسے کی ہوس ہوتی تو اربوں روپے لگا کر کینسر کے تین ہسپتال اور پسماندہ ترین علاقے میں یونیورسٹی بنانے کے بجائے سوس بینک بھرتا یا لندن کے مہنگے ترین علاقے میں فلیٹس کا مالک ہوتا ، اگر اسکے لیے پیسہ ہی اہم ہوتا تو ارب پتی باپ کی بیٹی کو طلاق دینے کے بجائے لندن میں سکون کے ساتھ اپنی ذندگی بسر کر رہا ہوتا، وہ بائیس سال سے کرپشن کے خلاف جنگ کر رہا ہے اسی کی محنت کا نتیجہ ہے کہ آج پاکستان کی تاریخ میں پہلی بار وقت کے حاکم اور اسکے خاندان کا احتساب ہو رہا ہے، کرپٹ حاکم تم منتخب کرتے ہو اور انکے احتساب کے لیے خوار وہ ہو رہا ہے، جہاں تک بات یہ کہ خان کو سیاست نھیں آتی تو بھائی لوکو پینتس پینتس سال سے اقتدار کے مزے لوٹنے والوں کو جس طرح عمران نے نتھ ڈالی ہوئی جس طرح اُس نے ان کرپٹ مافیاز کو ایکسپوز کیا ہے اس کے بعد بھی اگر اسے سیاست نھیں آتی تو پھر آپ کی عقل پر ماتم ہے،
الباکستانیو ! عمران خان فرشتہ نھیں ہے اس میں بھی خامیاں ہیں مگر وہ بد دیانت نھیں ہے اور یہی ایک خوبی اسے ان سب نام نہاد سیاہ ستدانوں سے ممتاز کرتی ہے سو تم لوگ بھی اپنے دہرے معیارات کو چھوڑ کر ان شریفوں اور زرداریوں سے جان چھڑواو اور اس ملک اور اسکی آنے والی نسلوں پر رحم کرو !!
سب جرم میری ذات سے منسوب ہیں محسن
کیا میرے سوا شہر میں معصوم ہیں سارے؟
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔
“