(کازُواو اِشیگورو کے ناول ' Never Let Me Go ' اور اس پر بنی انگریزی فلم پرایک نوٹ)
سماجی و سائنسی ترقی نے ہمیشہ بہت سے پیشوں کو وقت کے ساتھ خیر باد کہا ہے جبکہ نئے پیشے ان کی جگہ لیتے رہے ہیں ۔ اپنے ملک کی ہی مثال لیں تو فقط چھپائی کے شعبے میں ، میں نے پہلے لیتھوگرافی کے ذریعے طباعت ہوتے دیکھی ، پھر سکے کے ڈھلے حروف سے ' کمپوزنگ ' دیکھی اور ٹریڈل مشین پر یہ کمپوز ہوئے سکے کے حروف چھپا کرتے تھے ؛ ’ کمپوزر‘ کا پیشہ اس چھپائی سے جڑا تھا ۔ اردو میں چھپائی کے کتابت ہوتی اور ’ کاتبوں ‘ کا پیشہ اس سے نتھی تھا ۔ آفسٹ نے کمپوزروں کی چھٹی کرائی جبکہ کاتبوں کے پیشے کو کمپیوٹر پر کمپوزنگ ہڑپ کر گئی ۔ کمپیوٹر نے ٹائپ رائٹر کی چھٹی تو کرائی ہی ساتھ میں’ سٹینو گرافر ‘ کا پیشہ بھی ختم کر دیا اور ’ کمپیوٹر آپریٹر‘ کے نئے پیشے کو جنم دیا ۔ اسی طرح زندگی کے دیگر شعبوں میں بھی اسی طرح کئی پیشے متروک ہوئے اور ان کی جگہ نئے آ گئے ۔ ترقی یافتہ دنیا میں ’ شہری زندگی ‘ ( اربن لائف ) نے وقت کے ساتھ ساتھ ایسی شکل اختیار کی کہ مرد و زن دونوں نے ملازمت اختیار کی اور’ مشترکہ خاندان ‘ کا روایتی تصور ٹوٹنے لگا ۔ بچے سن بلوغت اختیار کرتے ہی خاندان سے الگ ہو کر اپنی زندگی گزارنے لگے جبکہ بوڑھوں کے لئے ’ اولڈ ایج ہوم ‘ کے تصور نے سماج میں اپنی جگہ بنانی شروع کر دی ؛ اس سے ایک نیا پیشہ ’ نگہداشت کرنے والا یا والی ‘ جڑا ۔ سکول جانے سے پہلے بچوں کے لئے ڈے کئیر سنٹر بھی ساتھ ساتھ ابھرنا شروع ہوئے ان کے ساتھ ’ بےبی سِٹر‘ کا پیشہ جڑا ہوا ہے ۔ بیسویں صدی کے ختم ہونے تک ترقی یافتہ دنیا کے ممالک میں اربن لائف اتنی پیچیدہ ہو چکی تھی کہ کئی ایسے پیشے وجود میں آ گئے جو پہلے کبھی نہ تھے ۔ ان ترقی یافتہ ملکوں میں وہ ملک بھی شامل ہیں جو ’ فلاحی ریاستیں ‘ کہلاتی ہیں ؛ جہاں طب ، تعلیم ، مکان ، روزگار نہیں تو وظیفہ سب ریاست کی ذمہ داری ہوتا ہے ۔ دن بدن پیچیدہ ہوتی اس شہری ( اربن ) زندگی میں کئی ایسے پیشے بھی وجود میں آئے جو گھر اور ریاستی اداروں کے درمیان موجود ’ گرے ایریاز‘ ( gray areas ) میں موجود ہیں ؛ تیمار دار ، نگہداشت کرنے والا ، خیال رکھنے والا اور ’ کیئرر‘ ( Carer ) بھی ایک ایسا ہی پیشہ ہے جو ان معاشروں میں بہت واضح طور پر نظر آتا ہے ؛ یہ نرس اور ڈاکٹر و دیگر طبی پیشوں کے علاوہ ہے ۔ اسی طرح طب کی دنیا میں’ دان دینے والا/والی ‘ ( ڈونر) بھی وضع ہوا ۔ شروع شروع میں یہ پیشے رضاکاروں پر مشتمل تھے لیکن بعد ازاں انہوں نے کئی شکلیں اختیار کر لیں ۔ اگر آپ انٹر نیٹ پر کھوج کریں تو آپ کو بہت سے ایسے ادارے ، تنظیمیں اور این جی اوز نظر آئیں گی جو ’ کیئرر‘ کی تربیت ، افادیت ، مضمرات اور اسی طرح کے کاموں میں آپ کی مدد کے لئے اپنی سروسز مہیا کرتی ہیں ۔ اسی طرح اعضا ء دان کرنے والوں کے حوالے سے بھی آپ کو انٹرنیٹ ہر اسی طرح کا بہت کچھ مل جائے گا ۔
’ کیئرر‘ کا تصور ہمارے جیسے معاشروں میں سمجھنا ذرا مشکل ہے کیونکہ ہمارے جیسے معاشرے ابھی بھی ’ جائنٹ فیمیلی‘ کے بل پر استوار ہیں جہاں سکول نہ جانے والے بچے ہوں یا بوڑھے والدین ، کسی نہ کسی طور ان کی دیکھ بھال ہو ہی جاتی ہے اور ہمیں عمومی طور پر کسی پیشہ ور’ بے بی سٹر‘ یا ’ کیئرر‘ کی ضرورت پیش نہیں آتی ؛ میاں بیوی اگر دونوں کام کر رہے ہیں تو بچے نانی نانا یا دادی دادا سنبھال لیتے ہیں ، ورنہ گھریلو بیوی تو ہے ہی جو ساس سسر اور بچوں ، دونوں کا خیال رکھ لیتی ہے؛ زیادہ سے زیادہ ایک نوکر یا نوکرانی رکھ لی کیونکہ یہاں لیبر سستی ہے ۔
مجھے یہ تمہید اس لئے باندھنی پڑی کہ کازُو
او اِشیگورو ( Kazuo Ishiguro ) نے اپنے چھٹے ناول ' مجھے کبھی نہ جانے دینا ' (Never Let Me Go ) میں’ کئیرر‘ اور ’ ڈونر‘ کے پیشوں کو اٹھا کرایک ایسی ڈائمینشن ( Dimension ) دی ہے جو ہماری دنیا میں ابھی موجود نہیں ۔ یہ کیتھی ۔ ایچ کی داستان ہے جسے وہ خود سنا رہی ہے اوریہ کہ کیتھی۔ ایچ ایک پیشہ ور ’ کئیرر‘ ہے جس نے بعد ازاں لازماً ’ ڈونر‘ بننا ہے ۔ اِشیگورو کا یہ ناول 2005 ء میں شائع ہوا تھا ۔
یہ بظاہر ایک سائنس فکشن اور ' ڈِسٹوپین‘ (dystopian ) ناول ہے جو 1970-1990 کی دہائیوں کے زمانے میں ایک ایسے مغربی معاشرے کی عکاسی کرتا ہے جس میں انسان نے کلوننگ (Cloning) کے ذریعےاپنے ' پرتو ' پیدا کرنے پر عبور حاصل کر لیا ہے یوں وہ معاشرے میں بسنے والے انسانوں کی زیست کے عرصے کو طویل سے طویل کر رہا ہے کیونکہ یہ کلونن بچے بلوغت حاصل کرنے پر بطور ’ کئیرر ‘ کام کرتے ہیں اور ضرورت پڑنے پرمعاشرے کے انسان باسیوں کے لئے خراب جسمانی اعضاء کی تبدیلی کے لئے استعمال کئے جاتے ہیں ۔ اس ناول کا محور کیتھی ، ٹامی اور روتھ ہیں گو اس میں ’ مس ایملی ، روڈنی ، کریسی ، مس لوسی اور ماریا کلاڈ ( میڈم ) کے علاوہ اور کردار بھی ہیں ؛ مس ایملی ، ماریا کلاڈ اور مس لوسی کلون نہیں انسان ہیں ؛ مس لوسی ' ہیلشم ' کی وہ نوجوان استانی ہے جو کیتھی ، روتھ ، ٹامی اور ان کے ساتھی بچوں کو ان کی اصل حقیقت ’ کلون‘ سے آگاہ کرتی ہے اور اس جرم کی پاداش میں سکول سے نکال دی جاتی ہے ۔ مس ایملی ' ہیلشم ' بورڈنگ سکول کی ہیڈ مسٹریس ہے ۔ ماریا کلاڈ ( میڈم ) وہ عورت ہے جو اس سکول کے بچوں کے آرٹ ورک کے حوالے سے انسانی معاشرے سے رابطے کا ذریعہ ہے ؛ وہ بچوں کے آرٹ ورک سے انسانوں کو یہ باور کرواتی ہے کہ یہ بچے بھی انہی جیسے ہیں ۔ کریسی اور روڈنی بھی اعضاء دان کرنے والے کیتھی سے بڑی عمر کے کلون ہیں ۔
کیتھی ۔ ایچ ، کئیرر ، واحد متکلم کا صیغہ استعمال کرتے ہوئے ، اپنے بچین کے زمانے ، جب وہ ' ہیلشم ' ( Hailsham ) نامی بورڈنگ سکول ، جس میں کلون بچے رہتے ہیں ، کی طالبہ ہے۔ وہ اپنی کہانی یوں شروع کرتی ہے ؛
”میرا نام کیتھی ۔ ایچ ہے ۔ میں اکتیس برس کی ہوں اور مجھے بطور ’ کئیرر‘ گیارہ سال ہو گئے ہیں ۔ مجھے معلوم ہے کہ یہ ایک طویل عرصہ ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ وہ چاہتے ہیں کہ میں مزید آٹھ ماہ اور یہ کام کروں ، اس سال کے آخر تک ۔ یوں میرا بارہ سال کا عرصہ مکمل ہو جائے گا ۔ اب مجھے یہ احساس ہوتا ہے کہ بطور ’ کیئرر ‘ میرا ہونا کتنا اہم ہے کیونکہ ان کا کہنا ہے کہ میں جو کر رہی ہوں وہ بہت زبردست ہے ۔ یہاں کچھ ایسے ’ کیئرر‘ بھی ہیں جو اچھے ہیں لیکن ان کو دو تین سال بعد ہی اس کام سے ہٹا لیا گیا تھا ۔ اورمجھے یاد پڑتا ہے کہ میں ، کم از کم ، ایک ایسے ’ کیئرر‘ کو بھی جانتی ہوں جو چودہ سال تک ’ کیئرر ‘ رہا گو اس کی موجودگی مکمل طور پر رائیگاں ہی گئی ۔ میں اس کی حد تک پہنچنے کی کوشش نہیں کر رہی لیکن میں اس حقیقت سے بھی آشنا ہوں کہ وہ میرے کام سے خوش ہیں اور عمومی طور پر میں بھی خوش ہوں ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ “
یہاں یہ بات کرنا اہم ہے کہ’ اِشیگورو‘ اپنے 2005 ء میں شائع ہوئے اس ناول کے پہلے صفحے پر ہی ناول کی عبارت شروع کرنے سے پہلے ہی
’ برطانیہ ، 1990 کی دہائی کا اوآخر ‘
لکھ کر ایک ایسا جال بُن دیتا ہے کہ قاری کو کئی ابواب تک یہ احساس ہی نہیں ہوتا کہ وہ برطانیہ کی اس دہائی میں موجود ہے جو فلانین کی قمیضوں اور ڈائل اَپ انٹرنیٹ کنکشن کی وجہ سے ممتاز تھا اور جسے وہ جانتا ہے ۔ وہ خود کو ایک اور طرح کی دہائی میں پاتا ہے اور مجبور ہو جاتا ہے کہ کچھ ایسا سوچے کہ کیا واقعی اس دہائی میں وہاں ' ہیلشم ' جیسے سکول تھے ؟ جہاں یتیم بچے نہیں پڑھتے تھے بلکہ کچھ ایسے بچے تھے جو انسان نہیں بلکہ کلون تھے ؟ اگر ایسا تھا تو کیوں تھا ؟ اور کیا وہاں اب بھی ایسا ہو رہا ہے ؟
کیتھی اپنی کہانی 1990ء کے اوآخر میں اس سال تک لے کر آتی ہے جب اسے بھی' کئیرر ' کا پیشہ چھوڑتا اوراپنا ' اعضاء دان کرنے ' ( ڈونر) کا اصل کام اپنانا پڑتا ہے ۔ اس سے پہلے وہ اپنی سہیلی روتھ اوراپنے و روتھ کے مشترکہ بوائے فرینڈ ’ ٹامی ‘ سے ہاتھ دھو بیٹھتی ہے ۔ اسے معلوم ہے کہ ٹامی بھی اس سے محبت کرتا ہے جس نے اسے سکول کے زمانے میں گلوگارہ ’ جوڈی برج واٹر‘ کے گیتوں پر مشتمل البم ’ بعد تاریکی کے گیت ‘ ( Songs After Dark ) دی ہوتی ہے ؛ ناول کا نام بھی اسی البم کے ایک گیت سے لیا گیا ہے؛ ' جوڈی برج واٹر ' ایک فِکشنل گلوکارہ ہے جسے اِشیگورو نے اپنے ناول میں ہی تخلیق کیا ہے ۔
ناول نقادوں کو کچھ زیادہ پسند نہ آیا تھا ؛ ان کی وجوہ اگر میں یہاں بیان کروں گا تو بات طویل ہو جائے گی ۔ مجھے البتہ اس ناول کی تین ڈائمینشنز (dimensions ) لئے نظر آتا ہے ؛
اولاً ، یہ ' فنایت ' پر بطور ایک عمدہ طنزیہ حکایت ہے ۔
دوم ، یہ عالمی سطح پر نئی نسل میں موجود ، اس ابہام کا اظہار ہے کہ ' مستقبل کیا ہے ؟ ' ؛ یہ اس بے یقینی کا اظہار ہے جس کا شکار، سوویت یونین کے ٹوٹنے اور مشرقی یورپ میں اتھل پتھل کی وجہ سے اس وقت کی نوجوان نسل خصوصی طور پر ترقی یافتہ دنیا اور عمومی طور پر باقی دنیا میں ہوئی تھی ، اس میں ’ اربن لائف ‘ کی پیچیدہ ’ Alienation ‘ بھی شامل تھی ، جسے کلون بچوں کے المیے کے طور پر پیش کیا گیا ہے جنہوں نے اپنی جوانی کے اختتام سے پہلے ہی پورا ( complete) ہو جانا ہے
اور
سوم یہ کہ یہ ناول انسانی معاشرے کی ایک انجانی لیکن تلخ سمت کی جانب ایک نئی کھڑکی کھولتا ہے جو صرف ' سائی ۔ فائی ' اور ' ڈِسٹوپین ' ہی نہیں بلکہ ایک ظالم حقیقت کے طور پر جلد یا بدیر سامنے آ کھڑی ہو گی ۔
یاد رہے کہ جن دنوں اِشیگورو یہ ناول لکھ رہا تھا ، سائنس دانوں کو ’ ڈولی ‘ نامی بھیڑ کلون کئے عرصہ ہو چکا تھا اور دیگر کئی انواع کی کلونگ بھی کامیاب ہو چکی تھی ؛ ڈولی 5 جولائی 1996 ء کو کلون ہو کر وجود میں آئی تھی اور ناول کے سن ِاشاعت میں دو آرٹک بھیڑئیے جنوبی کوریا میں کلون کئے جا چکے تھے ۔
اِشیگورو ناول میں ایک ایسا مصنوعی ماحول کھڑا کرتا ہے جو ہے تو قاری کے ماحول جیسا ہی لیکن اس سے مختلف بھی ہے ، یہی وجہ ہے کہ وہ یہ کھوجنے لگتا ہے کہ اس میں ایسی کونسی بات ہے جو اس کا سکون چھین رہی ہے ؛ ' طاقت ' اور ' اتھارٹی ' کے موجودہ ڈھانچے میں اِشیگورو کِن استحصال زدہ لوگوں کی بات کر رہا ہے ؟ وہ کہانی کو وسط تک پہنچا دیتا ہے اوروہ یہ بات ظاہر ہی نہیں ہونے دیتا ۔ تب کہیں قاری کو احساس ہوتا ہے کہ اِس ناول کے مرکزی کردار تو کلون ہیں ؛ وہ تو موجود ہی اس لئے ہیں کہ پرورش پا کر اپنے وائٹل ( vital ) اعضاء کو دان کرکے تیس برس کے ہونے تک ہی پورے ہو جائیں ( اِشیگورو ان کے لئے موت کا لفظ استعمال نہیں کرتا ’ complete ‘ کا لفظ برتتا ہے ۔ اس نے اس ناول میں ایسے اور کئی لفظ / اصطلاحیں بنائی ہیں جیسے ناول میں استاد کا مترادف گارڈین ہے ) ۔ ۔ ۔ وہ چونکتا ہے ۔ ۔ ۔ اور سوچتا ہے ، کیا ' کلون ' بھی استحصال زدہ کہلائے جا سکتے ہیں ؟ کیا اس لئے کہ وہ ' کئیرر ' اور ' ڈونر ' ہونے کو ہی اپنا مقدر مانے ہوئے ہیں ؟ ناول میں یہ سوال آخر تک موجود رہتا ہے کہ وہ کلون بچے آخر وقت تک اس خوفناک سکیم کو ہضم کیسے کرتے ہیں اور اسے ہی اپنا مقدر کیونکرمان لیتے ہیں ۔
نقادوں نے بے شک اس ناول کو پسند نہیں کیا تھا اور شاید اس کے قاری بھی اسے پڑھ کر کچھ زیادہ خوش نہ تھے بلکہ خوفزدہ تھے لیکن امریکی ہدایتکار ' مارک روما نک ' ( Romanek Mark ) کو یہ ناول فلم کے لئے موزوں لگا اور اس نے اس پر ، اسی نام سے اپنی فلم 2010 ء میں ریلیز کی ۔ امریکہ میں اس فلم کے ایک خصوصی شو میں اِشیگورو نے مسکراتے ہوئے کہا تھا ؛
” میں کوشش کرتا ہوں کہ ایسے ناول لکھوں جنہیں فلمایا نہ جا سکے پر ۔ ۔ ۔ “
فلم کا آغاز اس لکھے جملے سے ہوتا ہے ؛
” طب کی دنیا میں ایک بڑی پیش رفت 1952 ء میں ہوئی ( > یہ سائنس دانوں ’ برِگز ‘ و ’ کنگ‘ ' Briggs and King ' کی طرف اشارہ ہے جنہوں نے برطانیہ کی آکسفورڈ یونیورسٹی میں کلونگ پر کام شروع کیا تھا جس کے نتیجے میں پہلی بار 1958 ء میں ماہر حیاتیات ’ جان گُرڈن ‘ نے ایک مینڈک کلون کیا تھا < ) ۔ ڈاکٹر اب ان کو بھی صحت مند کر سکتے تھے جنہیں پہلے نہیں کیا جا سکتا تھا ۔ 1967 ء تک انسانی حیات سو سال کی حد پار کر چکی تھی ۔ “
یہ جملہ پڑھ کر فلم بین پر آشکار ہوتا ہے کہ وہ کسی اور دنیا میں ہے ۔ یہ اس کی حقیقی زندگی سے کچھ ہٹ کر ہے جس کا اس پر اطلاق نہیں ہوتا ۔
۔ ۔ ۔ کلون بچے آخر وقت تک اس خوفناک سکیم کو ہضم کیسے کرتے ہیں اور اسے ہی اپنا مقدر کیونکرمان لیتے ہیں ۔ ۔ ۔
اِشیگورو کے پاس اس بات کا ایک جواز ہے ۔ امریکہ میں وہ فلم شو کے بعد اپنے انٹرویو میں کچھ یوں کہتا ہے ؛
” یہ نجابت کی کہانی ہے ۔ نوبِلٹی کی کہانی ہے ۔ ۔ ۔ نجابت یا نوبِلٹی جس میں لوگ بغاوت نہیں کرتے اپنی قسمت کے آگے سر جھکا دیتے ہیں اور یوں اپنی نفرت اور ناخوشی کے جذبات کو نکال باہر کرتے ہیں ۔ ۔ ۔ “
فلم ، گو خاصی وفاداری سے ناول کو ساتھ لے کر چلتی ہے لیکن یہ ناول کے پیغام سے ہٹ کر کچھ الگ تاثر بھی دیتی ہے ۔ ناول میں روتھ کا ایک جملہ ہے ؛
” میں جب ’ ڈونر ‘ بنی تو میں اس کے لئے بالکل تیار تھی ۔ مجھے یہ درست لگ رہا تھا ۔ ظاہر ہے کہ ہم سے اسی بات کی توقع کی جا رہی تھی ۔ ۔ ۔ کیا ایسا نہیں ہے ؟ “
جب روتھ خود اس بات پر یقین رکھتی ہے تو اس کے وہاں سے بھاگنے کا کیا امکان ہے ؟ فلم میں گو وہ یہی ڈائیلاگ بولتی ہے لیکن اس کے لہجے میں تلخی ہے ، طنز ہے ، غصہ ہے ۔ یہ تلخی ، طنز اور غصہ ناول میں نہیں ہے ؛ بقول اِشیگورو ، نجابت میں لوگ بغاوت نہیں کرتے ۔ ۔ ۔
اسی طرح فلم میں کیتھی ، روتھ اور ٹامی کے ' ہیلشم میں ' گزارے وقت کو فقط ایک تکونی تعلق میں دکھایا گیا ہے جبکہ ناول میں یہ تینوں سکول کے باقی بچوں کے ساتھ کھیلوں ، سرگرمیوں اور ہر اس طرح کی حرکات میں مشغول دکھائی دیتے ہیں جو ایک بورڈنگ سکول کا خاصہ ہوتی ہیں چاہے وہ بورڈنگ سکول کتنا ہی خٓاص کیوں نہ ہو جیسا کہ ' ہیلشم ' دکھایا گیا ہے ۔
فلم میں کیتھی بھی ایک ایسی معصوم کنواری دکھائی گئی ہے جو ٹامی سے خاموش محبت کرتی ہے اور جس کا ٹامی اور روتھ کی جنسی زندگی سے کوئی تعلق نہیں یا اسے کسی دوسرے مرد سے کوئی جسمانی واسطہ نہیں جبکہ ناول میں وہ ٹامی کی محبت میں اس طرح معصومیت سے گرفتار نہیں بلکہ وہ مردوں کے سوتی ہے جو اس کے ساتھ ہم بستری کرنے کے لئے راضی ہیں ۔
فلم اور ناول میں ایک فرق کو تو اِشیگورو خود یوں بیان کرتا ہے ؛
” ۔ ۔ ۔ میں نے کتاب میں گیت ’ مجھے کبھی جانے نہ دینا ۔ ۔ ۔ ‘ کے بارے میں یہ ابہام رکھا تھا کہ یہ کس نے گایا ہو گا ، اور اس کی دھن کیا ہو گی ۔ ۔ ۔ قاری اس بارے میں سوچے ۔ ۔ ۔ لیکن فلم میں امریکی ’ جاز‘ گلوکارہ ’ جین مونہیٹ ‘ سے اسے آواز دلا کرقاری کے تخیل کی پرواز کو روک دیا گیا ہے ۔ ۔ ۔ “
فلم کا اختتام تو ناول سے بالکل ہٹ کر ہے ۔ فلم میں کیتھی یوں غور کر رہی ہے کہ شاید اس کا اور اس کے دوستوں کا یوں جوانی میں مر جانا اہم نہ ہو لیکن ؛
”۔ ۔ ۔ مجھے جس بات کا یقین نہیں ہے وہ یہ ہے ہماری زندگیوں اور ان کی زندگیوں ، جنہیں ہم بچاتے ہیں ، میں کیا فرق ہے ۔ ہم سب پورے ہو جاتے ہیں ۔ شاید ہم میں سے کسی کو بھی اصل میں پتہ ہی نہیں ہوتا کہ ہم نے کیسے زندگی گزاری یا یہ کہ ہم نے کافی جی لیا ہے ۔ “
ناول میں ایسا کچھ نہیں ہے ، اس میں تو فوکس اس بات پر ہے کہ کیتھی بھی روتھ کی ہی طرح یہ مان لیتی ہے کہ وہ دنیا میں لائی ہی اس لئے گئی تھی کہ ’ ڈونر‘ بنے ۔ ناول کا اختتام کیتھی کے اس جملے سے ہوتا ہے ؛
” ۔ ۔ ۔ گو کہ آنسو میرے چہرے پر بہہ رہے تھے ، میں رو نہیں رہی تھی اور نہ ہی آپے سے باہر تھی ۔ میں نے کچھ دیر توقف کیا ، پھر کار کی طرف واپس مڑی تاکہ وہاں ، جو جہاں کہیں بھی تھا ، جا سکوں ۔ ۔ ۔ وہاں جہاں مجھے ہونا چائیے تھا ۔ ''
فلم کا ہدایتکار امریکی ’ مارک رومانک ‘ بنیادی طور پر اپنی ’ میوزک ویڈیوز‘ بنانے کے لئے مشہور ہے ۔ اِس فلم کو بنانے سے پہلے اس نے 2002 ء میں ' روبن ولیمز ' کو لے کر فلم ’ وَن آور وٹو‘ ( One Hour Photo ) ہی بنائی تھی جو ایک ’ سائیکو تھریلر‘ تھی ۔ اسے اس نے خود ہی لکھا تھا اوریہ فلم پسند کی گئی تھی ۔ مارک رومانک نے ’ مجھے جانے نہ دینا ‘ کو بھی عمدہ طور پر ڈائریکٹ کیا ہے ؛ گو وہ یہ تسلیم کرتا ہے کہ اس نے اسے ’ سائنس فکشن ' کے طور پر نہیں بنایا بلکہ اسے محبت کی کہانی کے طور پر فلمایا ہے ۔ اس فلم کا سکرپٹ اِشیگورو کے دوست ’ ایلکس گارلینڈ ‘ نے لکھا ہے ۔ اس نے اسے فلم میں ڈھالنے کے حقوق اِشیگورو سے اس وقت ہی لے لئے تھے جب ابھی یہ ناول شائع نہیں ہوا تھا ۔ فلم میں کیتھی کا کردار ’ کیرے مُولیگن ‘ نے ادا کیا ہے اور ایک ایسی کیتھی کو فلم میں پیش کیا ہے جو اپنی ذات میں گم لیکن عمدہ مشاہدہ رکھتی ہے جس کی وجہ سے وہ معصوم اور ذہین عورت کے طور پر نظر آتی ہے ۔ ’ ایلکس گارلینڈ ‘ نے یہ کردار فلم کے لئے ایسے ہی لکھا تھا جو ناول سے ذرا ہٹ کر ہے ۔ مُولیگن اس کردار کو نبھانے میں پوری طرح کامیاب ہے ۔ ’ کائرا نائٹلے ‘ اور’ اینڈریو گارفیلڈ ‘ نے بھی روتھ اور ٹامی کے کردار میں بہت اچھے نبھائے ہیں ۔’ شارلٹ ریمپلے‘ مِس ایملی کے کردار میں بہت مناسب دکھائی دیتی ہے ۔ آدم کیمیل نے اچھی سینماٹوگرافی کا حق ادا کیا ہے ۔ برطانوی موسیقارہ ریچل پورٹمین نے فلم کو ایک اچھی موسیقی دی ہے ۔
شائع ہونے پر ، گو اشیگورو کے ناول کو نقادوں نے کچھ زیادہ پسند نہیں کیا گیا تھا لیکن جب 2010 ء میں اس پر بنی فلم سامنے آئی تو اسے نقادوں نے پسند کیا البتہ باکس آفس پر یہ اپنی لاگت بھی نہ پورا کر سکی ؛ نقادوں کے لئے ' کیرے مُولیگن ' ، ’ کائرا نائٹلے ‘ اور’ اینڈریو گارفیلڈ ‘ کی عمدہ اداکاری ایک وجہ تو تھی ہی لیکن بنیادی وجہ یہ تھی کہ ’ ایلکس گارلینڈ ‘ اور' مارک رومانک ' نے اسے ایک المیہ رومانوی فلم میں بدل دیا تھا اور ناول کے’ اخلاقیات ‘ جیسے دیگر کرخت اور کچوکا دینے والے نشتری پہلوﺅں کا اثر دھیما کر دیا تھا ۔
اگر ناول کو الگ رکھا جائے اور فلم کو بطور فلم ہی دیکھا جائے تو یہ ایک عمدہ رومانوی فلم ہے اور فلم بین اس کے المیے پر رو دیتا ہے جبکہ ناول قاری کو کئی طرح سے سنجیدگی سے سوچنے پر مجبور کرتا ہے ۔
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
فٹ نوٹس : ۔
> ؛ اِشیگورو کے اس ناول پر 2014 ء میں جاپان کی ' ہریپرو ایجنسی ' نے سٹیج کے لئے ڈرامہ ' わたしを離さないで ' بنایا جسے بعد ازاں 2016 ء میں ' TBS ' ( ٹوکیو براڈکاسٹنگ سسٹم ٹیلی ویژن ) نے دس قسطوں پر مبنی اسی جاپانی نام سے ' Watashi wo Hanasanaide ' ایک سیریل بنائی ۔ اس میں کیتھی کی جگہ ' کویوکو ہوشینا ' ، ٹامی کی جگہ ' ٹوموہیکو ڈوئی ' اور روتھ کی جگہ ' میوا ساکائی ' کے کردار ہیں ؛ اسی طرح باقی کرداروں کے نام بھی جاپانی ہیں ، ' ہیلشم ' سکول کی جگہ ' یوکو انسٹی ٹیوٹ ہے ۔ یہ فلم بھی ناول کے مرکزی خیال کو لے کر چلتی ہے لیکن سیریل کے سکرپٹ کا پھیلائو زیادہ ہونے کی وجہ سے یہ ناول کی تفصیلات میں بھی جاتا ہے ؛ جیسے ایک سین میں کلارا ( میڈم ) کا کیتھی اور ٹامی کو دیکھ کر رونا کہ وہ خود بانجھ ہے ۔ اس میں ' مانامی ' کردار ایک باغی کلون کی صورت میں دکھایا ہے جو دیگر باغی کلونوں کے ساتھ انسانوں کے برابر حقوق کے لئے تحریک چلاتی ہے اور بالآخر ماری جاتی ہے ۔ اسی طرح اس سیریل کا زمانہ 1970-1990 کی دہائیاں نہیں بلکہ جاپان کا ہم عصر جدید زمانہ ہے ۔ ' TBS ' کی بنائی اس سیریل میں رومان تو ہے لیکن اس کو بنانے والوں نے ناول کے کرخت اور کچوکا دینے والے نشتری پہلوﺅں کو پس پشت نہیں ڈالا بلکہ زیادہ بہتر طور پر اجاگر کیا ہے ۔ یہ سیریل اداکاری ، ہدایت کاری ، پروڈکشن اور سینماٹوگرافی اور موسیقی کے اعتبار سے ایک عمدہ ٹی وی سیریل ہے ۔
> ؛ سٹیج ڈرامہ میں نے نہیں دیکھا اس لئے میں اس پر کوئی کمنٹ نہیں کر سکتا ۔
> ؛ کازُواو اِشیگورو ( Kazuo Ishiguro ) جاپانی نژاد برطانوی ادیب ہے جسے 2017 ء میں نوبل انعام برائے ادب ملا ۔ اس کے ناول ' The Remains of the Day ' پر بھی فلم بن چکی ہے ۔ اس کے لکھے سکرپٹوں ' دنیا کی غمگین ترین موسیقی ' ( The Saddest Music in the World ) اور ' گوری کاﺅنٹیس ' (The White Countess ) پر بھی فلمیں بن چکی ہیں ۔ پہلا سکرین پلے کنیڈین ہدایتکار ' گائے میڈن ( Maddin Guy ) کی 2003 ء کی اسی نام کی فلم کی بنیاد بنا جبکہ دوسرا اسی نام سے 2005 ء میں جیمز آیئوری نے فلمایا تھا ۔