جناب عمران خان کے نام!
چیئرمین پاکستان تحریک انصاف، جناب عمران خان،
السلام علیکم،
25جولائی کو پاکستان میں ہونے والے عام انتخابات میں آپ کی جماعت پاکستان تحریک انصاف نے ملک بھر میں اکثریت حاصل کی اور اب آپ پوری پاکستانی قوم کے رہبر ہیں اور اس حوالے سے قابل احترام ہیں، میں آپ پر اعتماد کا اظہار کرتے ہوئے آپ کو مبارک باد پیش کرتا ہوں۔ چند روز بعد آپ اس ملک کی حکومت کی سربراہی کریں گے اور اس حوالے سے آپ پر بڑی ذمہ داریاں عائد ہونے جا رہی ہیں۔اس سلسلے میں مَیں یہاں چند گزارشات پیش کرنا چاہتا ہوں۔
پاکستان تحریک انصاف نے آپ کی قیادت میں حالیہ انتخابات میں اکثریت حاصل کرکے خود کو پاکستان کے اقتدارِاعلیٰ کا مالک بنانے کا موقع پا لیا ہے۔میں آپ کی سیاست کا آپ کی جماعت کے قیام کے ساتھ ہی سے بڑی دلچسپی اور غور سے مشاہدہ کررہا ہوں۔آپ نے جب پاکستان تحریک انصاف کی بنیاد رکھی، میرے جیسے سیاست میں دلچسپی رکھنے والوں کے لیے اس جماعت کے قیام واسباب کا مشاہدہ کرنا فطری تھا۔ شروع میں جن لوگوں کو اِس جماعت کا بانی کہا گیا، اُن میں جنرل مجیب الرحمن سرفہرست تھے۔ کچھ عرصے بعد عمران خان کے قریبی مشیروں میں ڈاکٹر اکمل حسین اور محمود مرزا جیسے دانشورلوگ شامل ہوئے،جو میرے بہت پہلے سے دوست تھے۔ پاکستان میں ایک نئی جماعت کا قیام میرے جیسے لوگوں کے لیے اپنے اندر کئی سوالات لیے ہوئے تھا۔ اس حوالے سے میں انہی صفحات پر متعدد بار ذکر کرچکا ہوں۔ بس یہاں اتنا عرض ہے کہ جب عمران خان صاحب آپ نے پاکستان تحریک انصاف کی بنیاد رکھی، اُن دنوں محترمہ بے نظیر بھٹو حکومت میں تھیں اور اُن کی حکومت پر شدید تنقید کی جارہی تھی۔ انہی دنوں جب آپ نے سیاسی پرواز کا آغاز کیا، پاکستان میں چونکا دینے والی شہرت حاصل کرکے میرمرتضیٰ بھٹو لوگوں کو اپنی بہادری، جرأت، سچائی اور بے باکی کے حوالے سے حیران کیے دے رہے تھے کیوںکہ وہ اپنی سگی بہن بے نظیر بھٹو کی سیاست، حکومت اور حکمرانی پر بھی تنقید کررہے تھے۔ مگر وہ جلد ہی سرعام قتل کردئیے گئے اور اُن کے قتل کے بعد بے نظیر بھٹو کی حکومت گرا دی گئی۔ اب سیاست کا میدان نئے سرے سے سجا، جس پر پھر کبھی تحریر کروں گا۔
عمران خان صاحب،آپ کو مبارک ہو۔ آپ حالیہ انتخابات میں پاکستان کی اکثریتی پارٹی بن کر ابھرے ہیں۔ آپ نے ان انتخابات میں کامیابی کے لیے انتخابی عمل میں ہرممکن ایسی کوشش کی جو روایتی سیاست میں کی جاتی ہیں۔ خصوصاً Electables کو اپنی جماعت کی کامیابی کا ہراول دستہ بنایا۔ آپ نے کامیابی کے بعد دو روز قبل ایک اچھی تقریر کی۔ اس پر بھی شاباش۔ مگر عملی طور پر آپ کے پاس اُس Political Asset کا بحران ہے جو کسی ریاست کے بوسیدہ نظام کو اتھل پتھل کرکے متبادل نظام قائم کردے۔ آپ نے ہر اس شخص کو اپنی جماعت کا حصہ بنایا جو آپ کی پارٹی کو اقتدار میں شامل کردے۔ ’’اقتداری قوتوں‘‘ اور عوامی قوتوں میں بہت فرق ہوتا ہے ۔ میں اس جمہوریت کا نقاد بھی ہوں اور اس عمل کو جاری رکھنے کا خواہاں بھی بلکہ عملی طور پر ایک سرگرم فرد بھی ہوں،اسی لیے 25جولائی کے نتائج کو تسلیم کرتا ہوں، صرف اس خواہش کے ساتھ کہ آپ اس ملک کے لیے وہ سب کر دکھائیں جس کا آپ دعویٰ کرتے ہیں۔ مجھے اپنے ملک کے پسے ہوئے عوام اور بوسیدہ ریاستی ڈھانچے سے غرض ہے۔ میرے لیے ایک کالم نگار کی حیثیت سے یہ آسان تھا کہ میں کسی بھی سیاسی لیڈر کا دامن پکڑ لوں۔ افسوس ہمارے ہاں یہ رواج چل پڑا ہے ، کوئی نوازشریف کی چھتری تلے دانشوری کررہا ہے تو کوئی عمران خان کی چھتری تلے اور کوئی آصف علی زرداری کی چھتری تلے، متعدد تو ’’عسکری چھتریاں‘‘ استعمال کرنے کے عادی ہیں۔اس لیے ہرکسی کالم نگار کا اپنا حلقہ مقبولیت ہے۔ وہ ایک آسان کام ہے، مگر راقم نے ہمیشہ مشکل رستوں کو چنا ہے۔ کیوںکہ راقم کم عمری میں ہی سیاست کے میدانِ کارزار سے ہوتا ہوا قلم کے میدان میں داخل ہوا۔ میرے نزدیک سب سے پہلے جمہور ہیں جو دن رات محنت کرکے اس ملک کو چلا رہے ہیں۔ پاکستان انہی کی محنت سے چل رہا ہے۔ کوئی ادارہ ایک دن بھی نہیں چل سکتا، اگر وہ پیداوار نہ کریں۔ اور یہاں میں یہ بھی عرض کردوں، بیرون ملک سے جو زرمبادلہ آتا ہے، وہ بھی محنت کش طبقہ ہی بھیجتا ہے جو پاکستانی پاسپورٹوں پر لاکھوں کی تعداد میں چند ہزار روپے کما نے کی خاطر خلیجی ممالک میں تپتے صحرائوں میں کام کرتے ہیں۔ یورپ، امریکہ اور کینیڈا میں مستقل جابسنے والوں کا اس زرمبادلہ میں رتی بھر حصہ ہے۔ وہ جدید دنیا کی سہولیات، شہریت اور امن وامان میں جی رہے ہیں۔ ان کے دلوں میں ’’پاکستان کی محبت‘‘ ان محنت کشوں کی جفاکش محنتوں کا مقابلہ کر ہی نہیں سکتی جو خلیجی ریاستوں میں پاکستانی پاسپورٹوں پر مزدوری کررہے ہیں۔ دوسری طرف اندرون پاکستان محنت کرنے والا کسان اس ملک کی ریڑھ کی ہڈی ہے۔ اگر یہ محنت کش نہ ہوتے تو نہ پاکستان ایٹمی طاقت بننے کی صلاحیت رکھتا اور نہ ہی ہماری مسلح افواج عظیم الشان عسکری نظام۔ یہ سارا کرم ان محنت کشوں کا ہی ہے۔ اسی لیے مجھے اُس پاکستان سے محبت ہے جو پیداوار کرتا ہے اور اُن پاکستانیوں کے خلاف سیاست اورقلم سے جدوجہد کرنے کو اپنا فریضہ سمجھتا ہوں جو اِن پاکستانیوں کا استحصال کرتے ہیں۔ اسی لیے میں ہمیشہ سے یہ کہتا آیا ہوں کہ کرپشن سے بڑا مسئلہ استحصال کا ہے۔ استحصال، کرپشن کی ماں ہے۔ پاکستان کے 95فیصد عوام کا استحصالی نظام ہی ساری برائیوں کی جڑ ہے۔ جہالت، غربت، دہشت گردی، کمزور جمہوریت، فساد، قتل وغارت، انارکی، سب کچھ اسی استحصالی نظام کے بطن سے جنم لیتا ہے۔ عمران خان صاحب، کیا آپ کے پاس وہ ہراول دستہ ہے جو اس نظام کو بدل دے؟ کیا آپ Electables کو اس ’’انقلاب کی قیادت‘‘ سونپ کر تبدیلی لا سکتے ہیں؟ یہ سوال میں نے آپ کی مقبولیت کے عروج سے چند سال قبل بھی آپ سے بالمشافہ ملاقات میں آپ کے سامنے رکھا تھا، اگر آپ کو یاد ہو تو۔
آج میں بھی آپ کے اُن ووٹرز کی طرح آپ سے امید وابستہ کرنے پر مجبور ہوں، جو آپ کی شکل میں پاکستان کو ایک خوش حال، جدید اور مضبوط عوامی پاکستان دیکھنے کا خواب لیے بے تاب ہیں۔ آپ کے ان ووٹرز کے خوابوں کو آپ نے میرے جیسے لوگوں کے خوابوں کے ساتھ منسلک کرکے تعبیر دینی ہے۔ آپ نے جو دعویٰ کررکھا ہے ، اس کے لیے مدت پانچ سال ہے۔ انہی پانچ سالوں میں اُ کو سب کردکھانا ہوگا۔ یہی آئین کہتا ہے۔ مجھے اس سے کوئی غرض نہیں کہ وزیراعظم ہائوس کو کالج بنایا جائے یا گورنر ہائوس کو یتیم خانہ، یہ نعرے ہم 1977ء میں پاکستان قومی اتحاد کی تحریک میں سن چکے ہیں، تب آپ صرف کرکٹ کھیلتے تھے۔ آپ جس پاکستان کی قیادت کرنے جارہے ہیں، اس کی مختصر تفصیل درج ذیل ہے:
-1 انصاف کے حوالے سے 113 ممالک میں 100ویں مقام پر۔ -2 اعلیٰ تعلیم کے حوالے سے 100میں سے 9.2فیصد۔ -3 صحت کے حوالے سے 188 میں سے 149مقام پر۔ -4 غیرملکی مسافروں کے حوالے سے خطرناک ممالک میں چوتھا نمبر۔ -5قانون کی بالادستی کے حوالے سے 143 میں سے 122ویں نمبر پر۔ -6 پانی کے بحران کے حوالے سے دنیا میں تیسرے نمبر پر۔ -7 پاکستانی پاسپورٹ 101ویں نمبر پر۔ -8 بجلی کے بحران کے حوالے سے جنوبی ایشیا میں سرفہرست۔ -9 ماحول کی آلودگی کے حوالے سے پاکستان دنیا کے بارہ ممالک میں شامل۔-10 انکم ٹیکس دینے کے حوالے سے دنیا میں سب سے نیچے۔ محض 0.57فیصد لوگ یہاں ٹیکس دیتے ہیں۔-11 کرپشن کے حوالے سے 112واں نمبر۔ -12 دنیا کی پانچویں بدترین معیشت۔ آدھی سے زائد آبادی غربت کی لکیر سے نیچے زندگی بسر کرنے پر مجبور ہے۔ پاکستان میں اڑھائی کروڑ سے زائد بچے سکول جانے سے قاصر ہیں۔ جس اعلیٰ تعلیم اور پی ایچ ڈیوں کو ہم اپنے سینے پر سجائے پھرتے ہیں، اُن کی دنیا میں کوئی حیثیت ہی نہیں۔ بوسیدہ نظامِ تعلیم اور زیادہ تر توپرائیویٹ کاروبار کے طور پر چلایا جا رہا ہے۔ ریاستی ڈھانچا تباہ حال ہے۔ سڑکیں اور ٹریفک کا نظام، دہشت گردی کی نسبت زیادہ اموات کا سبب ہے۔ صنعت کاری معدوم ہوتی جارہی ہے۔ آپ ایک ایسے پاکستان کے حکمران بننے والے ہیں جو دنیا بھر کی نظروں میں نمایاں ہے۔ آپ نے انتخابات میں اپنی کامیابی کے بعد جو تقریر کی، اسے عالمی میڈیا نے براہِ راست دکھایا۔ آپ کے مداحین اس پر فخر کررہے تھے۔ معلوم ہونا چاہیے کہ دنیا کی نظریں اس لیے ہم پر جمی ہیں کہ وہ اس ایٹمی قوت کو عالمی امن کے لیے خطرہ سمجھتے ہیں، اس لیے نہیں کہ پاکستان میں کسی مسیحا نے جنم لے لیا ہے۔ آبادی کے حوالے سے پاکستان دنیا کا چھٹا بڑا ملک ہے۔ اور غربت میں دھنسی ایٹمی ریاست جہاں دہشت گردوں کو ہیرو مانا جاتا ہے، ایسی ریاست پر دنیا کی نظریں جمی ہیں کہ دیکھو اب کیا ہوگا۔ قومیں معجزوں سے نہیں بنتیں، قومیں اجتماعی جدوجہد سے بنتی ہیں۔ اسی لیے دنیا دیکھ رہی ہے کہ غربت، جہالت، آبادی، انتشار، ایٹمی طاقت والی اس ریاست میں اب کیا ہونے جا رہا ہے۔ میں کرپشن کے صرف خلاف ہی نہیں بلکہ میں نے اپنی ذاتی زندگی انہی اصولوں پر اپنا رکھی ہے۔ مگر میرے نزدیک کرپشن سے بڑا جرم نا اہلیت اور استحصال ہے۔ اس وقت دنیا میں چند ایک ایسے ملک بھی ہیں جہاں Corruption and Development ماڈلز سامنے آئے ہیں۔ مگر وہاں نااہلیت یا Incompetency نہیں تھی۔ کیا آپ نے اپنی جماعت اور ٹیم میں Competent لوگ شامل کیے ہیں؟
میں آپ پر ایک بار اس لیے اعتماد کا اظہار کرتا ہوں کہ آپ اس مروّجہ جمہوریت اور انتخابات کے نتیجے میں منتخب ہوچکے ہیں۔ میں اعتماد کرتا ہوں کہ آپ اپنی اس تقریر کو پھیلا کر عمل کریں۔ بڑے گھروں کو ہوٹل اور یتیم خانے بنانے سے بات آگے نکل چکی ہے۔ آپ کمرۂ امتحان میں بیٹھ چکے ہیں۔ لوگ اب سال نہیں، مہینے نہیں، ہفتے اور دن گنیں گے۔ میں آپ پر یقین کرسکتا ہوں ، مگر میرا تجربہ یہ کہہ رہا ہے Electables کبھی بھی سٹیٹس کو کو توڑا نہیں کرتے ۔ اگر ان Electablesکہ جو آپ کی حتمی جدوجہد کا ہراول دستہ بنے، آپ ان کی ہمراہی میں پاکستان تبدیل کرگئے تو معجزہ ہوگا۔ مگر میں پھر بھی آپ پر یقین کرتا اور امید وابستہ کرتا ہوں۔
بس یہاں ایک ملاقات یاد کرلیجئے گا، جو چند سال قبل آپ نے اپنی مقبولیت کا چاند نکلنے کے بعد ہمارے بزرگ دوست ڈاکٹر مبشر حسن صاحب سے کی تھی، جہاں یہی موضوعات زیربحث آئے تھے۔ مجھے انہوں نے آپ سے ملاقات سے پہلے اور ملاقات کے بعد بلوایا۔ اور ملاقات کے بعد آپ کے ساتھ تمام گفتگو کی تفصیل شیئر کی تھی۔ انہوں نے آپ سے کچھ کہا تھا، اگر آپ کو یاد ہو۔ یہ کہ آپ جو کررہے ہیں اگر وہ ’’ان لوگوں‘‘ کے ساتھ شامل ہوکر کریں گے تو پھر کیا ہوگا۔۔۔ انہوں نے چند لیڈروں کی مثالیں بھی دی تھیں۔ اور اگر آپ اس تناظر میں کچھ اور جاننا چاہتے ہیں تو راقم کے محدود سیاسی اور فکری تجربات کے حوالے سے تو میری وہ ویڈیو کلپ دیکھ لیجئے جو چند ہفتے پہلے لاکھوں کی تعداد میں وائرل ہوئی تھی اور اب بھی یوٹیوب پر موجود ہے۔ اس کا نام ہے، ’’چواین لائی، ذوالفقار علی بھٹو اور عمران خان‘‘۔ اسے سن کر معلوم ہوجائے گا کہ تبدیلی کون لاتا ہے،اور جو ادھوری تبدیلی لائے، اس کے ساتھ کیا ہوتا ہے۔
آپ کے لیے دعاگو
پاکستان کے عوام کو باوقار و خوش حال عوام دیکھنے کا خواہاں، اور اگرآپ یہ کرگئے تو تاعمر احسان مند
مخلص، فرخ سہیل گوئندی
“