مہینہ مارچ کا تھا۔ تاریخ 23تھی۔ سال 1973ء تھا۔ لیاقت باغ راولپنڈی میں نیشنل عوامی پارٹی کا جلسہ تھا۔ بھٹو صاحب کی ایجاد کردہ ’’فیڈرل سکیورٹی فورس‘‘ نے جلسے پر فائر کھول دیا۔ آناً فاناً ایک درجن نہتے افراد موت کے گھاٹ اتر گئے۔ قتل ہونے والے تقریباً سارے ہی خیبر پختونخوا سے تھے۔ ولی خان نے کمال صبر و ضبط دکھایا۔ بارہ لاشیں لیں اور دریائے سندھ عبور کیا۔ پارٹی میں اشتعال زور پر تھا۔ ورکر چاہتے تھے کہ لاشوں کو پشاور کی گلیوں میں پھرایا جائے۔ ولی خان نے منع کیا اور خاموشی سے تدفین کردی۔ فیڈرل سکیورٹی فورس کا ’’کام‘‘ تاہم ختم نہیں ہوا تھا وہ مسلسل نیشنل عوامی پارٹی کے رہنمائوں کا تعاقب کرتی رہی یہاں تک کہ بہت سے ملک چھوڑ گئے۔ انہی میں اجمل خٹک بھی تھے جو کابل جا بیٹھے۔
ذوالفقار علی بھٹو اقتدار کے عروج پر تھے۔ کہاں سات پردوں کے پیچھے محفوظ ذوالفقار علی بھٹو اور کہاں خاک و خون میں لتھڑی بارہ لاشیں۔ اور کہاں بارہ لاشوں کے پس ماندگان! یہ پس ماندگان اُلٹے بھی لٹک جاتے تو بھٹو صاحب کے محل کے نزدیک نہیں پھٹک سکتے تھے۔ کرسی مضبوط تھی۔ محلات پر پہرے تھے۔ فوج ماتحت تھی۔ پولیس غلام تھی۔ فیڈرل سکیورٹی فورس زرخرید باندی تھی۔ مسعود محمود جیسے کئی خوش لباس‘ سرکشیدہ‘ گردن بلند افسر بھٹو صاحب کی انگشت ِشہادت نہیں‘ بھٹو صاحب کی چیچی (سب سے چھوٹی اُنگلی) کے ایک خفیف سے اشارے پر بھاگے چلے آتے تھے۔ بنکاک کے سلے ہوئے سفاری سوٹ تھے۔ ریشمی نکٹائیاں تھیں۔ ایک ایک فٹ لمبے سگار تھے۔ سینڈوچ اور کافی تھی۔ ظہرانے اور عصرانے تھے۔ راتیں جاگتی ناچتی اور تھرکتی تھیں۔ بھٹو صاحب فارسی سے نابلد تھے لیکن بیگم صاحبہ کی تو مادری زبان ہی فارسی تھی۔ بیگم صاحبہ نے بابرؔ کی شاعری پڑھی ہوتی تو محل کے ماتھے پر یہ مصرع ضرور کھدواتیں ع
بابرؔ بہ عیش کوش کہ عالم دوبارہ نیست
کیا دردناک حقیقت ہے کہ عالم دوبارہ نیست! لیکن ایک حقیقت اس سے بھی زیادہ دردناک ہے جو بابرؔ کی نگاہوں سے اوجھل رہی اور بھٹو صاحب ساری زیرکی‘ ذہانت اور علم و دانش کے باوجود اس حقیقت کو نہ پا سکے۔ عالم دوبارہ نہیں ہے۔ درست۔ لیکن اسی ایک عالم میں کئی عالم پنہاں ہیں۔ عالم کروٹ لیتا ہے! عالم نے کروٹ لی! جو تھا وہ خواب و خیال ہو گیا جو خواب و خیال تھا وہ حقیقت بن کر آنکھوں کے سامنے آ گیا۔ جس ضیاء الحق کو اوپر لانے کے لیے انصاف کا خون کیا تھا‘ اسی نے آ کر دبوچ لیا۔
سفاری تھے یا تھری پیس۔ سب سوٹ غائب ہو گئے۔ افسر جو بلانے پر تیرتے چلے آتے تھے‘ وعدہ معاف گواہ بن گئے۔ محلات اور پہرے دار سب کچھ چھن گیا۔ کاغذ قلم تک کے لالے پڑ گئے۔ گھروالے ملنے آتے تو کبھی کبھار سینڈوچ لے آتے۔ ایک چھوٹا سا کمرہ‘ سانس بھی لیں تو اگلے ریکارڈ کر لیں۔ رہے نام اللہ کا!
سوائے خدا کے اور سوائے بھٹو صاحب کے‘ کوئی نہیں بتا سکتا کہ زنداں کی تنہائی میں انہیں کبھی اُن بارہ لاشوں کا خیال آیا یا نہیں‘ جو ان کے حکم سے لیاقت باغ میں گرائی گئی تھیں اور جنہیں جلو میں لیے‘ آنسو پیتا ولی خان اٹک پار لے گیا تھا! وہ بارہ لاشیں‘ بارہ لاشیں نہیں تھیں۔ بارہ جہان تھے۔ بارہ کائناتیں تھیں۔ ان پر ماتم کرنے والی وہ عورتیں تھیں جنہیں کبھی ہوا اورگھٹا نے بھی نہیں دیکھا ہوگا کہ پردہ دار تھیں‘ بچے تھے جو یتیم ہو گئے۔ سفید ریش بوڑھے تھے جن کے سہارے چھن گئے۔ مصلوں پر بیٹھی مائیں تھیں جو بھٹو صاحب کا نام لے لے کر آسمان کو دیکھتی تھیں ؎
میں دیکھتا ہوں شتر سواروں کے قافلے کو
پھر آسماں کو، پھر اپنا اسباب دیکھتا ہوں
جنرل ضیاء الحق…؟؟ خدا کے بندو! وہ تو ایک اوزار تھا۔ ایک ٹُول تھا۔ اسے تو اس کام پر مامور کیا گیا تھا۔ وہ نہ ہوتا تو کیا قسّامِ ازل اُن لاشوں کا انتقام نہ لیتا؟ بارہ لاشوں کا بدلہ تو بارہ پھانسیاں ہیں‘ اب یہ قدرت ہی کو معلوم ہے کہ یہ پھانسی کس لاش کے بدلے میں تھی اور کل حشر کے دن باقی پس ماندگان کیا حشر اٹھاتے ہیں۔
میاں صاحبان بھی آج اقتدار کے عروج پر ہیں۔ کوئی نہیں جو انہیں چیلنج کرے۔ بابر بہ عیش کوش کہ عالم دوبارہ نیست! ہے کوئی ہمارے جیسا؟ فوج خاندان کی حفاظت پر مامور ہے۔ پولیس مٹھی میں یوں بند ہے جیسے گلیور کی مٹھی میں لِلی پُٹ کے بونے بند ہو جاتے تھے۔ ایلیٹ فورس کے سر کے بال جوتوں تلے ہیں۔ ایک سے ایک بڑھ کر جاں نثار۔ رانا ثناء اللہ وقتی طور پر پس منظر میں چلے گئے تو کیا غم۔ اکیلے خواجہ سعد رفیق‘ ہزار پہلوانوں کے برابر ہیں۔ جہاز کا رُخ موڑنا تو کھیل ہے‘ طاقت کا یہ حال ہے کہ چاہیں تو سمندروں کے رُخ موڑ دیں۔ چولستان میں پہاڑ کھڑے کردیں‘ چترال میں صحرا لے جائیں‘ محلات ہیں اور پہریدار‘ غلام قطار اندر قطار۔ درجنوں تو ریٹائرڈ افسران ہیں جن کا جوہرِ ادراک خرید لیا گیا ہے! میاں صاحبان تو اقتدار کی اس چوٹی پر ہیں جس کی طرف دیکھیں تو ٹوپی سر سے گر جاتی ہے‘ ان کے بھتیجے‘ بھانجے اور سمدھی کی طرف بھی دیکھنا اپنے آپ کو اندھا کرنے کے مترادف ہے! ؎
تمتماتے ہیں سلگتے ہوئے رخسار ترے
آنکھ بھر کر کوئی دیکھے گا تو جل جائے گا
لیکن اس عالم میں ایک اور عالم بھی پنہاں ہے‘ کیا خبر کل کیا ہو جائے۔ آج لاہور میں گرنے والی گیارہ لاشوں کے پس ماندگان بے بس ہیں۔ بے کس ہیں‘ مظلوم اور مقہور ہیں۔ لیکن یہ بے کسی کسی وقت بھی اختیار میں ڈھل سکتی ہے!
بڑے میاں صاحب‘ جناب وزیراعظم‘ پکے مسلمان ہیں۔ ان کا آخرت پر پختہ یقین ہے اور آخرت کے حساب کتاب پر بھی۔ ان سے دست بستہ گزارش ہے‘ نہایت احترام کے ساتھ استدعا ہے کہ آخرت کا انتظار کریں نہ اسی عالم میں ایک اور عالم کے ظہور کا! سربراہِ حکومت کے طور پر وہ ان لاشوں کے جواب دہ ہیں۔ ایک بے گناہ انسان کا قتل ساری انسانیت کا قتل ہے اور درجن بے گناہوں کا قتل؟ میاں صاحب اچھی طرح جانتے ہیں کہ کل خواجہ سعد رفیق ان کے کام آئیں گے نہ ان کے بھائی جن کی حکومت میں یہ سب کچھ ہوا۔ جنرل پرویز مشرف نے ان کے اقتدار کا تختہ الٹا تھا تو پریس میں ہر شخص نے پڑھا تھا کہ حسین نواز خوش الحانی سے کلامِ پاک کی تلاوت کیا کرتے تھے۔ ہاں! اسی کلامِ پاک میں یہ بھی لکھا ہے کہ
’’اُس دن آدمی اپنے بھائی سے دور بھاگے گا اور اپنی ماں اور اپنے باپ سے اور اپنی بیوی اور اپنے بیٹے سے‘‘۔ سورہ عبس :34-36
جناب وزیراعظم! گولی چلانے کا حکم آپ نے یقینا نہیں دیا تھا لیکن جو قتل کیے گئے‘ وہ آپ کی ذمہ داری میں تھے۔ ان کی پوچھ گچھ آپ سے ہوگی۔ اس دن خواجہ اور رانا تو دور کی بات ہے‘ آپ کا حقیقی بھائی آپ سے دور بھاگے گا! جب ان میں سے کوئی بھی آپ کے کام نہیں آئے گا تو آپ کسی کا گناہ اپنے سر کیوں لیتے ہیں؟ آخر گولی چلانے کا فیصلہ کسی نے تو کیا تھا؟ آخر کسی نے تو ’’بزن‘‘ کا حکم دیا تھا! حشر کے دن تو مہلت نہیں ملے گی! آج مہلت ہے اور اختیار بھی! حکم دینے والا جو بھی تھا‘ اسے باہر نکلنے کا حکم دیجیے‘ سزا دیجیے اور اٹھارہ کروڑ گواہوں کو اپنے حق میں کر لیجیے!
یہ کالم اس لِنک سے لیا گیاہے۔
“