آج – ١٨؍ اگست ١٩٧٦
ترقی پسند تحریک کے سرگرم رکن، معروف نغمہ نگار اور مشہور و مقبول ترین شاعر” جاں نثار اخترؔ صاحب “ کا یومِ وفات…
جاں نثار اخترؔ ۔ نام سیّد جاں نثار حسین رضوی اور اخترؔ تخلص تھا۔ ۸؍فروری۱۹۱۴ء کو گوالیار میں پیدا ہوئے ۔ ان کا آبائی وطن خیرآباد( یوپی ) ہے۔ جاں نثار نے ابتدائی تعلیم وکٹوریہ کالجیٹ ہائی اسکول گوالیار میں حاصل کی اور وہیں سے ۱۹۳۰ء میں میٹرک کا امتحان پاس کرکے مسلم یونیورسٹی علی گڑھ میں داخلہ لیا۔۱۹۳۷ء میں بی اے (آنرز)اور ۱۹۳۹ء میں ایم اے (اردو) کی ڈگریاں حاصل کیں۔ ۱۹۴۰ء میں ان کا تقرر وکٹوریہ کالج ، گوالیارمیں اردو لکچرر کی حیثیت سے ہوگیا۔ ۱۹۴۳ء میں ان کی شادی صفیہ سے ہوگئی جو اسرار الحق مجازؔ کی حقیقی بہن تھیں۔ ۱۹۴۷ء میں ملک آزاد ہوا۔ گوالیار کے حالات خراب ہونے کی وجہ سے اختر نے ریاست بھوپال میں سکونت اختیار کرلی۔ یہاں انھیں حمیدیہ کالج میں صدر شعبہ اردو وفارسی کی جگہ مل گئی۔ اس وقت صفیہ علی گڑھ میں پڑھاتی تھیں، وہ بھی اسی کالج میں لکچرر ہوگئیں۔ اختر ترقی پسند تحریک کے سرگرم کارکن تھے۔ حکومت ہند نے کمیونسٹ پارٹی پر پابندیاں عائد کردیں۔ چوں کہ ترقی پسند تحریک بھی اس پارٹی کی سرگرمیوں کا ایک رخ تھا اس لیے اختر کونوکری سے استعفا دینا پڑا اور انھوں نے بمبئی کی راہ لی۔ صفیہ حمیدیہ کالج، بھوپال میں ملازم رہیں۔ صفیہ اختر کی جدائی میں کڑھ کڑھ کرتپ دق کے موذی مرض میں مبتلا ہوگئیں۔ اختر اپنی عسیر الحالی کی وجہ سے ان کا خاطر خواہ علاج نہ کراسکے۔ صفیہ لکھنؤ میں انتقال کرگئیں۔ صفیہ کے خطوط کے دو مجموعے ’’حرفِ آشنا“ اور ’’ زیرِ لب‘‘ کے نام سے چھپ چکے ہیں۔ جاں نثار اخترؔ بمبئی میں فلموں کے گیت لکھنے لگے، اس سے آمدنی میں بھی اضافہ ہوا اور شہرت بھی ملی۔ انھیں عارضۂ قلب لاحق ہوگیا اور وہ ۱۸؍ اگست۱۹۷۶ء کو بمبئی میں انتقال کرگئے۔ جاں نثار نے شاعری کا ذوق وراثت میں پایا تھا۔ ان کی ادبی زندگی کا آغاز اور نشوونما علی گڑھ میں ہوئی۔ علی گڑھ کے دوران قیام یہ ’’ انجمن اردوئے معلی‘‘ کے سکریٹری رہے اور ایک عرصے تک ’’علی گڑھ میگزین ‘‘ کی ادارت کی۔ ان کی تصانیف کے نام یہ ہیں:
’’سلاسل‘‘، ’’تارگریباں‘‘، ’’ نذرِ بتاں‘‘، ’’جاوداں‘‘، ’’گھر آنگن‘‘، ’’خاکِ دل‘‘، ’’پچھلے پہر‘‘۔ نومبر ۱۹۷۴ء میں انھیں ’’خاکِ دل‘‘ پر نہرو ایوارڈ کا تین ہزار روپے کا انعام ملا۔ اترپردیش حکومت نے ان کی ادبی خدمات کے اعتراف میں پانچ ہزار روپے کا عطیہ دیا۔ ان کی وفات کے بعد وزیر اعظم نے اپنے فنڈ سے دس ہزار روپے کا عطیہ ان کے خاندان کی امداد کے طور پر دیا اور اتنی ہی رقم حکومت مہاراشٹر نے دی۔
بحوالۂ:پیمانۂ غزل(جلد دوم)،محمد شمس الحق،صفحہ:52
پیشکش : اعجاز زیڈ ایچ
مشہور شاعر نغمہ نگار جاں نثار اخترؔ کے یومِ وفات پر منتخب اشعار بطورِ خراجِ عقیدت…
دیدہ و دل میں کوئی حسن بکھرتا ہی رہا
لاکھ پردوں میں چھپا کوئی سنورتا ہی رہا
—–
طلوعِ صبح ہے نظریں اٹھا کے دیکھ ذرا
شکست ظلمتِ شب مسکرا کے دیکھ ذرا
—–
سو چاند بھی چمکیں گے تو کیا بات بنے گی
تم آئے تو اس رات کی اوقات بنے گی
—–
زمیں ہوگی کسی قاتل کا داماں ہم نہ کہتے تھے
اکارت جائے گا خون شہیداں ہم نہ کہتے تھے
—–
قوتِ تعمیر تھی کیسی خس و خاشاک میں
آندھیاں چلتی رہیں اور آشیاں بنتا گیا
—–
لوگ کہتے ہیں کہ تو اب بھی خفا ہے مجھ سے
تیری آنکھوں نے تو کچھ اور کہا ہے مجھ سے
—–
یہ علم کا سودا یہ رسالے یہ کتابیں
اک شخص کی یادوں کو بھلانے کے لیے ہیں
—–
تمام عمر عذابوں کا سلسلہ تو رہا
یہ کم نہیں ہمیں جینے کا حوصلہ تو رہا
—–
ہم سے بھاگا نہ کرو دور غزالوں کی طرح
ہم نے چاہا ہے تمہیں چاہنے والوں کی طرح
—–
ہم نے کاٹی ہیں تری یاد میں راتیں اکثر
دل سے گزری ہیں ستاروں کی براتیں اکثر
—–
اے دردِ عشق تجھ سے مکرنے لگا ہوں میں
مجھ کو سنبھال حد سے گزرنے لگا ہوں میں
—–
اشعار مرے یوں تو زمانے کے لیے ہیں
کچھ شعر فقط ان کو سنانے کے لیے ہیں
—–
دل میں وہ شورشِ جذبات کہاں تیرے بغیر
ایک خاموشِ قیامت کے سوا کچھ بھی نہیں
—–
اچھا ہے ان سے کوئی تقاضا کیا نہ جائے
اپنی نظر میں آپ کو رسوا کیا نہ جائے
—–
موجِ گل موجِ صبا موجِ سحر لگتی ہے
سر سے پا تک وہ سماں ہے کہ نظر لگتی ہے
—–
اور کیا اس سے زیادہ کوئی نرمی برتوں
دل کے زخموں کو چھوا ہے ترے گالوں کی طرح
—–
سازِ بے مطرب و مضراب نظر آتے ہیں
پھر بھی نغمے ہیں کہ بیتاب نظر آتے ہیں
—–
ہر ایک روح میں اک غم چھپا لگے ہے مجھے
یہ زندگی تو کوئی بد دعا لگے ہے مجھے
جاں نثار اخترؔ
انتخاب : اعجاز زیڈ ایچ