بہت سوں کو وہ زمانہ یاد ہوگا جب گرمیوں میں چھت پر سویا جاتا تھا۔ تب یہ ’’کوٹھیاں‘‘ نہیں تھیں جو آج کل امرا لوٹ کھسوٹ کر کے اور غربا قرضے لے کر بنواتے ہیں‘ جو گرمیوں میں بھٹی کی طرح تپتی ہیں اور سردیوں میں زمہریر بن جاتی ہیں۔ آنگن ہوتا تھا جس کے دو طرف یا تین طرف کمرے ہوتے تھے۔ تب ہر گھر میں نردبان کا ہونا ضروری تھا۔ نردبان لکڑی کی بنی ہوئی وہ سیڑھی تھی جسے پنجابی میں پٹرسانگ کہتے ہیں۔ شاعر نے کہا تھا ؎
نہ سنھ لگی موریوں‘ نہ پوڑی‘ نہ پٹرسانگ
صاحباں مرزا لے گیا جا رکھی سو چوتھے اسمان
(سوراخ سے نقب لگی‘ نہ ہی کوئی سیڑھی تھی نہ نردبان۔ پھر بھی مرزا صاحباں کو لے اڑا اور کہیں چوتھے آسمان پر چھپا دی)
بچوں کے لیے نردبان پر چڑھنا آسان نہ تھا۔ آخری ڈنڈے سے چھت پر پائوں رکھنا مشکل ہوتا تھا۔ ڈر بھی بہت لگتا تھا۔
اُس شخص کی ’’عقل مندی‘‘ پر ماتم کیجیے جس کے لیے چھت پر آرام دہ بستر بچھا ہے۔ شام ڈھل رہی ہے۔ چھت پر ٹھنڈی ہوا چل رہی ہے۔ وہ نردبان پر چڑھنا شروع کرتا ہے۔ نردبان جس زمین پر رکھا ہے وہاں پھسلن ہے۔ لکڑی کے ڈنڈوں کے درمیان‘ فاصلہ بھی زیادہ ہے۔ یوں لگتا ہے نردبان کے سرے زمین سے پھسل جائیں گے یا اوپر چڑھنے والے کا پائوں کسی ڈنڈے پر غلط پڑے گا اور وہ دھڑام سے زمین پر آگرے گا۔ لیکن چڑھنے والا اوپر چڑھتا جا رہا ہے۔ آہستہ آہستہ‘ نردبان کے دونوں عمودی بانسوں کو پکڑتا‘ بالآخر وہ آخری ڈنڈے پر پائوں رکھ دیتا ہے۔ اب اس کے اور چھت کے درمیان کوئی اور ڈنڈا نہیں ہے۔ اب اسے آخری کوشش کرنی ہے۔ آخری ڈنڈے سے ایک پائوں چھت کی منڈیر پر رکھ کر زور لگا کر دوسرا پائوں بھی اوپر لے جانا ہے۔ یوں وہ چھت پر چڑھنے میں کامیاب ہو جائے گا۔ نرم بستر پر ایک سہانی شام سے لطف اندوز ہوگا۔ سبز گھڑے سے ٹھنڈا پانی پئے گا اور میٹھی نیند کے مزے اُڑائے گا۔ مگر آخری ڈنڈے پر پہنچ کر وہ رُخ بدل لیتا ہے۔ اب اُس کی پیٹھ چھت کی طرف ہے اور منہ کیچڑ بھرے آنگن کی طرف۔ دیکھنے والے حیران ہوتے ہیں اور پریشان بھی۔ اچانک وہ چھلانگ لگاتا ہے اور چھلانگ بھی اس قدر زور سے کہ نردبان کا توازن بگڑ جاتا ہے۔ نردبان گر پڑتا ہے۔ چھلانگ لگانے والا آنگن کے عین درمیان میں آ گرتا ہے‘ اور یہ بتانے کی کوئی ضرورت نہیں کہ اس کا کیا حال ہوتا ہے۔ اب وہ چیخ پکار کر رہا ہے اور ہائے ہائے کی آوازیں چاروں طرف پھیل جاتی ہیں۔
یہ تمثیل یوں یاد آئی کہ چار دن پہلے سابق چیف ایگزیکٹو‘ سابق صدر مملکت اور سابق کمانڈر اِن چیف جناب جنرل پرویز مشرف ٹیلی ویژن سکرین پر نمودار ہو کر قوم کو گردابِ بلا سے نکلنے کی تدبیر بتا رہے تھے۔ اپنے عہدِ ہمایونی کی ظفریابیاں گنوا رہے تھے۔ موجودہ حکومت کی اقربا پروری اور دوست نوازی پر برس رہے تھے اور عمران خان کو سمجھا رہے تھے کہ متحدہ کا ووٹ بینک توڑنا غلط فہمی کے سوا کچھ نہیں۔ جو کچھ وہ فرما رہے تھے اسے نرم ترین الفاظ میں بھی بیان کیا جائے تو یہی کہا جا سکتا ہے کہ نردبان کے آخری ڈنڈے پر پہنچ کر بجائے اس کے کہ جنرل صاحب چھت پر چڑھ جاتے اور آرام و استراحت کے مزے لوٹتے‘ انہوں نے رُخ کیچڑ بھرے صحن کی طرف کر لیا ہے اور چھلانگ لگا رہے ہیں۔
سینئر جرنیل کا حق مارتے ہوئے‘ اُس وقت کے حکمرانِ اعلیٰ نے جنرل صاحب کو نیچے سے اٹھایا اور سپہ سالار بنا دیا۔ قوم کے نکتۂ نظر سے یہ غلطی تھی جس کا حکمرانِ اعلیٰ نے ارتکاب کیا مگر جنرل صاحب پر حکمران اعلیٰ کا بہرطور احسان تھا۔ اس احسان کا بدلہ خوب دیا! اس بات کو بھی چھوڑ دیجیے‘ اور چلیے‘ ذمہ داری حالات پر ڈال دیجیے۔ جنرل صاحب نے محسن کو کال کوٹھڑی میں پھینک کر اقتدار کی زمام خود سنبھال لی۔ کم و بیش ایک عشرے تک مملکتِ خداداد کے سیاہ و سفید کے مالک رہے۔ جو چاہا کیا۔ مالٹے کے پودوں پر کیکر کی پیوندکاری کی۔ جَو کا نام گندم رکھا۔ ان کے دورِ حکومت میں ہر شخص زبانِ حال سے حافظ شیرازی کے یہ شعر پڑھتا نظر آیا ؎
ابلہان را ہمہ شربت ز گلاب و قند است
قوتِ دانا ہمہ از خونِ جگر می بینم
اسپِ تازی شدہ مجروح بزیر پالان
طوق زرین ہمہ در گردنِ خر می بینم
احمقوں کو جنرل صاحب نے میٹھے شربت پلائے‘ عقل مند خونِ جگر پیتے رہے۔ قیمتی گھوڑوں کو گدھوں کی طرح برتا گیا اور گدھوں کی گردنوں میں جڑائو ہار ڈالے گئے۔
یہ نردبان کا آخری ڈنڈا تھا۔ جنرل صاحب کو چاہیے تھا کہ آخری ڈنڈے پر پہنچ کر اطمینان کا سانس لیتے اور شکر بجا لاتے کہ دوسروں کی غلطیاں تھیں یا جو کچھ بھی تھا‘ جنرل صاحب نے عروج دیکھا اور جی بھر کر دیکھا۔ لیکن جو کچھ وہ ٹیلی ویژن پر کہہ رہے تھے‘ اس کا ایک ہی مطلب تھا کہ وہ چھت پر چڑھ کر آرام کرنے کے بجائے کیچڑ میں چھلانگ لگانے پر تلے ہیں۔
ہنسی اُس وقت آئی جب ان کا ’’ماموں چاچوں‘‘ والا طعنہ سنا۔ مفہوم ارشاد گرامی کا یہ تھا کہ میرٹ پر کوئی کام نہیں ہو رہا اور ماموں چاچوں کو نوازا جا رہا ہے۔ اس کے ساتھ ہی انہوں نے کچھ اس قسم کا نسخہ بھی تجویز فرمایا کہ جمہوریت اور آمریت جائیں بھاڑ میں۔
یہ بات کہ ماموں چاچوں کو نوازا جا رہا ہے اور میرٹ کُشی ہو رہی ہے‘ کم از کم جنرل صاحب کو نہیں کرنی چاہیے تھی۔ اس موضوع پر ہم نے بہت لکھا ہے اور موجودہ حکومت پر تنقید کی ہے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ اگر شہنشاہ اورنگ زیب دوسروں کو نصیحت کرنے لگ جائے کہ تخت نشینی کی جنگ سے پرہیز کرنا چاہیے اور اقتدار کے لیے برادر کشی نہ کی جائے تو اس نصیحت کا کیا اثر ہوگا؟
جنرل صاحب کے زمانے میں ملک کے غریب بلکہ غریب ترین حلقے سے پلاسٹک کے وزیراعظم شوکت عزیز کو جس طرح کامیاب کرا کر قوم کی گردن پر سوار کیا گیا‘ کیا وہ میرٹ کا مظہر تھا؟ درجنوں اہل سرکاری ملازم ریٹائر ہوتے رہے اور وفاقی شعبۂ تعلیم کا سربراہ ایک ریٹائرڈ فوجی افسر کو بنایا گیا۔ پھر اسے ایک بار نہیں‘ دو بار نہیں‘ پانچ بار توسیع دی گئی۔ ساری دنیا کو پتہ تھا کہ اس کی پشت پر کون سی ’’طاقت‘‘ تھی! پوری پوری زندگیاں تعلیم کے میدان میں خونِ جگر جلانے والے کسمپرسی کی حالت میں عدالتوں کے دھکے کھاتے رہے اور تاریخ کی گرد میں روپوش ہوتے رہے۔
’’میرٹ‘‘ کی ایک تابندہ مثال انڈونیشیا کا قصہ ہے۔ سفیر نے وزارتِ خارجہ کی اجازت کے بغیر‘ قوانین کو پامال کرتے ہوئے سفارت خانے کی عمارت فروخت کی۔ نائب سفیر نے اپنا فرض ادا کرتے ہوئے وزارت خارجہ کو خبردار کیا۔ جنرل پرویز مشرف کی ’’میرٹ نوازی‘‘ جوش میں آ گئی۔ نائب سفیر کو وطن واپس بلا لیا گیا اور اس کی بقیہ زندگی سزا میں گزر گئی۔ وہ نرم گفتار‘ دیانت دار افسر سالہا سال تک او ایس ڈی رہا۔ وزارتِ خارجہ سے نکال ہی دیا گیا۔ اسٹیبلشمنٹ ڈویژن میں بغیر کسی دفتر اور ڈیوٹی کے دھکے کھاتا رہا۔ بالآخر اس دارِ فانی سے کوچ کر گیا۔ اس کی وفات کے بعد قومی اسمبلی کی پبلک اکائونٹس کمیٹی کے اجلاس میں اس کی بیوہ نے آنسوئوں بھری داستان سنائی۔ کمیٹی کے ارکان نے اس ظلم کی مذمت کی۔ بہت جلد‘ جنرل صاحب کو اس افسر کا اور اس جیسے بہت سے دوسرے افراد کا سامنا کرنا پڑے گا اور ایک اور عدالت میں بتانا پڑے گا کہ ماموں چاچوں کو کون نواز رہا تھا۔
سول سروس کے ساتھ جنرل صاحب نے خصوصی طور پر وہ سلوک کیا جو تاتاری جنگ جُو حکمران نے دکھیاری ماں کے ساتھ کیا تھا۔ یعنی بچے کو نیزے میں پرو کر اٹھایا اور ماں کی خدمت میں پیش کردیا۔ پوسٹل سروس کے اوپر ایک ریٹائرڈ جرنیل کو لا بٹھایا۔ ملٹری لینڈ اینڈ کنٹونمنٹ سروس کے‘ جو مقابلے کے امتحان کا حصہ ہے‘ افسروں سے محکمے کی سربراہی چھین لی۔ اور تو اور سول سروس کی بڑی بڑی تربیت گاہوں (بشمول بلند ترین ادارے سٹاف کالج) پر اُن افراد کو لا بٹھایا جن کا دور دور سے تعلق سول سروس سے نہ تھا۔ ایسا زہریلا اور گھٹن بھرا ماحول بنا کہ کتنے ہی زیر تربیت افسران ہارٹ اٹیک کا شکار ہو گئے۔
رہی جمہوریت تو حضور! جمہوریت پر ہم تنقید تو کر سکتے ہیں! آپ کے قوم پر پہلے ہی بہت احسانات ہیں۔ این آر او ان احسانات کی ایک خفیف سی جھلک ہے۔ آپ مزید احسانات نہ فرمایئے۔ جمہوریت کو بھاڑ میں نہ جھونکیے۔ اپنے ذاتی اعمال ہماری بہادر مسلح افواج کے کھاتے میں بھی نہ ڈالیے۔ بس اب چھت پر چڑھ کر بقیہ زندگی ٹھنڈی ہوا کے مزے لیجیے۔ پیاس لگے تو سبز گھڑے سے آبِ سرد نوش فرمایئے ؎
ہم نیک و بد حضور کو سمجھائے دیتے ہیں
مانو نہ مانو جانِ جہاں! اختیار ہے
یہ کالم اس لِنک سے لیا گیا ہے۔
“