یہ بات بار بار دوہرائی جاتی ہے اور ہر بار دوہرائی جاتی رہے گی کہ ریاست جموں و کشمیر ہندوستان کی اکلوتی ریاست ہے جہاں اردو کو سرکاری زبان کا درجہ حاصل ہے۔جموں و کشمیر میں اردو کے علاوہ کشمیری،لداخی،ڈوگری،پنجابی، شنا، بلتی، پہاڑی ،گوجری اورہندی زبانیں بولی جاتی ہیں۔ان مذاہب، نسلوں،تہذیبوں کے لوگ بھی ریاست میں آباد ہیں۔ لیکن کشمیری زبان بولنے والوں کی تعداد ان سب سے زیادہ ہے ۔ جب جموں و کشمیر میں ڈوگروں کی حکومت تھی ۔اردو کی کثیر السانی صورتِ حال کے پیشِ نظر اس وقت کے ڈوگرہ حکمران مہاراجہ پرتاپ سنگھ نے اردو کو سرکاری زبان تسلیم کیا۔یہ بات 1889 کی ہے جب جموں و کشمیر میں اردو بحیثیتِ سرکاری زبان قرار پائی۔یہ تاریخ ساز ریکارڈ آج بھی اسی ریاست(جموں و کشمیر) کو حاصل ہے۔ریکارڈ کہہ کر میں خوشی کا اظہار نہیں کررہا ہوں بلکہ اس بات کا بے حد رنج بھی ہے کہ ایک سو چالیس برس بعد بھی ہندوستان کی کسی ریاست کوارو وبحیثیتِ سرکاری زبان کا شرف حاصل نہیں ہوا ۔جب کہ اردو جاننے والوں اور اس سے محبت کرنے والوں کی ہندوستان میں ایک خوش آئند تعداد ہے۔دراصل یہ ریاستی حکومتوں کی عدم توجہ اور بعض اردو والوں کے غیر ذمہ دارانہ روّیوں کا ہی نتیجہ ہے۔
ریاست جموں و کشمیر میں اردو کو سرکاری زبان کا درجہ حاصل تو ہے لیکن پرائمری سطح سے لے کر ہائر ایجوکیشن تک جس سنجیدگی کے ساتھ اردوکی بقا اور اس کی حیات بخش زندگی کے لیے کوششیں اور کاوشیں ہونی چاہیے تھیں وہ نہیں ہورہی ہیں۔اردو زبان آج بھی جموں و کشمیر میں سرکار کی محتاج نظر آتی ہے۔گروہ بندیوں کی لعنت میں پڑھ کر ہمارا معزز اردو داں طبقہ اردو زبان کی گردن توڑنے مروڈنے میں مصروف نظر آتاہے۔یہی وجہ ہے کہ ہماری ریاستی حکومت بھی اردو زبان اور اردو داں طبقے دونوں پر حاوی نظر آتی ہے۔ایک زمانہ تھا جب جموں و کشمیر میں آٹھویں تک انگریزی کو چھوڑ کر تمام مضامین اردو میں پڑھائے جاتے تھے۔یہاں تک کہ اُن دنوں ریاست میںکشمیریوں کی مادری زبان پڑھانے کا بھی کوئی رواج یا چلن نہیں تھا۔راقم نے خود بھی آٹھویں جماعت تک سب مضامین اردو میں پڑھے ہیں۔لیکن جب نویں کلاس میں داخلہ لیا تو حکومت کا فیصلہ اردو کے حوالے سے بالکل بدل گیا اوراس کے بعد بس اردو زبان ایک واحد مضمون ’اردو ‘تک محدود ہوکر رہ گئی۔
جموں و کشمیر میں اردو کو سرکاری زبان کا درجہ حاصل ہونے کے بعد سے آج تک تمام سرکاری اور غیر سرکاری اسکولوں میں اردو زبان پڑھانے کا باقاعدہ اہتمام ہے۔اردو زبان کو اسکولوں میںپڑھانا ہی کوئی غیر معمولی کام نہیں ہے بلکہ سرکاری زبان کے بطور اس کی اہمیت کو تسلیم کرنا اور اس کے فروغ کے لیے اقدام اٹھانا ایک مثبت پہلو تھا جس میں ریاست کی سرکار ناکام نظر آتی ہے۔حال ہی میں جموں و کشمیر حکومت نے اردو زبان کو ریاست کے تمام سرکاری و نجی اسکولوں میں پرائمری سطح تک لازمی مضمون بنانے کا اعلان کردیا۔ اس کو سرکار نے اردو کی ترقی و ترویج میں ایک بڑا اور غیر معمولی اقدام قرار دیا ہے۔جس مضمون کی سرکاری اور تاریخی شناخت پہلے سے قائم ہو، جس کی تعلیم ابتدا ہی سے اسکولوں میں ثانوی سطح تک دی جاتی رہی ہو ۔اس زبان کو پرائمری سطح تک لازمی قراردے کرسرکار کی محدود سوچ کا اندازہ لگایاجا سکتا ہے۔جموں و کشمیر کے اسکولوں میں ثانوی سطح اور پلس ٹوتک اردو اساتذہ صاحبان کی بحالی نہ کرنا بھی سرکار کی ایک غیر ذمہ دارانہ سوچی سمجھی اورمنظم پالیسی ہے۔ریاست کے اسکولوں میں اردو کی زبوں حالی اور پستی کا ایک عالم یہ بھی ہے۔آج کے والدین مضمون کے اسکوپ کو ذہن میں رکھتے ہوئے اپنے بچوں کی ذہنی تر بیت کرتے ہیں۔جموں و کشمیر سرکار کا اسکولوں میں اردو کی بحالیاں نہ کرانا بھی اس مضمون کے اسکوپ میں سب سے بڑی رکاوٹ کا سبب بن رہا ہے۔ہمارے حکمران شاید یہ بھول رہے ہیں کہ اردو جموں و کشمیر کے تمام صوبوں کے لوگوں کی رابطے کی زبان کا کا م کر رہی ہے۔آج اردو زبان یہاں کے بچے بچے،مرد،عورت، بزرگ، جوان،ان پڑھ، تعلیم یافتہ، برسرِروزگار،بے روزگار غرض ہر ایک کے زبان کی زینت بنی ہوئی ہے ۔توپھر کیوںاسکولوں میں اردو زبان کو لازمی مضمون کے بطور اختیار کرنے سے روکا جارہا ہے ؟کیوں والدین اپنے بچوں کو اردو زبان پڑھانے کو ترجیح نہیں دیتے؟ یہ باتیں ہمارے معاشرے اور سرکار دونوں کے لیے سوالیہ نشان چھوڑتے ہیں۔
جموں و کشمیر کے تقریباً بیشتر کالجوں میں اردو زبان پڑھائی جاتی ہے۔دو سال قبل ریاست کے کالجوں میں اردو کی کچھ اسامیاں پُر کی گئی ہیں لیکن باوجود اس کے صورتِ حال جوں کی توں بنی ہوئی ہے۔ملازمت کے بعد ہمارے اساتذہ خاموش تماشائی بنے ہوئے ہیں۔اردو کی ترقی و ترویج میں وہ ایک قدم بھی آگے نہیں بڑھا رہے ہیں۔برعکس اردو کے دیگر سبجیکٹ میں بچوں کاتشفی بخش رول رہتا ہے ۔چنانچہ اردو کی حالت اس میدان میں بھی پست نظر آتی ہے۔ اردو کے ضمن میں جس قدر سرگرمیوں کا انعقاد ہونا چاہیے تھا ،نہیں ہوتاکیوں کہ حکومت کی گرانٹ کا انتظار کرتے کرتے برسوں گزر جاتے ہیں اور نجی طور پر کسی سرگرمی کا انعقاد کرنے سے وہ قاصر ہیں۔میں نے ،میرے معاصرین اور ہم سے قبل جو لوگ گزرے ہیں ،سب اردو پڑھ چکے ہیں ۔اس لیے ہمیں اردو،بولنے ،لکھنے اور سمجھنے میں کسی دشواری کاسامنا نہیں ہے۔لیکن اگر ہمیں اردو زبان کو زندہ رکھنا ہے تو اس کے لیے ہمیں نئی نسل ،نئی پود کوتیار کرنا ہوگا ۔وہ کالجوں اور یونی ورسٹیوں کے صوفوں اوربڑی موٹی خوبصورت کرسیوں پر بیٹھ کر نیز حکم نامے جاری کرکے ممکن ہونے والا نہیں ہے بلکہ اس کے لیے میدان میں عملی طور پر جستجو کرنی ہوگی۔اس کے لیے ہمارے اساتذہ کو پرائمری اور ثانوی سطح تک کے اسکولوں میں اردو بیداری مہم جاری کرنی چاہیے۔ بچوں کے لیے چھوٹے چھوٹے اردو کوئز کے پروگرام رکھنے چاہیے۔اس سے بچوں کا ذہن اردو بان اور اس کی تعلیم سے شعوری طورپر بیدار ہوگا۔ہمیں اردو کے پروگراموں کو محض اردو طبقے تک ہی محدود نہیں رکھنا چاہیے بلکہ سماج کے مختلف شعبہ ہائے جات سے وابستہ لوگوں کو ان سے ساتھ جوڑنا چاہیے تاکہ سماج کا ہر فرد اردو زبان کی اہمیت سے روشناس ہو۔
جموں و کشمیر میںاس وقت کشمیر یونی ورسٹی،فاصلاتی نظام تعلیم کشمیر یونی ورسٹی،سینٹرل یونی ورسٹی آف کشمیر،مولانا آزاد نیشنل اردو یونی ورسٹی کا ریجنل سینٹر،مانو کا ہی سٹلائیٹ کیمپس،بالا غلام شاہ باد شاہ یونی ورسٹی،جموں یونی ورسٹی وغیرہ میں اردو زبان کی تعلیم دی جاتی ہے۔اس میں مولانا آزاد نیشنل اردو یونی ورسٹی اور فاصلاتی نظامِ تعلیم کشمیر یونی ورسٹی دو ایسے اعلیٰ تعلیمی ادارے ہیں جہاں سے ہر سال 1500سے 2000 تک طالب علم ایم ۔اے کرکے نکلتے ہیں۔جہاں ڈسٹنس ایجوکیشن کے ذریعے دور دراز علاقوں سے وابستہ طالب علم کثیر تعداد میں اردو زبان سے فیض یاب ہوتے ہیں،وہیں اس سے نقصانات بھی بہت زیادہ ہیں۔نقصانات اس معنوں میں کہ اس سے طالب علموں میں معیاری تدریس کی ترسیل نہیں ہوپاتی۔جہاں آج کوالٹی ایجوکیشن پر زور دیا جاتا ہے وہیں اس پہلو پر ابھی غور کرنے کی اشد ضرورت ہے۔ایک طرف اردو زبان سے فارغ التحصیل بے شمار اعلیٰ تعلیم یافتہ نوجوان بے روزگار بیٹھے ہیں ۔دوسری طرف ان اداروں سے ہر سال سیکڑوں کی تعداد میں طالب علم ڈگریاں حاصل کرکے نکلتے ہیں۔غرض کہ اردو پڑھے لکھے بے روزگاروں کی بھیڑ دن بہ دن بڑھتی ہی جارہی ہے۔
جموں و کشمیرکی سرکار نے حال ہی میں ریاست میں اردو کونسل کے قیام کا اعلان کیا۔اس اقدام سے پورے جموں و کشمیر کے اردو حلقوں میں خوشی کی لہر دوڑ گئی۔ قیام کے بعد کونسل کا آئین ترتیب دیا گیا۔اس کے بعد فی الفور کونسل کے لیے ممبران بھی نامزد کیے گیے۔ مگر آج ایک سال سے زائد عرصہ گزر گیا ،نہ کونسل کی عمارت بنائی گئی اور نہ ہی اردو کی ترقی و ترویج کے لیے کوئی رقم واگذار کی گئی۔ کونسل کی ایک دو بار میٹنگ ہوئی ،نتیجتاً بے سود،ابھی تک محض جموں و کشمیر کی اردو کونسل میںسفارشی بنیادوں پر ممبران ہی کا اضافہ کیا جاتا رہا ہے۔اردو کونسل کے ساتھ ریاست کے تعلیم یافتہ بے روزگار نوجوانوں کی بہت امیدیں وابستہ ہیں۔مگر فی الوقت انتظامیہ اور حکومت دونوں خاموش تماشائی بنے بیٹھے ہیں۔
ہمارے اسکولوں ،کالجوں اور یونی ورسٹیوں سے جڑے اردو داں حضرات جب تک اردو زبان کے معیار،اس کی فلاح و بہبودی ، ترویج و اشاعت اور بچوں کے بہترمستقبل کے لیے سنجیدہ اور فکر مند نہیں ہوں گے تب تک اردو زبان کے وقار کو نقصان پہنچتا رہے گا اور اس سے وابستہ نئی نسل بھی بدگمان ہوتی رہے گی۔ان حالات میں اردو زبان کی دراز عمری کی دعائیں تمام بے سود ثابت ہوں گی۔آپ دنیا کے کسی بھی ملک، خطے یا علاقے سے تعلق رکھتے ہوںاگر آپ کا لہجہ اس علاقے کی نشاندہی کرتا ہے تو تشویش کی کوئی بات نہیں ۔البتہ اگر آپ کا تلفظ بگڑا ہوا ہے تو اس وقت تشویش ضرور ہوتی ہے۔ ہمارے یہاں سیمینار تو آئے دن ہوتے رہتے ہیں لیکن کیا آپ نے اردو کے تلفظ پر کسی کالج یا یونی ورسٹی کو رورکشاپ کا انعقاد کرتے دیکھا ہے؟ یقینا نہیں دیکھا ہوگا۔ اس ضمن میں پیش قدمی ہونی چاہیے تاکہ اردو زبان جاننے والوں کے حوصلے ہر اعتبار سے بلند ہوں۔ مزید وہ اپنی گفتگو اورتحریر و تقریر سے زندگی کے ہر شعبے سے تعلق رکھنے والے ا فرد کو متاثر کر سکیں۔