دارلحکومت اسالم آباد میں مارگلہ کہ پہاڑیوں کے دامن میں موجود یہ جامعہ اپنی نظیر آپ ہے۔جامعہ کی لوکیشن ایسی ہے کہ پہاڑ نظر آتے ہیں اور ایسا گمان ہوتا ہے جیسا کہ ہم جنت کی کسی وادی میں موجود ہوں اور واقعی یہ کسی جنت سے کم نہیں ہے۔
قائد اعظم یونیورسٹی بہت سارے حوالوں سے اپنا ایک الگ مقام رکھتی ہے۔یہی وہ یونیورسٹی ہے جو کہ دنیا کی ٹاپ 500 یونیورسٹیز میں میں پاکستان کی نمائندگی کرتی نظر آتی ہے۔ملکی امور چالنے والے بہت سارے افراد اس یونیورسٹی سے تعلیم حاصل کر کہ اپنی پہچان بنا چکے ہیں ۔اور اس طرح کے بہت سارے اعزاز اس یونیورسٹی کے پاس ہیں۔مگر ایک ایسا پہلو جو کہ یہاں پڑھنے والے طلباء کو خاص معلوم ہوتا ہے وہ اس مختلف تہذیبوں کا امتزاج جو کی اس یونی ورسٹی کا خاصا ہے ، ملک کہ مختلف حصوں سے طلبا اپنے ساتھ ایک مخصوص کلچر کو لے کر یہاں آتے ہیں۔اگرچہ پاکستان کی دوسری ہونیورسٹیز میں بھی لوگ مختلف جگہوں سے آتے ہیں مگر قائد اعظم میں اس کا تناسب بالکل مختلف ہے۔کراچی سے کشمر تک ہر عالقے کو اس کی آبادی کے حوالے سے یہاں پر نمائندگی ملتی ہے ۔
میں جب 2017 میں اس جامعہ کا حصہ بنا تب سے لے کر آج تک کا وقت کا شمار میری زندگی کے بہترین لمحات میں ہوتا ہے۔یہاں پر آنے کے بعد مجھے بہت سارے دوستو سے ملنے کا موقع مال جو کہ شاید دوسری یونیورسٹیز میں نا ملتا۔مجھ سندھ،گلگت،کے پی کے، بلوچستان، کشمیر سے ائے دوست ملے ۔پہلی بار زندگی میں میں اپنے تہذیبی دائرہ کا سے ہٹ کا دوسروں کی ثقافت اور تہذیبوں مشاہدہ کیا۔دوسری کی روایت سے آشنائ نے مجھے بہت کچھ سکھایا اور اسی چیز کا میری ذات پر بہت اثر پڑا ہے ۔مختلف لوگوں سے کس طرح مخلف انداز میں ان کی روایات کا احترام کرتے ہوئے مال جاتا ہے یہ چیزیں اس یونیورسٹی کے ذریعہ سیکھنے کو ملی۔
دسمبر کی سخت سردی میں میں نے اپنے سندھی دستو کو ہو جمالو پہ محو رقص دیکھا۔خون گرمانے والے واال پشتون کا اتن ہو یا جسم کے اندر تھرتھراہٹ پیدا کرنے واال بلوچی رقص یہ دیکھنے کا اتفاق بھی ادھر ہوا۔کبھی تو میں نے ال خود کو الشور میں پنچابی بھنگڑا میں مدہوش پایا، اور سرائیکی جھمر کو کہ میں بچپن سے اپنے گھر اور عالقے کی شادیوں اور دوسروے مواقع پر دیکھتا تھا وہ بھی یہاں آ کہ سیکھ گیا۔اور یہ رقص اب تو تو ہم سب مل کر کرتے ہیں پنجاب والوں کو اتن اور کے پی والے ہو جمالو کرتے ہوئے بھی یہاں نظر آئے۔اور یقینا یورسٹی کے اندر تعلیم کے ساتھ ساتھ اس طرح کا ماحول آپ کو ایک الگ دنیا سے معتارف کرواتا ہے۔
اور ایسا ماحول شاید یہ یونی ورسٹی ہی دے سکتی ہے کیوں کہ انتظامیہ کی طرف کبھی کسی قسم کے ثقافتی پروگرام کو روکنے کی کوشش نہیں کی گئ۔اور یہی وجہ ہے جب طالب علم اس طرح کی سرگرمیوں میں مشغول کر لیتے ہیں وہ کبھی دوسری غلط سر گرمیوں سے محفوظ رہتے ہیں۔
رقص اور موسیقی کے ساتھ ساتھ یہاں پر آپ کو ہر عالقے کے مشہور کھانے با آسانی دستیاب ہوتے ہیں۔میں نے ہیاں آنے کے بعد پہلی دفعہ پنیڈا اور بنوں پالو کھایا ۔قائد اعظم یونی ورسٹی کے ہٹس جو کہ فوڈ سڑیٹ کی طرز پر موجود ہیں آپ کو کشمیر سے کراچی تک مختلف ذائقوں سے روشناس کراتی ہے۔کھانے کسی بھی ثقافت کا اہم حصہ ہوتے ہیں اور ان کے ذریعہ آپ اس ثقافت کا اندازا کر سکتے ہیں۔۔
یہی قائد اعظم کے رنگ ہیں جو کہ ملک کی مختلف تہذیبوں اور ثقافتوں سے جڑے ہوئے طالب علموں کو ایسا پلیٹ فارم مہیا کرتی جہاں پر ایک دوسرے جان سکیں اور ایک نیا کلچر پیدا ہوتا ہے جس کے اندر ملک کی ہر ثقافت کے رنگ ہوتے ہیں۔ثقافت کے ساتھ ساتھ مختلف عالقوں کے سیاسی اور تاریخی پہلو کا جائزہ بھی دوست ایک دوسرے کے ساتھ گفتگو کر لیتے رہتے ہیں۔
پاکستان جیسی ریاست جو ایک کثیر االقومی ریاست ھے اس کے اندر قائد اعظم جیسی یونیورسٹی واقعی ایک نعمت ہے کیوں کی مختلف تہذیبی اور ثقافتی اکائیاں یہاں پر ایک سسٹم کے ذریعہ جڑی ہوئ ہیں۔
حکومت پاکستان کو چاھئےکہ اس طرح مزید جامعات کی بنیاد رکھے تاکہ پاکستان کے لوگوں کے درمیان جو کہ ایک خلیج ہے اور بد گمانیوں کی جڑ ہے وہ ختم ہو سکے۔کیوں کہ مختلف عالقے کہ نوجوان جب ایک دوسرے کے ساتھ رہتے اور پڑھتے ہے تو بہت ساری غلط فہمیوں کو دور کر لیتے ہیں۔
اور دوسری یونیورسٹیز میں بھی اس طرح کی ثقافتی پروگرامز کو فروغ دینا چاھئے تاکہ معاشرہ کو اعتدال میں رکھا جائے۔