(1)
جامعہ ہے وہ سپہرِ علم و فن کی کہکشاں
روشنی سے ہے منور جس کی اقصائے جہاں
جامعہ کی تھے حکیم اجمل سدا روحِ رواں
ہر طرف بکھرے ہوئے ہیں جن کی عظمت کے نشاں
کام سے ناآشنا ہے اُن کے کیوں نسلِ جواں
آج ہونا چاہئے تھا جن کو زیبِ داستاں
اُن کی حازق ہے جہاں میں علمِ طِب کا شاہکار
مٹ نہیں سکتے کبھی ان کے نقوشِ جاوداں
جامعہ عہدِ رواں میں آج اپنے کام سے
گنگا جمنی ہند کی تہذیب کا ہے ترجماں
ذاکر و جوہر ہو ں یا مختار انصاری کا نام
جامعہ کے صفحہ تاریخ پر ہے ضوفشاں
بابِ محمودالحسن ہے اُن کی زریں یادگار
جن کی علمی شخصیت ہے نازشِ ہندوستاں
ہے سرِ فہرست اس کے محسنوں میں ان کا نام
ہیں مجیدِ خواجہ کی خدمات بھی سب پر عیاں
جنگِ آزادی میں بھی تھے وہ ہمیشہ پیش پیش
ہیں محبانِ وطن کے وہ دلوں پر حکمراں
صدق دل سے ملک و ملت کے تھے برقیؔ خیر خواہ
ذہن میں ان کے نہ تھا ہرگز کبھی سود و زیاں
(2)
جامعہ ہے سبھی کے وردِ زباں
جس کی عظمت کا معترف ہے جہاں
ہے یہ اک ایسا مطلعِ انوار
روشنی جس کی ہے سبھی پہ عیاں
اہلِ دانش کو ناز ہے جس پر
ہے یہ وہ درسگاہِ ہندوستاں
ہر تعصب سے ہے جو بالا تر
ہے سبھی کے لئے یہ فیض رساں
اس کے محسن تھے وہ حکیم اجمل
جن کی ’’حاذق‘‘ ہے علمِ طب کا نشاں
کام سے اپنے کام ہے اس کو
کچھ نہیں امتیازِ سود و زیاں
کیوں نہ مداح اس کا ہو برقیؔ
جامعہ ہے وقارِ ہندوستاں
اسماء صبا خواج کا افسانہ مایوسی فنی و فکری مطالعہ
اسماء صبا خواج کا تعلق لکھیم پور کھیری ہندوستان سے ہے، اردو کی ممتاز لکھاری ہیں، آپ کا افسانہ ''مایوسی"...