''میرے مرنے کے بعد سوائے میری لڑکی کے کوئی جانشینی کے قابل نہیں۔''
جمہوریت کا یہ پہلا بیج میری تاریخ میں سلطان شمس الدین التمش نے بویا تھا۔ شمس الدین التمش تو دل و جان سے چاہتا تھا کہ جمہوری روایات کے عین مطابق اہل ترین فرد تخت پر بیٹھے خواہ وہ شاہی خاندان سے نہ ہو … خواہ وہ خاکروب ہی کیوں نہ ہو … لیکن مشکل یہ آن پڑی کہ رضیہ سلطانہ کے علاوہ اور کسی میں اہلیت تھی ہی نہیں۔ چنانچہ عین جمہوری طریقے کے مطابق باپ کے بعد بیٹی نے تاج پہنا۔
پھر علائوالدین خلجی نے جب اپنے محسن جلال الدین خلجی کو قتل کیا تو جمہوریت کا ایک اور بیج بویا گیا۔ خود علائوالدین تخت نشین ہوا۔ پھر غیاث الدین تغلق بادشاہ بنا۔ بنگال کی بغاوت فروکر کے دارالحکومت واپس آیا تو اس کے فرزند جوناخان نے استقبال کیلئے لکڑی کا محل بنوایا۔ ''اتفاق'' دیکھئے کہ چھت گر گئی اور حضرتِ والا دب کر مر گئے۔ جمہوریت پھر بروئے کار آئی اور جونا خان نے محمد تغلق کے نام سے قوم کیلئے قربانی دینے کا عزم کیا۔ رخصت ہوا تو اپنے چچا زاد فیروز تغلق کو جمہوری طریقے سے جانشین بنوا گیا۔
پھر بہلول لودھی آیا۔ لودھی خاندان کا ارادہ بالکل نہیں تھا کہ سلطنت کو اپنے خاندان تک محدود کر دے لیکن دو مسئلے پھر آڑے آئے۔ ایک تو لودھی خاندان سے باہر کوئی شخص ان صلاحیتوں کا مالک نہیں تھا جو حکومت کرنے کیلئے ضروری ہیں۔ دوسری بڑی وجہ یہ بھی تھی کہ لودھی خاندان نے جمہوریت کیلئے قربانیاں بہت دی تھیں چنانچہ بہلول لودھی کے بعد مجبوراً سکندر لودھی کو اور اس کے بعد ابراہیم لودھی کو یہ بھاری بوجھ اٹھانا پڑا؎
زار رونا چشم کا کب دیکھئے
دیکھے ہیں لیکن خدا جو بھی دکھائے
جمہوریت کی گاڑی اچھی بھلی برصغیر میں پٹڑی پر چل رہی تھی کہ ایک نئی افتاد آن پڑی۔ ظہیر الدین بابر جمہوریت کا لودھی خاندان سے بھی بڑا دلدادہ تھا۔ وہ سچی جمہوریت کی تلاش میں فرغانہ سے نکلا اور قربانی پر قربانی دیتا کابل پہنچا۔ وہاں اُس نے جمہوریت کو اپنے قبضے میں لیا اور دس سال تک اسے مانجھتا رہا' صیقل کرتا رہا جب چمک گئی تو اس نے اسے برصغیر میں لے جانے کا فیصلہ کیا۔ 1526ء میں پانی پت کے میدان میں دونوں خاندانوں کی قربانیوں کا جائزہ لیا گیا۔ بابر کا پلہ بھاری نکلا چنانچہ مسلمانانِ برصغیر کی جمہوریت کی قیادت اُس نے سنبھال لی۔
جمہوریت کی گاڑی پٹڑی سے اتارنے کی نئی سازش اُس وقت سامنے آئی جب پھر دو خاندان آمنے سامنے کھڑے ہو گئے۔ لاڑکانہ اور رائے ونڈ نہیں' معاف کیجئے گا' سہسرام کا شیرشاہ سوری اور آگرہ کا ہمایوں۔ دونوں نے جمہوریت کیلئے بے مثال قربانیاں دی ہوئی تھیں کسی کے محلات دبئی میں تھے اور کسی کے جدہ میں۔ کسی کے سنٹرل لندن میں اور کسی کے لندن کے نواح میں۔ مقابلہ سخت تھا۔ شیرشاہ سوری فاتحِ جمہوریت قرار پایا۔ اس کے بعد سکندر سُوری جمہوریت کا وارث ہوا۔ اتنے میں ہمایوں ایران سے لشکر لے کر آیا۔ دس سال تک سگے بھائیوں سے لڑائیاں لڑیں۔ فائدہ یہ تھا کہ جمہوریت خاندان کے اندر ہی رہی' ایک بار پھر مغل' جمہوریت کو سُوریوں سے واپس لینے میں کامیاب ہو گئے۔
پھر یوں ہوا کہ جمہوریت دامادوں کے نرغے میں آ گئی جہانگیر کا ایک بیٹا شہریار نورجہاں کا داماد تھا۔ دوسرا بیٹا خرم نورجہاں کے بھائی آصف خان کا داماد تھا۔ جہانگیر کو جب شاہدرہ میں دفن کیا جا رہا تھا تو نورجہاں نے اپنے داماد شہر یار کو آگرہ سے لاہور طلب کیا اور بادشاہ بنا دیا۔ خرم اس وقت دکن میں تھا۔ اُس کے سسر نے بھی اسے طلب کیا۔ دیکھئے' دونوں ایک ہی خاندان کے تھے لیکن جمہوریت ایک خاندان کے اندر رہ کر بھی محفوظ نہ تھی اور دونوں اسے اپنی اپنی جیب میں ڈال کر محفوظ کرنا چاہتے تھے۔ بالآخر خرم جیت گیا اور بادشاہ بن کر شاہ جہان ہوا۔ شہریار کو جمہوریت کی خاطر آنکھوں میں سلائیاں پھیر کر اندھا کر دیا گیا۔ لیکن جمہوریت کی جو خدمت خاطر شاہ جہان کے بیٹوں نے کی اس کی برصغیر کی پوری تاریخ میں نظیر نہیں ملتی۔ دارالشکوہ' مراد' شجاع' اور اورنگ زیب نے ایک دوسرے کے گریبان پھاڑے اور بالآخر گلے کاٹ دئیے۔ جمہوریت کی دیوی کی ہر بھائی خدمت کرنا چاہتا تھا۔ چار بھائی کا مطلب ہوا چار خاندان … ہر خاندان کا دعویٰ یہ تھا کہ ہم نے جمہوریت کیلئے قربانیاں دی ہیں۔ اس دعوے پر غور کیجئے کیونکہ بالآخر یہی دعویٰ پاکستان میں بھی بنیادی کردار ادا کرے گا۔ یعنی کس خاندان نے جمہوریت کیلئے کتنی قربانیاں دی ہیں! اورنگ زیب کے ایک بیٹے کو بھی جمہوریت سے عشق ہو گیا تھا۔ وہ باپ کے مرنے کی دعائیں کیا کرتا تھا۔ اورنگ زیب کو معلوم ہوا تو اُسے خط لکھا۔ اقبال نے پیام مشرق میں اس خط کو فارسی میں نظم کیا ہے۔ اورنگ زیب نے لکھا کہ تم جس سے میرے مرنے کی دعا مانگ رہے ہوں اُس نے بہت سے دردناک نالے سنے ہیں لیکن اس نے یعقوب علیہ السلام کی دعا قبول کی نہ ایوب علیہ السلام کی ؎
پندار آن کُہنہ نخچیر گیر
بدامِ دُعائی تو گردد اسیر
تُو یہ نہ سمجھنا کہ وہ تیری دعا کے دام میں آ جائے گا!
پاکستان بننے تک یہ اصول طے ہو چکا تھا کہ اصل جمہوریت وہی ہے جو خاندان کے اندر رہے بلکہ پاکستان بننے کے بعد اس تصور نے مزید جلا پائی اور خاندان کے بجائے جمہوریت فرد کے اندر رہنے لگی۔ ایوب خان نے جمہوریت دوستی میں خلجیوں' تغلقوں' لودھیوں' سُوریوں' مغلوں غرض سب کو تاریخ کی گواہی میں عبرت ناک شکست دی اور گیارہ سال تک جمہوریت کو اپنے خاندان کے اندر تو خیر رکھا ہی اپنی ذات سے بھی باہر نہ جانے دیا۔ یہی حال ضیاء الحق کا تھا۔ گیارہ سال جمہوریت کی ذاتی طور پر خدمت کی۔ پھر ایک اور جرنیل آیا اور اُس نے جمہوریت کو آٹھ سال تک مشرف کیا۔
پاکستان کے قیام کے بعد خاندانوں نے پارٹیوں کی شکل اختیار کر لی۔ ہر پارٹی پر ایک ایک خاندان نے قبضہ کر لیا ا ور پھر خاندانوں کی قربانیوں کے وہی باہمی مقابلے ! جو ہماری ہزار سالہ تاریخ کا حصہ رہے ہیں۔ ذوالفقار علی بھٹو نے پارٹی بنائی بیگم نصرت بھٹو صاحبہ نے تاریخی فقرہ کہا کہ بھٹو پیدا ہی حکومت کرنے کیلئے ہوئے ہیں۔ بھٹو صاحب کے بعد پارٹی کی جمہوریت اُن کی صاحبزادی کے حصے میں آئی۔ وہ شہید ہوئیں تو اُن کے شوہر نے پرچم پکڑا۔ گزشتہ ہفتے لاہور میں نوجوان بلاول نے جو بیان دیا اس سے واضح ہو گیا کہ جمہوریت کی گاڑی پٹڑی پر درست انداز میں چل رہی ہے اور سلطان شمس الدین التمش نے جو سنہری اصول جمہوریت کا طے کیا تھا ۔ (میرے مرنے کے بعد سوائے میری لڑکی کے کوئی جانشینی کے قابل نہیں۔) ہم بال برابر بھی اُس سے اِدھر اُدھر نہیں ہٹے۔ بلاول بھٹو زرداری نے اپنی تقریر میں اعلان کیا کہ اُس کے خاندان نے جمہوریت کیلئے ان گنت قربانیاں دی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ''میں اُس کا ساتھ دوں گا جو میرے والد کا ساتھ دے گا۔'' انہوں نے اس عزم کا اظہار بھی کیا کہ وہ جمہوریت کو مضبوط تر کرنے کیلئے کام کرتے رہیں گے۔
دوسرے خاندان بھی جمہوریت کیلئے مسلسل قربانیاں دے رہے ہیں۔ چودھری پرویز الٰہی اپنے صاحبزادے چودھری مونس الٰہی کو جمہوریت کیلئے تیار کر رہے ہیں جب نوازشریف وزیراعظم تھے تو پنجاب کے وزیراعلیٰ کیلئے اُن کے سگے بھائی سے زیادہ اہل کوئی نہیں تھا۔ وہ جیل میں گئے تو پارٹی کی زمام بیگم صاحبہ نے ہاتھ میں لی۔ دیکھئے مستقبل میں نون لیگ کی قیادت خاندان کے اندر ہی رہتی ہے یا جاوید ہاشمی' چودھری نثار علی' احسن اقبال' راجہ ظفرالحق یا کوئی اور اس قیادت کا مستحق ثابت ہوتا ہے۔ اے این پی سے لے کر پیپلزپارٹی تک اور نون لیگ سے لے کر قاف لیگ تک اور جے یو آئی سے بگتی کی جمہوری وطن پارٹی تک … ہر جگہ جمہوریت پھل پھول رہی ہے اور خاندانوں کے اندر اس طرح محفوظ ہے جیسے بتیس دانتوں کے اندر زبان۔
لیکن ہماری اس تابناک تاریخ پر درمیان میں ایک داغ لگ گیا اور یہ داغ ہمارے جمہوری دامن پر بابائے قوم حضرت قائداعظم نے لگا دیا۔ افسوس! انہوں نے اُس اصول کی خلاف ورزی کی جو سلطان التمش نے ہمیں دیا تھا اور جس پر ہم آج تک ڈٹے ہوئے ہیں۔ قائداعظم نے ستم یہ کیا کہ جمہوریت کا پرچم اپنی بیٹی کے ہاتھ میں دیا نہ اپنی بہن کے ہاتھ میں۔ انہوں نے بی بی کو پارٹی کا کوئی عہدہ دیا نہ حکومت کا … یہی سلوک انہوں نے اپنی بہن محترمہ فاطمہ جناح سے کیا۔ کاش! قائداعظم بھی جمہوریت کو اپنے خاندان کے اندر ہی رکھتے! ہمارا ہزار سالہ ریکارڈ تو خراب نہ ہوتا!!