جمہوریت نام جپنا
دیو استبداد جمہوری قبا میں پائے کوب ۔۔۔ ہم میں سے بہت سوں نے علامہ اقبال کا یہ مصرعہ پڑھا ہوا ہے۔ سن سنا کر یہ بھی جان گئے ہیں کہ اقبال صاحب بتا رہے ہیں، جمہوریت کے جبے میں ظلم ڈھانے والا بھوت پاؤں سے کچلنے میں مصروف ہوتا ہے۔ آج ہم کہیں گے کہ ایسا نہیں ہو سکتا۔ مگر یہ بات نظر انداز نہ کریں کہ یہ کس زمانے کی سوچ ہے اور کن ملکوں کے لوگوں کو یہ کہہ کر ڈرایا گیا تھا۔
ظاہر ہے تب ان کی شاعری جرمن یا انگریز تو پڑھا نہیں کرتے تھے، اس لیے شاعری متحدہ ہندوستان میں اردو بولنے والوں بلکہ فارسی کا شغف رکھنے والے اردو گو لوگوں کے لیے کی جاتی تھی۔ میں یا آپ علامہ صاحب کے دماغ میں تو جا گزیں ہونے سے رہے کہ انہوں نے یہ مصرعہ کس کیفیت میں اور کس تناظر میں مرتب کیا تھا البتہ اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ ان کا اشارہ تیسری دنیا کے ملکوں کی جمہوریت کی جانب ہی ہوگا۔ یاد رہے کہ تب روس میں اشتراکی نظام کے قیام سے پہلی، دوسری ، تیسری دنیا کا تصور اجاگر ہو چکا تھا۔ یہ اور بات ہے کہ یہ تصور بہت سارے دیگر تصورات کی طرح جو نظریہ کی ساخت تک ترقی نہیں کر سکے تھے، ایک عارضی تصور تھا۔ اب دنیا ترقی یافتہ، ترقی پذیر اور پسماندہ ملکوں میں تقسیم کی جانے لگی ہے۔
جمہوریت کوئی جامد طرز حکمرانی نہیں جیسے کمیونزم یا آمریت ہوتی ہے۔ کمیونزم کو بھی "پرولتاریہ کی آمریت" کا نام دیا جاتا تھا، جو کبھی پرولتاریہ کی آمریت نہیں رہی بلکہ کمیونسٹ پارٹی کی رہی ہے جس میں مزدور کا تو خال خال ہی ہوتے تھے۔ جبکہ اس کی بالائی ساخت منتظمین اور یک سطحی دانشوروں پر مشتمل ہوتی ہے۔ چنانچہ جمہوریت جامد طرز حکمرانی نہ ہونے کے سبب ہر طرح کی ہئیت میں ڈھالے جانے کے قابل ہے۔
جمہوریت میں نفاست پیدا کرنے کے لیے معاشرے کے مختلف حلقوں کی جمہوری کاوشیں بہت اہم ہوتی ہیں۔ اگر مختلف حلقوں کی پرتیں مختلف طرح کی پیشہ ورانہ یا سماجی و سیاسی تنظیموں کی شکل اختیار کرکے اس ملک میں رائج حکومت کی ہم نوا بن جائیں تو جمہوریت کی گاڑی نہ صرف یہ کہ سست ہو جاتی ہے بلکہ بالآخر رک جاتی ہے۔ ایسے حالات میں نام جمہوریت کا لیا جاتا ہے مگر حکومت چلانے کے بیشتر انداز غیر جمہوری اختیار کیے جاتے ہیں۔
جمہوریت محض لوگوں کو نمائندے چننے کا حق دیے جانے کا نام نہیں بلکہ تمام حکومتی اداروں میں منتخب لوگوں کو زیادہ سے زیادہ نمائندگی دینے کا نام ہے۔ اس کے برعکس جن ملکوں میں جمہوریت کے نام پر افسر شاہی اور مختلف قسم کی عسکری اور غیر عسکری اشرافیہ بالا دستی حاصل کیے ہوتی ہے وہاں جمہوریت کا بس نام جپا جاتا ہے جبکہ اصل میں آمریت اور استبداد مختلف شکلوں میں موجود و مستحکم ہوتے ہیں۔ دفاتر میں جی حضوری اور کاسہ لیسی کو آگے بڑھنے کا ذریعہ سمجھا جاتا ہے بلکہ ہوتا ہے۔ تھانوں میں لوگوں پر تشدد کیا جاتا ہے۔ حکومتی خفیہ ادارے لوگوں کو بلیک میل کرتے ہیں۔ لوگوں کے بنیادی انسانی حقوق پامال کیے جاتے ہیں۔ تمام شہریوں کو نہ تعلیم کے حصول کی سہولیات ہوتی ہیں نہ صحت سے متعلق مناسب انتظامات اور نہ ہی آگے بڑھنے کے یکساں مواقع دستیاب ہوتے ہیں۔ امراء اور غرباء کے درمیان بہت کچھ ہونے اور کچھ نہ ہونے کی گہری خلیج موجود ہوتی ہے۔
موٹے لفظوں میں جمہوریت کو نام نہاد جمہوری، نیم جمہوری، بین جمہوری، جمہوری اور مکمل جمہوری طرز حکومت میں تقسیم کیا جا سکتا ہے۔ مکمل جمہوریت کے لیے مکمل متمدن معاشرہ درکار ہے جہاں سارے ہی شہریوں کو چاہے وہ شہروں میں مقیم ہوں یا دیہات میں، تعلیم اور صحت کی مناسب اور وافر سہولتیں میسر ہوں۔ معیار زندگی اگر بلند نہ بھی ہو تو پست نہ ہو، کم از کم متوسط ہو۔ زندگی میں آگے بڑھنے کے سبھوں کو مساوی مواقع حاصل ہوں۔ بصورت دیگر جیسا معاشرہ ہوگا وہاں ویسی ہی جمہوریت دیکھنے کو ملے گی تاہم یہ جمہوریت کسی بھی طرح اتنی بری نہیں ہوگی جتنی یکسر آمریت۔
کیا ایسا کہنے میں ہم حق بجانب ہیں؟ اس کے لیے اگر ہم قذافی کے دور یا عرب بادشاہتوں کا حوالہ دے کر آمریت کو افضل ثابت کریں گے تو بھول رہے ہونگے کہ تیل نہ ہوتا تو یہ آمریتیں کب کی نابود ہو چکی ہوتیں۔ یہ اسی لیے چل رہی ہیں کہ "کھلاؤ سونے کا نوالہ اور دیکھو شیر کی آنکھ" کے اصول کو بڑھا کر یہاں شیر کی آنکھ سے دیکھا ہی نہیں جاتا بلکہ اٹھنے والی آنکھ نکال دی جاتی ہے اور حق کی بات کرنے والے کو یا خاموش کر دیا جاتا ہے یا محبوس۔ مگر کامل جمہوریت میں ایسا بالکل نہیں ہوتا۔ ناقص جمہوریت میں کم از کم احتجاج کرنے کے مواقع ہوتے ہیں۔ عدالتوں کے ذریعے حکومتوں پر زور ڈالا جا سکتا ہے اور اب سوشل میڈیا ایک موثر ہتھیار ثابت ہونے لگا ہے۔
جمہوریت کو مکمل جمہوری بنانے کے لیے تمام اداروں کو جمہوری بنانا ہوگا۔ ایسا کوئی ڈنڈا چلانے والی حکومت نہیں کر سکتی بلکہ تسلسل کے ساتھ مناسب قوانین مدون کرکے قوانین پر مکمل عملدرآمد کو یقینی بنانے والے جمہوری سیاسی حکومت ہی ایسا کر سکتی ہے۔ طے ہے کہ جمہوریت کو مستحکم کیے جانے کے ساتھ ساتھ معیشت کو بہتر بنایا جانا ضروری ہے تاکہ معاشرے کو تعلیم یافتہ، صحت مند، مناسب و متوازن بنایا جا سکے۔
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔
“