کیا دنیا میں جمہوریت آخری سانسیں لے رہی ہے؟
جب سے انسان نے ہوش سمبھالا ہے حکمرانی اور غلامی کے ارد گرد خود کو بندھا ہوا پایا۔ چاہے انسان برفانی ذمانے میں قبیلے بنا کر غاروں میں رہے۔ یا ذرعی انقلاب برپا کرکے خود کو ذمین کا مالک بنا لے۔ یا پھر کوئی گروہ بنائے حکومت تشکیل دینے کے لیے یا پھر مذہب کے نام پر حکمرانی یا غلامی نظام میں سرائیت کرگئی۔
اسی نظام کے تحت انسان نے درجات کا بھید بھاؤ چنا، جو کہ آگے چل کر ذات پات میں تقسیم ہوگیا۔ قبائلی نظام جب آگے چلا تو 400 ق م میں سب سے پہلا بادشاہی نظام بادشاہ سارگن نے بنایا۔ اسی دوران کچھ ملکوں پر آمریت اور غاضبیت بھی قائم تھی۔ انسانی ارتقائی سوچ نے طرز حکومت کو بھی ناں بخشا یہاں بھی انسان تبدیلی پسند پایا گیا۔
دنیا کی پہلی جمہوریت
جمہوریت کی اصطلاح پہلی بار سیاسیانہ و فلسفیانہ سوچ والے شہر یونان میں ظاہر ہوئی۔ یہ لفظ ڈیمو (عام) لوگوں اور کرٹوز (طاقت) سے نکلا ہے۔ کلیسیٹنز کی سربراہی میں یونانیوں نے 507-508 ق م میں پہلی جمہوریت کے جھنڈے گاڑھے۔
اس سے قبل یعنی قبل مسیح کے آثار کو کھنگالیں گے تو ہمارے اپنے ملک کی سب سے بڑی اور قدیم تہذیب وادی سندھ کے آثاروں میں بھی جمہوریت کے آثار ملتے ہیں جو کہ 5000 سال پرانی تہذیب ہے۔
جیسا کہ وادی سندھ کے قدیم آثار ہندوستان کے شہروں سے ہوتے ہوئے ایران سے جا ملتے ہیں اور دوسری طرف بحیرعرب سے گجرات(ہندوستان) اور کشمیر سے جا ملتے ہیں۔ ان سب آثار کی ایک منظم پلاننگ تھی۔ رہائشی اور کاروباری علاقے الگ الگ تھے۔ کہیں بادشاہوں کے محل نظر نہیں آتے اسکا مطلب اس وقت عوام حکومت کرتی تھی۔ محسوس ایسا ہوتا ہے جیسے کوئی سینٹرل حکومت تھی جو کہ علاقائی سطح پر منظم تھی۔ وادی اپنے شہروں کی منصوبہ بندی کے لیے مشہور ہے۔ کیونکہ اس تہذیب کے جتنے شہر ملے ہیں سبھی ایک طرز و طریقے سے بنائے گئے تھے۔
چونکہ جمہوریت نام ہی عوامی حکومت کا ہے اور عوام اذل سے کچھ گروہوں میں بٹی ہوئی ہے۔ ہر گروہ اپنی الگ شناخت، رنگ، نسل، اور سوچ رکھتا ہے۔ اسکا مطلب یہ ہوا کہ مشترکہ مفادات کے علاوہ ذیلی مفادات سب کے الگ ہونگے جسکے فائدوں کے ساتھ نقصانات بھی ہیں۔ سب سے بڑا نقصان رشوت ستانی کا ہے۔
حال ہی میں رشوت کے اسکینڈل دیکھیں تو دنیا کے بڑے جمہوریت کے علمبردار یعنی جمہوریت کے عالمی رینکنگ میں ٹاپ کے ممالک ہی رشوت کے اسکینڈلز ٹاپ پر ہیں
(نام ) ( رشوت کا حجم) ( ملک)
سیمینس 1.4 بلین ڈالر جرمنی
سانی اباکا(نائجیرین فوجی آمر) 3 سے 5 بلین ڈالر نائجیریا
وکٹریانیوکویک(صدریوکرائن) 18 ملین ڈالر یوکرائن
سابق صدر نجیب رزاق (1MDB)700ملین ڈالر ملائشیا
السٹام نیٹ ورک 16.4 ملین پاؤنڈ یوکے
مذکورہ اداروں میں رشوت کیا فردواحد یا اکیلے کسی فرد کا کارنامہ تھا؟
یا حصے ہوئے اور ابتدائی مرحلوں میں رشوت چھپائی گئی ؟
دنیا کے مشہور جمہوریت کے بانیان میں ایک امریکہ کے سابق صدر نے بھی نسل پرستانہ بیان دیا تھا۔ دوسری طرف دوسری طرف ہمارے پڑوسی ملک ہندوستان میں ایگریکلچر ایکٹ 2020 نافذ ہونے کے بعد کسانوں کا فساد برپا ہوگیا۔ مہینوں سے احتجاج جاری ہے۔ وزیراعظم کی جماعت کے ووٹرز انکی حمایت مین جبکہ بڑی تعدادمیں مخالفت بھی ہورہی ہے۔
ایسا محسوس ہورہا ہے جیسے جمہوریت آہستہ آہستہ رخصت ہونے کو ہے۔ اگر ایسا ہو تو جمہوریت کے بعد کونسا نظام ائے گا ؟
کیا ہم چھوٹے چھوٹے حصوں میں بٹیں گے ؟
مشہور محاورہ ہے تاریخ خود کو دہراتی ہے۔ کیا آگے چل کر پہلے کی طرح ہم واپس اپنی ذات و نسل جا ہم خیال کے ساتھ مل کر چھوٹی چھوٹی ریاستیں بنائیں گے؟ اس میں اگر دور جدید کے تقاضے شامل ہونگے راجہ مہاراجہ یا بادشاہوں والا وقت تو نہیں آسکتا !!
پوری دنیا پر مرکزی حکومت ہوگی ؟
حکمران اگر اپنی ذمین یا نسل کے ہونگے تو سزا مین رعایت کا موقع ہے۔ پر اگر حکمران ایسے ممالک سے ہوں جنکو ناں تو ہم جانتے ہوں یہاں تک نام تک عجیب سے ہوں۔ انکے پاس رعایت کرنے کا موئی اصولی جواز نہیں ہوگا۔۔۔
الیکٹرانک حکومت/ E-Government
الیکٹرانک حکومت ایک جدید طرز عمل کی حکمرانی ہوگی۔ جسکا آئین اور قانون Programmed ہوگا۔ انسان ایک آرٹیفشل انٹیلیجینس کے تحت مانیٹر ہوگا۔ پیسے کا فزیکل وجود ختم ہوجائے گا اور الیکٹرانک کرنسی ہر جگہ استعمال ہوگی۔ ہرسہولت آپکی انگلی کے اشارے سے ہوگی۔ شفافیت ذیادہ ہوگی اور ملکی معیشت ایک خودکار نظام کے تحت چلے گی۔