جمہوریت اورمنشور
جمہوریت میں جہاں انتخابات ہوتے ہیں وہاں منشور کی بھی اہمیت ہے ۔دنیا بھر کے ترقی یافتہ جمہوری ملکوں کی تمام سیاسی جماعتوں کا ایک مکمل سیاسی منشور ہوتا ہے،جس میں یہ کہا جاتا کہ اقتدار کے ان پانچ یا چار سالوں کے دوران وہ یہ کام کریں گی۔اس کے بعد یورپ ،امریکہ اور سکینڈینیوین ملکوں میں سیاسی جماعتوں کے منشور پر الیکٹرانک ،پرنٹ اور سوشل میڈیا پر بحث و مباحثے کا ایک سلسلہ شروع ہوجاتا ہے ۔بنیادی طور پر بحث و مباحثے میں عوام کو یہ شعور اور آگہی فراہم کی جاتی ہے کہ کونسی سیاسی جماعت کس شعبے میں کیا اہم تخلیقی کام کرسکتی ہے۔اس کا ایک فائدہ یہ ہوتا ہے کہ ووٹرز کو فیصلہ سازی کرنے میں آسانی ہوجاتی ہے کہ انہیں کس سیاسی جماعت کو ووٹ دینا چاہیئے ۔اس لئے وہ شعور و آگہی کے ساتھ ووٹ دیتے ہیں ،جس سے ان ملکوں میں جمہوریت بھی مظبوط ہوتی ہے اور ساتھ ساتھ ان کے قومی اور علاقائی مسائل بھی حل ہوتے ہیں۔پاکستان میں پہلا اور آخری الیکشن 1970 میں لڑا گیا جس کی بنیاد منشور پر تھی۔اس کی وجہ یہ تھی کہ انیس سو ستر میں دائیں اور بائیں بازو کی تقسیم واضح تھی ۔بھٹو صاحب کی سیاسی جماعت کی بنیاد لیفٹ کے نظریات کی آبیاری کے لئے رکھی گئی تھی ۔دوسری طرف روائیتی دائیں بازو کی سیاسی جماعتیں تھی۔اس کے بعد ہوا کچھ یوں کہ 1985 میں غیر جماعتی بنیادوں پر الیکشن کا انعقاد کیا گیا ،یہ الیکشن برادری ،علاقے اور حلقے کے طاقتور افراد کو مزید طاقتور کرنے کی بنیاد پر لڑے گئے ۔اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ برادریاں طاقتور ہو گئی ،جاگیردار اور سرمایہ دار کا اثر و رسوخ بڑھ گیا ،فرقہ واریت اور انتہا پسندی میں اضافہ ہو گیا ۔درمیان میں منشور کہیں غائب ہو گیا ۔اس کے بعد غیر جماعتی الیکشن کا دور تو ختم ہو گیا ،لیکن اب منشور کی جگہ گالم گلوچ اور الزام تراشیوں نے لے لی ۔اب سیاستدان منشور پر بحث و مباحثہ کرنے کی بجائے ایک دوسرے کو زلیل و رسوا کرنے پر لگے ہوئے ہیں ،جس سے بدستور جمہوریت اور سیاست کمزور ہورہی ہے اور وہی اچھا سیاستدان ہے جو اسکرین پر بیٹھ کر تگڑی گالی دے سکتا ہے۔دو ہزار آٹھارہ کے انتخابات کو بھی دیکھا جائے تو سیاسی جماعتیں کسی قسم کے سیاسی منشور پر توجہ نہیں دے رہی ہیں ۔کوئی بریلوی ووٹ کو اپنی طرف کھینچنے کے لئے درگاہ کو چوم رہا ہے تو کوئی گالیاں اور الزام تراشی کرکے اپنی سیاسی دکان چمکا رہا ہے ۔پی ٹی آئی کے چئیرمین اور ان کے سیاسی شعبدہ باز دنیا بھر کی باتیں کرتے ہیں ،لیکن ان میں سے کوئی ایک بھی اپنی سیاسی جماعت کے منشور کی بات نہیں کرتا ۔بس عمران خان صاحب نے ایک مرتبہ گیارہ نقاط پر مبنی ایک خطاب فرمایا تھا ۔لیکن سوال یہ کہ کیا یہ بتایا گیا ہے کہ پی ٹی آئی کی فارن پالیسی کیسی ہوگی ،داخلہ پالیسی کے خدووخال کیسے ہوں گے ؟ریاستی اور سماجی ڈھانچے کا رنگ و انگ کیا ہوگا ؟کس اصول پر ڈویلپمنٹ کے کام ہوں گے ۔ریاست کو کس نظریے پر کھڑا کیا جائے گا ؟یہی حال مسلم لیگ ن کا ہے ،بہت سے وعدے کئے جارہے ہیں ،صاف پانی کی بات ہورہی ہے ،موٹروے اور ٹرانسپورٹ سسٹم کی بھی نئی باتیں آرہی ہیں ،لیکن منشور پر کسی قسم کی بحث نہیں ہورہی ،صرف ایک نعرے پر مسلم لیگ ن الیکشن لڑ رہی ہے کہ مجھے کیوں نکالا ؟اب یہ منشور تو نہیں ہوسکتا ۔پاکستان پیپلز پارٹی نے 1970 میں منشور کی بنیاد پر الیکشن لڑا اور جیتا ،درمیان وہ وہ بھی کہیں منشور وغیرہ کو بھول بھال گئے ۔لیکن اچھی بات یہ ہے کہ پیپلز پارٹی میں منشور کی روایات آج بھی قائم ہیں ۔اس الیکشن میں پیپلز پارٹی ملک کی واحد جماعت ہے جس نے اپنامنشور پیش کیا ہے ،چاہے اس سیاسی منشور میں کتنی ہی خامیاں کیوں نہ ہوں؟کسی سیاسی جماعت کے لیڈر سے آف دی رکارڈ بات بھی کی جائے کہ بھائی منشور کے بارے میں بات کریں تو وہ کہتا ہے اس ملک میں منشور کو کون پوچھتا ہے ؟یہاں تو زات ،برادری اور عقیدے کی بنیاد پر ووٹ لئے جاتے ہیں۔شکر ہے پاکستان پیپلز پارٹی نے منشور منشور کا کھیل شروع کیا ہے ۔اب کم ازکم پیپلز پارٹی پر ایک تعمیری تنقید ہورہی ہے کہ گزشتہ سالوں میں سندھ میں انہوں نے کچھ نہیں کیا اور منشور ایسا بیان کیا کہ خدا کی پناہ ۔آیئے اب پاکستان پیپلز پارٹی کے منشور کی کچھ چیدہ چیدہ آصول دیکھتے ہیں ۔گزشتہ روز پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے گذشتہ پانچ دہائیوں میں اس جماعت کا دسواں انتخابی منشور اسلام آباد میں آصف زرداری اور دیگر اہم مرکزی قائدین کی موجودگی میں پیش کیا۔ ووٹروں کو متوجہ کرنے کے لیے نئے وعدوں سے بھرپور ارسٹھ صفحات کی اس دستاویز میں جماعت نے چند ایسے اعلانات کیے ہیں جو شاید اس کے لیے وفا کرنے مشکل ہوں۔بلاول خود تو پاکستان کے امیر ترین سیاستدانوں میں سے ایک ہیں لیکن ان کے دل میں نوجوانوں کا غم ضرور ہے۔ انہیں اپنے کاروبار یا منصوبے شروع کرنے سے زیادہ ملازمتیں دینے کا وعدہ کیا ہے۔پیپلزبارٹی کے منشور پر امید ہے میڈیا پر تفصیلی بحث ہو گی۔
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔