(Last Updated On: )
جمہوریت ۔۔۔ یورپ میں ترقی و خوشحالی کی بنیاد اور ایک کامیاب نظام حکومت ہے ۔
جبکہ جمہوریت ہی۔۔۔ مشرقی و تیسری دنیا کے آدھے ممالک میں خود ہی ٹھکی پڑی ہے اور باقی نصف میں اس نے عوام کو ٹھوک بجا کے رکھا وا ہے۔
تو آخر یہ تضاد کیوں ہے ؟
یہ تضاد اس لیے ہے کہ ہمارے ہاں یا تو جمہوریت کو “ماسی ویڑا” بنا کے رکھا گیا ہے یا پھر “مندر کا گھنٹا”۔
میں ۔۔۔۔ ورلڈ ڈیموکرٹیک آرگنائزیشن WDO کی ہونے والی جنرل سیکرٹری کی حیثیت سے روایتی جمہوریت میں درج ذیل بیسک ریفارمز کی تجویز دوں گی :
1- دو جماعتی نظام :
اس نظام کے تحت ملک میں چھوٹی موٹی درجنوں رنگ برنگی بھانت بھانت کی سیاسی جماعتوں کے بجائے امر••یکہ کی طرح صرف 2 جماعتی نظام ہوگا ۔
تاکہ۔۔۔۔ ووٹر کارکردگی کی بنیاد پر ووٹ دے کسی تعلق کی بنیاد پر نہیں ۔
مثلا ۔۔۔ فرض کریں ایک قصبہ کی آبادی 1000 ہے اور یہاں 2 ہی سیاسی جماعتیں انتخاب لڑ رہی ہیں۔۔۔ تو ہر دو جماعتوں کو اچھی طرح سے اس بات کا ادراک ہوگا کہ برتری حاصل کرنی ہے تو بہتر سے بہترین عملی کارکردگی کا مظاہرہ کرنا پڑے گا ۔۔۔ یعنی ووٹ کے حصول کا واحد ذریعہ ان کے پاس ڈویلپمنٹ ہوگا ۔
۔۔۔ اب تصور کیجیئے کہ اسی قصبے میں 15 کے قریب رنگ برنگے جھنڈوں والی پارٹیز موجود ہیں ۔
اب یہاں کی مذہب پسند آبادی کے افراد “مسلم ڈیموکریٹک فرنٹ” کو ووٹ کرے گی۔
یہاں کے انقلاب پسند افراد ” سوشلسٹ فرنٹ”، شیعہ مسلک کے لوگ ” شیعہ ڈیموکریٹک پارٹی” ، سرائیکی لوگ ” سرائیکی قومی اتحاد”، لبرل عوام ” سیکولر ریپبلکن پارٹی ” کو ووٹ کریں گے ۔۔۔
اور اس مکس اچار سسٹم کا نتیجہ یہ نکلے گا کہ عوام ترقی و خوشحالی کے بجائے مسلک، قوم، ذات، برادری اور ذیلی نظریات کی بنا پر ووٹ کریں گے ۔۔۔۔ تو کیا برسر اقتدار آنے والی پارٹی یا پارٹیز ڈیویلپمنٹ پر فوکس کریں گی کہ اپنے ووٹرز اور نظریات کو نوازنے پر ؟
ایسے میں اگر سوشلسٹ فرنٹ جیت گیا تو اس نے سوشلزم پر ہی توجہ دینی ہے سرائیکی پارٹی جیت گئی تو بھائی پنجابی ، بلوچ، پشتون تو خود کو “دیوار سے لگا” محسوس کریں گے ۔
کدھر گئی جمہوریت ؟۔۔۔ یہ جمہوریت ہے یا چوں چوں کا مربع ؟
۔
تو واپس آتے ہیں اپنے دو جماعتی نظام کی طرف۔۔۔۔ اب وہی قصبہ ہے اور یہاں صرف 2 جماعتیں ہیں ، ” ترقی پارٹی ” اور ” خوشحالی لیگ” اب انہیں پتا ہے کہ ہم سوشلزم کارڈ، پنجابی کارڈ، شیعہ سنی کارڈ ، برادری کارڈ، زبان کارڈ کا پہلے جیسا استعمال نہیں کر سکتے ۔۔۔۔ تو فطری طور پر ان کا فوکس اصل کام یعنی تعلیم، صحت، روزگار ، معیشت اور انصاف کی طرف مرکوز ہوجائے گا ۔
اس طرح نام نہاد “سیاسی اتحاد” اور مخلوط حکومت جیسی “معاشرتی برائیوں ” سے بھی مستقل چھٹکارہ پایا جا سکتا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
2- امیدوار کی اہلیت :
میری تجویز کردہ دوسری ریفارم یہ ہے کہ کسی بھی حلقے میں صوبائی یا قومی اسمبلی کی سیٹ کے لیے انتخاب لڑنے والے امیدوار کے کاغذات نامزدگی تبھی منظور کیے جائیں گے کہ جب :
☆ اس کی تعلیم کم از کم ماسٹرز (ریگولر) ہو۔
☆ اس نے 6 ماہ کا ایک ایڈیشنل “سیاسیات” کا کورس کررکھا۔۔۔یہ کورس بعد میں ترتیب دیا جائے گا ۔
☆ اپنے حلقے اور اس کے مسائل سے اچھی طرح آگاہی رکھتا ہو جس کا فیصلہ 20 سوالات پر مشتمل مختصر انٹرویو سے کیا جائے گا ۔
☆ اس کا کوئی ثابت شدہ کرمنل ریکارڈ یا سکینڈل نہ ہو۔
☆ اشتعال انگیز تقریر ، لسانیت، نفرت کے پرچار میں ملوث افراد اس سلسلے میں تاحیات نا اہل قرار پائیں گے ۔
☆ آمدن سے زائد اثاثہ جات کے حامل امیدوار تا حیات نا اہل۔
☆ ملٹری سے ریٹائرڈ افراد کاغذات نامزدگی جمع کروانے کے بھی اہل نہیں ہوں گے۔
☆ ہر امیدوار کا ایک سائیکیٹرسٹ ٹیسٹ اور اس کے علاوہ منشیات کے استعمال کا ٹیسٹ ضروری ہوگا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
3 – ووٹر کی اہلیت :
سب سے اہم بات جسے 99% ممالک اگنور کر دیتے ہیں وہ یہ کہ ” کیا ووٹ دینے والا شخص ” اس کے اہل بھی ہے؟
نتیجتا چٹے ان پڑھ، اجڈ، بےشعور لوگ نالی پکی کرانے ، بریانی کی پلیٹ یا 500 روپیہ پر کرپٹ ترین ، بدنام زمانہ، جرائم پیشہ امیدواروں کو کامیاب کروا بیٹھتے ہیں۔
میری ریفارمز کے مطابق :
☆ ووٹ دینے کا اہل صرف وہ شخص ہوگا کہ جو کم از کم میٹرک پاس ہو۔۔۔ بھلے پھر ان کی تعداد ملک کا صرف 50% حصہ ہی کیوں نہ ہو۔
☆ معمولی سے معمولی کرمنل ریکارڈ رکھنے والا شخص بھی ووٹ دینے کا اہل نہیں ہوگا ۔
☆ اوور سیز افراد تب تک ووٹ دینے کے اہل ہرگز نہ ہوں گے کہ جب تک پولنگ سے کم از کم 3 ماہ قبل وہ ملک واپس نہ آچکے ہوں۔۔۔پولنگ کے بعد واپس جاسکتے ہیں۔۔۔اگر اتنی چھٹیاں نہیں ملتی تو مہربانی آپ کی اپنا ووٹ اپنے پاس رکھیں۔۔۔اوور سیز افراد کو ووٹ کی اہلیت دینا کسی بھی ترقی پذیر ملک کے لیے قطعا مناسب نہیں۔
☆ پولنگ سٹیشن تک پہنچنے کے لیے ٹرانسپورٹ کی ذمہ داری اور اخراجات ووٹر کے ذمہ ہوں گے۔۔۔
☆ رقم یا کھانے کے عوض ووٹ دینے والے شخص کی اگر نشاندہی ہوگئی تو وہ تاحیات ووٹر لسٹ سے خارج کردیا جائے گا ۔