آپ دنیا میں جہاں پر بھی رہتے ہیں، یہاں پر رہنے کا حق آپ کو کیسے ملا ہے؟ زمین خریدنے کا، اس کو بیچنے کا۔ اپنی فصل اگانے کا، اپنے بچوں کی پرورش اس جگہ پر کرنے کا، جو آپ کے خیال میں آپ کی ہے؟ اس کا جواب شاید پیچیدہ لگے لیکن یہ بہت ہی آسان ہے۔ طاقت اور بندوق۔ ہم نے آج تک جتنے قوانین آج تک بنائے ہیں، جتنے معاہدے کئے ہیں، مٹی پر قومی سرحدوں کی جو لکیریں کھینچی ہیں۔ ان کے پیچھے بندوق ہے۔ آپ کی قوم خواہ جتنی بھی پرامن ہو، اس کے ہونے کی سب سے بڑی وجہ بندوق ہے۔
اس چیز کو دنیا میں سب سے اچھے طریقے سے سمجھنے والے لوگ قفقاز کے پہاڑوں میں رہنے والے کاراباخ کے رہائشی ہیں۔ یہ دس ہزار سال سے یہاں پر آباد ہیں۔ آرمینین زبان بولتے ہیں اور آرمینین نسل کے لوگوں کی یہاں پر بھاری اکثریت ہے۔
آرمینین لوگوں نے اہلِ بابل سے جنگیں لڑیں ہیں، پوپمپائی کے میگنس سے، مقدونیہ کے سکندرِ اعظم سے۔ چنگیز خان سے، تیمور لنگ سے اور مملوک سے۔ عثمانیہ سلطنت سے، سٹالن سے۔ ان کی تاریخ دوسروں کی زندگی کے لئے مرنے کی تاریخ ہے اور اس میں کاراباخ وہ واحد علاقہ ہے جہاں سے ان کو کبھی نہیں نکالا جا سکا۔ یہاں کے لوگ خود کو گدھا کہتے ہیں۔ گدھا، جو اڑ جانے کی ٹھان لے تو جتنی بھی مار کھا لے، ہلتا نہیں۔
دنیا کا کوئی بھی ایک ملک ان کو تسلیم نہیں کرتا لیکن یہ یہیں پر ہیں۔ ان کو نکالنے کے لئے بڑی بندوقوں کی ضرورت ہے۔ ان کی بدقسمتی یہ کہ یہ بندوقیں آذربائیجان کے پاس موجود ہیں اور وہ ان کو استعمال کرنے سے گھبراتا بھی نہیں۔ کیونکہ اس کا بھی یہی خیال ہے کہ یہ زمین ان کی ہے۔ اس کے پاس آرمینیا سے زیادہ طاقت بھی ہے اور دنیا کی نظر میں زیادہ اہمیت بھی۔ اس علاقے کی ہزاروں سال پرانی کہانی ہے اور یہ علاقہ درجنوں بار آزادی اور تباہی کے چکروں سے گزرتا رہا ہے۔ اختصار کے لئے کہانی صرف ماضی قریب کی۔
پہلی جنگِ عظیم کے وقت سوویت انقلاب کے وقت آرمینیا کو بڑی مشکل صورتحال کا سامنا تھا۔ مشرق میں ترکی قوم پرستوں کی بیداری اس قدر بے رحم تھی کہ جینوسائیڈ کا لفظ زبان میں اس قتلِ عام کے نتیجے میں داخل ہوا۔ جنوب میں کمزور پڑتی فارس کی سلطنت اپنے ہی اندرونی اختلافات کے بوجھ تلے دب کر ڈھے رہی تھی۔ شمال کا سرخ انقلاب زوروں پر تھا۔ زارِ روس کے جبر سے سوویت جبر کا سفر جاری تھا۔ ترک قتلِ عام نے ان سب کے درمیان پھنسے آرمینیا کے لوگوں کو اکٹھا کیا۔ یہ مختلف سلطنتوں کا حصہ رہے تھے، ترکوں کی مہم میں ان کے ملک کی پوری آبادی کا تیس سے ستر فیصد قتل کیا گیا۔ (تیس فیصد یا ستر فیصد کا انحصار اس پر ہے کہ آپ کس کی بات کا یقین کرتے ہیں۔ ترکی میں اس واقعے پر بات کرنا خطرے سے خالی نہیں)۔
آرمینیا کی کہاوت ہے، “ہم آپس میں لڑتے رہتے ہیں جب تک کہ کسی دوسرے کا چاقو ہماری ہڈی تک نہ پہنچ جائے، پھر متحد ہو جاتے ہیں۔” قتلِ عام ہڈی تک پہنچنے والا چاقو تھا جس نے آرمینیا کو متحد کر دیا۔ اس خون سے ایک ہیرو پیدا ہوا۔ گیریگن نژدے جدید آرمینیا کی تاریخ کے اہم تہیرو سمجھے جاتے ہیں۔ ان کے نیشلزم کے شعلے نے آزادی کی آگے بھڑکائی۔ ان کی تحریروں اور سیاست نے اس ختم ہوتی کمزور قوم کو اکٹھا کیا۔ ان کی تحریروں نے آرمینین لوگوں کو سوویت سے ہٹ کر ایک الگ شناخت دی۔ ماسکو، باکو، ترکی، امریکہ یا ارجنٹینا میں رہنے والے آرمیین کے لئے ان کی آواز یکجا کرنے والی گھنٹی تک تھی۔ آرمینیا آزاد ہو گیا۔ لیکن یہ چند ماہ کی آزادی تھی۔ چند ہزار سویلین فوجی، جتنے بھی جوشیلے تھے، سپرپاور کے آگے نہ ٹھہر سکے۔ گیریگن نژدے بھاگے نہیں۔ یہ بیرونِ ملک رہنے والے سیاستدان نہیں تھے جو دور بیٹھ کر لوگوں کو جذباتی کر کے مرنے کے لئے چھوڑ دیتے تھے۔ یہ زار کے ساتھ مل کر ترکوں سے لڑے تھے، سوویت کے ساتھ مل کر ہٹلر کے ساتھ۔ اس وعدے پر کہ جب دھول بیٹھے گی تو ان کو آزادی دے دی جائے گی۔ لیکن معاہدوں کو اور وعدوں کو پورا ہونے کے لئے بندوق کی طاقت چاہیے۔ کاراباخ کسی کے لئے اہم نہیں تھا۔ نژدے شکست کھا گئے۔ اگلے برسوں میں تبدیلی تیزی سے آئی۔ اس تنازعے کے شعلے آج بھی بھڑک رہے ہیں۔
یہ علاقہ برطانوی سلطنت کے تسلط میں آ گیا۔ جنگ کی سیاست بے رحم ہوتی ہے۔ آرمینیا اور آذربائیجان کے پرانے نسلی جھگڑے سر اٹھانا شروع ہو گئے۔ آذر بائیجان اور آرمینیا کے درمیان کاراباغ کو برطانیہ نے متنازعہ کہہ کر دوسری طرف دیکھنے کا وعدہ جنگ میں ساتھ دینے کی شرط پر کر لیا۔ دوسری جنگِ عظیم ختم ہو گئی۔ ان لوگوں کی زمین پر ابھی جنگ شروع ہو رہی تھی۔
آذربائیجان کے ساتھ تنازعے کے دوران مارچ 1920 میں کاراباخ کا دارلحکومت شوشا، جو علاقے کا سب سے خوشحال شہر تھا، ختم کر دیا گیا۔ پورے شہر کو آگ لگا دی گئی، عمارتیں مسمار کر دی گئیں۔ تیس ہزار لوگ قتل کر دئے گئے۔ سٹالن نے آرمینیا کے لوگوں کی حمایت حاصل کرنے لئے سوویت افواج کو بھیجا لیکن کاراباخ کا خواب سراب رہا۔ اتاترک کے ساتھ دوستی کرنے کی خواہش میں کاراباخ کو سوویت دور میں آذربائیجان کا حصہ بنا دیا گیا۔ اگلے ساٹھ برس تک آذربائیجان اور دوسرے علاقوں سے لوگ یہاں لوگ آ کر بسنا شروع ہو گئے۔ یہ علاقہ ان کا بھی گھر بن گیا۔ سرخ فوج نے ہونے والے احتجاج کچل دئے۔ وقت آگے بڑھ گیا۔
جب سوویت یونین 1988 میں زوال پذیر ہوا تو یہاں پر بھی پرانے زخم پھر کھل گئے۔ بے چینی، بغاوت، ماورائے عدالت قتل، ہر جگہ پر واپس آ گئے۔ کئی نسلوں سے سوئے ہوئے اختلافاقت واپس آ گئے۔ نسلی منافرتیں لوٹ آئیں۔ سوویت یونین اپنی بقا کی جنگ میں تھا۔ ان کے لئے یہ لوگ اہم نہیں تھے۔ لاکھوں لوگوں کو بے گھر ہونا پڑا۔ ان میں آرمینین بھی تھے، آذری بھی، تاتاری بھی، جیورجین بھی، ایرانی بھی۔
سوویت یونین 1991 میں ختم ہو گیا۔ نگورنو کاراباخ میں ریفرنڈم ہوا۔ ووٹ کا نتیجہ تقریبا متفقہ تھا۔ سب نے آزاد ریاست کے لئے ووٹ دیا۔ لیکن آرستاخ کی ریاست غیرقانونی قرار پائی اور آذربائیجان سے جنگ شروع ہو گئی۔ اس جنگ میں آرتستاخ کو شکست ہوئی لیکن یہ جنگ ختم نہیں ہوئی۔ آذربائیجان کا عسکری بجٹ آرتساخ کے جی ڈی پی سے زیادہ ہے لیکن وہ اس پر کنٹرول حاصل نہیں کر سکا۔ آذربائیجان نے یہاں پر دولتِ اسلامیہ سے لوٹنے والے جنگجووٗں کو بھی استعمال کیا گیا جنہوں نے سربریدہ لاشوں کی نمائش اور لوگوں سر قلم کرنے کی ویڈیوز فیس بُک پر پوسٹ کرنے کے آزمودہ اور بے رحمانہ طریقے بھی اپنائے۔ قدیم عمارتوں کو بارود سے اڑا کر تاریخ متانے کی کوشش کی۔ بارودی سرنگیں بچھائیں۔ لوگوں کو گھروں میں گھس کر قتل کیا۔ لیکن اس سب کا اثر الٹ ہوا۔ کسی کو دیوار سے لگا کر ساتھ نہیں ملایا جا سکتا۔ جب بقا کا خطرہ ہو تو مزاحمت شدید ہوتی ہے۔ آذربائیجان کا یہاں پر کوئی عملی کنٹرول نہیں۔ اس کے جھگڑے پر آذربائیجان اور آرمینیا کے بیچ جنگیں ہو چکی ہیں۔
آج دنیا میں ایک بھی ملک نہیں جو جمہوریہ آرستاخ کی آزادی کو تسلیم کرتا ہے لیکن آرتساخ میں اپنا نظام چل رہا ہے۔ انہوں نے اپنے میوزیم بنا لئے ہیں، اپنی یونیورسٹیاں کھڑی کر لی ہیں۔ اپنے انتخابات اور اپنی حکومت۔ اپنا صدر اور اپنی اسمبلی۔ یہاں تک کہ وزارتِ خارجہ بھی۔ یہ دنیا کے بدلنے کا انتظار کر رہے ہیں۔ اس وقت تک یہ اپنی آزادی کو اپنی بندوقوں کی مدد سے قائم رکھے ہوئے ہیں۔
دنیا کے کسی نقشے پر کوہِ قفقاز کا یہ ملک موجود نہیں۔