جمہوری حکومت کہیں نہیں جارہی۔۔۔۔۔
گزشتہ روز قومی اسمبلی میں جس خیال کی توقع کی جارہی تھی ،وہ کچھ قومی اسمبلی میں دیکھنے کو ملا ۔ویسے اس حوالے سے بہت سے انیکرز اور تجزیہ کار پریشان اور حیران ہیں کہ یہ کیا ہوگیا ،لیکن میرا نقطہ نظر کچھ مختلف ہے ،جو ہوا ہے ایسا ہی ہونا تھا اور ایسا ہی ہونا چاہیئے تھا ۔وہ میڈیا جو pro government ہے وہ ضرور فاتح نظر آیا ہے ،اس میڈیا کی یہ بہت بڑی جیت ہے ،ان کے مطابق جمہوریت گزشتہ روز پارلیمنٹ میں جشن مناتی نظر آئی ہے ،ان کے مطابق اپوزیشن ناکام ہوگئی ،سازشیں ناکام ہوگئی،اور ایک بار پھر نوازشریف فاتح بنکر ابھرے ۔وہ میڈیا جو anti government ہے،اس کے لئے گزشتہ دن جمہوریت کے لئے یوم سیاہ تھا ،اس کے مطابق قومی اسمبلی میں جمہوریت پسند سیاستدانون نے جمہوریت کی توہین کی ،لیکن یہ بھی سچ نہیں ،یہ بھی منافقت اور جھوٹ ہے ،سچ کیا ہے ،اس کی کہانی بتانا بہت ضروری اور اہم ہے ۔آیئے اس سچ کو ڈھونڈنے یا تلاش کرنے کی کوشش کرتے ہیں ۔ایک ہیں پی پی پی کے ایم این ائے ،جن کا نام سید نوید قمر ہے ،ان کی طرف سے ایک بل پیش کیا گیا ،اس بل پر ووٹنگ کی گئی ،بل میں تحریر تھا کہ الیکشن ایکٹ 2017 میں سے سیکشن 203 کو ہٹایا جائے ،یہ وہی سیکشن ہے جس کی وجہ سے نااہل وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف کو پارٹی کے صدر رہنے کی اجازت دی گئی ہے ۔ووٹنگ ہوئی اور مسلم لیگ ن کو بھاری اکثریت سے کامیابی حاصل ہوگئی ۔سید نوید قمر کی طرف سے پیش کئے گئے بل کے حق میں 98 ووٹ پڑے ،163 ووٹ مسلم لیگ ن کے حق میں پڑے ،یعنی نواز شریف کے حق میں پڑے ،اس کا مطلب ہے نوید قمر کی طرف سے جو کہا گیا تھا کہ شق کو نکال دیا جائے ،ممبران قومی اسمبلی نے اس کو رد کردیا اور واضح پیغام دیا کہ شق کو نکالنے کی کوئی ضرورت نہیں ۔مسلم لیگ کے ممبران کی کل تعداد 188 ہے ،اتحادیوں کے ووٹ بھی شامل کردیئے جائیں تو 213 ووٹ بنتے ہیں ۔213 میں سے مسلم لیگ ن کو 163 ووٹوں کی حمایت حاصل رہی ۔اس کے علاوہ قومی اسمبلی میں جوشیلے ممبران نے دھواں دھاڑ تقریریں کی ،تمام تقاریر جمہوری اصولوں اور رویات کے مطابق تھی ،قومی اسمبلی کی کاروائی دیکھنے والا ہر جمہوریت پسند انسان جوش و خروش کا مظاہرہ کرتا نظر آیا ۔خواجہ آصف ،شاہ محمود قریشی اور زاہد حامد کی تقاریر سے ثابت ہوا کہ جمہوریت ابھی تھوڑی بہت زندہ ہے ۔ شاہ محمود قریشی نے جذبات کا مظاہرہ کرتے ہوئے درویشانہ انداز میں کہا کہ ایسا انسان جو صادق اور امین نہ رہے وہ کیسے پارٹی کا صدر بن سکتا ہے ،شاہ جی سے بس اتنا کہنا ہے کہ اگر صادق اور امین ہی شرط ہے تو پورے پاکستان کا ایک انسان بھی ووٹ کا اہل نہ رہے ۔شاہ جی جب الیکشن ریفارمز ایکٹ سینٹ سے منظور ہوا تھا تو اس وقت تو آپ سب خاموش تھے ،یا شاید الیکشن ایکٹ کی طرف دھیان ہی نہیں گیا ہوگا ،یا شاید کسی نے وہ ایکٹ پڑھا نہیں ہوگا ،اس لئے منظور کر لیا گیا ۔ایک ہیں عمران خان جنہوں نے اس ایکٹ کو سپریم کورٹ میں چیلنج کررکھا ہے ،وہ بھی گزشتہ روز قومی اسمبلی میں تشریف نہیں لائے ۔اس کے علاوہ فضل الرحمان ، محمدواچکزئئ اور آفتاب شیر پاو نے بھی قومی اسمبلی میں آنا مناسب نہیں سمجھا ۔مسلم لیگ کے ایک بلوچ ایم این ائے جو کینسر کے مریض ہیں ،ووٹ ڈالنے کے لئے تشریف لائے جس پر میں انہیں سلام پیش کرنا چاہتا ہوں۔وزیر قانون زاہد ھامد نے شاہ محمود قریشی اور خورشید شاہ کی تقاریر کا مدلل جواب کچھ یوں دیا ۔ان کا کہنا تھا کہ انیس سو باسٹھ پولیٹیکل پارٹی ایکٹ جنرل ایوب خان کے زمانے میں نافذ کیا گیا تھا ،اس میں سیکشن پانچ کے تحت نااہلی کی شرائط رکھی گئی تھی ،جس میں کہا گیا تھا کہ اگر کوئی سیاستدان نااہل ہوجائے تو وہ کسی سیاسی جماعت کا عہدہ اپنے پاس نہین رکھ سکتا ۔،لیکن جب بھٹو کی حکومت آئی ،جو کہ پیپلز پارٹی کے بانی تھے،تو شق ۵ کو ایکٹ سے نکال دیا گیا ،یہ قصہ ہے 1975 کا ،یہ سیکشن پانچ پھر دہائیوں تک لاپتہ رہا ،کسی نے اس دوران کوئی اعتراض نہیں اٹھایا ۔پھر 2002 میں جنرل مشرف کو اچانک خیال آیا کہ political parties amendment act جاری کیا جائے ،وجہ واضح تھی انہوں نے نواز شریف اور بے نظیر کو فارغ کرنا تھا ،اس لئے شق پانچ کو دوبارہ بل کا حصہ بنادیا گیا ۔ بھیا جمہوریت نمبرز گیم کا نام ہے اور گزشتہ روز نمبرز کی یہ گیم مسلم لیگ ن والے جیت گئے ۔اور یہی سب سے بڑی بیکنگ نیوز تھی ،لیکن بریکنگ نیوز نیوز چینلز پر کچھ اور چلتی رہی ۔ائے آر وائی ،نائن ٹی ٹو نیوز ،بول وغیرہ کے تمام اینکرز اور سیاسی تجزیہ کاروں سے ایک تعزیت بنتی ہے وہ یہ کہ ان کی کوئی پیشن گوئی بھی درست ثابت نہیں ہو سکی ،ویسے جس چینل میں میں کام کرتا ہوں ،اس سے بھی تعزیت کا اظہار کرنا چاہتا ہوں ۔عظیم اور عالی مقام تجزیہ کار یہ فرماتے رہے کہ مسلم لیگ میں ایک فارورڈ بلاک بن گیا ہے ،جس میں 72 قومی اسمبلی کے ممبران ہیں ۔وہ ن سے بھاگنے کی کوششیں کررہے ہیں ۔وہ نوید قمر کے بل کی حمایت کریں گے ،لیکن ایسا نہ ہوسکا ۔جب ن فاتح بن گئیں تو تجزیہ کاروں اور اینکرز نے یہ سوال اٹھانا شروع کردیا کہ ن کے 188 ممبران تھے 163 نے ووٹ دیا ،باقی کہاں لاپتہ ہو گئے ۔اب اس پر بحث و مباحثہ جاری ہے ۔اس کو کہتے ہیں سیانی بلی کھمبا نوچے۔بھیا نمبرز گیم وہ جیت گئے پہلی بریکنگ نیوز تو یہی ہے ۔وہ کہتے تھے نثار پراسرار مخلوق ہے ،نواز شریف سے ناراض ہے ،لیکن اس نے بھی ن اور نواز کا ساتھ دیا ۔وہ انسان جسے فارورڈ بلاک کا گرو کہا جارہا تھا یعنی ریاض ہیرزادہ وہ بھی قومی اسمبلی میں نواز کے ساتھ کھڑا نظر آیا ۔کہا جاتا رہا کہ شریف فیملی مین دڑار ہے لیکن حمزہ شہباز شریف بھی قومی اسمبلی میں موجود تھے اور تایا ابو کے ھق مین ووٹ ڈالا ۔قومی اسمبلی میں وہ فارورڈ بلاک کیوں نظر نہیں آیا جس کا زکر کرکے شاہد مسعود نے سامعین اور تماش بینوں کو خوش کیا ہوا تھا ۔یہ شاہد مسعود کتنا برا سیاسی جانور ہے جس کی ہر پیشن گوئی اس کے منہ پر چماٹ کی طرح برستی ہے ۔ویسے ایک بات کا تو سب کو پتہ چل گیا کہ شریفوں کی سرکار کہیں نہیں جارہی ،چاہے شریف کی جگہ عباسی کو ہی کیوں نہ بٹھا دیا جائے ۔گزشتہ روز کے فاتح تو نواز بھائی ہی رہیں ہیں ۔۔لیکن ڈاکٹر شاہد جیسے سیاسی تجزیہ کاروں کو فکر کرنے کی ضرورت نہیں وہ مزید جھوٹے تجزیئے اور پیشن گوئیاں کرسکتے ہیں ،وہ جھوٹے نجومی کا کردار ادا کرتے رہیں کیونکہ عوام ان سے بور نہیں ہوگی اور ان پر یقین فرماتی رہے گی ۔بھیا لاپتہ ممبران جہاں بھی ہوں ،اس کی ٹینشن مت لو،دیکھو جیتا کون ؟ٹھیک ہے یہ سوال اہم کہ ن کے اتحادیوں کو ملاکر 220 ووٹ بنتے ہیں ،باقی کہاں تھے سوال اہم ہے؟اپوزیشن کے بھی تو 116 ووٹ بنتے ہیں ،ووٹ پڑے 98,یہ کہاں تھے ؟یہ خبر بھی تو بریکنگ کرکے چلاو اور پتہ کرو یہ اپوزیشن والے کہاں لاپتہ ہو گئے ہیں ؟بل زندگی اور موت کا مسئلہ تھا تو تمام اپوزیشن کھڑی ہوتی ۔عمران خان کو خود قومی اسمبلی میں آنا چاہیئے تھا ،وہ کیوں نہیں آئے ؟یہ بھی بریکنگ نیوز تھی ؟لیکن ظفراللہ جمالی کی بریکنگ چلی کہ جی ن کا جمالی اپوزیشن کو ووٹ دے گیا ۔یہ ہے میڈیا ۔اپوزیشن کو جو ووٹ پڑے اس کا ٹرن آوٹ 84 فیصد تھا ،ن کو جو ووٹ پڑے اس کا ٹرن آوٹ 80 فیصد تھا ،یہ بھی بریکنگ تھی ،جس پر نیوز چینلز کے لوگوں نے توجہ نہیں دی ۔اچھا دیکھا جائے تو قومی اسمبلی کے گزشتہ روز کا نتیجہ NA12O جیسا دیکھائی دیا ۔ویسے ن جیت گئی ،اگر ہار بھی جاتی تو پھر بھی حکومت کہیں نہ جاتیں ،ایک بات تو ثابت ہوگئی کہ حکومت ہار سکتی ہے ،اپوزیشن ہار سکتی ہے ،لیکن ڈاکٹر شاہد مسعود کا تجزیہ کبھی شکست نہین کھا سکتا ،ہے نہ مزیدار بات ۔ویسے قومی اسمبلی میں کوئی آئے یا نہ آئے ،قومی اسمبلی کا کام چلتا رہتا ہے ،اور یہی قومی اسمبلی کا کام ہے ۔آخر میں معصوم عوام کے سامنے ایک پیشن گوئی مین بھی کردیتا ہوں کہ ٹینشن نہیں لینے کا ،یہ حکومت اپنی مدت پوری کرے گی ۔دھڑنے والے بھی چلے جائین گے اور میڈیائی سازشیں بھی ہمیشہ کی طرح ناکام ہوں گی ۔
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔