ملیے ناسا کی مستقبل کی جدید خلائی دوربین سے جسکا نام ہے “نینسی گریس رومن ٹیلیسکوپ” جو ایک خاتون سائنسدان ڈاکٹر نینسی گریسی کے نام سے منسوب کی گئی ہے۔ ڈاکٹر نینسی 60 کی دہائی کے اوائل میں ناسا کی چیف آف ایسٹرانومی (فلکیات) تھیں۔ اور وہ پہلی سائنسدان تھیں جنہوں نے یہ خیال پیش کیا کہ ایک خاص طریقہ کار کے ذریعے جسے کرونوگرافک ماسکنگ کہتے ہیں، ایک خلائی دوربین سے دیگر ستاروں کے گرد گھومتے سیارے جنہیں ہم ایگزوپلینٹس کہتے ہیں، ڈھونڈا یا دیکھا جا سکتا ہے۔ جس طرح آپ تیز سورج میں روشنی میں ماتھے پر ہاتھ کا چبوترہ سا بنا کر آسمان پر کوئی شے دیکھتے ہیں جو اس وجہ سے نظر آتی ہے کہ آپ سورج کی زیادہ روشنی کو ہاتھ سے ایک طرح سے بلاک کر دیتے ہیں سو آپکی انکھ کم روشن شے کو دیکھ سکتی ہے بالکل ویسے ہی ڈاکٹر نینسی نے بتایا کہ ایک کرونوگراف ماسک کو ٹیلیسکوپ سے جوڑ کر ستاروں سے آنے والی روشنی کو بلاک کر کے اسکے گرد ستارے سے کم کم روشن سیارے دیکھے جا سکتے ہیں۔ یہ ٹیکنالوجی آج ہبل اور جیمز ویب ٹیلیسکوپ دونوں میں استعمال ہو رہی ہے۔
جیمز ویب ٹیلسکوپ کی طرح یہ نئی ٹیلیسکوپ جسے مئی 2027 میں خلا میں بھیجا جائے گا، انفراریڈ روشنی میں کائنات کا مشاہدہ کرے گی۔ انفراریڈ وہ روشنی ہے جو عام آنکھ سے نظر نہیں آتی۔ اور اسکے لیے مخصوص ڈیٹیکٹرز کی ضرورت ہوتی ہے جیسا کہ آپ انفراریڈ کیمروں میں دیکھتے ہیں۔
جیمز ویب ٹیلی سکوپ کی طرح اسے بھی زمین سے کئی لاکھ کلومیٹر دور خلا میں لنگریج پوائنٹ 2 پر مدار میں چھوڑا جائے گا۔ یہ خلا میں وہ جگہ ہے جہاں سورج اور زمین کی کششِ ثقل کے توازن کے باعث اس ٹیلسکوپ کا مدار مستحکم رہے گا۔ اس ٹیلسکوپ کا کائنات کو دیکھنے والا مِرر یعنی آئینہ جیمز ویب کے مِرر سے تقریباً تین گنا چھوٹا یعنی 2.4 میٹر کا ہو گا یعنی کہ اتنا ہی سائز جتنا ہبل ٹیلسکوپ کے مِرر کا ہے۔ مگر یہ ہبل سے زیادہ وسیع علاقے میں ایک وقت میں تصویر کھینچھ سکے گی یعنی اسکا فیلڈ آف ویویو ہبل سے زیادہ ہو گا۔
اس نئی اور جدید ٹیلیسکوپ میں 300.8 میگا پکسل کا کیمرہ نصب ہو گا جو کہکشاؤں اور ستاروں کی نہایت تفصیلی تصاویر کھینچے گا جبکہ اسکے ساتھ ساتھ کرونگرافر بھی جو ستاروں سے آنے والی روشنی کے زیادہ تر حصے کو بلاک کر کے انکے گرد گھومتے زمین جیسے سیاروں کو ڈھونڈے گا۔ اور اس میں موجود سپیکٹرومیٹر یعنی ایسا سائنسی آلہ جو سیاروں کی فضا سے گزرنے والی مدہم روشنیوں کا جائزہ لیکر یہ بتائے گا کہ دریافت کیے گئے سیاروں میں کن پر زندگی ہو سکتی ہے۔
اس ٹیلسکوپ کو 2027 میں ایلان مسک کی کمپنی سپیس ایکس اپنے راکٹ کے ذریعے خلا میں بھیجے گی۔ اس ٹیلسکوپ کے دو اہم سائنسی مقاصد میں سے ایک ڈارک انرجی کے متعلق معلومات حاصل کرنا ہے جبکہ دوسرا کائنات میں سیاروں کی تلاش جو زمین جیسے ہوں یا جہاں زندگی کے آثار موجود ہوں۔ یہ ٹیلیسکوپ 2027 سے 2032 یعنی ہانچ سال تک کام کرنے کے لیے بنائی جائے گی۔ اور اس دوران یہ انسانی علم میں اضافے کے ساتھ ساتھ سائنسدانوں کو کائنات کے کئی اہم راز کھولنے میں مدد دے گی۔
ڈاکٹر شہباز ملک پہلا پنجابی پی ایچ ڈی
ڈاکٹر شہباز ملک پنجابی زبان و ادب کی دنیا میں ایک مشہور و معروف نام ہیں۔ وہ پاکستان میں پنجابی...