اس بار اس کے بچنے کی امید معدوم تھی ، دماغی سکتے کا تیسرا حملہ ہوا تھاــ وہ چھٹیوں کے دن تھے اور میں ہر رات چہل قدمی کرتا ہوا جب اس کے گھر کے سامنے سے گزرتا تو کھڑکی کے روشن چوکھٹے کو بغور دیکھا کرتا ــ آخر کئی راتوں کے بعد مجھے اندازہ ہوا کہ یہ تو ہمیشہ ہی مدھم سی روشن رہتی ہے ۔
میں نے سوچا اگر وہ مرگیا ہو تو میں کھڑکی کے اندھیرے میں چھپے پردوں پر مومی شمعوں کا عکس دیکھ سکوں گا کیونکہ میں جانتا تھا کہ دو شمعیں میت کے سرہانے روشن کی جاتی ہیں –
وہ اکثرمجھ سے کہا کرتا تھا : ” میں اس دنیا میں زیادہ عرصے رہنے والانہیں ” اور میں سوچا کرتا اس کے الفاظ کتنے بے جان ہیں – لیکن اب میں نے جانا کہ وہ سچ ہی تھے – ہر رات جب میں چہل قدمی کرتا ہوا کھڑکی کے پاس سے گزرتا اور خود کلامی کرتے ہوئے فالج کا لفظ دہراتا – ہر بار یہ لفظ اپنے کانوں کو اجنبی ہی محسوس ہوتا جیسے اقلیدس کی کتاب میں مقیاس کا لفظ یا پھر عبادت میں خرید و فروخت کا لفظ ہو – لیکن اب یہ مجھے کسی گنہگار اور بد قماش انسان کے نام کی طرح محسوس ہو رہا تھا – میرا دل جیسے خوف سے بھر گیا ، ابھی تو مجھے اسکی موت سے متعلق تفصیلی رسومات کو قریب سے دیکھنے کا انتظار کرنا تھا اور اس کی وحشتوں کو جاننا تھا –
سہ پہر کی چائے کے لئے نچلی منزل کی سیڑھیوں سے اترا تو میں نے دیکھا ، بوڑھا کوٹر آتش دان کے پاس بیٹھا تمباکو پی رہا تھا – جبکہ آنٹی میرے لئے بنائے گئے دلیہ میں چمچہ چلا رہی تھیں ،
وہ یوں گویا ہوا جیسے اپنے کسی پرانے خیال کی تجدید کر رہا ہو ” نہیں میں یہ نہیں کہہ سکتا کہ وہ واقعی میں ۔۔۔۔۔ لیکن اس میں کچھ نہ کچھ عجیب و غریب ۔۔۔۔۔ کچھ پراسرار ضرور تھا –
میں تمہیں اپنے خیال کے بارے میں بتاؤں گا ۔۔۔۔”
وہ اپنا پائپ بھرنے میں مشغول ہو گیا ایسا لگتا تھا جیسے اپنے پراگندہ خیالات کو مجتمع کر رہا ہو – درماندہ بوڑھا خبطی !، ہماری واقفیت کے ابتدائی دنوں میں وہ بدروحوں اور چھلاوں کی باتیں کرتا ہوا کافی دلچسپ لگتا لیکن میں جلد ہی اس کی شراب کی فیکٹری سے وابستہ کبھی نا ختم ہونے والی کہانیوں سے تنگ آ چکا تھا
” اس کے متعلق میر١ اپنا ایک نظریہ ہے ، ” میرا خیال ہے وہ ان چند ۔۔۔۔ عجیب واقعات میں ۔۔۔ سے ایک تھا ۔۔۔۔ لیکن یہ کہنا مشکل ہو گا ۔۔۔۔۔۔کسی نظریے کی وضاحت کئے بغیر اس نے ایک بار پھر اپنا پائب بھرا –
میرے انکل نے مجھے اپنی طرف متوجہ پا یا تو مجھ سے کہنے لگے ” تمہیں یہ سن کر افسوس ہو گا ، کہ تمہارا بوڑھا دوست مر چکا ہے ، ۔”
” کون ؟ میں نے پوچھا
” فادر فلائن ”
” کیا وہ مرچکا ہے ؟”
“مسٹر کوٹر یہاں موجود ہیں انہوں نے ابھی بتایا – وہ اس کی قیام گاہ ہی سے آ رہے تھے ۔”
میں سمجھ گیا میرے چہرے کے تاثرات کا جائزہ لیا جا رہا ہے مگر کھانے میں مشغول ہو گیا اور یوں ظاہر کیا جیسے اس خبر میں میرے لئے کوئی خاص بات نہ تھی –
میرے انکل نے بوڑھے کوٹر کو واضح کرتے ہوئے کہا
” میرا بھانجا اور وہ بہت اچھے دوست تھے – بزرگوار نے اسے بہت کچھ سکھایا ، ذرا خیال کرنا ؛ لوگوں کا کہنا تھا کہ وہ اس کے لئے کوئی بڑی خواہش رکھتے تھے”-
” خدا ان کی روح پر اپنا کرم کرے ” میری آنٹی نے عقیدت بھرے لہجے میں کہا
بوڑھا کوٹر کچھ دیر تک مجھے دیکھتا رہا ، میں نے محسوس کیا جیسے اس کی چھوٹی چھوٹی چمکتی ہوئی آنکھیں مجھے ٹٹول رہی تھیں لیکن میں پلیٹ سے نظر اٹھا کر اس کا مقصد پورا نہ ہونے دینا چاہتا تھا – وہ دوبارہ اپنے پائپ کی طرف متوجہ ہو گیا اور بڑی نخوت سے پیک دان میں تھوکتے ہوئے بولا ” میں اپنے بچوں کے لئے یہ بالکل پسند نہیں کروں گا کہ ان کے پاس ایسے آدمی کے لئے کہنے کو بہت کچھ ہو ”
آپ کیا کہنا چاہ رہے ہیں ، کوٹر صاحب ؟” میری آنٹی نے پوچھا
“میرے کہنے کا مطلب یہ ہے ،”بوڑھے کوٹر نے کہا ، “یہ بچوں کے لئے اچھا نہیں “میرا خیال ہے کہ نوجوانوں کو اپنی عمر کے لوگوں میں ملنا جلنا چاہئے نا کہ ۔۔۔۔۔میں ٹھیک کہہ رہا ہوں نا ، جیک ؟
” میرا بھی ایک اصول ہے ،” میرے انکل نے جواب دیا ” کہ اسے اپنی دنیا خود دریافت کرنے دو – یہی بات میں ان صوفیوں سے بھی ہمیشہ سے کہتا آ رہا ہوں : کچھ ہاتھ پاؤں چلاؤ – مجھے دیکھو ، میں جب بچہ تھا تب سے ہی گرمی ہو یا سردی ، صبح سویرے اٹھ کر ٹھنڈے پانی سے غسل کیا کرتا تھا ، اور یہی طریقہ میرے لئے آج بھی بہت معنی رکھتا ہے – تعلیم ہی اصل میں نفاست اور وسیع النظری سکھاتی ہے ۔۔۔۔
“کوٹر صاحب ۔۔۔۔ بکرے کی ران میں سے کچھ اور لیجئے ،” میری آنٹی نے مخاطب ہوتے ہوئے کہا
” نہیں ، نہیں ، کم ازکم ۔۔۔۔ میرے لئے نہیں ،” بوڑھے کوٹر نے کہا
میری آنٹی نے نعمت خانے سے ڈش نکالی اور کھانے کی میز پر لا کر رکھتے ہوئے کوٹر سے پوچھا ” لیکن آپ ایسا کیوں سمجھتے ہیں کوٹر صاحب ! کہ یہ بچوں کے لئے اچھا نہیں ؟”
“یہ بچوں کے لئے برا ہے ” بوڑھے کوٹر نے وضاحت کرتے ہوئے کہا ” کیونکہ ان کے ذہن کچے آسانی سے اثر قبول کر لیتے ہیں –
بچے جب اس طرح کی چیزیں دیکھتے ہیں ، تم سمجھ رہی ہو نا ، ان کا گہرا اثر ہوتا ہے ۔۔۔۔۔۔”
میں نے اپنا منہ دلیہ سے بری طرح بھر لیا۔۔۔۔ اس خوف سے ۔۔۔۔مبادا غصے میں اول فول نہ بکنے لگوں –
ہمم ۔۔۔۔۔ سرخ ناک والا جھکی بوڑھا! میں نے دل میں کہا
جب میں سونے لیٹا تو کافی رات ہو چکی تھی – میں بوڑھے کوٹر کی بات سے سخت خائف تھا جو وہ مجھے بچہ کہنے پر بضد تھا –
میں نے اپنے سر کو جھٹکا اور اس کے ادھورے جملوں کو جوڑ کر معنی اخذ کرنے کی کوشش کرنے لگا –
کمرے کے ملگجے اندھیرے میں چشم تصور سے میں نے اس بھاری بھر کم ، فالج زدہ ، بے رونق چہرے کو دیکھا –
تو گھگیا کر اپنا سر کمبل میں ڈھانپ لیا اور کرسمس کے بارے میں سوچنے کی سعی کرنے لگا –
لیکن وہ اجڑا ہوا بے رونق چہرہ میرا پیچھا کئے جا رہا تھا ۔۔۔۔۔ اس نے سرگوشی کی ۔۔۔۔۔ یوں جیسے وہ کسی بات کا اعتراف کرنا چاہتا تھا –
مجھے ایسا محسوس ہوا گویا میری روح کسی پرسکون گہرائی میں اترتی جا رہی ہو ؛ مگر ۔۔۔۔ وہ ۔۔۔وہاں بھی موجود تھا اور میرا انتظار کر رہا تھا –
اس نے ایک بار پھر اپنی مدھم آواز میں اعتراف کرنا شروع کر دیا مگر میں اس بات پر حیران ہو رہا تھا کہ آخر وہ مسلسل کیوں مسکرا رہا ہے اور اس کے ہونٹ تھوک میں اتنے لتھڑے ہوئے کیوں ہیں –
تبھی مجھے خیال آیا ۔۔۔۔اوہ ۔۔ وہ تو فالج میں مبتلا ہو کر مرا تھا یکبارگی مجھے محسوس ہوا جیسے میں خود بھی غیر محسوس انداز میں مسکرا رہا تھا شائد میں نے اسے گناہ سے آزاد کرنے کا سودا کر لیا تھا
اگلی صبح ناشتے کے بعد میں گریٹ برطانیہ سٹریٹ پر واقع اس کے چھوٹے سے مکان کو دیکھنے چلا گیا – یہ ایک سادہ سی دکان تھی ، جو کہ پردوں اور کپڑے کی چیزوں کے مبہم سے نام سے موسوم تھی – یہ اشیا زیادہ تر بچوں کے جوتوں اور چھتریوں پر مشتمل تھیں ؛ عام دنوں میں کھڑکی پر ایک نوٹس بھی لگا ہوتا تھا جس پر لکھا تھا : چھتریاں دستیاب ہیں – لیکن اب شٹر اٹھنے پر کوئی نوٹس دکھائی نہیں دے رہا تھا – ہاں ۔۔ ایک تعزیتی گلدستہ دروازے کے ہینڈل کے ساتھ ربن سے بندھا ہوا تھا –
دو غریب سی عورتیں اور ٹیلیگرام والا لڑکا گلدستے کے ساتھ پن سے لگے کارڈ پر لکھی تحریر پڑھ رہے تھے – میں بھی وہاں پہنچ گیا اور پڑھنے لگا :
یکم جولائی ، ١٨٩٥
آنجہانی ریو جیمز فلائن (سابقہ مین اسٹریٹ پر واقع سینٹ کیتھرین چرچ سے وابستہ )
عمر ٦٥ سال
خدا ان کی مغفرت فرمائے
اس تحریر نے مجھے قائل تو کر دیا کہ واقعی وہ مرچکا تھا لیکن پھر ہونے والے یقین نے مجھے بہت پریشان کر دیا تھا –
اگر وہ نہیں مرا ہوتا تو شائد دکان کے پیچھے بنے ہوئے چھوٹے سے اندھیرئے کمرے میں جا کر اس سے مل چکا ہوتا وہ آتش دان کے پاس بچھی آرام کرسی پراپنے بڑے سے کوٹ میں تقریبآ گم ہوا بیٹھا ہوتا –
شائد میری آنٹی نے مجھے اس کے لئے ہائی ٹوسٹ کا پیکٹ دیا ہوتا اور یہ تحفہ اسے اسکی افیمچیوں جیسی نیند سے جگا دیتا ہمیشہ میں ہی پیکٹ اس کی سیاہ نسوار کی ڈبیہ میں بھرا کرتا تھا کیونکہ اس کے حد درجہ کانپتے ہوئے ہاتھ اس بات کی اجازت نہیں دیتے تھے کہ وہ آدھی سی زیادہ نسوار فرش پر گرائے بغیر ڈبے میں ڈال سکتا – حتیٰ کہ جب وہ اپنا بڑا سا کانپتا ہوا ہاتھ کوٹ سے نکال کر اپنی ناک تک لے جاتا اور دھوئیں کے باریک سے مرغولے کو اپنی انگلیوں میں لیپٹنے کی کوشش کرتا تو وہ اس کی انگلیوں سے پھسل پھسل جاتے-
اچھا ۔۔۔ تو یہ نسوار کی مسلسل پھوار ہی کا شاخسانہ ہو گا جس نے اس کے قدیم پروھیتی لباس کو اڑی ہوئی سبز رنگت عطا کر دی تھی اور اس کے ہمہ وقت ساتھ رہنے والا لال رومال جس سے وہ نسوار کے گر جانے والے دانوں کو جھاڑنے کی کوشش کیا کرتا تھا جو دھبوں سے کالا پڑ چکا تھا یعنی وہ بھی اسے صاف رکھنے میں قطعی ناکام رہا تھا
میرا دل چاہا کہ اندر جاؤں اور اسے دیکھوں لیکن دستک دینے کی ہمت نہ ہوی ۔۔۔ میں واپس ہو لیا اور سڑک کی دھوپ والی جانب دھیرے دھیرے چلنے لگا ، ساتھ ہی دکانوں کی کھڑکیوں میں آویزاں تھیٹر کے اشتہاروں کو پڑھتا چلا جا رہا تھا – مجھے بڑا عجیب سا لگا کہ نہ میں اور نہ ہی کوئی اور سوگ کے موڈ میں تھا بلکھ مجھے تو اپنے اندر کسی قید سے رہائی پانے کے سنسنی خیز احساس سے چڑ سی ہو رہی تھی ، جیسے مجھے اس کی موت نے کسی بوجھ سے آزاد کر دیا ہو – میں اس گفتگو کے متعلق سوچ رہا تھا جو پچھلی رات میرے انکل نے کی تھی کہ اس نے مجھے بہت کچھ سکھایا تھا – اس نے روم میں واقع آئرش کالج سے پڑھا تھا اور مجھے لاطینی زبان کا درست تلفظ سکھا رہا تھا – اس نے مجھے تہ خانوں کی قبروں کی کہانیاں سنائی تھیں اور نپولین بونا پارٹ کے بارے میں بتایا تھا ، اور اس نے مجھے مذہبی رسم )ماس کی مختلف تقریبات کے معنی بھی سمجھائے تھے مزید برآں یہ کہ ان میں پادری کس قسم کے لباس پہنا کرتے تھے –
کبھی کبھار وہ مشکل سوالات پوچھ کر محظوظ ہوتا مثلا ً مجھ سے پوچھتا ” کسی کو مخصوص حالات میں کیا کرنا چاہئے یا کون سے گناہ نا قابل معافی ہیں اور کون سے صغیرہ یا پھر محض چھوٹی موٹی غلطیاں – اس کے سوالوں سے ظاہر ہوتا تھا کہ چرچ کی دنیا کتنی پیچیدہ اور پراسرار تھی جبکہ میں ان کو بہت ہی سادہ افعال سمجھتا تھا – پادری کی زمہ داریاں اور فرائض جو یو کرائسٹ اور لوگوں کے اقبالی بیانات کی راز داری برتنے سے متعلق ہوتے تھے مجھے اتنے زیادہ مشکل معلوم ہوتے تھے کہ میں اکثر سوچا کرتا آخر کوئی اتنی ہمت کیونکر مجتمع کر سکتا ہے کہ انہیں سر انجام دے سکے ، میں اس بات پر ذرا بھی متعجب نہیں ہوتا تھا جب وہ مجھے بتاتا کہ چرچ کے پادریوں نے پوسٹ آفس کی ڈائرکٹر یوں سے بھی زیادہ ضخیم کتابیں لکھی ہیں اور ان تمام پیچیدہ سوالات کی باریک بینی سے توضیح کرتے ہوئے قانونی نوٹیسوں کی طرح اخبارات میں شائع ہوتی ہیں –
اکثر میں اس بارے میں سوچتا اور جب کوئی جواب نہ پاتا یا بالکل اخمقانہ اور فالتو سی تفہیم کرتا تو وہ جواب میں صرف مسکرا دیتا اور اپنے سر کو دو یا تین بار جنبش دیتا – کبھی کبھی تو وہ مجھے ماس (MASS )سے متعلق جوابات کے لئے تیار کرتا جو مجھے زبانی یاد کرنے ہوتے ، اور جیسے جیسے میں بدبداتا جاتا وہ بڑی توجہ سے سر ہلا ہلا کر مسکراتا رہتا ، اور ساتھ میں نسوار کی چٹکیاں بھر کر دونوں نتھنوں میں باری باری ٹھونستا رہتا – جب وہ مسکراتا تو اسکے بڑے بدرنگے دانت جھانکنے لگتے ، وہ اپنے نچلے لب پر زبان پھیرتا رہتا — یہ ایک ایسی عادت تھی جس سے مجھے ہماری واقفیت کے ابتدائی دنوں میں سخت الجھن محسوس ہوتی تھی
دھوپ میں سڑک پر چلتے ہوئے مجھے بوڑھے کوٹر کے الفاظ یاد آ رہے تھے اور ساتھ ہی یہ یاد کرنے کی کوشش کر رہا تھا کہ خواب میں بعد میں کیا ہوا تھا – یہ تو مجھے یاد تھا کہ میں نے لمبے دبیز مخملی پردے اور پرانے انداز کے جھولتے ہوئے لیمپ دیکھے –
مجھے محسوس ہوا جیسے میں کافی دور نکل آیا ہوں ، ایک ایسی زمین پر جہاں کے رسم و رواج بہت ہی عجیب تھے – شائد ایران میں — میں نے بہت سوچا ۔۔۔۔ لیکن مجھے خواب کا اختتام یاد نہ آیا –
شام کو آنٹی مجھے تعزیت والے گھر لے گئیں – یہ کوئی جھپٹے کا وقت ہو گا لیکن گھروں کے مغرب کی طرف کھلنے والی کھڑکیوں کے شیشے بادلوں کے جھمگٹ کی بادامی اور روپہلی کرنوں کو منعکس کر رہے تھے –
نینی یعنی فادر فلائن کی بہن نے ہمیں ہال میں بیٹھنے کے لئے کہا ، اس کا رویہ کافی روکھا سا تھا لیکن ایسا بھی نہیں کہ اس پر چلایا یا غصہ کیا جاتا ، آنٹی نے اس بات کو نظرانداز کرتے ہوئے اس سے مصافحہ کیا – بزرگ خاتون نے سوالیہ انداز میں اوپر کی منزل کی طرف اشارہ کیا اور میری آنٹی کے اثبات میں سر ہلانے پر ایک تنگ سے زینے پر ہمارے آگے ہو لی جس پر چڑھنا خاصا مشکل کام تھا اس کا جھکا ہوا سر بمشکل سڑھیوں کے جنگلے سے ذرا ہی اوپر ہو گا –
پہلی منزل پر پہنچ کر وہ رک گئی اور ہمیں میت کے کمرے کے کھلے ہوئے دروازے سے اندر داخل ہونے کا اشارہ کیا – پہلے میری آنٹی اندر داخل ہوئیں اور پھر وہ خاتون مجھے بغور دیکھنے لگی میں جو کہ اندر جانے سے ہچکچا رہا تھا ہاتھ کے اشارے سے اندر جانے کے لئے آمادہ کرنے لگی –
میں پنجوں کے بل چلتا ہوا اندر داخل ہو گیا – جالی کے پردوں سے آراستہ کمرے میں مدھم سی سنہری روشنی پھیلی ہوئی تھی اور فانوس میں سجی موم بتیاں نازک شعاعوں کی مانند لگ رہی تھیں – اسے کفنا دیا گیا تھا – — نینی نے پہل کی اور اس کے پیچھے ہم دونوں پلنگ کی پائنتی کی طرف دو زانو ہو گئے – بظاہر تو میں دعا کر رہا تھا لیکن اپنی سوچوں کو مجتمع نہیں کر پا رہا تھا کیونکہ نینی کی مسلسل بڑبڑا ہٹ میرا دھیان بٹارہی تھی – میں نے غور کیا کہ اس کا سکرٹ کتنے بھدے پن سے پیچھے سے بندھا ہوا تھا اور اسے کے کپڑے کے جوتوں کی ایڑیاں اسکی عجیب چال کی وجہ سے ایک طرف سے گھس گئی تھیں – مجھے ایسا محسوس ہوا جیسے فادر فلائن اپنے تابوت میں لیٹا مسکرا رہا ہو –
لیکن نہیں – جب ہم دعا مکمل کرنے کے بعد کھڑے ہوئے اور بستر کی پائنتی سے سر اٹھائے میں نے دیکھا کہ وہ مسکرا نہیں رہا تھا – وہ اپنے لمبے پادریوں والے لبادے میں لپٹا ہوا بہت پروقار معلوم ہو رہا تھا ، اسکے کشادہ ہاتھ آہستگی سے مذہبی پیالہ تھامے ہوئے تھے – اسکا چہرہ بڑا ، بے رونق اور بہت تنا ہوا دکھائی دے رہا تھا اور اس کے بڑے سیاہ نتھنے خوشبو دار سفید روئی سے ڈھکے ہوئے تھے -کمرے میں بہت تیز خوشبو پھیلی ہوئی تھی —- کسی خاص قسم کے پھولوں کی خوش بو
ہم نے اپنے لئے دعا کی اور واپس مڑ گئے -نچلی منزل کے چھوٹے کمرے میں ہمیں الیزا ملی جو آرام کرسی پر ساکت بیٹھی تھی – میں اپنا راستہ ٹٹولتا ہوا کونے میں بچھی اپنی معمول کی کرسی کی طرف بڑھ گیا جبکہ نینی برتنوں کی الماری کی جانب چلی گئی اور اس میں سے شیری کی بوتل اور کچھ وائن گلاس لے آئی جو اس نے میز پر سجا دیئے اور ہمیں تھوڑی سی وائن پینے کی دعوت دینے لگی لیکن پھر اپنی بہن کے کہنے پر شیری کے گلاس بھر کر ہمیں پیش کئے – اس نے مجھے بھی کچھ خستہ کریم بسکٹ لینے پر اصرار کیا لیکن میں نے لینے سے انکار کر دیا کیونکہ انہیں کھاتے ہوئے بہت آواز ہوتی جو میں نہیں چاہتا تھا – وہ میرے منع کرنے پر کچھ ناراض سی ہو گئی اور خاموشی سے جا کر اپنی بہن کے پیچھے بچھے صوفے پر بیٹھ گئی – سب خاموشی سے خالی آتش دان کو تک رہے تھے –
” آہ ، وہ بہتر جہاں میں چلا گیا ” الیزہ نے دوبارہ آہ بھری اور اپنے سر کو اثبات میں ہلاتے ہوئے جھکا لیا – میری آنٹی نے گھونٹ بھرنے سے پہلے اپنے وائن گلاس کو انگلیوں میں تھام لیا –
” کیا وہ — پرسکون تھے ؟ ” انہیں نے پوچھا
” اوہ ، یقینآ ، بہت پرسکون ، مادام ، ” الیزا نے جواب دیا – ” آپ کہہ نہیں سکتے کہ کب اس کی سانسیں ختم ہو گئیں ، اس نے ایک بہت ہی پیاری موت پائی ، خدا اس کی مغفرت کرے -”
” اور سب کچھ ۔۔۔۔۔؟”
” فادر او- رورک منگل کو اس کے ساتھ تھے ، اسے ممسوح کیا اورہر چیز کے لئے تیار کیا -”
” اس کا مطلب ہے انہیں معلوم تھا ؟ ”
“وہ کافی مطمئین تھے ”
” ہاں ، وہ کافی مطمئن معلوم ہوتے تھے ،” میری آنٹی نے کہا
یہی بات اس خاتون بھی کہی جسے ہم نے اسے غسل دینے کے لئے بلایا تھا – وہ کہہ رہی تھی وہ اتنا پرسکون اور مطمئین تھا کہ ایسا لگ رہا تھا جیسے سو رہا ہو – کوئی بھی توقع نہیں کر رہا تھا کہ وہ مر کر اتنا اچھا لگے گا –
” جی ہاں ، بے شک ” میری آنٹی نے کہا –
انہوں نے اپنے گلاس سے ہلکا سا گھونٹ بھرا اور بولیں :
” بہرحال ، مس فلائن ، یہ جاننا آپ کے لئے اطمینان کا با عث ہو گا کہ آپ نے اس کے لئے جو کچھ کیا جا سکتا تھا وہ کیا ہے ، بلکہ میں تو کہوں گی کہ آپ دونوں اس کے ساتھ بہت مہربان تھیں -”
الیزا نے اپنا اسکرٹ درست کیاجو گھٹنوں سے تھوڑا اوپر سرک گیا تھا –
” آہ ، بے چارہ جیمز !” اس نے کہا – ” خدا بہتر جانتا ہے ، ہم سے جو کچھ ہو سکتا تھا ہم نے کیا ، اتنے غریب ہوتے ہوئے بھی — ہم اسے اس حال میں نہیں دیکھ سکتے تھے کہ وہ کچھ خواہش کرتا اور ہم پوری نہ کرتے “-
نینی نے اپنا سر صوفے کے سرہانے پر ٹکا دیا ایسا معلوم ہو رہا تھا جیسے وہ سو نے لگی ہو
” یہ دیکھو بے چاری نینی کو ” الیزا اس کے جانب دیکھتے ہوئے بولی ، ” کتنا تھک گئی ہے – تمام کام ہم دونوں نے کیا ہے ، میں نے اور اس نے ، غسل دینے والی عورت کو لے کر آئے پھر جیمز کو باہر لائے اور پھر تابوت میں لٹایا اور اس کے بعد گرجا میں تدفین کی تقریب (ماس)کا انتظام کیا – صرف فادر او -رورک کے لئے مجھے نہیں پتہ کہ ہم نے کچھ کیا بھی ہے کہ نہیں – وہی تھے جو پھول اور دو شمع دان گرجا سے لے کر آئے اور فری مین کے جنرل نوٹس بورڈ پر اطلا ع کے طور پر لکھا اور تدفین سے متعلق قبرستان اور بے چارے جیمز کے انشورنس کے کاغذات بھی اپنی تحویل میں لے لئے -”
” کیا یہ اس کے لئے اچھا نہیں تھا ؟ ” میری آنٹی نے سوال کیا
الیزا نے اپنی آنکھیں موند لیں اور اپنا سر دھیرے سے جھٹکا
” آہ ، پرانے دوستوں سے بڑھ کر کوئی دوست نہیں ہو سکتا ،” وہ مزید گویا ہوئی ” جب سب کچھ کہا اور کیا جا چکا ہوا ، کوئی دوست ایسا نہیں ہوتا جس پر کہ ایک جسم بھروسہ کر سکے -”
” بے شک ، یہ بالکل درست ہے ،” میری آنٹی نے کہا ” اور مجھے پورا یقین ہے کہ وہ ابدی انعامات پانے کو جا چکا ہے وہ آپ دونوں کو نہیں بھولے گا اور نہ آپ کی مہربانیوں کو جو آپ نے اسکے ساتھ کی ہیں -”
” آہ ، غریب جیمز !” الیزا نے آہ بھری – ” وہ ہمارے لئے کچھ مشکل کا با عث نہیں تھا – تم نے اس کے بارے میں اتنا کبھی نہ سنا ہو گا جتنا کہ اب ، حالانکہ ، مجھے معلوم ہے کہ وہ جا چکا ہے اور یہ سب ۔۔۔۔۔”
ہاں جب سب کچھ نمٹ جائے گا تب تمہیں اس کی بہت یاد آئے گی ،” آنٹی نے کہا
“مجھے پتا ہے “الیزا نے جواب دیا ” اب میں اس کے لئے گائے کی یخنی کا کپ نہیں لاؤں گی اور نہ ہی تم ، مادام ، اس کے لئے نسوار بھیجو گی – آہ بے چارہ جیمز !”
وہ چپ ہو گئی جیسے سمجھ گئی ہو کہ ماضی کے متعلق کچھ زیادہ ہی بولنے لگی تھی پھر ہوشیاری سے بولی :
” ذرا غور کرنا ، آخری دنوں میں بہت ہی عجیب بات میں نے محسوس کی تھی -جب کبھی اس کے لئے سوپ لے کر جاتی ، اس کی دعاؤں کی کتاب فرش پر پڑی ہوتی وہ خود کرسی میں دھنسا ہوتا اور اس کا منہ کھلا ہوتا -”
اس نے اپنی انگلی ناک پر رکھ کر تیوری چڑھائی : پھر گویا ہوئی : ” لیکن اس حال میں بھی وہ یہی کہتا رہتا کہ گرمیوں کے ختم ہونے سے پہلے کسی خوش گوار دن وہ ڈرائیو پر جائے گا تاکہ آئرش قصبے میں واقع اپنے پرانے گھر کو دوبارہ دیکھ سکے جہاں ہم سب پیدا ہوئے تھے اور مجھے اور نینی کو بھی اپنے ساتھ لے جائے گا-
اگر ہم ایک نئے فیشن کی بغیر گھوڑے کی گاڑی لینے میں کامیاب ہو گئے جو کہ کوئی شور نہیں کرتیں — جس کے عجیب قسم کے پہیوں کے بارے میں فادر او -رورک نے اسے بتایا تھا — صرف ایک دن کے لئے تو سستی ہو گی — اس نے کہا تھا ، وہ راستے میں جونی رش سے لے کر ہم تینوں کو اتوار کی شام قصبے لے جائے گا – اس نے اس معاملے میں اپنا ذہن پوری طرح بنا لیا تھا — آہ بے چارہ جیمز !-”
” خدا اس کی روح پر رحم فرمائے !”میری آنٹی نے کہا –
الیزا نے اپنا رومال نکالا اور آنسوؤں سے بھیگی ہوئی آنکھیں صاف کرنے لگی – پھر واپس اپنی جیب میں رکھ لیا اور کچھ دیر تک بناء بات کئے خالی مسہری کو گھورتی رہی -” وہ ہمیشہ سے بہت محتاط اور ایمان دار تھا ، ” وہ کہہ رہی تھی ” پادری کے پیشہ ورانہ فرائض اس کے لئے بہت زیادہ تھے – اور پھر اس کی اپنی زندگی — ، آپ کہہ سکتی ہیں کہ ، اس پر قربان ہی ہو کر رہ گئی -”
” ہاں ،” وہ ایک مایوس انسان تھا ، اسے دیکھ کر کوئی بھی کہہ سکتا تھا ” میری آنٹی نے جواب دیا –
ایک گہری خاموشی نے اس مختصر سے کمرے کو گھیر لیا تھا ، میں نے تبھی میز کی طرف قدم بڑھائے ، اپنے لئے شیری نکال کر پی اور خاموشی سے کونے میں رکھی اپنی کرسی پر واپس آ کر بیٹھ گیا – الیزا کسی گہری سوچ میں ڈوبی ہوئی معلوم ہو رہی تھی – ہم بڑے احترام سے اس کی خاموشی کے ٹوٹنے کا انتظار کرنے لگے : آخر کار ایک لمبے وقفے کے بعد وہ آہستگی سے خود کلامی کے انداز میں گویا ہوئی :
” جب اس نے وہ مقدس پیالہ توڑ دیا تھا — اصل میں تو وہ اس بات کی ابتدا تھی – بلا شبہ ، ان کا کہنا تھا کہ سب کچھ ٹھیک تھا ، اس میں کچھ نہیں تھا یعنی وہ خالی تھا ، میرے کہنے کا مطلب ہے – لیکن پھر بھی — وہ کہتے تھے کہ یہ اس لڑکے کی غلطی تھی – لیکن بے چارہ جیمز بہت نروس اور پریشان ہو گیا تھا ، خدا اس کے ساتھ رحم کا معامله کرے -”
” کیا واقعی یہ معاملہ تھا ؟” میری آنٹی نے کہا – ” میں نے تو کچھ اور سنا تھا ۔۔۔۔”
الیزا نے گردن ہلائی ” اس بات نے اس کے ذہن پر برا اثر کیا تھا ” وہ بولی ، ” اس کے بعد ہی وہ اپنے آپ میں محدود ہوتا چلا گیا ، نہ کسی سے بات چیت کرتا بس اپنے آپ میں ہی گم رہتا – تبھی ایک رات جب اسے کسی کے بلاوے پر جانا تھا اور وہ اسے ہر جگہ ڈھونڈتے رہے مگر وہ کہیں نہ ملا – انہوں نے اسے پہاڑی کے اوپر اور نیچے کھائی تک میں ڈھونڈا ؛ لیکن اس کی جھلک تک دکھائی نہ دی ، تبھی کلرک نے مشورہ دیا کہ اسے گرجا میں ڈھونڈا جائے – انہوں نے چابیاں لیں اور گرجا کا دروازہ کھولا ، اور ، فادر اورورک ، وہ کلرک اور ایک اور پادری جو وہاں تھے شمع لے آئے تاکہ اسے ڈھونڈا جا سکے ۔۔۔۔۔ اور کیا آپ کو پتا ہے کہ وہ وہاں کیا کر رہا تھا ۔۔۔۔۔۔ وہ اندھیرے میں اپنے اقبالی کمرے میں بیٹھا ہوا تھا، بالکل چوکنا اور خود ہی کسی بات پر مسکراتا ہوا ؟”
دفعتا ً وہ یوں خاموش ہوگئی جیسے اس کی بات کسی نے سن لی ہو – سن تو میں نے بھی لی تھی ؛ لیکن گھر میں مکمل سکوت چھایا ہوا تھا ۔۔۔۔ کوئی آواز نہیں تھی
میں جانتا تھا کہ بوڑھا پادری اپنے تابوت میں ساکت لیٹا ہوا تھا جیسا کہ ہم سب نے اسے دیکھا ، باوقار اور موت سے پوری طرح ہم آہنگ ، ایک مقدس پیالہ اس کے سینے پر دھرا ہوا تھا –
الیزا نے اپنی بات دہرائی :اچھی طرح چوکنا اور آپ ہی آپ قہقہے لگا تا ہوا ۔۔۔۔ تب ہی ، انہوں نے اسے اس حال میں دیکھا تو سمجھ گئے ، اس کے ساتھ ضرور کچھ مسئلہ ہو گیا تھا
۔۔۔۔”
(جیمز جوئس کا یہ افسانہ کئی سال پہلے انڈیا کے ایک ادبی میگزین کے لئے ترجمہ کیا تھا ۔ مترجم)
Original Title: The Sisters
Written by:
James Joyce (2 February 1882 – 13 January 1941) was an Irish novelist, short story writer, poet, teacher, and literary critic۔
For original Text:
http://www۔minorliterature۔com/۔۔۔/the-sisters-james-joyce/
****
عالمی ادب کے اردو تراجم (انتخاب افسانہ)
افسانہ نمبر 382 : فلائن کی بہنیں
تحریر : جیمز جوائس (آئر لینڈ)
اردو ترجمہ : سلمیٰ جیلانی (نیوزی لینڈ)
ڈاکٹر شہباز ملک پہلا پنجابی پی ایچ ڈی
ڈاکٹر شہباز ملک پنجابی زبان و ادب کی دنیا میں ایک مشہور و معروف نام ہیں۔ وہ پاکستان میں پنجابی...