آج بوئنگ کے بنائے اس بڑے جہاز کی گولڈن جوبلی ہے جس نے دنیا میں فاصلے سمیٹنے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ پچاس سال قبل، واشنگٹن کی ریاست میں ہزاروں لوگ اس کی افتتاحی تقریب کیلئے اکٹھے ہوئے تھے۔ ساٹھ کی دہائی میں انسان نے چاند پر قدم رکھا لیکن زمین پر بھی سفر کے لحاظ سے اس دہائی میں بڑی تبدیلیاں آئیں۔ پروپیلر جہاز سے اگلا قدم جیٹ طیاروں کی اگلی نسل تھی۔ اس سے طیارے خراب موسم میں بھی آسانی سے سفر کر سکتے تھے۔ ان طیاروں کی مدد سے دنیا میں دور دراز کے سفر بھی گھنٹوں تک کے رہ گئے۔
اس طیارے کا خیال اس کے گاہک پین ایم کی طرف سے آیا تھا۔ بوئنگ ۷۰۷ اس سے قبل سب سے مقبول طیارہ تھا۔ فضائی سفر کی بڑھتی مانگ کا مطلب یہ تھا کہ زیادہ فلائٹس کی ضرورت تھی اور ائیرپورٹس پر رش میں اضافہ ہو رہا تھا۔ اس جہاز سے دُگنے سائز کا جہاز اس مسئلے کو حل کر سکتا تھا۔ جمبو جیٹ نے دنیا میں سفر کا طریقہ، ائرپورٹ اور رن وے کے ڈیزائن بھی بدل دیے لیکن اس کی ابتدا اتنی آسان نہیں تھی۔
یہ اتنا بڑا جہاز تھا کہ بوئنگ کی کوئی فیکٹری اتنی بڑی نہ تھی جہاں پر بن سکے۔ بوئنگ کچھ اور تجربے بھی کر رہا تھا جس میں سے ایک کنکورڈ کے مقابلے میں سپرسانک طیارہ بنانے کا تھا (جو کامیاب نہیں ہوا)۔ کمپنیاں باہر سے ایسی نہیں لگتیں لیکن اندر سے مسلسل لڑائیوں، سیاست اور ٹرف وارز کی کہانیاں چل رہی ہوتی ہیں۔ اس پراجیکٹ میں اچھے انجینئر مل جائیں، مالیاتی دشواری نہ ہو، اس کے پراجیکٹ لیڈ اس میں کامیاب رہے۔ اس کو بنانے میں کئی طرح کی مشکلات آئیں جن میں سے سب سے بڑا چیلنج فائننشل تھا۔ بوئنگ کو سوا ارب ڈالر کا قرضہ سات الگ مالیاتی اداروں سے لینا پڑا۔ پھر ہر جہاز کو بنانے کی لاگت آج کی کرنسی کے مطابق ساڑھے پندرہ کروڑ ڈالر تھی۔ ابتدائی ڈیزائن کے بعد پہلا جہاز محض ڈھائی سال کی مختصر مدت میں تیار ہو گیا۔ نئی فیکٹریاں ساتھ لگیں تھیں۔ پہلی پرواز نیویارک سے لندن تک کی تھی۔
پہلے ڈیڑھ سال میں صرف دو جہاز فروخت ہوئے۔ کامیابی کے بعد آرڈر آنا شروع ہوئے لیکن عالمی معیشت کو تیل کے بحران نے آ لیا۔ پہلے سے دئے گئے آرڈر کینسل ہونا شروع ہو گئے۔ لیکن یہ پہلے طیاروں سے اتنا بہتر تھا کہ مقبولیت میں اضافہ ہوتا گیا۔ خاص طور پر لمبے روٹ پر اس کے مقابلے میں کوئی طیارہ نہ تھا۔ بوئنگ اس کا ڈیزائن بہتر کرتا گیا۔ اس کا ماڈل ۴۰۰ جس میں پروں کا منفرد ڈیزائن تھا اور انجن رولز رائس سے ملکر تیار کیا گیا تھا چودہ ہزار کلومیٹر ایک وقت میں سفر کر لیتا تھا۔ اس ماڈل کے سات سو طیارے بکے۔ پی آئی اے سمیت کئی ائیرلائنز آج بھی اس کو استعمال کر رہی ہیں۔ اس کا آخری ماڈل ۲۰۰۵ میں ڈیزائن کیا گیا۔ اس کے جہاز ابھی بھی تیار ہو رہے ہیں اور ۲۰۲۰ تک کے آرڈر بوئنگ کے پاس ہیں۔ اس کے بعد نئے جہاز تو شاید نہ بنیں۔ پرانے جہاز بہت برسوں تک اُڑتے رہیں گے۔
اب فضائی سفر کا نقشہ بھی تبدیل ہو چکا ہے۔ بوئنگ کے مقابلے میں یورپی فضائی کمپنی ائیربس نے اے ۳۸۰ تیار کیا لیکن اس کا پچھلے دو برس سے ایک آرڈر بھی نہیں آیا۔ ان سے چھوٹے جہاز جو لمبا سفر کر سکتے ہیں اور بحرالکاہل اور بحر اوقیانوس پار کر سکتے ہیں، زیادہ مقبول ہیں۔
سٹر، جن کو بابائے جمبو جیٹ کہا جاتا تھا، دو برس پہلے فوت ہو گئے تھے۔ ان کے بنائے ڈیڑھ ہزار طیارے دنیا میں فاصلے کم کرتے رہے ہیں۔ جمبو جیٹ جب فضا میں بلند ہوتا ہے تو اتنے بھاری طیارے کا اڑنا ایک عجیب نظارہ ہوتا ہے لیکن اس سے دلچسپ نظارہ اس کے اپنی فیکٹری میں تیار ہونے کا ہے۔ اگر آپ اس کی تمام سائنس جانتے بھی ہیں تو بھی اس سب میں تھوڑا سا جادو پھر بھی ہے۔