جامنوں کے درخت اور ہماری کلھاڑی
گاوں میں ہمارا گھر ایسی جگہ پر ہے کہ اُس کے ساتھ کھیت کھلیان اور سرسبز باغات شروع ہوجاتے ہیں ۔ ایک نالہ پانی سے بھرا ہوا پاس سے گزرتا ہے ۔ اور جامنوں کے بے شمار اونچے درخت اُس کے کناروں پر کھڑے لہلہاتے ہیں اور ایسے ہرے ہیں کہ سیاہ لگتے ہیں۔ جب ساون آتے ہیں تو اور بھی کالے ہو جاتے ہیں ۔
اُس وقت میری عمر 10 سال کی ہو گی اور میرا چچا زاد علی اختر9 سال کا تھا۔ ہم دونوں باہر نکلے اور جامنوں کے درختوں سے سوکھی لکڑیاں، توڑنے کے لیے اُن کے اوپر چڑھ گئے ۔ جامنوں کے پرانے درختوں میں اکثر شاخیں سوکھ جاتی ہیں جنھیں توڑنا عیب کی بات نہیں مگر جامنوں کا مالک یہ فائدہ خود ہی حاصل کرنا چاہتا تھا کہ وہ لکڑیاں جلانے کے بہت کام آتی تھیں ۔ ایک جامن پر مَیں اور ایک پر علی اختر چڑھ گیا ،درخت گھنے بہت تھے اور ہری شاخوں کے بیچ کہیں کہیں سوکھی لکڑیاں تھیں ۔ میرے پاس کلہاڑی تھی ۔ اختر خالی ہاتھ تھا ۔ وہ خشک شاخیں ہاتھ سے توڑ کر پھینک رہا تھا ۔ مَیں کلہاڑی سے کاٹے جاتا تھا ۔ کلہاڑی کی ضرب کی آواز دُور تک جاتی تھی ۔ درختوں کےمالک نے ضربوں کی آواز سُن لی ۔ اُسے خبر ہو گئی کہ کوئی جامنوں کی لکڑیاں کاٹ رہا ہے ۔ دوڑ کر آ گیا اور درختوں کی شاخوں میں دیکھنے لگا ۔ ہم خاموشی سے گھنے پتوں اور شاخوں میں چھپ کر بیٹھ گئے اور بالکل آواز پیدا نہ ہونے دی ۔ اول اُس نے یہ کیا کہ ہماری کاٹی ہوئی شاخوں کو اکٹھا کیا ،اُنھیں اپنے صافے میں باندھ کر رکھ لیا،اُس کے بعد دوبارہ درختوں کی چوٹیوں کی طرف دیکھنے لگا ۔ میرا چچا زاد اُسے نظر آ گیا ۔ خوشی محمد نے کہا ! ہاں بھئی کاکا نیچے آجا ، مَیں نے تجھے دیکھ لیا ہے ۔ چچا زاد سہم کر بیٹھا رہا کہ شاید ایسے ہی ڈرانے کے لیے بول رہا ہے لیکن جب اُس نے دوبارہ کہا کہ بیٹا نیچے آجا ورنہ مَیں اُوپر آ کر تجھے نیچے پھینک دوں گا تو اختر نیچے اُتر آیا ۔ اب اُس نے کہا ، کلہاڑی کدھر ہے ؟ اختر نے کہا وہ تو میرے پاس نہیں ہے ، خوشی محمد نے کہا جھوٹ نہ بولو ،بتاو کدھر ہے ؟ اختر نے مکرر کہا، اللہ قسم میرے پاس نہیں ہے ۔ اب اُس نے ڈانٹا ! دفع ہو یہاں سے ،پھر نظر نہ آنا ۔ اختر اُس کی ڈانٹ سُن کر دُور جا کھڑا ہو گیا ۔ اُس شخص کو یقین تھا ،کہ اِس لڑکے کے پاس کُلھاڑی تھی ،جسے اُوپر کسی شاخ میں ٹانگ آیا ہے ۔ جیسے ہی اختر اُس کی نظروں سے اوجھل ہوا ، وہ آدمی جامن کے درخت پر چڑھنے لگا کہ کلھاڑی اُتار لائے اور اُس پر مفت میں قبضہ جمالے ، اُدھر دوسرے درخت کی چوٹی پر بیٹھا مَیں سارا تماشا دیکھ رہا تھا،جیسے ہی وہ اُوپر چڑھنا شروع ہوا ، مَیں کلھاڑی سمیت اپنے درخت سے نیچے اُترنے لگا ۔ حتیٰ کہ وہ اختر والے درخت کی چوٹی پر چڑھ کر کلہاڑی ڈھونڈنے لگا اور مَیں نیچے اُتر آیا ۔ جب میرے چچا زاد نے دیکھا کہ مَیں نیچے آ گیا ہوں اور خوشیا درخت پر ہےتو وہ بھی وآپس آگیا ۔ ہم دونوں بھائیوں نے اکٹھی کی گئی اور بندھی ہوئی لکڑیاں سر پر رکھیں اور بھاگ نکلے ۔ وہ آدمی جامن کی چوٹی پر بیٹھا بے بسی سے ہمیں دیکھتا رہا اور چیختا رہا ، مصیبت یہ تھی کہ اتنی بلندی سے چھلانگ نہیں لگا سکتا تھا ،نہ جلدی اُتر سکتا تھا ۔ اِدھر ہم اُس کے صافے سمیت اپنی توڑی ہوئی لکڑیاں گھر لے آئے ۔ اور وہ بے چارا کلھاڑی کے لالچ میں صافہ بھی گنوا بیٹھا۔
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔