دنیا میں دو سو ممالک ہیں۔ ان کے جھنڈے اکٹھے کریں اور بغور دیکھیں تو ایک رنگ کی کمی نظر آئے گی اور وہ ہے جامنی۔ یہ تاریخی طور پر بھی نہ کسی تہذیب کا نشان رہا اور نہ ہی کسی فوجی لباس کا۔ آجکل کی دنیا میں لباس میں یا دوسری جگہوں پر یہ عام ہے۔ ایسا کیوں، اس کی وجہ سائنس سے ڈھونڈتے ہیں اور وہاں پر ہمیں جانا پڑے گا رنگوں کی کیمسٹری، 1856 میں دوا بنانے کے ناکام تجربے اور قوسِ قزح کو غور سے دیکھنے میں۔
کسی کپڑے کو رنگ دینے کے لئے ڈائی استعمال ہوتی ہے اور مختلف رنگوں کی ڈائی بنانے کے اپنے طریقے رہے ہیں اور پھر رنگ ملا کر نئے رنگ بنائے جاتے ہیں۔
تاریخی طور پر جامنی رنگ کی ڈائی بنانا انتہائی مہنگا رہا۔ اس کی ڈائی لبنان کے شہر صور سے یورپ میں برآمد کی جاتی۔ یہاں پر پائے جانے والے سمندری گھونگھے سے اسے نکالا جاتا تھا اور دس ہزار گھونگھوں سے ایک گرام جامنی رنگ کی ڈائی بنتی تھی۔ یہ رنگ صرف انتہائی امیر لوگ خرید سکتے تھے اور تیسری صدی میں روم کے بادشاہ آریلین نے ملکہ کو جامنی رنگ کی شال بنوانے کی فرمائش اس لئے منع کر دیا تھا کہ وہ اسے خریدنے کے مالی ذرائع نہیں رکھتا۔ جامنی رنگ سونے کے مقابلے میں تین گنا مہنگا تھا۔ (آریلین کی بیوی کا ردِ عمل تاریخ نے ریکارڈ نہیں کیا)۔ برطانیہ کی ملکہ وکٹوریا نے جامنی رنگ کو شاہی خاندان کے علاوہ کسی کے لئے بھی ممنوع قرار دے دیا تھا کیونکہ یہ رنگ تمول اور بادشاہت کی نشانی تھا۔
پھر آج سے ڈیڑھ سو برس قبل انگریز کیمسٹ ولیم ہنری پرکن ملیریا کے خلاف دوا بنانے کا تجربہ کر رہے تھے۔ اس دوران وہ دوا تو نہیں بنا سکے لیکن جامنی رنگ کی ڈائی ڈھونڈ لی۔ اس کا پیٹنٹ 26 اگست 1856 کو کیا گیا اور نیچے دی گئی تصویر اس کپڑے کی ہے جسے پہلی بار اس ڈائی سے 1860 میں رنگا گیا۔ یہ ڈائی ماوین تھی اور اس کا طریقہ اینیلین کو الکحل کے ذریعے کشید کرنا تھا۔ یہ جامنی رنگ بنانے کا سستا طریقہ تھا۔ نوجوان پرکن نے تو اس دریافت سے بہت زیادہ پیسہ کمایا اور پھر آہستہ آہستہ عام ہونے سے یہ رنگ بیسویں صدی کے آغاز تک اپنی اہمیت کھو بیٹھا۔ قوموں کی شناخت کے نشان تو وہی رہے اور بہت کم ملک ایسے ہیں جن کے یہ نشان بیسویں صدی کے بعد کے ہیں۔ اس لئے یہ رنگ صرف ڈومینیکا اور نکاراگوا کے جھنڈوں کے علاوہ کسی اور ملک کے جھنڈے میں نہیں۔
اسے دوسرے رنگوں سے ملا کر بنانا اس قدر مشکل کیوں ہے، اس کی وجہ قوسِ قزح میں۔ اس کی اپنی کوئی ویولینتھ نہیں بلکہ یہ رنگ بنفشی اور سرخ کے درمیان کا ہے جو دھنک کے رنگوں میں سب سے دوری پر ہیں۔ یہ رنگ دراصل صرف بصری سپیکٹرم میں سے صرف سبز کے نہ ہونے سے بننے والا ذہنی تصور ہے۔
اگر رنگوں کو بائیولوجی میں ڈھونڈنا ہو تو جانداروں میں سب سے کم پایا جانے والا رنگ نیلا ہے اور اس کی وجہ یہ کہ جن جانداروں میں نیلا رنگ بنتا ہے، اس کا اپنا طریقہ بائیولوجیکل یعنی پگمنٹ کے ذریعے نہیں بلکہ سٹرکچرل انجینرنگ کے ذریعے ہے۔
آریلین کی کہانی لی گئی ہے اس کتاب سے
The History of Silk, Cotton, Linen, Wool, and Other Fibrous Substances
نیلا رنگ فطرت میں سٹرکچرل انجینرنگ سے کیسے بنتا ہے اور کیوں اس قدر کم ہے
جامنی رنگ کی فزکس پر