سعودی صحافی جمال خاشقجی کے معاملے نے امریکی صدر ٹرمپ کی جانب سے ایران پر معاشی پابندیوں کے نفاذ کی مہم کو کمزور کیا ہے جس کا مقصد ایران میں حکومت کی تبدیلی پر اثرانداز ہونا تھا۔ سعودی عرب ، عرب دنیا میں امریکہ کا مرکزی اتحادی ہے سو جب اس کی ساکھ متاثر ہوگی تو ظاہر ہے کہ امریکہ کی ساکھ بھی متاثر ہوگی۔ 5نومبر کو امریکہ کی طرف سے ایران کی تیل کی برآمدات پر سخت پابندیوں کا نفاذ کیا جائے گا جو کہ پہلے ہی امریکی صدر ٹرمپ کی جانب سے ایران ایٹمی معاہدے سے دستبرداری کے اعلان کے بعد آدھی رہ چکی ہیں۔معاہدے کے دوسرے فریق جو امریکہ سے متفق نہیں، نیوکلیئر ڈیل کو قائم رکھنے کی کوشش میں ہیں لیکن ایران کے ساتھ بزنس کے لیے کام کرنے والی تیل کمپنیوں، بینکوں اور کمرشل کمپنیوں پر ثانوی پابندیوں کا خطرہ ان کے نزدیک زیادہ بڑا ہے۔ایران اقتصادی تنہائی کا شکار ضرور ہے لیکن امریکہ کے لیے بین الاقوامی تعاون کے بغیر 2015ء سے پہلے کی طرح ایران کا سخت معاشی محاصرہ کرنا مشکل ہوگا، جب نیوکلیئر ڈیل کے حصے کے طور پر پابندیاں اٹھائی گئی تھیں۔۔۔ ایک مشترکہ جامع لائحہ عمل۔ اگرا مریکہ چاہتا ہے کہ یہ معاشی پابندیاںایران پر ناقابل مزاحمت دبائو ڈال سکیں،تو ضروری ہے کہ پابندیاں سالوں تک جاری رہیں اور ان کے نفاذ میں دیگر کئی ممالک بھی شامل ہوں۔ متضاد طور پر معاشی پابندیوں کا کامیاب نفاذ اس قسم کے عالمی تعاون کا متقاضی ہے جس کی امریکی صدر ٹرمپ نے متعدد بار امریکی مفادات کے متصادم ہونے کی وجہ سے مذمت کی ہے۔ امریکی صدر ٹرمپ اب ایران کے ساتھ تصادم سے پیچھے ہٹنے کی پوزیشن میں بھی نہیں کیوں کہ وہ اسے امریکہ کو ایک بار پھر عظیم ریاست بنانے کے ٹیسٹ کیس کے طور پر پیش کرچکے ہیں،یا دوسرے الفاظ میں امریکی طاقت کی یک طرفہ مشق۔
سعودی عرب اور اسرائیل استثنا ہیں لیکن چند دوسرے ممالک کو امریکی صدر ٹرمپ کی کامیابی میں حقیقت میں دلچسپی ہے، اگرچہ انہیں اس کی کوئی پرواہ نہیں کہ ایران میں کیا ہوتا ہے۔معاشی پابندیوں کی کامیابی کا امکان کس طرح اثرانداز ہوا ہے جب مختلف رائے رکھنے والے سعودی صحافی جمال خاشقجی 2اکتوبر کو استنبول میں سعودی سفارت خانے میں داخل ہوئے اور دوبارہ دکھائی نہ دئیے؟سعودی عرب یقینا ایک نقاد اور مخالف رائے رکھنے والے شخص کو شہید اور ایک مقصد کے لیے جان دینے والے میں بدل کر کمزور ہوا ہے، ایک ایسی غلطی جو بہت سے امریکی خارجہ پالیسی اور انٹیلی جینس ماہرین کو قائل کررہی ہے کہ سعودی عرب کی آپریشنل صلاحیت ان کے تصور سے بھی کم ہے۔
جمال خاشقجی کا مبینہ قتل 2015ء کے بعد سے ایسی سعودی مہم جوئیوں میں تازہ ترین اضافہ ہے، جو کہ ایک ناکام منصوبہ بندی کا آئینہ دار ہے۔ اس فہرست میں یمن میں جنگ شامل ہے جس نے یمن کو قحط زدہ کردیا، شام میں مداخلت جس نے روسی فوجی مداخلت کو ہوا دی، قطر کی ایک طرح سے ناکہ بندی، اور لبنانی وزیراعظم سعد حریری کی حراست۔پہلی بار ہے کہ امریکی میڈیا سعودی عرب کی منفی خبروں کو کوریج دے رہا ہے۔ اس کا ایک اثر یہ ہوا ہے کہ امریکی صدر ٹرمپ کی ایران کو ایک مجرمانہ اور دہشت گرد ریاست قرار دینے سے متعلق تنازعاتی پالیسی کی فروخت کی کوشش ناکام ہوئی ہے۔یہ الزام تراشیاں اب جمال خاشقجی کی قسمت سے متعلق الزامات سے کم ہورہی ہیں، جہاں یہ کہا جارہا ہے کہ جمال خاشقجی کو کسی پُرجوش سیکیورٹی افسر نے تشدد کرکے ہلاک کردیا ہے۔اس سارے معاملے کی اہمیت یہ ہے کہ معاشی پابندیوں کے لیے ضروری تائید میں کمی آرہی ہے۔
دوسری طرف ایرانی قیادت غالباً جمال خاشقجی کے سکینڈل سے لطف اٹھا رہی اور سوچ رہی ہے کہ یہ معاملہ ان کے طویل مدتی مفادات پر کیسے اثرانداز ہوگا۔ ایران خطے میں سیاسی چالبازی کی ایک مدت سے رائج شہرت رکھتا ہے، البتہ اکثر یہ اپنے دشمن کی جانب سے کسی غلطی کے انتظار کے سوا کچھ نہیں ہوتا۔ وہ براہِ راست مقابلے یا روبرو آنے سے گریز کرتے ہیں اور مشکل اور بے یقینی کی صورتِ حال کو لمبے عرصے تک چلانے میں یقین رکھتے ہیں تاکہ اس دوران وہ بتدریج اپنے مخالفین پر چالاکی سے سبقت لے جائیں۔
تاحال ثبوت یہ ہے کہ ایران متوقع پابندیوں کے جواب میں کسی غیرمتصادم جواب کا انتخاب کررہا ہے۔ عراق میں اس نے حکومت کے قیام میں مدد دی جو ایک مرتبہ پھر امریکہ ایران تعلقات کو متوازن کرنے میں مدد دے گی، لیکن اپنے پیشرو سے زیادہ ایران نواز ثابت نہیں ہوں گے۔ایک عراقی سیاست دان اپنا نام نہ لیے جانے کی شرط پر بتایا کہ ’’مجھے یوں لگتا ہے جیسے ایرانی حکومت امریکہ کو ایک قسم کی امن کی پیشکش کررہی تھی۔‘‘
ایران کو یہ یقین دہانی حاصل کرنی ہوگی کہ عراق معاشی پابندیوں کی اس دیوار میں روزن بنے گا جو امریکہ تعمیر کرنے کی کوشش کررہا ہے۔ ایران غالباً مبادلے کے معاہدوں کی کوشش کرے گا، جس میں مثال کے طور پر ایرانی گیس کا مبادلہ عراق سے ادویات، گاڑیوں اور دوسری درآمدات سے ہوگا۔ ایرانی پابندیوں کا ایک اور چینل امریکی صدر اوباما کے دور میں ترکی تھا، سو ایران ایسے کسی بھی معاملے پر خوش ہوگا جو امریکہ اور سعودی عرب کے انقرہ حکومت سے تعلقات کو خراب کرے۔
اگر معاشی پابندیاں ناکام رہتی ہیں تو امریکی حکومت کیا یہ فیصلہ کرسکتی ہے کہ فوجی اقدام بہتر انتخاب ہے؟ اپنے تمام تر جارحانہ رویے کے باوجود امریکی صدر ٹرمپ نے ابھی کہیں کوئی جنگ شروع نہیں کی اور لگتا ہے کہ وہ صرف معاشی پابندیوں سے ایران کو مذاکرات کی طرف مائل کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ دوسری جانب جیساکہ جمال خاشقجی کے معمے سے ظاہر کیا ہے، کچھ بھی ہوسکتا ہے اور ہرکوئی اپنے بہترین مفادات کے لیے کام نہیں کرتا۔