جماعت اسلامی 20 ستمبر کو ہونے والی سیاسی جماعتوں کی کانفرنس میں شریک کیوں نہیں ہوئی؟ اس کے باوجود کہ جماعت اسلامی کی پارلیمنٹ میں موجودگی محض رسمی اور ووٹ بنک بھی نہ ہونے کے برابر ہے یہ سوال پاکستان کی سیاست کے حوالے سے اہمیت کا حامل ہے۔ دراصل گذشتہ کم از کم دو دہائیوں سے جماعت اسلامی شدید سیاسی تنہائی کا شکار ہے۔ ہر ہونے والے انتخابات میں جماعت اسلامی کی پارلیمانی قوت سکڑتی چلی جارہی ہے۔ قومی اسمبلی میں ایک نشست اور سینٹ میں امیر جماعت اسلامی کی موجودگی جماعت اسلامی کی کل پارلیمانی کائنات ہے۔
دراصل جماعت اسلامی ن لیگ سے بالعموم اور نواز شریف سے بالخصوص ناراض ہے اور اسی ناراضی کی بنا پر اس نے کل جماعتی کانفرنس میں شرکت نہیں کی تھی۔ جماعت اسلامی اور میاں نواز شریف کا تعلق ان دنوں سے یادگار تھا جب دونوں جنرل ضیا الحق کے مارشل لا کے بایاں بیلی بنے ہوئے تھے۔ دونوں کا اشتراک بھٹو دشمنی اور جنرل ضیا کی حمایت پر استوار تھا۔
نواز شریف اور جماعت اسلامی کا باقاعدہ پہلا انتخابی رابطہ 1985کے غیر جماعتی الیکشن میں ہوا جب نواز شریف لاہور سے الیکشن میں حصہ لے رہے تھے اور جماعت اسلامی پاکستان بھر سے بالعموم اور پنجاب اور لاہور سے بالخصوص متعدد نشستوں پر الیکشن میں حصہ لے رہی تھی۔ ان انتخابات میں دونوں نے ایک دوسرے کی مدد کی اور جماعت اسلامی لاہور سے قومی اسمبلی کی تین نشستیں جیتنے میں کامیاب رہی تھی۔ حافظ سلمان بٹ، فرید پراچہ اور لیاقت بلوچ اسی الیکشن میں جیت کر قومی اسمبلی میں پہنچے تھے۔
1985-1988 بطور وزیراعلیٰ نواز شریف کی پنجاب میں سیاسی قوت کے ارتقا و نشوو نما کے سال تھے۔ جماعت اسلامی نے اس دوران نواز شریف کو پنجاب میں سیاسی طاقت بنانے میں بھرپور کردار ادا کیا اور نواز شریف نے نہ صرف بطور جماعت بلکہ انفرادی طور پر بھی جماعت کی قیادت کو نواز کر اس احسان کا بدل چکایا۔
1988 میں جنرل ضیا کی موت کے بعد فوجی اشرافیہ نے نواز شریف اور جماعت اسلامی کو باقاعدہ تنظیمی ڈھانچے۔۔۔ اسلامی جمہوری اتحاد میں باندھ دیا۔ اب نواز شریف اور قاضی حسین احمد جو پشتون ہونے اور افغان جہاد کے پس منظر میں ہماری مقتدرہ کی آنکھ کا تارا بنے ہوئے تھے، ایک ہی سٹیج پر جنرل ضیا کے ورثے کی حفاظت کا عہد کرتے تھے۔ 1988میں ایک بار پھر جماعت اسلامی نواز شریف کے تعاون اور اسلامی جمہوری اتحاد کی آڑ میں لاہور سے نشستیں جیتے میں کامیاب رہی تھی۔
1990 میں جب صدر اسحاق نے چیف آف دی آرمی سٹاف جنرل مرزاسلم بیگ کے پشت پناہی سے وزیر اعظم بے نظیر کو برطرف کیا تو جماعت اسلامی اور نواز شریف بظاہر تو اکٹھے تھے لیکن فریقین میں دراڑیں پیدا ہوچکی تھیں۔ جماعت اسلامی اس غلط فہمی میں گرفتار ہوچکی تھی کہ قاضی حسین احمد کی قیادت میں وہ عوام کے بڑے حصے میں مقبول ہوچکی ہے حالانکہ اس کی قوت کا سرچشمہ عوام کی بجائے فوج اور پنجاب میں نوازشریف کا بڑھتا ہوا ووٹ بنک تھا۔ جماعت اسلامی نے مقبول ہونے کی غلط فہمی میں نواز شریف کو بلیک میل کرنے اور الیکشن میں زیادہ سے زیادہ نشستیں ہتھیانے کی کوشش کی لیکن نواز شریف اب سیاسی طور پر میچور ہوچکے تھے وہ جان چکے تھے کہ جماعت اسلامی کا ووٹ بنک ہر حلقے میں دو تین ہزار سے زیادہ نہیں ہے اس لئے اس کی بلیک میلنگ میں آنے کی ضرورت نہیں ہے۔ نواز شریف جماعت اسلامی کے سائز کے مطابق اسے نشستیں دینے کو تیار تھے لیکن جماعت اپنی سیاسی بساط سے زیادہ نشستوں پر ہاتھ صاف کرنا چاہتی تھی جس کے لئے نواز شریف قطعی طور پر تیار نہیں تھے۔ وہ جس کا ووٹ بنگ اسی کی فکر کو پردھان دیکھنا چاہتے تھے۔جماعت اسلامی چاہتی تھی کہ ووٹ بنک نواز شریف اور فکرجماعت اسلامی کو ہو لیکن نوازشریف اس کے لئے تیار نہیں تھے۔ یہی وجہ ہے قاضی حسین احمد نے نواز شریف کے خلاف علم بلند کیا لیکن بے چارے خود لاہور کی سرحدی نشست سے ملک معراج خالد کے ہاتھوں بری طرح ہار گئے تھے۔
جنرل پرویز مشرف کے عہد اقتدار میں جماعت اسلامی نے ایک بار پھر خود کو فوجی اقتدار سے وابستہ کرلیا۔ اس دفعہ نواز شریف اور ان کی مسلم لیگ زیر عتاب تھی اس لئے جماعت اسلامی نے ادھر دیکھنا بھی گوارا نہ کیا اور ایم۔ایم۔ اے بنا کر نہ صرف جنرل پرویزمشرف کو صدارت کی مدت میں توسیع دینے میں تعاون کیا بلکہ خیبر پختون خواہ کی صوبائی حکومت میں حصہ بھی اچھا خاصا حصہ بٹور لیا تھا۔ موجودہ امیر سراج الحق سنیئر وزیر اور وزیر خزانہ تھے۔
جماعت اسلامی کی پنجابی قیادت جو دراصل اس وقت جماعت کے اثاثوں پر قابض ہے نواز شریف سے ناراض ہے کیونکہ نواز شریف اب انھیں پنجاب اور لاہور میں الیکشن جتوانے کے لئے تیار نہیں ہیں۔ جماعت کی پنجابی قیادت کے ہاتھ امیر جماعت اسلامی سراج الحق باوا ہیں جسے وہ جیسے چاہتی گھمادیتی ہے اور یہ قیادت سراج الحق کو نواز شریف کے خلاف بھرپور انداز میں استعمال کررہی ہے۔ نواز شریف نے بھی تہیہ کیا ہوا ہے کہ وہ جماعت اسلامی کی بلیک میلنگ میں نہیں آئیں گے اور اس کو ن لیگ کے ووٹ بنک کے بل بوتے پر قومی اسمبلی میں نہیں پہنچنے دیں گے۔ انھوں نے پنجاب سے جماعت اسلامی کی پارلیمانی سیاست کا بوریا بستر ہمیشہ کے لئے لپیٹ دیا ہے اور یہی وجہ ہے کہ جماعت اسلامی نواز شریف سے ناراض اور یہی وہ ناراضی ہے جس کی بنا پر اس نے کل جماعتی کانفرنس میں شرکت سے احتراز کیا تھا
ڈاکٹر شہباز ملک پہلا پنجابی پی ایچ ڈی
ڈاکٹر شہباز ملک پنجابی زبان و ادب کی دنیا میں ایک مشہور و معروف نام ہیں۔ وہ پاکستان میں پنجابی...