"جماعت اسلامی کا زوال"
1970ء کے الیکشن میں جماعت کو غیر متوقع شکست کا سامنا ہوا جبکہ سب سے زیادہ منظم اور کارکنان والی جماعت تھی۔ شکست کھائی توبتایا گیا کہ اندازہ غلط ہو گیا ۔
(1)۔ الیکشن ہارنےکی اصل وجوہات سے آنکھیں بند کر لی گئیں۔
بھٹو نے روٹی، کپڑا اور مکان کا نعرہ دیا۔ جاگیردار اورسرمایہ دار طبقات کےخلاف بھی نعرے دیئے۔
جماعت نے اسلامی نظام کا نعرہ دیا۔جماعت کو ادراک نہ رہا تھا کہ صدیوں ہوئیں قوم تو بھول چکی تھی کہ اسلامی نظام ( خلافت) کیسا انسان پرور نظام تھا …!
حضرت عمرفاروق اور حضرت عمر بن عبد العزیز کے ادوار میں کسی کو بھی شکایت نہ تھی کہ حقوق نہیں ملتے۔ جب حقوق یکساں ہر کسی کو میسر ہوں تو جرائم تقریباً ختم ہو جاتے ہیں۔ کبھی نہیں سنا ہوگا کہ حضرت عمر فاروق اور حضرت عمر بن عبد العزیز کے ادوار میں کسی نے شخص چوری چکاری کی ہو یا ڈاکا مارا ہو …..!
جماعت نے سرمایہ دار اور جاگیر طبقہ کے بارے بھی زبان بند رکھی۔
(2) 1977ء میں بھٹو کےخلاف سیاسی تحریک کو نظام مصطفیٰ کانام دیا۔ ضیاءالحق نے مارشل لاء لگا دیا۔ قومی اتحاد PNA ٹوٹ گیا ، قوم کو بتایا گیا تھا کہ اسلامی نظام کے لیےقومی اتحاد بنایا ہے۔ جماعت پر ضیاء الحق کی حمایت کا الزام لگنے سے،جماعت کو بڑا اخلاقی اور سیاسی نقصان ہوا۔
جبکہ جنرل ضیاءالحق اندر خانہ ایم کیو ایم اور نوازشریف کو پروموٹ کرتا رہا۔
(3). میاں محمد طفیل کے بعد 1987 کو قاضی حسین احمد کو جماعت کا امیر بنایا گیا۔
سترہ اگست 1988کو جنرل ضیاءالحق طیارہ حادثہ میں جان بحق ہوگئے۔
جنرل اسلم بیگ آرمی چیف بنا۔ جنرل اسلم بیگ کی زیر نگرانی خفیہ ایجنسی isi نے اسلامی جمہوری اتحاد IJI بنایا۔ سب جماعتوں میں پیسے بانٹےگئے۔ نواز شریف نے بھی بٹورے۔
1988 سے پہلے دائیں بازو کی سیاست کا مطلب صرف جماعت اسلامی تھا۔ مذہبی ووٹ جماعت کو ملتا تھا۔
جب جماعت نے IJI میں نوازشریف کو دائیں بازو کی سیاست کا سربراہ تسلیم کر لیا تو جماعت کو علم ہی نہیں ہوا کہ جماعت کوکتنا بڑا نقصان ہوچکا ہے۔ سارا مذہبی ووٹ نواز شریف کو شفٹ ہوگیا اور مذہبی ووٹ نواز شریف کا مسقل ووٹ بینک بن گیا۔
اور دائیں بازو کی سیاست کا ٹائٹل بھی نواز شریف نے جماعت سے چھین لیا۔
نوازشریف کے پاس تو کارکن ہی نہ تھے۔ اب جماعت کے کارکنان سرمایہ دار کے جلسے جلوسوں کے قلی بنادیے گئے۔
جماعت نے بڑی جانفشانی سےسرمایہ دار کو اقتدار کے ایوانوں میں پہنچایا۔
1999 میں پھر اسی سرمایہ دار نواز شریف حکومت سے واجپائی کے دورہ لاہور میں بزرگوں کو پٹوایا۔
(4) 2002 میں متحدہ مجلس عمل میں مولانا فضل الرحمن کے اتحادی بن کر سترویں ترمیم میں مشرف کو وردی سمیت ووٹ دیا۔
قاضی صاحب نے ایران واپسی پر فرمایا۔ہمارے ساتھ دھوکہ ہوا۔
صوبہ پختونخوا کی اسمبلی تحلیل کر دیا جاتا تو جنرل مشرف دوبارہ صدر منتخب نہیں ہوسکتا تھا۔ جماعت نے مولانا فضل الرحمن سے پھر دھوکا کھایا۔
مولانا فضل الرحمن کرپشن کی وجہ سےجماعت کو اخلاقی و سیاسی نقصان ہوا ۔
جنرل مشرف نےکراچی کا مکمل کنٹرول ایم کیو ایم کو دے دیا ۔ جماعت کراچی سے بھی فارغ ہو گئی۔
(5) ۔ 209 میں سید منور حسن صاحب جماعت کے امیر ہوئے تو جماعت کو نواز شریف، فضل الرحمن، اسٹیبلشمنٹ سے فاصلہ پر رکھنے کی کوشش کرنے لگے تو سارے میڈیا نے پراپیگنڈہ شروع کر دیا کہ سید منور حسن صاحب پرو طالبان ہیں۔ حالانکہ وہی باتیں عمران خان ، فضل الرحمن اور مولانا سمیع الحق بھی کر رہے تھے۔
جماعت کے اندر بھی نواز شریف سے مراعات لینے والے گروپ نے سید منور حسن صاحب کی پالیسی چلنے نہیں دی۔
قاضی حسین احمد صاحب کے دور میں اتحادی سیاست اور جماعت کے اصولوں سے جو انحراف ہوا تھا۔ جماعت کو دوبارہ نہج پر لانے کی کوشش کی لیکن جماعت کا گورباچوف گروپ نے سید منور حسن صاحب کی ہر کوشش کو ناکام بنا دیا۔
(۔6) . 2013 میں سراج الحق جماعت کے امیر ہوئے تو غلطیوں سے سبق سیکھنے کی بجائے، از سرِنو وہی غلطیاں ۔۔۔ !
تحریک انصاف کی حکومت سے باہر رہ کر ، حکومت سے زیادہ اچھے کروا سکتی تھی۔لیکن جماعت نے مولانا فضل الرحمٰن کے طریقے کو اختیار کیا۔
کیوں نہ پھر تحریک انصاف سے آئندہ الیکشن کیلئے معاہدہ کیا ۔۔۔ !
,پھر دوسری طرف کرپٹ ایاز صادق کو ووٹ دیے دیا۔سیاست میں دوہرا معیار میں نہیں چلتا ۔
(7) . 2018 کے الیکشن میں دوبارہ نواشریف کےاتحادی مولانا فضل الرحمن کے اتحادی ہو چکی ہے۔
اس کا عوام کو بڑا منفی پیغام گیا۔سپریم کورٹ میں نواز شریف کے خلاف گئے۔ سینٹ الیکشن میں ن لیگ سے اتحاد کر لیا۔
خدشہ ہے کہ مولانا فضل الرحمٰن تو کوئی نا کوئی نشستیں شاید نکال لیں۔ لیکن جماعت کا کیا بنے گا ۔۔۔۔ !
جماعت نے نا غلطیوں سے اور نا ترک جسٹس پاپرٹی سے سبق سیکھا ہے۔
(8). ایک واقعہ پیش خدمت ہے کہ شاید سمجھنا آسان ہو جائے ۔
جماعت کے ایک مخلص اور سرگرم کارکن، جوکہ میرے بے تکلف دوست تھے۔
ہم دونوں گریڈ اٹھارہ کا آفیسر کو ملنے گئے جو کہ جماعت کے پرانے ہمدرد تھے۔دوران گفتگو دوست کی زبان سے کچھ الفاظ نواز شریف کے خلاف نکلےتوصاحب غصہ میں آگئے۔حالانکہ یہ صاحب بہت نیک نام اور پرانے کارکن تھے۔ دفتر سے باہر نکلے تو میں نے اپنے دوست سے کہا کہ جماعت کا ووٹ اور ہمدرد ووٹ نواز شریف کو شفٹ ہو چکا ہے۔
۔(9) ۔ الیکشن ،2013 میں ایک اسی سالہ بزرگ جنہوں نے مولانا کو بہت پڑھا تھا۔جماعت کی اتحادی پالیسوں کے سخت مخالف ، کہتے کہ جماعت نے دعوت اور کردار سازی کو بھی ترک کر دیا ہے۔ 2013 کے الیکشن میں انہوں نےعمران خان کوووٹ دیا۔اور میں نے بھی عمران خان کو ووٹ دیا۔ تہجد گزار نہیں ہوں لیکن تہجد کے سجدہ میں معافی بھی مانگی۔
(10) . مولانا فضل الرحمن سے پھر اتحاد،اب مولانا جماعت کا جنازہ پڑھائے گا۔
جماعت کسی سے بھی اتحاد نہ کرتی اصولوں پر قائم رہتی۔ بالآخر قوم کو ضرور دیکھ اور جان لیتی کہ سالوں سے ہمارے لیئے کھڑے ہیں۔
(11) ۔ ترک جسٹس پارٹی والوں نے مولانا کو پڑھا اور بہت ہی مشکل حالات میں کھڑے رہے …………… !
بیشک الیکشن ہار جاتے لیکن عند اللّٰہ سرخرو ہو جاتے۔
جماعت کا ووٹ کیوں کم ہوا، جماعت کے لوگ بھی جانتے ہیں لیکن لگتا ہے کہ جس طرح پاکستان میں ملک دشمن طاقتوں نے خاص طور پر تعلیم۔ بیوروکریسی کو تباہ وبرباد کروایا گیا ہے۔ جماعت اسلامی کے اندر بھی گورباچوف گروپ سے جماعت کو کمزور کروایا گیا ہے۔
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔